tag:blogger.com,1999:blog-1013383876891390462024-03-12T21:17:03.227-07:00گل نامہGul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.comBlogger15125tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-51531252899334679942015-04-20T11:15:00.002-07:002015-07-04T12:25:24.768-07:00ہونہار بروا-6<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgMF3jcr6a49nB4Lh2Thg5eD77S_faxyuE20kTfMNtMbcSJx2SFyDySVplmgqwp4G6RA5Ji33dIsYHgOjertU2DhbhJ7sBBVb06kAYk599E-4kPxAqg4oJOEoUeKwWnme8Xns51h_gEl-8/s1600/003b.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><span style="font-size: x-large;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgMF3jcr6a49nB4Lh2Thg5eD77S_faxyuE20kTfMNtMbcSJx2SFyDySVplmgqwp4G6RA5Ji33dIsYHgOjertU2DhbhJ7sBBVb06kAYk599E-4kPxAqg4oJOEoUeKwWnme8Xns51h_gEl-8/s1600/003b.jpg" /></span></a><span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span> ایبٹ آباد، رات آٹھ بجے ہم بلوچ میس کے گیسٹ روم پہنچے۔غالباً جولائی 1999کی 19 تاریخ تھی۔ میس میں نعیم نے کمرے کے سامنے گاڑی کھڑی کی۔ بچوں نے سامان اٹھا کر کمرے میں پہنچایا۔ چونکہ ہم نے میس میں کھانے کا نہیں بتایا تھا کھانے کا پروگرام باہر تھا۔ چنانچہ سامان رکھ کر ہم شہر کی طرف نکل گئے اور ہوٹل میں کھانا کھایا۔ رات واپس آئے تو ہمیں، اٹینڈنٹ نے بتایا کہ میجر منیر بٹ صاحب نے پیغام دیا ہے کہ کل دو بجے کے بعد ہم شنکیاری کے لئے روانہ ہوں گے۔ آپ لوگ دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیں گے اور ہم رات شنکیاری میں ہی ٹہریں گے۔ </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>دوسرے دن،گیارہ بجے میجر منیر بٹ نے گاڑی بھیج دی کیوں کہ نعیم صبح صبح گالف کھیلنے نکل گئے تھے۔ ہم میجر منیر بٹ کے گھر پہنچے وہاں، ان کے بچے، اسد، عائشہ، احسن اور مومنہ ہمارے بچوں کے ہم عمر تھے۔ نعیم اور میجر منیر بٹ ساتھ آئے۔ کھانا کھایا اور تقریباً ساڑھے تین بجے اپنی اپنی گاڑیوں میں شنکیاری کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں مانسہرہ بائی پاس سے گذرتے ہوئے شہنشاہ اشوکا کے کھنڈرات کے پاس رکے، بچوں نے تصویریں بنائیں۔ پھر سب روانہ ہوئے۔ شنکیاری، مغرب سے پہلے پہنچے اور میس میں جا کر ٹہرے،</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span> شنکیاری سے ہم دونوں فیملی کی پرانی یادیں وابستہ ہیں۔ غالباً اگست 1981میں نعیم نے جہلم سے کمپنی کمانڈر کورس کرنے شنکیاری ڈویژنل بیٹل سکول جانا تھا۔ چنانچہ انہوں نے چھٹی لے کرمجھے اور سائرہ کو میرپورخاص چھوڑا اور خود شنکیاری آگئے۔ یہاں میجر منیر بٹ صاحب بھی گلگت سے کورس کرنے آئے انہوں نے نعیم کو قائل کیا کہ فیملی لے آئیں اور دونوں مل کر شہر میں گھر کرائے پر لے لیتے ہیں۔ چنانچہ نعیم نے مجھے خط لکھا، میں دس ستمبر کو اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اکیلی سفر پر نکلی اور وہ بھی حیدر آباد سے راولپنڈی تک، دس مہینے کی سائرہ کے ساتھ یہ میرا ایک دلچسپ سفر تھا۔ راولپنڈی میں نعیم آگئے۔پھر ان کے ساتھ شنکیاری پہنچی، مسز منیر بٹ بھی اپنے سات مہینے کے بیٹے اسد کے ساتھ آگئیں۔ </span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjeYA5BCCVDdmJqcpN2B7cb8SLJH0iwgzB6o94NgkVDxtKEpcz_rHb6iIij5FPsV1OhaF0fFM-qa5RtaxsXmQ0uM8ss6vMtO0mdRUDKRiisZqU8yvYIkmMdQD07-OFWI9IrL38WjMmE6WE/s1600/UP-UP.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><span style="font-size: x-large;"><img border="0" height="291" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjeYA5BCCVDdmJqcpN2B7cb8SLJH0iwgzB6o94NgkVDxtKEpcz_rHb6iIij5FPsV1OhaF0fFM-qa5RtaxsXmQ0uM8ss6vMtO0mdRUDKRiisZqU8yvYIkmMdQD07-OFWI9IrL38WjMmE6WE/s1600/UP-UP.jpg" width="320" /></span></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>شنکیاری میں دبئی سے آنے والے ایک شخص نے ہوٹل بنایا تھا۔ جس کی پہلی منزل پر پانچ کمرے تھے۔ وہ تین سال سے خالی پڑا تھا صرف گراونڈ فلور کی دکانیں کرایہ پر لگی تھیں وہ۔ ان دونوں نے کرایہ پر لے لیا سرکاری فرنیچر میں صرف چار، ٹیوبلر چارپائیاں اور تین کرسیاں لے کر رہنے کے قابل بنایا، اور ہم دونوں فیملی 29اکتوبر 1981تک یہاں ٹہرے۔ ان دونوں کے جانے کے بعد ہم دونوں اور دونوں بچوں میں مصروف ہو جاتیں۔ دو بجے آنے کے بعد نعیم کھانا کھاتے سو جاتے اور رات کے کھانے کے بعد یہ دونوں دوسرے کمرے میں بیٹھ کر پڑھتے، ویک اینڈ پر ہم دونوں اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ گھومنے نکل جاتے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>شنکیاری میں میجر منیر بٹ صاحب کی یونٹ آفیسر میجر اکبر، جو وہاں سیکنڈ اِن کمانڈنے اپنے گھررات کے کھانے کی دعوت دی تھی۔ فوجیوں کی دعوت میں ایک خوبی یہ ہوتی۔ کہ چکن تکہ، حلیم اور دیگر کھانوں کے ساتھ سوئیٹ ڈش لازمی ہو تی ہے۔ بیٹ مین (سرکاری خدمت گار) ”سپیٹ ڈش“ کہتے ہیں۔ سب نے کھانا کھایا، پھر بچوں اپنے کھیل میں لگ گئے۔ چار بچے میرے، چار منیر بھائی کے،تین میجراکبر صاحب کے اور کوئی سات بچے دوسرے آفسروں کے آگئے، اب یہ اٹھارہ بچے مل کر کھیلیں اور خوب اودھم منائیں، تھک ہار کر جب بچے ہمارے پاس آکر بیٹھ گئے۔رات کے نو بج گئے۔ تو میں نے بچوں میں، مختلف کہانی، نظمیں اور تلاوت کا مقابلہ رکھ دیا۔ نعیم کی یہ عادت ہے کی وہ اپنی گاڑی میں ٹافیوں کے پیکٹ ضرور رکھتے ہیں۔ یوں کہیں کہ جب بھی ہم لمبے سفر پر نکلتے تو یہ سائرہ اور عروضہ کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ راستے کے لئے، چپس، نمکو، چاکلیٹ، ٹافیاں اور چاول کی پٹی ضرور رکھتیں۔ </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>چنانچہ اب بچوں نے مختلف آئٹم سنانے شروع کئے تو، بچوں کے نغمے سن کر باقی تین فیملیز بھی آگئیں۔ ایک بلوچ رجمنٹ کے میجر صاحب مسز، ان کے تین بچے ،دوسری ایف ایف رجمنٹ کے میجر صاحب کی ان کے چار بچے اور تیسری کیپٹن ایجوٹنٹ صاحب کی ان کی شادی کو ایک مہینہ ہوا تھا پنجاب یونیورسٹی سے پڑھی ہوئی تھیں۔ایک خاتون مجھے جانی پہچانی لگیں۔ جب مجھ سے ہاتھ ملانے لگیں تو ایک دم ”گل بھابی“ کہہ کر گلے لپٹ گئیں، اُف، ایک دم مجھے یاد آیا۔ دبلی پتلی سی، مسز ریاض، تین بچوں کے بعد پھیل کر واقعی ناقبل یقین حد تک موٹی ہوگئیں تھیں۔ جب ہم چمن میں تھے تو نعیم1987میں ”گنری سٹاف“ کے لئے سلیکٹ ہو کر نوشہرہ جانے کی تیاری کر رہے۔ تو یہ غالبا جنوری میں، شادی کے بعد چمن آئیں تھیں۔ چمن میں کل پانچ سکاؤٹ کے اور تین آرمی کے آفیسرز کی فیملیز رہتی تھیں۔سب اپنے اپنے گھروں میں گھسے رہتے تھے، میں جب گھر ملنے پر چمن آئی، تو نعیم ایجوٹنٹ تھے۔ انہوں نے وہاں پہلی دفعہ ”کچن وارمنگ پارٹی دی“ اور سب آفیسرز کو فیملیز اور بچوں کے ساتھ بلایا، سب نے لطف اٹھایا اور اس کے بعد ہر بدھ کو کسی نہ کسی کے گھر ون ڈش پارٹی ہو نے لگی۔جس گھر کی جو مہارت تھی وہ، وہ ڈش بنا کر لاتا۔ میزبان صرف، بار بی کیو بناتا۔اور سب مل کر کھاتے۔ بچوں کے مختلف مقابلے بھی ہوتے۔اور ہر بچے کو انعام ملتا۔ نیز ایک اصول یہ بھی تھا کہ جو آفیسر چھٹی سے واپس آئے گا وہ بے چارے چھٹی نہ جانے والوں کی دلجوئی کے لئے، اپنے شہر کی میٹھی سوغات لائے گا۔ خواہ وہ ”ریوڑیاں“ ہی کیوں نہ ہوں اور ڈبہ لازمی ہوگا (تاکہ شہر کا نام پڑھا جاسکے) ڈبے کے بغیر ”سوغات“ لانے والے پر جرمانہ ہو گا۔ اور وہ سب فیملیز کو کھانا کھلائے گا۔شروع میں، اکثر آفیسزر واپسی کی جلدی میں مٹھائی لانا بھول جاتے۔یوں ایک پارٹی کا اور مزہ اڑایا جاتا۔ رمضان میں افطار پارٹیاں تو لازماً ہوتی ہیں۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>بچوں کا مقابلہ شروع ہونے لگا تو میں نے رائے دی بے چارے گھروں میں اکیلے بیٹھے ہوئے، اِن کے ”میاؤں“ کو بھی بلا لیں۔ چنانچہ دونوں میجر صاحبان اور کپتان صاحب بھی آگئے۔ میجر ریاض نے کہا، </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;">”میجر نعیم سر آپ نے تو چمن والی محفل سجا دی ہے“۔ </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;">فوج میں جب کورس میٹ، یونٹ آفیسرز یا ایک سٹیشن پر ساتھ سروس کرنے والے آفیسرز جب ملتے ہیں تو پہلے تو ماضی کے قصے، پھر کون کہاں ہے اور پھر Who is Who? کے بعد یہ لوگ نارمل ہو جاتے ہیں اور پھر غیبت شروع ہو جاتی ہے۔</span><br />
<span style="font-size: x-large;">”یاد ہے اس (سینئیر آفیسرز) نے میرے ساتھ یہ کیا تو میں نے منہ توڑ جواب دیا“۔ وغیرہ وغیرہ، </span><br />
<span style="font-size: x-large;">عورتوں کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔لہذا وہ اس سٹیشن پر کی جانے والی شاپنگ کی باتیں کرتی ہیں۔ </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>ہم بیگمات نے، اپنے اپنے شوہروں کو لنگر گپ لگانے کے لئے چھوڑ دیا اور خود بچوں کے مقابلے شروع کرا دئے۔کیپٹن ایجوٹنٹ صاحب کی مسز کو اتفاق رائے سے جج بنادیا۔ مجھے معلوم تھا کہ عروضہ نے کسی کو نکلنے نہیں دینا چنانچہ میں نے۔قانون بنایا کہ جو بچہ ایک دفعہ فرسٹ۔ سیکنڈ اور تھرڈ آیا اسے اگلے مقابلے میں انعام نہیں ملے گا۔ چنانچہ سارے بچے انعام لیتے رہے۔ والد صاحبان بھی باتیں ختم ہونے کے بعد بچوں کا مقابلہ دیکھنے لگے۔ جب ایک راونڈ ختم ہو گیا تو، ہم نے چلنے کا پروگرام بنایا۔وہاں کے بچوں نے شور مچا دیا نہیں اور کھیلیں گے۔ مائیں کہیں صبح سکول جانا ہے ساڑھے دس ہو گئے ہیں۔ تم لوگ نہیں اٹھو گے۔</span><br />
<span style="font-size: x-large;">شنکیاری چونکہ سرد علاقہ ہے وہاں سردیوں میں ڈھائی مہینے کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ گرمیوں کی پندرہ دن کی چھٹیاں ہو گئی تھیں اور آج پہلا دن تھا۔ چنانچہ بچوں نے کہا آج بہت کم بچے آئے تھے کل بھی کم آئیں گے۔لہذا ہم کل کی چھٹی کریں گے۔ بات معقول تھی کیوں کہ میجر منیر کے بچے بھی آج ایبٹ آباد سکول نہیں گئے،چنانچہ مقابلے کا دوسرا راونڈ شروع، بچوں کی جھجک دور ہو گئی تھی لہذا اس دوسرے راونڈ میں سائرہ نے اور عروضہ نے حصہ نہیں لیا۔ باقی بچوں نے پہلی اور دوسری پوزیشن کے لئے سخت مقابلہ کیا چنانچہ دو دو بچے پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن لیتے رہے۔ پھر گھرانوں کی ٹیم بنی اور ان کے درمیان مقابلہ شروع ہو جو نیلام گھر طرز کا تھا۔ بہت سارے کاغذ پر سوالات لکھ کر ایک ڈونگے میں ڈال دئے۔ جس کا جو سوال ہوتا وہ جواب دیتا۔ سوال بھی دلچسپ تھے۔ مثلاً، </span><br />
<span style="font-size: x-large;">اپنی دادی کے شوہر کا نام بتاؤ، یا </span><br />
<span style="font-size: x-large;">آپ کے ابو کی دلہن کا کیا نام ہے۔</span><br />
<span style="font-size: x-large;">نانا کی بیٹی کے بیٹے یا بیٹی کا کیا نام ہے۔ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">ایک منٹ میں جواب دینا ہوتا تھا۔</span><br />
<span style="font-size: x-large;">کل پانچ ٹیمیں تھیں۔ہر ٹیم سے تین سوال پوچھے گئے۔ اب چونکہ میرے بچے ان مقابلوں کے ماہر تھے لہذا، ان کی ٹیم فرسٹ آگئی۔ پندرہ سوال کے بعد پہلی آنے والی ٹیم کو مقابلے میں حصہ لینے نہیں دیا جاتا، چنانچہ دوسرے مقابلے کے لئے نئے پندرہ سوال رکھے گئے۔ جو باقی رہ جانے والی دو ٹیموں سے پوچھے گئے۔ میجر اکبر کے بچے، ہر مقابلے میں کمزور رہے۔ بارہ بجے مقابلے ختم ہو ئے۔ اب چلنے کی تیاری کرنے کا پروگرام بنا رہے لیکن میجر اکبر نے زبردستی دوبار گرین چائے کی آفر دے دی۔ چائے کے دوران، </span><br />
<span style="font-size: x-large;">میجر اکبر نے نعیم سے پوچھا کہ آپ کے بچے پڑھائی میں بھی ذہین ہیں اور باقی چیزوں میں بھی، جب کہ ہمارے بچے بھی آرمی پبلک سکول ہی میں پڑھ رہے ہیں۔ نعیم نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، "یہ ان کی وجہ سے ہے۔ آج جس قسم کے ہم نے مقابلے کروائے ہیں۔ ہر بچوں کی Gatheringمیں یہ مقابلے ہوتے ہیں۔ بچے سکول میں بھی کوئی مقابلہ نہیں چھوڑتے۔ لہذاان مقابلوں سے ایک توبچوں کی ذہنی آزمائش ہوتی ہے۔ان کی دیگر بچوں کے سامنے جھجک دور ہوتی ہو اور پھر ذخیرہء الفاظ کا اضافہ ہوتا ہے"۔ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">چنانچہ ان تینوں فیملیز نے میجر ریاض کے رائے دینے پر کہ ہر ہفتے ون ڈش پارٹی ہو گی۔ اور صرف اپنی ہی فیملی کے لئے کھانا بنا کر سب کسی نہ کسی کے گھر جمع ہو کر اکٹھے ہو کر کھائیں گے۔ </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>مجھے اچھی طرح یاد ہے، کہ نعیم کی ریٹائر منٹ کے بعد جب ہم اسلام آباد آئے تو غالبا 2003میں، طاہر محمود صاحب اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر آئے۔ ان کے تین بچے تھے۔ نعیم نے کھانے کے بعد بچوں سے کہا کوئی نظم، یا کچھ سنائیں۔ بچے جھجک رہے تھے لیکن پھر اُن کی سب سے چھوٹی بیٹی ”طربہ“ نے ”شاہِ مدینہ“ سنائی۔ باقی بیٹا اور بیٹی نے کافی اصرار کے باوجود کچھ نہ سنایا۔ جس پر سائرہ نے کہا، </span><br />
<span style="font-size: x-large;">"انکل پپا کی یہ عادت ہے۔جو اب تک ہے جس سے ہم تنگ آتے ہیں"۔ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">نعیم ہنس پڑے اور کہا، ”جب وقت آئے گا تو پوچھوں گا“۔ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">وقت گزرتا گیا۔ طاہر بھائی کو نعیم کا آئیڈیا پسند آیا۔ ان کے بچے ماشاء اللہ سکول میں مختلف مقابلوں میں حصہ لینے لگے۔ ان کی ایک اور بیٹی ہوئی ”طالیہ“ جب وہ دوسال کی ہوئی اور جب بھی ہمارے گھر آتی تو نعیم اس کی توتلی زبان میں ”شاہ مدینہ، یثرب کے والی“ بس یہ لائین ضرور سنتے۔ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">سائرہ کی شادی ہوئی۔ جب اس کی بیٹی ”عالی“ نے پہلی بار ”ماما“ بولنا سیکھا تو وہ اُ س نے خوشی خوشی مجھے بتایا۔ ہم دونوں اس کے گھر گئے۔ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">وہ باربار بولے،”عالی۔ بولو ماما“۔ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">جواب میں عالی”ماما“کہے۔ ہم سب خوش ہوں۔ باربار، ماما کہلوانے عالی تنگ آگئی اور رونے لگی۔</span><br />
<span style="font-size: x-large;">نعیم بولے، ”ڈولی جب یہ بڑی ہوگی تو کہے گی کہ میں اپنی ماما کی اس عادت سے سخت تنگ ہوں۔ سب کے سامنے مجھے بولنے کا کہتی ہیں“۔</span><br />
<span style="font-size: x-large;"> سائرہ بولی ُ’پپا آپ کو یاد ہے“ ِ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">نعیم ہنسے اور کہا، ”بچو جی مجھے تمھاری پیدائش سے لے کر اب تک کی تمھاری ساری باتیں یاد ہیں۔خیر تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے“۔</span><br />
<span style="font-size: x-large;"> اب ”عالی“ سے ہر مہمان کے سامنے اور گھر میں، بابا بلیک شیپ، ٹوئینکل ٹوئینکل، لکڑی کی کاٹھی، اے فار ایپل اور ہر چیز جو سائرۂ اسے سکھاتی وہ سنوائی جاتی ہے۔ حالانکہ وہ ابھی ڈھائی سال کی ہے اور ہم دونوں ”عالی“ میں سائرہ کا بچپن دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>دوسرے دن ہم تینوں فیملیز، شنکیاری میں وہ ہوٹل دیکھنے گئے۔ جہاں ہم دونوں خاندان، دس ستمبر سے انتیس اکتوبر تک ٹہرے تھے۔ ہوٹل کے مالک اورنگ زیب صاحب، وہاں آئے ہوئے تھے۔ اوپر کاحصہ اب بھی بند تھا۔ ایک کمرے میں چوکیدار سوتا تھا اور باقی دو کمروں کو انہوں نے اپنے استعمال کے لئے گیسٹ روم بنایا ہوا تھا۔ جس کمرے میں میں ٹہری تھی۔ اسے دیکھ کر پرانی یادیں، ایک لمحے میں واپس لوٹ آئیں۔ وہاں سے پھر ہم اورنگزیب بھائی کے گھر گئے ان کی والدہ، بہنوں، بچوں سے ملے دوپہرکا کھانا کھایا۔انہوں نے بہت اصرار کیا کہ رات ٹہرجائیں۔بمشکل ہم اجازت لے کر واپس ہوئے شام پانچ بجے ایبٹ آباد پہنچے۔ رات کو نعیم کے دوست کرنل جاوید کے ہاں کھانا کھایا اور صبح ہم اٹک کے لئے نکلنے سے پہلے، </span><br />
<span style="font-size: x-large;">نعیم کے بچپن کے گھر کو دیکھنے گئے۔ جہاں انہوں نے بچوں کو اپنے دونوں گھر، گلزار خالہ کا گھر، جس نالی میں وہ اڑتے ہوئے گرے تھے وہ اور مختلف واقعات بھی بتائے۔ جو میں ”فوجی کی بیوی“ میں تفصیل سے درج کروں گی۔ </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>ایبٹ آباد سے نکلتے ہوئے، بارہ بج گئے۔ شہر سے کوئی بانچ میں دور، تربیلہ ڈیم کی تازہ مچھلی کا بورڈ دیکھ کر نعیم نے گاڑی روک دی۔ ہن چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ آدھے گھنٹے کے بعد، مچھلی اور نان نے وہ لطف دیا کہ بتا نہیں سکتی۔ اس کے بعد جب بھی ہم ایبٹ آباد جاتے واپسی پر مچھلی لازماً کھاتے۔ تین بجے ہم اٹک کے لئے روانہ ہوئے اور شام چھ بجے واہ گارڈن دیکھنے کے بعد، انیس دن کی تفریح کر کے ہم واپس اٹک آگئے، گھر پہنچے تو ہماری گاڑی کا مخصوص ہارن سنتے ہی، بلٹ اور شیرا نے بھونک بھونک کر گھر سر پر اٹھا یا، بطخوں نے ایک ساتھ مل کر قیں قیں شروع کر دی، شور سن کر پڑوسی میجر نیازی باہر آئے کہ کیا معاملہ ہے؟ ہمیں دیکھ کر، نعیم کو ملنے کے بعد کہنے لگے، </span><br />
<span style="font-size: x-large;">”حیرت ہے انہیں کیسے معلوم ہوا کہ آپ آگئے ہیں؟“</span><br />
<span style="font-size: x-large;"><br /></span>
<br />
<br />
<br />
<div>
<span style="background-color: white; color: #073763; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21.3333339691162px; line-height: 20px; text-align: -webkit-center;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span><span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: #999999; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/3.html" style="font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -7</a> - زیرِطباعت</span></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2015/04/6.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -6</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2015/04/5.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -5</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/03/4.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -4</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/02/3.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -3</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/01/2.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -2</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/01/1.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -1</a></div>
<div dir="ltr" style="text-align: left;">
<span style="background-color: white; color: #073763; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21.3333339691162px; line-height: 20px; text-align: -webkit-center;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></div>
<div style="text-align: left;">
<span style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/1.html" style="color: blue; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 1</a></span><br />
<div>
<br /></div>
</div>
</div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-77122277538154632272015-04-20T10:54:00.003-07:002015-07-04T12:24:56.163-07:00ہونہار بروا-5<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;">ہم مری سے باڑیاں گئے ایک رات میس میں ٹہرے ۔وہاں نعیم کے چار پانچ کورس میٹ آئے ہوئے تھے۔میجر وقار ان کے PMAمیں روم میٹ تھے اور بہترین میوزک بجانا جانتے تھے، رات کو انہوں نے محفل گرم رکھی کافی غزلیں سنائیں، بچوں نے بھی چھوٹے موٹے گانے سنائے۔ عروضہ نے پیانو، سوہنی دھرتی اور جیوے جیوے پاکستان سنایا، وقار کافی حیران ہوا کہ اور بولا،”نعیم! تمھیں دو سال میں میرے ساتھ رہنے کے باوجود ایک سر بجانا نہیں آیا۔ بھئی حیرت ہے“۔ نعیم نے پیانو اپنی طرف کھسکا کر یہی دونوں نغمے سنا کر سب کو حیران کر دیا۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>مئی 1991کا ذکر ہے نعیم کی پوسٹنگ کوئیٹہ ہوگئی، ہم 8مئی کو میرپورخاص،سب سے ملنے حیدرآباد سے جارہے تھے۔ کار میں، نعیم، میں، چاروں بچے، میرے امی، ابا اور لقمان بھائی کا بیٹا جواد تھے۔ جو کراچی سے 5مئی کو نعیم کے ساتھ حیدرآباد آئے تھے۔ ڈیتھا سے گذرنے کے بعد نعیم نے گاڑی میں پیٹرول ڈلوایا۔ اور میں روڈ پر آگئے تھوڑی دور جانے کے بعد، سامنے سے ایک ٹرک آتادکھائی دیا، جو سڑک کے بیچوں بییچ آرہا تھا، نعیم کے مطابق انہوں نے اُسے لائیٹ دکھائی۔ جس کا مطلب تھا کہ اپنی سائیڈ پر ہو جاؤ۔ ٹرک ڈرائیور، ٹرک کو مزید ہماری طرف لے آیا نعیم نے کار کو بچایا مگر بچاتے بچاتے کا ر ٹرک کے پچھلے ٹائر کو لگی، پہلے تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا ہوا ہوش آیا تو، سارے لوگ کار کے گرد جمع تھے۔نعیم بری طرح پھنسے ہوئے تھے، اُن کا سر شیشے پر لگنے سے زخمی ہو گیا۔نعیم کو سیٹ پیچھے لٹا کر کھینچ کر نکالا۔ کار سیدھی طرف سے بری طرح تباہ ہو چکی تھی۔ میرے چہرے پر چوٹیں آئیں، بڑے بیٹا ارسلان جو نعیم کے پیچھے امی کو گود میں بیٹھا تھا اُس کی بائیں آنکھ میں شیشے اُڑ کر لگے اور الٹا پاؤں نعیم کی سیٹھ میں پھنس کر پیچھے سے کٹ گیا۔ ابو کی کالر بون ٹوٹ گئی اتنے میں رینجر کے کرنل نور آگئے۔ یہ نعیم کی یونٹ میں رہے تھے انہوں نے ہم سب کو CMHحیدر آباد پہنچایا۔کار کو دوسرے ٹرک میں لاد کر یونٹ پہنچوایا اور جس ٹرک نے مارا تھا اُسے۔ گھسیٹ کر رینجر کے احاطے ٹنڈوآدم میں کھڑا کر دیا۔ </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>ایمر جنسی وارڈ میں، معلوم ہو ا کہ نعیم سے سر میں شدید چوٹیں آئی ہیں ان کی یاداشت تھوڑی تھوڑی دیر بعد کھو جاتی ہے۔یہ تین دن تک اِسی حالت میں رہے۔ میرپورخاص سے سارے رشتہ دار، دوست اور جاننے والے ملنے آئے۔اِن کے ہمزاد دوست، سلیم آزاد آئے تو اِن کی یاداشت واپس آئی جو ڈاکٹروں سمیت ہمارے لئے بھی باعث حیرانگی تھی ایسا صرف فلموں ہی میں دیکھا تھا کہ کوئی پرانا گانا گایا جائے یا کوئی پرانی بات یاد دلائی جائے تو انسان کی یاداشت لوٹ آتی ہے۔ ارسلان کے بائیں پاؤں کااور آنکھ کا آپریشن ہوا، اس کی بائیں پاؤں کی رگ جو چلنے میں مدد دیتی ہے۔ کٹ گئی اور اُس کے ٹھیک ہونے کے بعد چلنے میں نقص آگیا۔میرا بھی ڈیش بورڈ پر لگنے سے سر ہل گیا اور منہ پر نیل پڑگیا۔ نعیم ہسپتال میں مہینہ ایڈمٹ رہے۔ ہسپتال سے نکلنے کے بعد نعیم کو مہینے کی چھٹی ملی۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>ایک دن یہ تلک چاڑی میں اپنے دوست عباس سے ملنے اُس کی بیکری کیک لینڈ پر گئے۔ وہاں ایک پیانو پڑا تھا۔ عروضہ پانچ سال پانچ ماہ کی تھی اُس نے پیانو لینے کی ضد کر دی۔ عباس بھائی نے پیانو اُٹھا کر اُسے دے دیا۔نعیم نے کافی منع کیا لیکن وہ نہ مانی۔ خیر وہ پیانو لے کر گھر لے آئی جب تک اِس کے سیلوں کی جان نہ ختم ہوئی ہاری جان نہ چھوٹی۔ عروضہ نے بے ہنگم سر بجا کر اودم مچایا ہوا تھا اور باقی بچے بھی اُس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>فوجی یونٹوں میں ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ہلہ گلہ رہتا ہے اگر یہ نہ ہو تو، زندگی بہت بوجھل ہو کر گذرتی ہے، کھیلوں کے مقابلے، مینا بازار، سینما، میسوں میں تمبولا، میوزک شو وغیرہ۔ چنانچہ حیدر آبا میں بھی ہر مہینے کے پہلے اور تیسرے ویک اینڈ پر میس میں میوزک شو یا تمبولا ہوتا تھا۔ ہم سب گئے وہاں نعیم کی یونٹ کے ایک آفیسرمیجر اعجاز جو نئے آئے تھے، انہوں نے آرمی سکول آف میوزک سے کورس بھی کیا تھا۔انہوں نے بھی پروگرام پیش کیا۔عروضہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت اچھی آواز دی ہے، وہ قرء ت، نعتیں، ملی نغمے اور اقبالیات نغمگی میں پڑھتی ہے، اُس وقت چو نکہ چھوٹی تھی تو، سوہنی دھرتی اور تیرا کونہ کونہ گھوموں اِس کو یاد کرایا تھا۔ جو اِس نے سٹیج پر پڑھا۔ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">دوسرے دن یونٹ میں میجر اعجاز نے نعیم کو کہا کہ، سر عروضہ کو، میوزک کے ساتھ پڑھنا سکھائیں۔ نعیم یونٹ میں سیکنڈ اِن کمانڈ تھے اُنہوں نے میجر اعجاز کو کہا کہ تم اُسے پیانو بجانا سکھا دو۔ میجر اعجاز نے وہی پرانی راگنی چھیڑی کی سر یہ بہت مشکل کام ہے۔ اِس کے سیکھنے میں عمر گذر جاتی ہے۔ انسان یہ آسانی سے نہی سیکھ سکتا۔ میں نے خود یہ پندرہ سال میں سیکھا ہے، </span><br />
<span style="font-size: x-large;">نعیم نے کہا مذاقاً کہا،‘’اعجاز اگر تم نالائق ہو تو سب کو اپنا جیسا مت سمجھو، میں اِسے پندرہ دن میں سکھا سکتا ہوں“۔ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">میجر اعجاز نے چیلنج کر دیا۔ نعیم، شام کو ہم سب کو ساتھ بٹھا کر کار میں حیدرآباد کی تما م دکانیں کھنگال ماریں۔ مگر انہیں میوزک کے سروں بارے کوئی کتاب نہیں ملی۔ یہ واپسی پر لطیف آباد نمبر دو میں، وڈیو کی دکان پر رکے،ہنگاموں میں نعیم کی ڈیوٹی لطیف آبادمیں لگی تھی نعیم نے اتفاقا ً اِس کی دکان لٹنے سے بچائی تھی، تب سے اُ سے دوستی ہوئی وہ نعیم سے صرف یہ رعایت کرتا تھا کہ دو تین فلمیں دے دیتا نعیم پیسے دے دیتے وہ کینٹ کی طرف آتا تو ہمارے ہاں آکر اپنی کیسٹ لے جاتا نعیم نے کچھ کیسٹ لیں اور باتوں باتوں میں وڈیو والے سے پوچھا،</span><br />
<span style="font-size: x-large;">”کسی کے پاس سے میوزک سکھانے والی کتاب مل سکے گی“۔ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">اس نے پوچھا " کیوں سر جی خیریت تو ہے ؟ "</span><br />
<span style="font-size: x-large;">نعیم نے ماجرا بتایا۔ تو رکنے کا کہہ کر موٹر سائیکل پر غائب ہو گیا۔ پندرہ منٹ بعد واپس آیا، اور ایک کتاب نعیم کو دی اور بولا،</span><br />
<span style="font-size: x-large;">”سر میں نے یہ کتاب کراچی سے خریدی تھی۔ میں تو اِس سے میوزک نہ سیکھ سکا آپ کو شش کر لیں، یہ میری طرف سے تحفہ ہے مرے پاس اور بھی کتابیں پڑی ہیں میں وہ بھی ڈھونڈ کر آپ کو دے دوں گا“</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;">۔ نعیم نے شکریہ کے ساتھ وہ کتاب لے لی۔ گھر آکر، پیانو نکالا، وہ تو بچوں کا پیانو تھا۔ نعیم وہ پیانو اور بچوں کو لے کر عباس کے پاس جا پہنچے۔عباس بس دکان بند کرنے والا تھا۔ نعیم نے کہا کہ اُس سے اچھا پیانو دکھاؤ۔اُس نے کہا کہ میرے پاس تو نہیں میرے بھائی کی دکان پر ہے جو آپ کے گھر کے پاس ہے وہیں چلتے ہیں اور اُس سے لیتے ہیں۔ عباس اپنی سکوٹر پر اور نعیم کار پر بھائی کی دکان پر پہنچے وہاں سے، بچوں کا ہی بڑا پیانو لیا، وہاں اتفاق سے ایک اور صاحب آئے تھے انہوں نے پیانو پر دو تین سر بجا کر اُسے، پاس کیا نعیم وہ لے کر بچوں کے ساتھ گھر آگئے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>چاروں بچے اورنعیم پیانو پر کتاب کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق سیکھنے کی کوشش کریں، مگر وہ سرہی نہ پیدا ہوں۔ تین دن گذر گئے۔اچانک نعیم کو ترکیب سوجھی۔ نعیم نے، پیانو کی ”کی“ پر تین قسم کے رنگین سٹکرز سے ساتوں ” سُر۔ سا۔ رے۔ گا۔ ما۔ پا۔ دھا۔ اور نی“لکھ دیئے اور کتاب میں دیئے ہوئے ”جیوے جیوے پاکستان“ کا مکمل نغمہ اپنی کاپی میں لکھا ور پیانو پر لکھے ہوئے سروں کے مطابق اسے آہستہ آہستہ بجانے کو کوشش کی میں کچن میں کھاناپکار رہی تھی میرے کانوں میں جیوے جیوے پاکستان کے سر سنائی دئیے میں سمجھی ٹیپ پر چل رہے ہیں اور شائد ٹیپ کے سیل کمزور ہیں اس لئے تھوڑا سا بے ربط ہو جاتے ہیں۔</span><br />
<span style="font-size: x-large;"> اتنے میں نعیم نے زور سے آوازلگائی،”گل۔ے۔ے“ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">میں کمرے میں آئی تو کہنے لگے سنو اور پھر آہستہ آہستہ،”جیوے، جیوے، جیوے پاکستان، پاکستان، پاکستان، جیوے پاکستان“ ردھم میں سنا دیا۔ شام کو چاروں بچوں نے اِس لائن پر مہارت حاصل کر لی اور دوسرے دن رات تک پانچوں، ماہر ہو گئے، اُس کے بعد ”سوہنی دھرتی اور یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اس کے“ پر پندرہ دنوں میں، چاروں بچوں نے مہارت حاصل کر لی۔ <span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhjH8XukSmg8F7eONYiBrL3XnvMqN8Ya8HxUM47v_2938b-XjcYUo6zAxT_vGhmI77eIsguiW_TtRkhKUcQ-cpJOCVEx3AufQLYwOlI6bFx10yIisb2bG0lTOKuib1oq2TP5Drs2cgUlWk/s1600/IMG_20150420_224815.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><span style="font-size: x-large;"><img border="0" height="320" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhjH8XukSmg8F7eONYiBrL3XnvMqN8Ya8HxUM47v_2938b-XjcYUo6zAxT_vGhmI77eIsguiW_TtRkhKUcQ-cpJOCVEx3AufQLYwOlI6bFx10yIisb2bG0lTOKuib1oq2TP5Drs2cgUlWk/s1600/IMG_20150420_224815.jpg" width="240" /></span></a><span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>آفیسر میس میں ہفتے کی شام کو تمبولا ہوا، نعیم بھی تمبولا کھلاتے تھے بلکہ تما م جونئیر آفیسروں کو بھی موقع دیتے تا کہ اُن میں خوداعتمادی پیدا ہو ا اور بچوں کو بھی موقع دیتے۔ لوگ مختلف جوک بھی سناتے۔ لطیفے بھی چلتے۔غرض اچھا خاصا ہلا گلا رہتا۔دوہاؤس کے بعد نعیم نے اعلان کیا کہ میں آپ سب کو حیران کرنا کرنا چاہتا ہو ں اور میجر اعجاز سے کی ہوئی گفتگو دھرائی اور میجر اعجاز سے تصدیق کرائی۔ میجر اعجاز اپنی بات پر قائم رہے کہ میوزک سیکھنا، پھر وڈیو والے ریحان نے اپنی دکان میں ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا اور بتا یا کہ اُس نے تین کتابیں میجر نعیم کو تحفے میں اِ س لیے دیں کیوں کہ وہ خود میوزک سیکھنے میں ناکام ہو گیا۔اور وہ سمجھتا ہے کہ استاد کے بغیر کوئی بھی کام سیکھنا مشکل ہے۔ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">نعیم نے عروضہ کو بلایا۔ عروضہ نے پیانو پر سوہنی دھرتی سنایا۔سامعین نے بے تحاشا تالیاں بجائیں۔ </span><br />
<span style="font-size: x-large;">پھر ارمغان کو بلایا وہ تھوڑا سا گڑبڑا گیا۔</span><br />
<span style="font-size: x-large;">ارسلان اور سائرہ نے بہت اچھے لگاتار ردھم کے ساتھ بجایا۔ آخر میں نعیم نے بتایا کہ دو سال پیانو بجانے والے کے ساتھ PMAمیں ایک کمرے میں رہنے کے باوجود مجھے نہیں معلوم تھا سُر کیا ہوتے ہیں اور اُنہیں کیسے ترتیب میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن میجر اعجاز کے چیلنج نے مجھے یہ بھی سکھا دیا۔ میجر اعجاز آپ شرط ہار چکے ہیں۔ یہ کہہ کر نعیم نے سوہنی دھرتی پیانو پر بجایا۔ سب نے تالیاں بجائیں۔ نعیم اور بچوں کو گفٹ دئے۔ اُس کے بعد نعیم نے تو کبھی پیانو نہیں بجایا البتہ بچوں نے خود کتاب سے مختلف نغموں اور گانوں کے سر سیکھے۔ اُ ن سب میں مہارت ارسلان نے حاصل کی۔ لیکن کیوں کہ یہ اُن کا شوق نہیں تھا لہذا یہ شوق نہیں بنا، </span><br />
<span style="font-size: x-large;">اپریل میں،نے نعیم کے ایک پرانے بکس میں پڑی ہوئے وردیوں کو دھوپ لگانے کے لئے کھولا تو میری نواسی جو دو سال کی ہے نعیم کے میڈلز کی کھڑنگ کھڑنگ سے بہت خوش ہوئی وہ انہیں روپے سمجھ رہی تھی، نعیم کی میس کٹ کی جیکٹ اور ٹراوزر۔ جس کو پہنانے کے لئے نعیم کو آدھا چھیلنا پڑے۔اُسی بکس میں سے اٹک کے بعدشفٹنگ کے وقت ڈالا ہوا، پیانو بھی برآمد ہوا۔ جس کو اب ہماری نواسی جب ہمارے گھر آتی ہے تو شوق سے اُس کی ”کی“ پر انگلیاں مار کر ”ٹاں ٹاں“کی آواز نکلنے پر خوش ہوتی ہے۔مجھے عروضہ کا بچپن یاد آجاتا ہے۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>دوسرے دن سب مل کر نتھیا گلی گئے وہاں خوب گھومے پھرے۔ باقی بسب باڑیاں کے لئے واپس ہوئے اور ہم۔ ایبٹ آباد کے لئے روانہ ہوگئے رات آٹھ بجے ہم بلوچ میس کے گیسٹ روم پہنچے۔<span class="Apple-tab-span">
</span></span><br />
<span style="font-size: x-large;"><br /></span>
<span style="font-size: x-large;"><br /></span>
<br />
<div>
<span style="background-color: white; color: #073763; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21.3333339691162px; line-height: 20px; text-align: -webkit-center;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span><span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: #999999; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/3.html" style="font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -7</a> - زیرِطباعت</span></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2015/04/6.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -6</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2015/04/5.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -5</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/03/4.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -4</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/02/3.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -3</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/01/2.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -2</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/01/1.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -1</a></div>
<div dir="ltr" style="text-align: left;">
<span style="background-color: white; color: #073763; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21.3333339691162px; line-height: 20px; text-align: -webkit-center;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></div>
<div style="text-align: left;">
<span style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/1.html" style="color: blue; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 1</a></span><br />
<div>
<br /></div>
</div>
<span style="font-size: x-large;"><br /></span>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
</div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-83038080472888807182014-10-19T03:00:00.002-07:002014-10-19T03:04:00.619-07:00جادو کے صرف تین جملے!<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA">ایک دفعہ کا ذکر ہے ، کہ ایک چھوٹے سے قصبے سے ایک کنبہ شہر میں آیا ، میاں بیوی کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا کہ دونوں آپس میں بے انتہا محبت کرتے ہیں اور میاں بیوی کی </span><span dir="RTL" lang="AR-SA">عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی، باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی بڑھ رہی تھی۔ </span><span dir="RTL" lang="AR-SA">اردگرد کی عورتوں کا خیال تھا :</span></span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><span style="color: #20124d;">٭ - شاید وہ ایک بہت ماہر اور اچھا
کھانا پکانے والی ہے؟</span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #20124d;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">٭ - شاید</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> اُس کی خوب صورتی اُس کا راز ہے ، جو عمر کے ساتھ برقرار ہے ؟</span><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><o:p></o:p></span></span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #20124d;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">٭ - شاید</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> اُس کی اولاد کی وجہ سے شوہر اُس کا گرویدہ ہے </span><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">؟</span><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><o:p></o:p></span></span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #20124d;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">٭ - شاید</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">یا وہ اعلیٰ نسب کی خاندانی عورت ہے؟</span></span></span><br />
<span style="color: #20124d;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">٭ - شاید وہ کوئی ، ایسا ٹوٹکا یا جادو جانتی ہے ۔ جس سے اُس کا شوہر اُس کے پلو سے بندھا ہے !</span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEizqzvQNNU5ji04tnEidI7_rfFQbOI7av797boLEWifdrRfHnYsexLD5_hxF-ox5b97HnYJ1qu0WBQUqzfeuksfnTQfNDj80cXuMM3K9WilodSL9qxgRNDXsgUgEtvq0bhDdisWbxGBLyg/s1600/6.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEizqzvQNNU5ji04tnEidI7_rfFQbOI7av797boLEWifdrRfHnYsexLD5_hxF-ox5b97HnYJ1qu0WBQUqzfeuksfnTQfNDj80cXuMM3K9WilodSL9qxgRNDXsgUgEtvq0bhDdisWbxGBLyg/s1600/6.jpg" height="199" width="320" /></a><span style="color: #20124d;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">بالآخر عورتوں نے ، اُس کی دائمی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کا راز جاننے کے لئے پوچھا ۔ کہ ہماری آپ کے بارے میں اِن سوچوں میں سے کون سی سہی ہے ۔ یا ہمیں بھی وہ گُر بتائے کہ ہمارے شوہر بھی ہماری محبت کا دم بھرنے لگیں ۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">تو عورت نے مسکرا کر جواب دیا ،</span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><span style="color: #0b5394;">٭ - اچھے کھانے یقیناً، ہر شوہر کو قابو میں رکھنے کا گُر ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی کھانا پکانے میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے،اور بعض دفعہ کھانا بھی وجہ نزع بن جاتا ہے ۔</span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">٭ - </span><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> جسمانی خوب صورتی رفتہ رفتہ عمر کے ساتھ ڈھلتی جاتی ہے ، لیکن اُس کو عمر کے ساتھ برقرار رکھا جا سکتا ہے ۔ لیکن بیماریاں انسان کے تعاقب میں ہوتی ہیں ، معمولی غفلت جسمانی خوبصورت کو گھن کی طرح کھا جاتی ہے ۔</span></span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">٭ - اچھی سعادت مند</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> اولاد ،شوہر کا فخر ہوتی ہے ۔ لیکن اولاد کی تمام غلطیاں ماں کے کھاتے میں جاتی ہیں اور اچھائیاں باپ کے ، اور ممکن ہی نہیں کہ بچوں سے غلطیاں سرزد نہ ہوں جو شوہر کی نظر میں نہ آئیں </span><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">؟</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">٭ - بیوی کے </span><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">اعلیٰ نسب یا خاندانی وجاہت سے گرویدہ شوہر بالآخر اُکتا جاتا ہے ۔</span></span></span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><span style="color: #0b5394;">٭ - ٹوٹکا یا جادو ایک اہم نکتہ ہے جس سے شوہر کو بیوی اپنے پلو میں باندھ سکتی ہے ۔</span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">عورتوں نے جب ٹوٹکے اور جادو کا سُنا تو بضد ہوگئیں کہ ہمیں بھی یہ سکھائیے ۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><span dir="RTL" lang="AR-SA"><span style="color: #0b5394;">" جب ایک لڑکی بیوی بن کر ، شوہر کے گھر جاتی ہے تو وہ ایک خاندان سے دوسرے خاندان کی طرف اپنی مستقبل کی خوشیوں بھری زندگی کی طرف منتقل ہوتی ہے ۔</span></span></span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><span style="color: #0b5394;">شادی سے پہلے اُس کا شوہر اُس کے لئے ایک محبوب ہوتا ہے اور عورت اُس کے لئے محبوبہ ، شادی کے بعد یہ رشتہ بظاہر ختم ہو جاتا ہے اور میاں بیوی کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے ۔ لیکن ایسا نہیں ہے محبوب اور محبوبہ کا رشتہ برقرار رہتا ہے لیکن آہستہ آہستہ بیوی خود اِس تعلق کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیتی ہے ۔"</span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">عورتیں توجہ سے بزرگ خاتون کی بات سن رہی تھیں ، وہ سانس لینے کو رکی ، عورتوں نے کہا <br />" یہ تو ہم جانتے ہیں آپ ہمیں ٹوٹکا بتائیے ۔ کہ شوہر کو کیسے قابو کیا جائے ؟"<br />بزرگ خاتون مسکرائی اور گویا ہوئی ۔</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /><span style="color: #0b5394;"> " </span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><span style="color: #0b5394;">خوشیوں بھری زندگی کے اسباب خود بیوی کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر بیوی چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت کی
چھاؤں بنا سکتی ہے اوروہ اپنے گھر کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ
سےبھی بھر سکتی ہے!</span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394; font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">ہمارے دور میں ایسی محبتوں کا رواج نہ تھا جیسی اب ہوتی ہیں ، منگنی ہوئی تو منگیتر نے محبوب کا درجہ اختیار کرنا شروع کر دیا ۔ اُس کی عادتوں پسند یا ناپسند کے بارے میں نندوں سے پوچھنا شروع کیا ، اُنہوں نے لازماً اپنے بھائی کی تعریف ہی کرنا تھی ، اپنے حلوے کو کون برا کہتا ہے ! </span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394; font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> کہنا کہ بھائی کو غلط بات پر غصہ آتا ہے ۔ ورنہ بھائی بہت محبت کرنے والے اور خوش مزاج ہیں ، بچوں میں تو اُن کی جان ہے ۔ وغیرہ وغیرہ<br /><br />میں جب شادی ہو کر نئے گھر آئی تو ، حسبِ معمول میری ماں اور باپ نے مجھے بے شمار نصیحتیں کیں ، کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ اُن کی بیٹی ، دکھ بھری نہیں بلکہ سکھ اور خوشیوں سے بھرپور زندگی گذارنے جا رہی ہے ۔ اُس کے ساس اور سسر نے اُن کی بیٹی کو اپنے بیٹے کی مستقبل کی ساتھی کے طور پر کئی لڑکیوں کو دیکھنے کے بعد ، اپنی ، بہو ، بیٹے کی بیوی ، بیٹیوں اور بیٹوں کی بھابی کے طور منتخب کیا ہے ، تاکہ وہ اُن کے خاندان کے اضافے کا باعث ہو ۔ میں نے اپنے والدین کی بات کو پلے سے باندھ لیا ، لہذا سب سے پہلا مرحلہ اپنی ساس ، سسر ، نندوں اور دیوروں پر جادو کرنے کا تھا ۔</span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><span style="color: #0b5394;">میرا شوہر یوں سمجھو اڑیل گھوڑے کی طرح تھا ، کہ زین ڈالو تو بُدک کر بھاگے، چارہ ڈالو تو مشکوک نظروں سے دیکھے ، اپنے والدین کے ہاں جاؤں تو ساتھ جائے اور واپسی پر ساتھ لے آئے ، نہایت غصیلا تھا ، شوہر پر جادو کرنا بڑامشکل اور صبر آزما مر حلہ تھا ۔ لیکن جادو تو کرنا تھا تاکہ اُسے قابو میں کیا جاسکے عمر بھر کے لئے ، تو میں نے جادو کے صرف "تین جملے" استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔"</span></span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">عورتیں یک دم بولیں، " وہ تین جملے کیا ہیں جلدی بتائیے ؟ "<br /><span style="color: #0b5394;">ذرا صبر کرو بتاتی ہوں ، بتاتی ہوں ۔</span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #990000; font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">وہ تین جملے تھے ، جی اچھا ، بہت بہتر ، ابھی کرتی ہوں ۔</span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><span style="color: #0b5394;">یہ تین جادو بھرے لفظوں نے سب گھر والوں ، بشمول شوہر کو رام کرنا شروع کیا ، اِس کے علاوہ " عمل " سے بھی کام لیا اُس کے بغیرتو جادو ناممکن ہے ۔ </span><br /> "آپ نے عاملات کی مدد لی یا حاضرات کی ؟ " عورتوں نے پوچھا<br /><span style="color: #0b5394;">" عاملات سے بھی مدد لی اور حاضرات سے بھی ، اِن کے بغیر تو شوہر پر قابو پانا ناممکن تھا "</span><br />خواتین ہمہ تن گوش ہو گئیں ۔<br /><span style="color: #0b5394;"> " ہاں ، میں نے بتایا کہ میرا شوہر غصیلا ہے ۔ جب اُسے غصہ آتا تو میں خاموش ہو جاتی اور چپ کر کے اُس کی باتیں سنتی رہتی، کمرے سے اُٹھ کر نہ جاتی اور چہرے کو نہ مضحکہ خیز بناتی اور نہ مسکراتی ، بس پریشانی کے تاثر لاتی ،کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ اُنہوں نے مجھے سنانی ضرور ہیں ، کمرے سے باہر جانے پر، کمرے سے بلکہ گھر سے باہر والے سنتے ، جب وہ سناتے سناتے دل کی بھڑاس نکال چکتے تو میں خاموشی سے باہر جاتی اور اُن کے لئے چائے یا شربت یا کوئی میٹھی چیز لاتی، اُن کے پاس رکھ کر ، کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر چلی جاتی، بچوں کو بتایا ہوا تھا کہ جب اُن کے ابو غصے میں ہوں تو کمر ے میں مت آئیں اور جب وہ اُن پر غصے ہوں تو کمرے سے نہ نکلیں ، </span></span></span><span style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">کمرے سے نکل کر اپنے باقی کام کرتی ، اور دماغ میں اُن کے غصے کو وجوھات اور حل تلاش کرتی ، تاکہ آئیندہ کے لئے سدباب کیا جاسکے اور مجھے حل مل جاتا ۔ آدھے گھنٹے بعد آکر دیکھتی کہ اُنہوں نے چائے یا شربت پی لیا ہے یا نہیں ، سوئے ہوئے ہیں یا جاگے ہوئے ۔ اگر وہ جاگے ہوئے ہیں اور چائے یا شربت پڑا ہوا ہے ، تو اِس کا مطلب یہ ہوتا کہ غصہ شدید ہے ابھی بھڑاس باقی ہے ۔</span><span style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">مجھے اندازہ ہوتا کہ غصے کے باعث ، ضائع ہونے والی توانا ئی کو واپس لانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے، لہذا</span><span style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">پھل کاٹ کر اُن کے پاس لاکر رکھ دیتی ، چائے یا شربت اُٹھا کر لے جاتی۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">"تو کیا آپ اپنے شوہر کے بلاوجہ غصہ پر ناراض نہ ہوتیں اور بولنا نہیں چھوڑتیں" ؟ ایک نے پوچھا ۔<br /><span style="color: #0b5394;">"آپ بتائیے کہ کتنے دن تک ناراض رہ کر شوہر سے بات کرنا چھوڑا جا سکتا ہے ؟ انہوں نے سوال کیا ۔</span></span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">"جب تک شوہر نہ منائے " ؟ اُس نے جواب دیا ۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">"اور اگر شوہر ، تین دن یا ہفتے تک نہ منائے تو ! اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اُس کو خود سے دور رکھنے کا عادی بنا رہی ہیں ۔ یاد رکھیں اگر وہ اِس کا عادی ہوگیا تو آپ کی اپنے آپ سے دشمنی کا آغاز ہو گیا ۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">کبھی ایسا نہ کرنا ، کبھی نہیں ۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم سے بات چیت چھوڑنے کا مطلب ، اُسے گھر سے باہر نکلنے کا راستہ دکھانا ہے ۔ ایسا ہر گز نہ کرنا ۔</span><span style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">بیوی کو شوہر کی نباض ہونا چاہئیے ، جراح نہیں ۔ جراحی کا کام وقت پر چھوڑ دو ۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے سکون کے لئے ساتھ رہتے ہیں ، عورت کو اپنے لئے محفوظ قلعہ چاہئیے اور مردکو عورت سے اپنا سکون۔ </span><span style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">میں شوہر کو کبھی نہیں جتاتی کہ وہ غلط ہے اور میں صحیح ، میں اپنے شوہر کو احساس ہی نہیں ہونے دیتی کہ میں اُس سے ناراض ہوں ، اُس کے بار بار پوچھنے پر بھی ، میں کہتی ، آئیندہ غلطی نہیں ہو گی ، جب میں دوسروں کی غلطیوں کو بھی اپنا لیتی تو اُس کا رویہ مجھ سے نرم ہوجاتا اور محبت بڑھ جاتی ۔ وہ مجھے آئیندہ غصہ نہ کرنے کا یقین دلاتا اور پیار بھری باتیں کرتا تاکہ میرے ذہن سے وہ اپنے روئیے کو مٹا سکے ۔ </span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">" تو کیا آپ اُس کی پیار بھری
باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟" عورتوں نے پوچھا </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><span style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><span dir="RTL" lang="AR-SA">بالکل، کیا غصے میں کہی ہوئی باتوں کا یقین کرلیں اور پُر سکون حالت میں پیار میں کہی ہوئی باتوں پر یقین نہ کریں ؟ یہ تو بیویوں کی حماقت ہے ۔ </span></span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">" وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا ایک عورت کی عزتِ نفس مجروح نہیں ہوتی آخر کو وہ بھی ایک انسان ہے ؟" عورتوں نے پوچھا</span><span style="font-size: large;"><span style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br />" عزت نفس تو انسان خود اپنے ہاتھوں مجروح کرتا ہے ۔ یقیناً عورت انسان ہے ، بلا وجہ کوئی انسان دوسرے انسان پر غصہ نہیں ہوتا ، اور وجہ کاسبب بننے والا ، غصے کو برداشت کرنے کی ہمت بھی پیدا کرے ۔ تاکہ اُس وجہ کا سدباب ہو جو اُس کی عزت نسب مجروح کرنے کا سبب بنی ہے " </span></span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">" لیکن ہر وقت عورت ہی کیوں ؟" عورتوں نے پوچھا</span><span style="font-size: large;"><span style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br />" عورت نہیں ، بلکہ ماں یا بیوی ! یوں سمجھو کہ جو ذمہ دار ہوگا وہ برداشت کرے گا ، بیوی گھر کی مالکہ ہوتی ہےاور مرد مکان کا ، اگر بچے مکان سے باہر کوئی خرابی پیدا کر کے آئیں ، تو لوگوں کا غصہ مالک مکان کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور بچے گھر میں خرابی کریں کو ، گھر کی مالکہ کو ، میں چونکہ اپنے شوہر کے گھر میں مالکہ بن کر آئی تھی ۔ لہذا برداشت مجھے ہی کرنا تھا ، میری پوری کوشش رہتی تھی کہ میرا شوہر اپناغصہ کسی اور کے سامنے نکالنے کے بجائے مجھ پر ہی نکالے اور گھر سے خوش و خرم نکلے اور مجھے رونے کے لئے میرے شوہر کا ہی کندھا ملے ۔ میری زندگی کو خوشگوار اور محبت سے بھرپور بنانے والے ، وہی تین جملے ہیں جو میں نے آپ کو بتائے ۔ </span></span></span></div>
<div style="text-align: center;">
<span style="font-size: large;"><span style="color: #990000;">جی اچھا ، بہت بہتر ، ابھی کرتی ہوں ۔</span></span></div>
<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">بیوی کے منہ سے نکلنے والے الفاظ ، </span><span style="color: #0b5394; font-size: large;"><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><span dir="RTL" lang="AR-SA">خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا جادو ہیں ۔<br /> </span><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-14764421876761537172014-10-17T14:22:00.001-07:002015-06-30T23:40:38.530-07:00فوجی کی بیوی -5<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhf_ASMP32AZbqE-eSxHdjCFOR6cYy4w5Oay1Bf40W6v_k1dbXeaklX68DopVz3QOdY0V5WLHMbM-ReicxUyDjCRZgE4ls4zC9GzVUbbsDclPV3RzfrmxEsPpgvYwSviY_WY08VIFkrtE0/s1600/013-Fauji-ki-bivi-05.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><span style="font-size: x-large;"><img border="0" height="116" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhf_ASMP32AZbqE-eSxHdjCFOR6cYy4w5Oay1Bf40W6v_k1dbXeaklX68DopVz3QOdY0V5WLHMbM-ReicxUyDjCRZgE4ls4zC9GzVUbbsDclPV3RzfrmxEsPpgvYwSviY_WY08VIFkrtE0/s1600/013-Fauji-ki-bivi-05.jpg" width="320" /></span></a></div>
<span style="font-size: x-large;"><span style="color: #0b5394;"><br /></span>
<span style="color: #0b5394;"><br /></span>
<span style="color: #0b5394;">وقت جلدی سے گذرنے لگا اور 1980آگیا، تین جنوری کو یہ ایک مہینے کی چھٹی پر اچانک آگئے۔ حالانکہ چند دن پہلے ان کا خط ملا انہوں نے اس میں ذکر تک نہیں کیا۔ سب اس اچانک سرپرائز پر خوش ہو گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیاآپ کو خط لکھنے کا وقت نہیں ملتا جو آپ ایک صفحے کا مشکل سے سادہ خط لکھتے ہیں۔ تب معلوم ہوا کہ جس علاقے میں یہ ہیں وہاں سے خط آرمی پوسٹ آفس کے ذریعے جاتے ہیں اور وہ ہر خط کو نہیں بلکہ کچھ خطوں کو کھول کر سنسر کرتے ہیں۔ لہذا سادہ خط لکھنا ان کی مجبوری ہے۔ میرپورخاص میں دو تین دن رہنے کے بعد انہوں نے پروگرام بنایا کہ، کراچی جاکر میرے اور ان کے رشتہ داروں سے ملنا ہے۔ گویا یہ ایک قسم کا ہنی مون ٹرپ تھا۔</span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394; font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>پانچ جنوری کو دوپہر ڈھائی بجے، میرپورخاص سے حیدرآباد جانے والی ٹرین پر ہمارا پروگرام تھا۔ اب چونکہ ایک دن پہلے ہی تیاری شروع کی امی کے گھر سے جاکر میں اپنے کپڑے لائی تو امی نے کہا کہ ہمارے گھر سے کھانا کھا کر جانا، لہذا دس بجے آجانا۔ جب چلنے لگے تو میں نے اپنا سوٹ کیس نکالا انہوں نے پوچھا اس میں کیا ہے میں نے بتایا میرے کپڑے ہیں۔ یہ ایک بڑا سا سوٹ کیس تھا۔ کوئٹہ کی ہوا ابھی نہیں چلی تھی لہذا کم سردی تھی اور امید تھی کہ ہمارے کراچی ہوتے چل پڑے گی تو میں گرم کپڑے بھی رکھے۔ انہوں نے کہا سوٹ کیس کھولو۔ میں نے سوٹ کیس کھولا۔ انہوں نے میرا ایک سوئیٹر نکالا اور تین جوڑے اور کہا یہ کافی ہیں۔ میں پریشان کہ شادی کے بعد پہلی دفعہ کراچی جارہی ہوں اور صرف تین جوڑے؟ <br />میں نے پوچھا،”بس، صرف یہی؟“ <br />کہنے لگے، "ہم ہفتے بعد واپس آجائیں گے لہذا اتنا سامان کون اٹھائے گا۔ ؟ "<br />اب کیا کرتی، تین سوٹ ایک سوئیٹر ان کے بیگ میں ٹھونسا، جس میں ان کی ایک سوئیٹر اور دو کرتے اور پاجامے ایک پینٹ پر پہنے والی قمیض اور بس۔<br /> </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394; font-size: x-large;">ان کے امی، ابو، دونوں بہنوں سے مل کر نکلے دونوں چھوٹے بھائی بھی ساتھ تھے ایک نے بیگ اٹھایا اور امی کے گھر پہنچے۔ دونوں بھابیاں ان کے پیچھے کہ یہ کیا سامان ہے کراچی میں ڈھیر سارے رشتہ دار ہیں سب کے گھر نئی دلہن ایک ہی جوڑاپہن کر جائے گی۔ امی کے گھر بھی میرے کپڑے پڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ سوٹ کیس اٹھا سکتی ہے تو بے شک دو سوٹ کیس دے دیں میں تو نہیں اٹھاؤں گا۔ چھوٹی بھابی پریشان، امی نے سمجھایا۔ کہ نعیم ٹھیک تو کہہ رہے ہیں کہ کیا ضرورت ہے ہفتے کے لئے مہینے بھر کے کپڑے لے جانے کی؟ کھانا کھایا۔ گھر سے ریلوے سٹیشن تک کا سفر بیس منٹ کا تھا اور اگر والکرٹ کی طرف سے جائیں تو دس بارہ منٹ لگتے۔ ان کا پروگرام تھا دوبجے نکل کر آرام سے پہنچ جائیں گے۔ ساڑھے بارہ بجے کھانے سے فارغ ہوئے کہ دورازے پر گھنٹی بجی۔ معلوم ہوا کہ اباجان نے تانگے والے کوکہا تھا وہ آگیا یہ حیران کہ اتنی جلدی جاکرکیا کریں گے۔ خیر بڑی مشکل سے یہ تیار ہوئے۔ابا جان بضد کہ ہمیں سٹیشن پر چھوڑ کر آئیں گے، یہ کہیں کہ خالو، کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔ بڑی مشکل سے اباجان راضی ہوئے ِ ان کے دونوں بھائی کہیں کہ وہ بھی ساتھ جائیں گے اور ہمیں سٹیشن پر چھوڑ کر واپس آجائیں گے۔ انہوں نے منع کر دیا،بلکہ ان کا سب سے چھوٹا بھائی، میرے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ بھائی سے کہہ کر مجھے بھی کراچی ساتھ لے چلو۔ بہرحال ہم تانگے میں بیٹھے۔ ہمارے گھر سے آدھا میل دور پانی کی ٹینک کے پاس سے ِ میرواہ، ڈگری اور جیمس آباد جانے والی سڑک گذرتی۔ تانگہ جب وہاں پہنچاتو ایک خوبصورت سے بس اقبال کمپنی کی آکر رکی اور آوازآئی حیدر آباد کراچی، حیدر آباد کراچی، انہوں نے تانگے والے کو کہا روکو۔ہم بس سے جائیں گے۔ تانگے والے نے پوچھا آپ سٹیشن نہیں جائیں گے۔ انہوں کہا نہیں آپ واپس جائیں تو وہ کہنے لگا کہ باقی پیسے میں آپ کو دوں یا شیخ صاحب کو؟ انہوں نے کہا ان کو دے دینا۔ ہم دونوں بس میں سوار ہو گئے۔ بس آدھی بھری ہوئی تھی۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394; font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>انہوں نے مجھے عورتوں والی سیٹ پر بٹھایا اور خود مجھ سے دو سیٹ پیچھے کسی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ مجھے سخت غصہ آیا کہ پیچھے دو افراد کی سیٹ خالی تھی ہم دونوں وہاں بیٹھ جاتے۔ اب سارے راستے میں چپ بیٹھ کرڈھائی گھنٹے کا سفر کروں۔ ٹنڈو الہ یار میں آدھی بس خالی ہو گئی یہ جہاں بیٹھے تھے انہوں نے مجھے وہاں بلا لیا۔ معلوم ہوا کہ ان کے دو جاننے والے بس میں بیٹھے تھے ایک تو ان کے کلاس فیلو تھے اور دوسرے ان کے ابا کے دوست۔ لہذا شرم کی وجہ سے یہ میرے ساتھ نہیں بیٹھے۔ ٹنڈو الہ یار میں بسیں تقریباً بیس منٹ رکتی ہیں۔ جو پرانے سفر کرنے والے ہیں وہ حیدرآباد جانے کے لئے ٹنڈو الہ یار تک کا ٹکٹ لیتے اور سٹاپ پر اتر کر سب سے اگلی بس میں بیٹھ جاتے اس طرح آدھے گھنٹے کی بچت ہو جاتی۔ ہماری بس سب سے آگے آئی۔ تو عورتوں کی سیٹ پر عورتیں آکر بیٹھ گئیں۔ جو نہی بس چلنے کے لئے آگے بڑھی تو ان کے استاد الطاف صاحب اور ان کی بیگم بس میں سوار ہوئیں۔ انہوں نے میرے ساتھ، ان کی بیگم کو بٹھا دیا اور خود کھڑے ہوگئے۔ ان کے استاد کو ایک سیٹ مل گئی۔ مجھے پریشانی، بس کا بونٹ جو اندر ہوتا ہے وہ خالی مگر یہ اس پر نہ بیٹھے۔ ٹنڈو الہ یارسے ٹنڈو جام موڑ تک انہوں نے کھڑے ہو کر سفر کیا۔ حیدرآبادشہر میں داخل ہوئے تو ان کو سیٹ مل گئی۔ بس ریلوے سٹیشن کے پاس رکی۔ہم دونوں اترے اور وہاں سے رکشامیں بیٹھ کر ، حیدرآباد کینٹ میں ان کے ابو کے فیملی فرینڈ کے بیٹے مظہر حسین جو ایم۔ ای۔ ایس میں ایس۔ڈی۔ او، تھے وہاں پہنچے۔ مظہربھائی آفس گئے تھے ان کی بیگم پروین باجی گھر پر تھیں بہت خوش ہوئیں۔ یہ توکھانا کھا کر سو گئے تو پروین باجی مجھے لے محلے میں اپنی تین سہیلیوں کے گھر لے کر گئیں۔ مظہر بھائی اور پروین باجی آپس میں کزن تھے اور راولپنڈی میں ٹنچ بھاٹہ میں جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے، ہماری شادی پر، پروین باجی، ان کے چھوٹے دیور اور جیٹھ اپنی بیٹی کے ساتھ آئے تھے۔پانچ بجے،مظہر بھائی بھی آگئے۔ <br /><br />باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ آج آفیسر میں تمبولا ہے۔ انہوں نے فوراً پروگرام بنا لیا۔مظہر بھائی نے معذرت کر لی۔ مغرب کے بعد ہم دونوں گھر آفیسر میس پہنچے۔ تھوڑے لوگ آئے تھے۔ انہوں نے آفیسرز میس دکھایا۔ میس میں داخل ہونے کے بعد الٹے ہاتھ پر قائد اعظم کی تصویر تھی اس کے نیچے ایک میز پر ایک بڑا سا رجسٹر پڑا تھا جس کے غالباً پہلے صفحے پر وزیر اعظم محترم ذوالفقار علی بھٹو کے ہری سیاہی سے دستخط تھے۔ کیوں کہ انہوں نے اس میس کا افتتاح کیا تھا اور ہری رنگ کی ایک لکیر نیچے تک کھینچی ہوئی تھی۔تاکہ وزیر اعظم کے بعد کوئی اور دستخط نہ کرے اور دوسرے صفحے پرسیکنڈ لیفٹنٹ فاروق احمد کے دستخط تھے جس نے وزیر اعظم کی تقلید میں اپنے دستخط کر کے نیچے ایک نیلی لکیر کھینچ دی۔ اس کے ساتھ کیا ہوا ِ مؤرخ یہ بتانے سے قاصر ہے لیکن سنا ہے کہ بریگیڈ کمانڈر نے سیکنڈ لیفٹننٹ کو بلوایا اور خوب جھاڑا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394; font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<div>
<span style="color: #0b5394; font-size: x-large;">میس گھوم کر باہر نکلے اور لان میں جاکر بیٹھ گئے۔ نعیم دو کارڈ لے آئے لیڈیز اوربچوں کے لئے کارڈ مفت تھا اور مردوں کے لئے کارڈ کی قیمت ایک روپیہ۔ مجھے سمجھانے لگے کہ تمبولا کیسے کھیلا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد کھیل شروع ہوا میں کنفیوز ہو گئی اور نعیم سے پوچھا کہ یہ کیا سیدھی طرح نمبر نہیں بول سکتے۔ نعیم، مجھے نمبر بتاتے میرا کوئی نمبر نہیں کٹ رہا تھا۔ آفیسرز اور ان کے بچے نعرے لگا رہے تھے کہ یہ نمبر نکالو۔ کھلانے والے نے اعلان کیا کہ جس کا کوئی نمبر نہیں کٹا ہو وہ کھڑا ہوجائے۔ میں شرمندگی سے کھڑی نہ ہوں کہ باقی لوگ کیا کہیں گے۔ اس نے دوبارہ اعلان کیا کہ بدقسمت لوگ کھڑے ہوجائیں۔ تو مجھ سمیت کوئی بارہ افراد کھڑے ہو گئے جن میں تین عورتیں بھی تھیں۔ مجھے حوصلہ ہوا۔ اگلا نمبر بولا گیا۔ پانچ افراد بیٹھ گئے۔ پھر نمبر بولا تو دو افراد بیٹھ گئے۔اب دو عورتیں اور تین افراد کھڑے تھے۔پھر نمبر بولا گیا۔ ایک خاتون بیٹھ گئیں۔ کسی نے نعرہ لگایا ”نعیم میری ہمدردی تمھارے ساتھ ہیں“، یہ نعیم کے کورس میٹ کیپٹن جاوید تھے۔ اگلے دو نمبر کے بعد صرف میں کھڑی تھی۔ میجر ابرار جو تمبولا کھلا رہے تھے۔ <br />انہوں نے کہا،”لیڈیز اینڈ جنٹلمین، آج کے پہلے ہاؤس کی پہلی بدقسمت خاتون“۔ <br />کیپٹن جاوید نے دوبارہ نعرہ لگایا، ”نیولی ویڈ“۔ <br />جس پر میجر ابرار نے کہا، ”کہ اپنے شوہر نامدار کے ساتھ تشریف لائیں“ ہم دونوں ساتھ گئے، انہوں نے، تمبولے کا تحفہ اور ”آج کے مہمان“ کا ایک تحفہ دیا۔<br /><br /> سب نے تالیاں بجائیں۔ اپنی نشست پر آکر تحفہ کھولا۔ ایک بڑا مگ تھا اور دوسرا خوبصورت سا گلدان۔</span></div>
<div>
<span style="color: #0b5394; font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>تمبولا، ایک کھیل ہے جو انگریزوں نے مہینے میں ایک دفعہ اپنے گھروں سے دور فوج کی ملازمت میں رہنے والوں اور سول سروسز کے آفیسروں کے لئے ایک اچھی شام گذارنے کے لئے ایجاد کیا۔ سب اپنے اپنے کارڈ خریدتے ہر کارڈ پر خانوں کی تین لائین ہوتیں ہیں۔ اور ہر لائین میں پانچ نمبر لکھے ہوتے۔ پہلی لائین، دوسری لائین، تیسری لائین۔ کل پندرہ نمبر۔ کھلانے والے کے تھیلے میں پیتل کی ڈسک پر لکھے ہوئے کل 90نمبر ہوتے۔ کھیل میں دلچپسی کے لئے مختلف انعام رکھے جاتی ہیں ہیں۔ <br />جن میں ”خوش قسمت“ جس کے پہلے کوئی سے پانچ نمبر کٹ جائیں۔<br /> ”بد قسمت“ جس کا کوئی نمبر نہ کٹے۔<br /> ”ٹاپ لائین“ جس کی پہلی لائین کے تمام پانچ نمبر کٹ جائیں۔ <br />اسی طرح ”سنٹر اور باٹم لائن“ <br />پھر ”اہرام“ پہلی لائین کا ایک نمبر، دوسری لائن کے دو نمبر اور تیسری لائین کے تین نمبر۔ اسی طرح ”الٹا اہرام“۔<br /> پھر ”چار کونے اور بُل“ یعنی پہلی لائین اور تیسری لائین کے کونے کے نمبر اور درمیانی لائین کا بیچ کا نمبر۔<br /> پھر فل ہاؤس یعنی جس کے سب سے پہلے تمام پندرہ نمبر کٹ جائیں۔ <br />پھر ”سنو بال“ اس میں پہلے تیس نمبر میں جس کے کارڈ کے تمام نمبر کٹ جائیں یہ اس شام کا آخری کھیل ہوتا ہے ۔<br /> ہاں اس گیم میں ہر ہاؤس میں خریدے گئے ٹکٹوں کی آدھی رقم مختلف انعاموں کے لئے اور آدھی رقم ”سنو بال“ کے لئے رکھ لی جاتی۔ نمبر پکارا جاتا اور کھیلنے والے اپنے کارڈ سے نمبر کاٹتے رہتے۔ کھلانے والا اپنے سامنے رکھے ہوئے بورڈ پر نکلا ہوا نمبر اس کے اپنے خانے میں رکھتا جاتا اور ہر نمبر کے ساتھ کوئی نہ کوئی واقع، جگہ یا مشہو ر فوجی یونٹ کانام یا اعزاز منسوب ہوتا۔ مثلا۔ نمبر 21نکلتا تو ”رائل سلیوٹ“ ٹو اینڈ ون، ٹوئینٹی ون کہا جاتا ہے۔ 88 کو ”ٹو فیٹ لیڈیز“ ایٹ اینڈ ایٹ، ایٹی ایٹ کہا جاتا۔ کھیلنے والوں کے نمبر کٹتے جاتے۔ شور مچاتا جاتا۔ جو کھیلتے وہ تو نعرے لگاتے اور نہ کھیلنے والے بھی، فوج کے خشک ماحول کی ماہانہ گھٹن نکالنے کے لئے ان کا ساتھ دیتے۔ جس کے نمبرپہلے کٹ جاتے <br />جس کا انعام نکلتا تو ایک ساتھ بیٹھاہوا گروپ آفیسر میس یا کلب کا لان سر پر اٹھا لیتا۔ </span></div>
<div>
<span style="color: #0b5394; font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>تمبولا، فوجی آفیسروں کا مقبول کھیل تھا۔ جہاں دس آفیسرز میس میں جمع ہوئے۔ وہاں تمبولا،لازمی ہوتا، جس طرح ہر کھیل، جواریوں کے ہاتھ تباہ ہوتا ہے اسی طرح تمبولا کے ساتھ بھی ہوا۔ کراچی فلیٹ کلب میں پاکستان کا سب سے بڑا تمبولا کھیلا جاتا۔ ہزاروں لوگ کھیلتے۔”سنو بال ہاؤس“ بیس ہزار تک کا شاید کھیلا جاتا۔ 1977کے بعد، تمبولے کو جواء قرار دے کر اسے ”قابل دست اندازیء پولیس“ قرار دے دیا۔ جنانچہ فوج میں بھی کچھ عرصہ تمبولا بند رہا ۔ پھر خیال آیا کہ اس طرح تو گذارا نہیں ہوگا۔ فوج کا ماحول اور گھٹن زدہ ہو گیا۔ اب صرف آفیسرز، کسی کی پوسٹنگ پر دیئے گئے کھانوں پر اپنی بیگمات کے ساتھ جمع ہوتے۔ بچوں کا آپس میں میل جول، سکول یا پڑوس میں رہ گیا۔ چنانچہ،”بنگو“ کے نام سے اسلامی کھیل متعارف کرایا گیا۔ سارا جسم وہی تھا صرف نام کا برقع پہنا کر رقم کے بجائے گفٹ انعام میں ملنے لگے۔ <br />جن میں، ”چھوٹے انعام“ مگ، گلدان، فریم شدہ سینری یا پینٹنگ اور بڑا نعام، ہاؤس میں جمع رقم کے مطابق، کٹلری سیٹ، کافی سیٹ یا ٹی سیٹ پر مشتمل ہوتا، ہاں شور مچانے اور نعرے مارنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن 1977 سے 1980تک <br />زمانہ کافی آگے آچکا تھا۔ </span></div>
<div>
<span style="font-size: x-large;"><span style="color: #0b5394;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>پہلے ہاؤس کے بعد ہمارا گروپ بھی بن گیا۔ دو نعیم کے کورس میٹ، کیپٹن بٹ، کپٹن جاوید، جو اپنی بیوی اور خوبصورت سے گول مٹول ایک سالہ بیٹے جہانزیب کے ساتھ۔ ایک کیپٹن سعید جو سی ایم ایچ میں کوارٹرماسٹر تھے اور ان سے ڈیڑھ سال سینئر تھے یعنی 51لانگ کورس کے اور پی ایم اے میں اورنگ زیب کمپنی کے تھے۔جس میں نعیم ”پہلی ٹرم“ میں تھے۔ بعد میں کیپٹن سعید فارن سروسزز کے لئے سلیکٹ ہو گئے وہ اپنی بیوی اور بہن کے ساتھ آئے تھے۔ ہماری ٹیبل پر آگئے۔ کیوں کہ سب سے جونئیر ہم لوگ تھے۔باقی سینئر آفیسرز تھے۔ ان کے یونٹ کے میجر ”طارق“ جو کشمیر میں ان کے ساتھ تھے اور حیدرآباد کے رہنے والے تھے اپنی بیوی اور تین۔ چھوٹی بیٹیوں۔ ماریہ۔(دس سال)۔ کنزہ (آٹھ سال) اور جویریہ (پانچ سال) یہ پہلے ہاؤس کے بعد آئے تھے۔ <br /><br /> پہلا ہاؤس کھیلنے کے بعد میں نے انکار کر دیا۔ کیوں کہ مجھے نمبر سمجھ نہیں آتے تھے۔ میرا کارڈ نعیم ہی کاٹتے رہے۔ تینوں بچیوں کے آنے سے میں ان کے ساتھ مصروف ہو گئی۔ ماریہ اور کنزہ بہت تیز تھیں اورذہین بھی۔ کوئی نمبر پکارا جاتا، تو میں انہیں تنگ کرنے کے لئے کوئی دوسرا نمبر بتاتی لیکن مجال ہے کہ ان کی توجہ میں کوئی فرق آیا ہو۔ ہاؤس مکمل ہونے کے بعد سب، کارڈ مجھے دے دیتے۔ میں سب کو میز پر بچھا کر جویریہ کے ساتھ، جو نمبر پکارا جاتا میں کاٹتی رہتی۔ کوئی نہ کوئی کارڈ پورا کٹ جا تا۔ جویریہ کی خوشی قابل دید ہوتی۔<br /> جویریہ زور سے پکارتی ”یس“۔ <br />جس کا مطلب ہوتا کہ ہمارا کارڈ کٹ گیا ہے۔ جس پر لوگ ہماری طرف متوجہ ہو جاتے۔ تھوڑی دیر تک جب ہماری ٹیبل سے کوئی نہ کھڑا ہوتا تو، ”بوگی، بوگی“ کا شور مچتا لیکن جویریہ اپنی ”ماما“کو کارڈ دکھاتی ”مسز طارق“ اپنے بیگ سے دو ٹافیاں نکالتیں اور جویریہ کو دیتیں۔ جویریہ ایک مجھے دیتی اور ایک خود کھاتی۔ تیسرے ہاؤس کے بعد کیپٹن جاوید کی مسز کپٹن سعید کی مسز اور ان کی بہن بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئیں۔ انہیں بھی نمبر سمجھ نہیں آتے جس کی وجہ سے وہ بور ہونے لگیں۔ اب وہ میرے ساتھ گپیں لگانا چاہیں اور جویریہ شور مچائے۔ کہ میں اس کے ساتھ ”بنگو“ کھیلوں۔ سب مردوں نے ”ویٹرز“ کو آرڈر دے کر ”چپس، پکوڑے، تکے اور کولڈ ڈرنکس منگوائیں۔ نعیم کو میجر طارق نے منع کر دیا۔ جوتھے ہاؤس کے دوران ویٹر کھانے کا سامان لے آیا ِ ہم تینوں کے علاوہ، باقی چھ افراد انہماک سے ”بنگو“ کھیلنے اور کھانے میں </span><span style="color: #0b5394;">مصروف تھے اور میں دیگر خواتین کے ساتھ باتیں کرنے کے علاوہ،جویریہ کے ساتھ، اس کے کارڈ کٹوا رہی تھی۔ <br /><br />پانچواں ہاؤس ”سنو بال“ تھا۔ اسے کے لئے کوئی کارڈ فری نہیں تھا۔ قیمت وہی ایک روپیہ۔ اس وقت تک کھیل اپنے جوبن پر پہنچ چکا تھا۔ مجھے اور باقی تینوں خواتین نے بھی کھیلنے کا پروگرام بنایا کیوں کہ انعام میں چھ افراد کاکٹلری سیٹ تھا۔ ایک شیٹ پر چھ کوپن ہوتے ہیں جس میں پورے 90نمبر ہوتے ہیں۔ سب نے ایک ایک شیٹ خریدی،اورتو اور دونوں بچیوں نے دو دو کوپن کی ضد کی۔ نعیم تو دو کارڈ لائے، <br />کیپٹن جاوید نے چوٹ کی، ”یار کنجوسی مت دکھاخود نہیں تو بھابھی کے لئے ایک شیٹ لے لے“۔<br />”نعیم نے کہا کہ یہ آج کاا نعام لے چکی ہیں اور میرا انعام آج تک نہیں نکلا تو خواہ مخواہ پیسے ضائع کرنے کی کیا -ضرورت؟۔ خوشی کے لئے کھیلو جوئے کیلئے نہیں“۔ <br />میجر طارق فوراً چمک کر بولے، ”فتویٰ مت دے۔ امیر المؤمنین نے جائز کر دیا ہے“۔ <br /><br />باقی اب پھر خواتین اپنے اپنے مردوں کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ جویریہ کو بھی معلوم تھا کہ اس ہاؤس میں تنگ نہیں کرنا اس کی امی نے اسے اپنے پاس بلایا، لیکن وہ میرے ساتھ چپکی رہی۔</span></span></div>
<div>
<span style="font-size: x-large;"><span style="color: #0b5394;"></span><br /></span>
<div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394; font-size: x-large;"><span class="Apple-tab-span" style="white-space: pre;"> </span>سنو بال شروع ہوا اور25 نمبروں کے بعد میرا صرف ایک نمبر 54رہ گیا تھا۔جو نعیم کا پی ایم اے کا کورس تھا۔ سب کی توجہ ہم پرہوگئی۔ جویریہ دعائیں مانگنے لگی۔ میری بھی عجیب حالت۔ ہر نمبر نکلنے سے پہلے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔<br /> آخری نمبر سے پہلے میجر ابرار نے پوچھاAny body sweating ?,<br /> پورے گروپ نے نعرہ لگایا ”یس“۔ <br />میجر ابرار نے نمبر نکالا اور بولے، " Guess which Number" <br />شور مچا، 54۔<br /> لیکن نمبر تھا 11۔ <br />مجھے نہیں معلوم کہ آپ پڑھتے ہوئے کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن یہ لکھتے ہوئے۔ میں اس وقت، حیدرآبا د آفیسرز میس کے لان میں بیٹھی ہوئی ہوں ، یک دم خاموشی چھا گئی ہے ۔ ٹھنڈی سڑک سے گذرنے والے رکشے کی ٹرٹراہٹ ، خاموشی میں جل تھل پیدا کرتی ہے اور پھر خاموشی اور ان سب پر حاوی میری ”سانس“ ہے جو اس وقت نکلی تھی۔ سب نے ہمدردی کی، لیکن میں سوچ رہی تھی کہ کیا میں واقعی، ”بد قسمت“ ہوں۔ میں نے نعیم سے،رندھی ہوئی آواز میں پوچھا۔ وہ بولے، ”بے وقوف، یہ ایک کھیل ہے انعام نکل گیا تو بہتر ورنہ کھیل کو تو انجوئے کیا۔ اچھا چلو کھڑی ہوجاؤ“۔ کیوں میں نے پوچھا۔ میجر ابرار نے اعلان کیا ہے کہ جن کا آخری نمبر رہ گیا ہے وہ کھڑے ہو جائیں۔ </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394; font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394; font-size: x-large;">مجھ سمیت تین افراد کھڑے ہو گئے۔ صرف میرا 54 نمبر تھا ان دونوں کے 44، میجر ابرار نے پھر کہا کہ جن کے دو نمبر رہتے ہوں وہ کھڑے ہوں۔ پانچ افراد اور کھڑے ہو گئے۔ 54اور 26 کے تین، 44 اور 26 کے دو ۔ گویا تین نمبر میجر ابرار نے پوچھا کیا 93نمبر تک”سنو بال“ بڑھا دیں۔ سب نے ہاں، ہاں کا شور مچایا۔ میجر ابرار نے تھیلے کو ہلا کر نمبر نکالا اور ہمارے صبر کا امتحان لیتے رہے کسی کا بھی نمبر نہیں نکلا۔ اب انعام تو دینا تھا۔ کٹلری سیٹ کے بجائے۔ ٹی سیٹ کا اعلان ہوا۔ اب ہاؤس باقی سات نمبروں میں نکلنا تھا۔ چھٹا نمبر پکارا گیا۔ 54 ۔ہمارے گروپ نے بلند آواز میں نعرہ مارا ”گریٹ“ اور یوں ٹی سیٹ کی حقدار میں ٹہری۔ اس کے بعد، ٹوکن کے پیچھے نام لکھ کر ”لکی ڈرا“ کے لئے ڈالنے تھے۔ مردوں اور عورتوں کے الگ الگ بکس تھے۔ ہمارے گروپ نے تمام کوپن کے پیچھے جویریہ کا نام لکھ کر جویریہ سے بکس میں ڈلوادیا۔ لیڈیز کا انعام، جویریہ کا نکلا۔ اور اس طرح میری زندگی کہ پہلی شام میرے لئے یادگار بن گئی۔ </span></div>
</div>
<span style="font-size: x-large;"><span style="color: #0b5394;">
</span>
</span><br />
<div>
<span style="font-size: x-large;"><span style="color: #0b5394;"><br /></span>
</span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="color: #0b5394; font-size: x-large;"></span></div>
<div dir="RTL" style="background-color: #f3f3f3; direction: rtl; font-family: 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; line-height: 28px; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEibN7ox5AoCShUWCRG2Ma5FXx_wnKPF-xkanyhlc3arquhcDQj56jXix0kfo41_ID1Q8CAsjHYXTcxVsfGopbMivtNMR91FjgCLH6OBfUI4MC_K_8kv-yHevcVVpNBkFYVbqHm7eM-6B-Q/s1600/card1.gif" imageanchor="1" style="clear: right; float: right; margin-bottom: 1em; margin-left: 1em;"><span style="font-size: x-large;"><img border="0" height="416" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEibN7ox5AoCShUWCRG2Ma5FXx_wnKPF-xkanyhlc3arquhcDQj56jXix0kfo41_ID1Q8CAsjHYXTcxVsfGopbMivtNMR91FjgCLH6OBfUI4MC_K_8kv-yHevcVVpNBkFYVbqHm7eM-6B-Q/s1600/card1.gif" width="640" /></span></a><br />
<br />
<div style="font-family: 'Times New Roman'; line-height: normal; text-align: right;">
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></span></div>
<div style="font-family: 'Times New Roman'; line-height: normal; text-align: right;">
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: #666666; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;">فوجی کی بیوی -6 - زیرِطباعت</span></div>
<div style="font-family: 'Times New Roman'; line-height: normal; text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/10/5.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 5</a></div>
<div style="font-family: 'Times New Roman'; line-height: normal; text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/02/4.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 4</a></div>
<div style="font-family: 'Times New Roman'; line-height: normal; text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/3.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 3</a></div>
<div style="font-family: 'Times New Roman'; line-height: normal; text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/2.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 2</a><span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/1.html" style="color: blue; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 1</a></span></div>
<h3 class="post-title entry-title" dir="ltr" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: 30px; font-stretch: normal; font-weight: normal; line-height: normal; margin: 0px; position: relative; text-align: left;">
ہونہار بِروا - 1</h3>
</div>
</div>
<span style="color: #0b5394;">
</span></div>
</div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-71812792138681618372014-03-19T08:56:00.001-07:002014-06-14T13:54:53.747-07:00ماں کی نصیحت ، بیٹی کی نام <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi2Z1TLkDgffLqnjayDMFEMQ07w8XHYwH3UgANANLGFnK3ggkbGbyABUd7AnL2eqCKjT4NIUsaa5fgYDOrP-ou1PXbaIYMu7NNPBvPedZQtiveyPetrjcRhcsuor764625-bVlGJ1BN31Q/s1600/012-Maan+ki+Nasihat.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi2Z1TLkDgffLqnjayDMFEMQ07w8XHYwH3UgANANLGFnK3ggkbGbyABUd7AnL2eqCKjT4NIUsaa5fgYDOrP-ou1PXbaIYMu7NNPBvPedZQtiveyPetrjcRhcsuor764625-bVlGJ1BN31Q/s1600/012-Maan+ki+Nasihat.jpg" height="67" width="200" /></a></div>
<div class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"> </span></span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt;"><span style="color: #274e13;">میری پیاری بیٹی </span></span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt;">،میری آنکھو ں کی ٹھنڈک ،شوہر کے گھر جا کر قناعت والی
زندگی گزارنے کا اہتمام کرنا۔ جو دال روٹی ملے اس پر راضی رہنا ، جو روکھی سو کھی
شو ہر کی خوشی کے ساتھ مل جائے وہ اس مر غ پلاؤ سے بہتر ہے جو تمہارے ۔اصرار کرنے
پر اس نے نا راضگی سے دیا ہو ۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt;"><span style="color: #274e13;">میری پیاری بیٹی</span><span style="color: #274e13;"> </span><span style="color: #0070c0;">، اس بات کا خیال رکھنا کہ اپنے شوہر کی با ت کو ہمیشہ
توجہ سے سننا اور اسکو اہمیت دینا اور ہر حال میں ان کی بات پر عمل کرنے کی کو شش
کرنا اس طر ح تم ان کے دل میں جگہ بنا لو گی کیو نکہ آدمی نہیں، بلکہ آدمی کا کام
پیارا ہو تا ہے ۔</span><br /><br /><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-size: 16pt;"><span style="color: #274e13;">میری پیاری بیٹی ،</span> اپنی زینت و جمال کا ایسا خیال رکھنا کہ جب وہ تجھے نگاہ
بھر کے دیکھے تو اپنے انتخاب پر خو ش ہو اور سادگی کے ساتھ جتنی بھی استطاعت ہو
خوشبو کا اہتمام ضرور کرنا اور یاد رکھنا کہ تیرے جسم ولباس کی کوئی بو یا کوئی
بری ہیت اسے نفر ت و کرا ہت نہ دلائے ۔</span><span style="font-size: 16pt;"><br />
<br />
<span dir="RTL" lang="AR-SA"><span style="color: #274e13;">میری پیاری بیٹی ، </span><span style="color: #0070c0;">اپنے شو ہر کی نگاہ میں بھلی معلوم
ہو نے کے لیے اپنی آنکھوں کو سرمے اور کاجل سے حسن دینا کیونکہ پر کشش آنکھیں پورے
وجود کو دیکھنے والے کی نگا ہوں میں جچا دیتی ہیں ۔ غسل اور وضو کا اہتمام کرنا کہ
یہ سب سے اچھی خوشبو ہے اور لطافت کا بہترین ذریعہ ہے ۔</span></span></span></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #274e13; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21px;">میری پیاری بیٹی</span><span style="color: #274e13; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21px;"> ،</span><span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; mso-ansi-language: EN-US; mso-bidi-language: AR-SA; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-fareast-language: EN-US;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"> ان کا کھانا وقت سے پہلے ہی اہتمام
سے تیار رکھنا کیونکہ دیر تک برداشت کی جانی والی بھوک بھڑکتے ہوئے شعلے کی مانند
ہو جاتی ہے اور ان کے آرام کرنے اور نیند پوری کرنے کے اوقات میں سکون کا ماحول
بنانا کیونکہ نیند ادھوری رہ جائے تو طبیعت میں غصہ اور چڑچڑاپن پیدا ہو جا تا ہے ۔</span><br />
</span><span style="color: #274e13; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21px;">میری پیاری بیٹی ،</span><span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; mso-ansi-language: EN-US; mso-bidi-language: AR-SA; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-fareast-language: EN-US;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"> ان کے گھر اور انکے مال کی نگرانی
یعنی ان کے بغیر اجازت کوئی گھر میں نہ آئے اور ان کا مال لغویات ، نمائش و فیشن
میں بر باد نہ کرنا کیونکہ مال کی بہتر نگہداشت حسن انتظام سے ہوتی ہے اور اہل عیال
کی بہتر حفاظت حسن تدبر سے ۔</span></span><span style="color: #274e13; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21px;">میری پیاری بیٹی ،</span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21px;"> یاد رکھنا ، تمھارے شوہر کی اجازت کے بٖغیر ، تمھارے شوہرکا مال ، تمھارے شوہر کی بغیر اجازت ، بہن بھائیوں کو دئیے گئے تحفے ، ہمارے لئے ناجائز ہیں ۔ شوہر کی کمائی سے یہاں تک کہ تمھیں دئیے ہوئے اس کے مال سے بھی اس کی اجازت اور تحفہ اسے دکھائے بغیر کسی کو نہ دینا ۔</span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #274e13; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21px;">میری پیاری بیٹی ،</span><span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; mso-ansi-language: EN-US; mso-bidi-language: AR-SA; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-fareast-language: EN-US;"><span dir="RTL" lang="AR-SA">کرے گی
اور تم اگر اس کا راز دوسروں سے چھپا کر نہ رکھ سکیں تو اسکا اعتماد تم پر سے ہٹ جا
ئیگا اور پھر </span></span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt;">تم بھی اس کے دو رخے پن سے محفوظ نہیں رہ سکو گی ۔</span><span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; mso-ansi-language: EN-US; mso-bidi-language: AR-SA; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-fareast-language: EN-US;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span>
</span><span style="color: #274e13; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21px;">میری پیاری بیٹی ،</span><span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; mso-ansi-language: EN-US; mso-bidi-language: AR-SA; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-fareast-language: EN-US;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"> جب وہ کسی با ت پر غمگین ہو ، تو
اپنی کسی خوشی کا اظہار ان کے سامنے نہ کرنا یعنی ان کے غم میں برابر کی شریک
رہنا۔ شوہر کی کسی خوشی کے وقت غم کے اثرات چہرے پر نہ لا نا اورنہ ہی شوہر سے ان
کے کسی رویے کی شکایت کر نا ۔ ان کی خوشی میں خوش رہنا۔ورنہ تم ان کے قلب کے مکدر
کرنے والی شمار ہو گی۔</span></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; mso-ansi-language: EN-US; mso-bidi-language: AR-SA; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-fareast-language: EN-US;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #274e13; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21px;">میری پیاری بیٹی</span><span style="color: #274e13; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21px;"> ،</span><span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; mso-ansi-language: EN-US; mso-bidi-language: AR-SA; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-fareast-language: EN-US;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"> اگر تم ان کی نگا ہوں میں قابل
تکریم بننا چاہتی ہو تو اس کی عزت اور احترام کا خوب خیال رکھنا اور </span></span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt;">اسکی مرضی کے مطابق چلنا تو اس کو بھی ہمیشہ ہمیشہ اپنی زندگی کے ہر ہر مرحلے میں اپنا
بہترین رفیق پاؤ </span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt;"> گی۔</span><span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; mso-ansi-language: EN-US; mso-bidi-language: AR-SA; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-fareast-language: EN-US;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"><br /></span></span><span style="color: #274e13; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21px;">میری پیاری بیٹی ،</span><span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; mso-ansi-language: EN-US; mso-bidi-language: AR-SA; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-fareast-language: EN-US;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"> میری اس نصیحت کو پلو سے باندھ لو
اور اس پر گرہ لگا لو کہ جب تک تم ان کی خوشی اور مرضی کی خاطر کئی بار اپنا دل
نہیں مارو گی اور اس کی بات اوپر رکھنے کے لیے خواہ تمہیں پسند ہو یا ناپسند، زندگی
کے کئی مرحلوں میں اپنے دل میں اٹھنے والی خواہشو ں کو دفن نہیں کرو گی اس وقت تک
تمہاری زندگی میں بھی خوشیو ں کے پھول نہیں کھلیں گے ۔</span></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"><span style="color: #274e13;"><br /></span></span></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 16pt;"><span dir="RTL" lang="AR-SA"><span style="color: #274e13;">اے میری پیا ری اور لا ڈلی بیٹی ان نصیحتو ں کے ساتھ
میں تمہیں اللہ کے حوالہ کرتی ہوں اللہ تعالیٰ زندگی کے تمام مرحلوں میں تمہارے
لیے خیر مقدر فرمائے اور ہر برائی سے تم کو بچائے۔</span><span style="color: #0070c0;"> </span></span></span></div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-81057614921511699172014-03-03T12:58:00.002-08:002015-07-04T12:24:05.171-07:00ہونہار بِروا - 4<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" dir="rtl" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEje9tmcn8E0udjtwc_xJlRa3HPdZ273fC1TyVJkNf5El3T8BJsTgTN1Whuo2oWb124drmRVOxviJaH0ujwRFTZzTMtDhjV1J64T6SeMSvr6kouYSh952lnZHZzYqGXnpdOXRkLbNRgtbhE/s1600/011-Hunihaar+Birwa-004.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><span style="font-size: x-large;"><img border="0" height="111" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEje9tmcn8E0udjtwc_xJlRa3HPdZ273fC1TyVJkNf5El3T8BJsTgTN1Whuo2oWb124drmRVOxviJaH0ujwRFTZzTMtDhjV1J64T6SeMSvr6kouYSh952lnZHZzYqGXnpdOXRkLbNRgtbhE/s1600/011-Hunihaar+Birwa-004.jpg" width="320" /></span></a></div>
<div class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right;">
<span class="apple-tab-span"><span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"><br /></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> </span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">منگلا سے ہم مری روانہ ہوئے، جہاں ہم ہفتہ
کلڈنہ ٹہرے نعیم کے یونٹ آفیسر وہاں</span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right;">
<span class="apple-tab-span" style="font-size: x-large;"><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> انسٹرکٹر تھے۔ کمروں</span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> </span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">کی ایک لمبی سی لائن کے آخر میں ایک کمرہ ہمیں
ملا ہو تھا جس کے بعد چیڑ کے درخت تھے جن پر بندر اپنی فیملی کے ساتھ آجاتے اور
انسانوں کو دیکھتے</span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> </span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">رہتے کہ کوئی کھانے کی
چیز کب پھینکتے ہیں۔ان میں ایک بندریا اپنے پندرہ دن یا مہینے کے لاغر بچے کو کمر
پر بٹھائے یا سینے سے چمٹائے کھانے کی چیزیں لینے آتی۔ تیسری صبح بھی بندر اپنی فیملی
کے ساتھ آئے۔ بچے ناشتہ کرنے کمرے میں آگئے۔ عروضہ باہر کرسی پر بیٹھ گئی اور
بندروں</span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> </span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">کی درختوں پر اچھل کود دیکھنے کے
لئے رک گئی میں نے اس کا ناشتہ باہر دے دیا وہ</span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">
</span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">وقفے وقفے کے بعد پاپ کارن پھینک دیتی جو بندر اچک کر لے جاتے۔ ہم کمرے میں
ناشتہ کر رہے تھے۔ <br /><br />عروضہ کمرے میں آئی اور اپنا پراٹھا لے کر باہر چلی گئی۔پھر آئی
اور پراٹھا مانگا میں حیران تھی کہ اس نے بغیر منت سماجت کئے ناشتہ کیسے کر لیا۔ میں
نے پراٹھا دے دیا۔ نعیم نے سائرہ کو کہا دیکھو کہیں یہ بندروں کو ناشتہ تو نہیں
کرا رہی۔ سائرہ باہر گئی اور بتایا کہ ایک بندریا اپنے بچے کے ساتھ کرسی پر بیٹھی
ہے اور عروضہ برامدے میں بیٹھ کر بندریا کو پراٹھے کے ٹکڑے پھینک رہی ہے۔ اور وہ
اچک اچک کر خود بھی کھا ر ہی ہے اور منہ سے چبا کر بچے کو بھی دے رہی ہے۔باقی بندر
درختوں پر بیٹھے خو خو کر رہے ہیں۔ ہم لوگوں کے باہر نکلنے سے بندریا اپنے بچے کو
پیٹھ پر بٹھائے چھلانگ مار کر درخت پر چڑھ گئی۔باقی بندر دور ہٹ گئے۔ اب روزانہ
صبح، عروضہ کا یہی مشغلہ ہو گیا۔ وہ اپنا اور بندریا اور اُس کے بچے کا پراٹھا لے
کر باہر جا بیٹھتی اور بندریا کو ناشتہ کراتی، بندریا اُس سے ہل گئی اور درخت سے
اتر کر اس کے قریب آکر بیٹھ جاتی لیکن چوکس انداز میں اگر عروضہ کوئی چیز لانے کے
لئے اُٹھتی تو وہ چھلانگ مار کر درخت پر چڑھ جاتی۔</span><span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right;">
<span class="apple-tab-span" style="font-size: x-large;"><span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span dir="RTL" lang="AR-SA">اس سارے عرصے میں سانپ اور کچھوا
بھی ہمارے ساتھ تھا۔ بلکہ مری سے
چارگھونگھے Snailبھی پکڑ لئے تھے ۔عروضہ کی بڑی خواہش تھی کہ بندریا بچے کو چھوڑے تو وہ
بچہ پکڑ لے اور پھر اپنے ساتھ اٹک لے جائے۔ تب نعیم نے اسے ڈرایا، کہ دیکھو وہ جو
بچے کا باپ ہے تمھیں غور سے دیکھ رہا ہے اور بندریا کو کہہ رہا ہے کہ یہ لڑکی کتنی اچھی ہے۔ ہمیں
پراٹھا دے رہی ہے او رتمھیں پراٹھا بنانا
نہیں آتا۔ کیوں نہ ہم اس لڑکی کو لے جائیں یہ ہمیں پراٹھے بنا کر دے گی۔ہم اس کا
درخت پر خوبصورت سا پنجرہ بنا دیں گے۔ عروضہ یہ سن کر خوف زدہ ہوگئی کہ میں اپنے
ماما اور پپا کے بغیر کیسے رہ سکتی ہوں۔ تب نعیم نے سمجھایا کہ وہ دیکھو چھوٹے بچے
کا بھائی ہے وہ بہن ہے وہ خالہ چچا اور دوسرے
رشتہ دار ہیں سب ایک ساتھ رہتے ہیں اگر ان سے بچہ چھین لیا جائے تو یہ پاگل
ہوجائیں گے اور انسانوں کو دشمن سمجھ کر کاٹیں گے۔ عروضہ کے بات سمجھ آگئی <br /><br />لیکن ایک
اور پریشانی پید ہو گئی۔ اس نے نعیم سے پوچھا کہ کیا سارے، پرندوں، جانوروں اور کیڑے
مکوڑوں کے ماں، باپ اور بہن بھائی ہوتے ہیں؟ نعیم نے بتایا کہ ہاں سب کے ہوتے ہیں۔
تو پھر جو سانپ اور کچھوا ہم لے کر جارہے ہیں، پھر ان کے بھی ماں، باپ اور بہن
بھائی ہوں گے نعیم نے کہا ہاں، Snail</span> <span dir="RTL" lang="AR-SA">کی تو پوری فیملی ہمارے ساتھ تھی لہذا اس کی عروضہ کو
فکر نہ ہوئی لیکن سانپ اور کچھوے کے لئے عروضہ پیچھے پڑ گئی۔کہ ان دونوں کو واپس
اسی جگہ چھوڑکر آئیں۔کچھوے کے بارے میں وہ مان گئی، کیوں کہ کوئٹہ میں ہمارے پاس
جو کچھوا تھا وہ اکیلا تھا لیکن اُس نے بتایا کہ گوجرانوالہ میس میں جو ویٹر چاچا
تھا اُس نے بتایا تھا کہ سانپ کی مادہ ہوتی ہے وہ
اکیلی رہ گئی ہو گی اور اب آپ لوگ جہاں بھی جائیں آپ کے پیچھے آجائے گی۔ نعیم نے کہا کوئی بات نہیں، مادہ گجرانوالہ سے
چل پڑی ہوگی۔سانپ ایک دن میں تین میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ ابھی تو وزیر آباد بھی
نہیں پہنچی ہوگی اٹک پہنچنے میں مہینہ لگے گا۔ ہم اس کو بھی اپنے پاس رکھ لیں گے۔
تاکہ بے چاروں کو کھانے کی پریشانی نہ رہے۔ <br /><br />مری خوبصورت اور قدرتی نظاروں سے بھر
پور ہے۔ فوج کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جہاں ہوتی ہے بنجر زمین کو نخلستان بنا دیتی
ہے۔ صفائی کے لحاظ سے کنٹونمنٹ ایریا کی مثال دی جا سکتی ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے
کہ شادی کے بعد، میں نعیم کے ساتھ پہلی بچی کی پیدائش سے پہلے خوب گھومی۔ لاہور سے
پارا چنار کے اس وقت کے کینٹ اور آج، ڈویلپمنٹ کے لحاظ سے زمین </span></span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">آسمان کا فرق ہے۔ کینٹ
کی آبادی بڑھنے کے باوجود کینٹ کی صفائی میں کوئی فرق نہیں آیا۔</span><span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
</div>
<div class="separator" dir="rtl" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiZlb9_O3xDMz4SdfR4K3CHu84-g_B4423rCpTtf1XNVhyphenhyphenr-MwmpUJ835GPFZvvtchvO9dPaFVnrNPdB_1hJ0uMdXGc1zUFEuU4lteGxyGmF5Q17wYqS05ZK8g3MBnA6eKH2z6h-7n_q7E/s1600/022a.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><span style="font-size: x-large;"><img border="0" height="320" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiZlb9_O3xDMz4SdfR4K3CHu84-g_B4423rCpTtf1XNVhyphenhyphenr-MwmpUJ835GPFZvvtchvO9dPaFVnrNPdB_1hJ0uMdXGc1zUFEuU4lteGxyGmF5Q17wYqS05ZK8g3MBnA6eKH2z6h-7n_q7E/s1600/022a.jpg" width="129" /></span></a><span class="apple-tab-span" style="font-size: x-large;"><span style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><br /> <span dir="RTL" lang="AR-SA">مری میں سب سے خوبصورت بھوربن کا کھلا علاقہ ہے۔ نعیم اور دوسرے آفیسر نے
اتوار کو گالف کھیلنے کا پروگرام اور ہم تمام فیملیز نے پکنک کا پروگرام بنایا، یہ تو آٹھ بجے
اپنے اپنے بیگ کے ساتھ نکل گئے، ارمغان اور سائرہ بھی ساتھ گئے۔ میں عروضہ اور
ارسلان، خواتین </span></span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">اورپکنک کے سامان ساتھ دس بجے بھوربن پہنچے۔عروضہ نے سانپ کا بکس
بھی ساتھ لے لیا تھا۔ <br /><br />گالف کلب کے ایک حصے میں، بیٹھنے کا انتظام کیا۔ بچے اپنے
اپنے کھیل کھیلنے لگے، ہم خواتین کا</span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> ایک ہی موضوع ہوتا ہے اور وہ صرف شاپنگ اور شاپنگ
ہی ہے کہ کون سی اچھی اور سستی مارکیٹ ہے جہاں دھوکہ نہیں دیا جاتا۔ ہم بات کر رہے
تھے کہ سائرہ اور ارمغان، ایک راونڈ گالف کھیل کر واپس آئے۔ سائرہ نے سانپ کا بکس
کھولا اور چینخی۔ ماما اس میں سانپ نہیں ہے۔ تمام خواتین اور بچے بشمول میں چینختے
ہوئے دور بھاگے۔ ہمیں بھاگتا دیکھ کر سائرہ نے قہقہ لگایا۔ ہم سمجھ گئیں کہ اس نے
مذاق کیا ہے۔ خواتین اور بچے نزدیک آئے تو سائرہ نے سانپ کو اٹھا کر نکال لیا تمام
خواتین اور بچے، اسے نصیحتیں کریں کہ اسے واپس ڈال دو ورنہ یہ کاٹ لے گا۔ <br /><br />بہرحال
بعد میں تمام بہادر خواتین اور بچوں نے سانپ کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھا اور تصویریں
بنائیں۔ ساڑھے گیارہ بجے چاروں مرد حضرات گالف کھیل کر واپس آئے، بچوں نے اپنے
اپنے ابو کو سانپ کا بتا یا وہ بھی حیران ہوئے کہ اُن کے بچوں نے سانپ پکڑنے کی
بہادری کیسے دکھائی۔ سانپ سے کھیلنا پکنک
کا سب سے اچھا ایونٹ رہا، میں سب کو بطور
کنسلٹنٹ ہدایات دیتی،کہ سانپ کو کس طرح
پکڑنا ہے کہ وہ ہاتھ کے دباؤ سے خوفزدہ نہ ہوجائے۔ تمام بھابیاں بھی مجھ سے مرعوب
تھیں۔ کہ سائرہ نے بھانڈا پھوڑا، ہو ایوں کہ میں آرام سے بیٹھی گپ لگا رہی تھی کہ
اُس نے سانپ کی دم میری آنکھوں کے سامنے میرے پیچھے کھڑے ہو کر لہرائی۔</span></span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhOU4LFcWNghyphenhyphen90kUEHEm-mWBfaP35tPGMaF8aY3jPZjHkGkXxAOnCTQq5VkM6m2ObNw7Y2nyh6gQKioFuh8rxJ3_f4FsjcQho00OHbCMlOZESHdalHy6cnOU_RppTCWrL9lZyfCE0WL74/s1600/026.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em; text-align: center;"><span style="font-size: x-large;"><img border="0" height="218" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhOU4LFcWNghyphenhyphen90kUEHEm-mWBfaP35tPGMaF8aY3jPZjHkGkXxAOnCTQq5VkM6m2ObNw7Y2nyh6gQKioFuh8rxJ3_f4FsjcQho00OHbCMlOZESHdalHy6cnOU_RppTCWrL9lZyfCE0WL74/s1600/026.jpg" width="320" /></span></a></div>
<div class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right;">
<span class="apple-tab-span" style="font-size: x-large;"></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right;">
<span class="apple-tab-span" style="font-size: x-large;"><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">میری چینخ
بلا مبالغہ مری مال روڈ تک سنائی دی ہو گی۔ تب راز کھلا کہ سب سے زیادہ سانپ سے میں
ڈرتی ہوں، ایک بھابی نے پوچھا۔ اس کے تو دانت نکال دیئے ہیں۔اب تو تین مہینے کے
بعد آئیں گئے۔ پھر آپ کیوں ڈر رہی ہیں۔میں نے کہا واہ بھابی آپ تین مہینے کا
انتظار کر رہی ہیں اور اگر سانپ کے دانت ابھی اُگ آئے تو کیا ہوگا؟ </span><span style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><br /></span></span><br />
<br />
<br />
<div>
<span style="background-color: white; color: #073763; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21.3333339691162px; line-height: 20px; text-align: -webkit-center;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span><span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: #999999; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/3.html" style="font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -7</a> - زیرِطباعت</span></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2015/04/6.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -6</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2015/04/5.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -5</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/03/4.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -4</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/02/3.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -3</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/01/2.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -2</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/01/1.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -1</a></div>
<div dir="ltr" style="text-align: left;">
<span style="background-color: white; color: #073763; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21.3333339691162px; line-height: 20px; text-align: -webkit-center;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></div>
<div style="text-align: left;">
<span style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/1.html" style="color: blue; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 1</a></span><br />
<div>
<br /></div>
</div>
</div>
<div style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; margin: 0in 0in 0.0001pt;">
</div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-78541761997777844942014-02-20T07:55:00.000-08:002015-06-30T23:39:36.841-07:00فوجی کی بیوی - 4<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right; text-indent: .5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjBcyG2EOmB6KYER5UItXTpoWDhKQ49KJBfq4VwCwV2jKbRB-UI1cbd_yh9zZ_8cixwGTHPC_YEc_qJKEX5KAx9uJ6uDOiqd5pnQoI1g4LH83jVgxRgEFOiXhkyvSmbpE11wntYns5WwHM/s1600/009-Fauji-ki-bivi-04.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><span style="font-size: x-large;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjBcyG2EOmB6KYER5UItXTpoWDhKQ49KJBfq4VwCwV2jKbRB-UI1cbd_yh9zZ_8cixwGTHPC_YEc_qJKEX5KAx9uJ6uDOiqd5pnQoI1g4LH83jVgxRgEFOiXhkyvSmbpE11wntYns5WwHM/s1600/009-Fauji-ki-bivi-04.jpg" /></span></a></div>
<span style="font-size: x-large;"><span dir="LTR"><o:p></o:p></span><br /></span>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span dir="LTR" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><u1:p><br />
<!--[endif]--></u1:p></span><span lang="AR-SA"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span class="apple-converted-space"> </span>سسرال پہنچی، تو باراتی ہم سے پہلے پہنچ
گئے تھے استقبال ہوا۔محلہ کی ساری عورتیں ان کے گھر جمع تھیں ِ بچے بھی نعیم بھائی
و انکل کی دلہن دیکھنے امنڈے <span class="apple-converted-space"> </span>پڑ
رہے تھے۔ <span class="apple-converted-space"> </span>کوئی منہ دکھائی
میں ٹافیاں ڈال رہا ہے تو کوئی بسکٹ دے رہا ہے، ساڑھے دس بجے ان کو ڈھونڈا جا رہا
تھا مگر یہ غائب تھے۔ چھوٹے بھائیوں کو دوستوں کے پاس دوڑایا یہ ندارد۔ رات کو
گیارہ بجے مہمان جانے شروع ہوئے بستر بچھانے کے لئے، سیڑھیوں کے نیچے والے حصے کا
دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ دولہا میاں تین فٹ ضرب چار فٹ کے بستر رکھنے والےمچان میں رضائیوں کے اوپر سوٹ سمیت
سو رہے تھے۔ <span class="apple-converted-space"> </span>بھائی مل گئے کا
نعرہ ان کی چھوٹی بہن نے لگایا یہ آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھے منھ دھویا، کمرے میں
داخل کیسے ہوں دروازے پر لڑکیوں نے قبضہ جمایا ہوا تھا،پیسے دے کر جان چھڑائی، کمرے
میں داخل ہوئے مسہری پر ان کا دس سالہ بھائی وسیم اور میرا چھ سالہ بھتیجا گڈو
سوئے ہوئے تھے۔ <span class="apple-converted-space"> </span>ان دونوں کو
اٹھایا تو دونوں نے کمرے سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ گڈو میکے میں میرے ساتھ سوتا
تھا، بہر حال دونوں کو دوبارہ سونے دیا آدھے گھنٹے بعد ان کے چھوٹے بھائی چپکے سے
اٹھا کر دونوں کو دوسرے کمروں میں لے گئے۔<span class="apple-converted-space"> </span><br /><br />
<!--[endif]--></span><span lang="AR-SA"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span class="apple-converted-space"> </span>دوسرے دن جمعرات تھی ولیمہ ہوا گھر کے
سامنے سڑک پر شامیانے لگائے گئے۔ دوپہر ایک بجے کھانا شروع ہوا اور دو بجے تک ختم
ہو گیا، شامیانے سمیٹ لئے گئے۔ اس کے بعد آنے والے مہمانوں کو بیٹھک میں کھانا
کھلایا ِ۔ تین بجے چھوٹے بھائی جان آکر مجھے لے گئے۔ <span class="apple-converted-space"> </span>اگلے دن جمعہ رات کے کھانے کے بعد میں
ان کے ساتھ دوبارہ <span class="apple-converted-space"> </span>اپنے
سسرال آگئی۔ ان کی چھوٹی بہن سعیدہ نے مجھ سے پوچھا کہ بھابی آپ بھائی کو کیسے
بلائیں گی؟ اب مجھے سمجھ نہ آئے، ہماری بھابیاں بھائیوں کو، اجی، سنیئے، گڈو کے
ابا وغیرہ کہہ کر بلاتی تھیں میں کیا کہہ کر بلاؤں؟ کیوں کہ ان دنوں یہی چلتا
تھا۔ <span class="apple-converted-space"> </span>میں نے کہا اپنے بھائی
سے پوچھو انہیں کیا اچھا لگے گا؟ ان سے پوچھا انہوں نے کہا، ”نعیم“ <span class="apple-converted-space"> </span>مجھے بڑا عجیب لگا کہ، مجھ سے بڑے بھی
ہیں اور شوہر بھی اور نام سے بلاؤں، چنانچہ کافی عرصہ سنیئے ہی سے کام چلایا۔<br /><br />
<!--[endif]--></span><span lang="AR-SA"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span class="apple-converted-space"> </span> انہوں نے گیارہ تاریخ کو واپس
اپنی یونٹ چلا جانا تھا۔لہذا دس تاریخ کورسم کے مطابق میں نے شام کو کھیر پکائی،
محلے اورعزیزوں دوستوں کے گھر تقسیم کی گئی۔ مغرب کے بعد انہوں نے مجھے، اپنے
چھوٹے <span class="apple-converted-space"> </span>بھائی کی بیوی،
بانو(ان کی شادی سال پہلے ہو گئی تھی) <span class="apple-converted-space"> </span>اور
دونوں بہنوں کو بٹھا لیا اور جوائینٹ فیملی سسٹم کا سب سے بڑی وجہ نزع کو انہوں نے
ایک ہفتہ وار پروگرام کاغذ پر بنا کر حل کر لیا اور وہ <span class="apple-converted-space"> </span>چاروں کی گھر کے کام کاج میں ڈیوٹیوں کی
تقسیم تھی ُ کہ گھر کا کھانا کس کس نے کب کب پکانا ھے۔ صبح اور دوپہر کے برتن تو
کام والی دھوتی تھی لیکن رات کے کھانے کے بعد برتن کون کون دھوئے گا وغیرہ وغیرہ۔
یہ ٹائم ٹیبل بنا کر کچن میں ٹانگ دیا۔ اور ہاں میرا میکہ تو دو گلی چھوڑ کر تھا
اور <span class="apple-converted-space"> </span>بانو کانواب شاہ، چنانچہ
اس بات کا بھی خیال رکھا، یہ اور بات کہ ہم دونو ں دیورانی اور جٹھانی نے بقائے
باہمی کے اصولوں پر اپنے اپنے کام بعد میں ایڈجسٹ کر لئے، چونکہ کھانا میں اچھا
بناتی تھی لہذا کھانے کی تما م ذمہ داری <span class="apple-converted-space"> </span>مجھ
پر آگئی۔ <span class="apple-converted-space"> </span>بانو کو چونکہ اسی
مہینے خوشخبری ملنے والی تھی لہذا، اس کے آرام کو بھی مد نظر رکھنا پڑا۔<br /><br />
<!--[endif]--></span><span lang="AR-SA"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> اگلے دن یہ روانہ ہو ئے تومیرے آنسو نکل آئے ان کے سب گھر
والوں نے میرا مذاق اڑانا شروع کر دیا،ہمارے بھائی چھٹی کے بعد واپس جاتے تو میں
نے بھابیوں کو روتا ہی دیکھا اور یہ لوگ رونے سے منع کر رہے۔ ان کی امی نے کہا بہو
جانے والے کو ہنسی خوشی رخصت کرتے ہیں۔تاکہ اسے پردیس میں ہنستے چہرے یاد رہیں۔ یہ
بات دل کو لگی میں نے آنسو پونچھ ڈالے۔<span class="apple-converted-space"> </span><br /><br />
<!--[endif]--></span><span lang="AR-SA"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span class="apple-converted-space"> </span>ان کے جانے کے دوسرے دن میں میکے چلی
گئی۔ وہاں تین دن رہ کر سسرال واپس چھوٹی بہن کے ساتھ آئی تودس بجے <span class="apple-converted-space"> </span>ان کا خط آیا ہوا تھا۔ سعیدہ نے خط
مٹھائی کھائے بغیر دینے سے انکار کر دیا۔ بہرحال گلاب جامن منگوائے تب ان کا خط
ملا۔ اب خط کیسے پڑھوں؟یہ سب لوگ اس امید پر کہ میں خط کھولوں تو یہ بھی سنیں اور
میری خط کھولنے کی ہمت نہ پڑے۔یہ میرے نام کسی لڑکے کا پہلا خط تھا۔ میں نے خط
الماری میں رکھ کر تالا لگادیا۔ <span class="apple-converted-space"> </span>اب
یہ تینوں میرے پیچھے کہ بھائی کا خط سناؤ، اب میں پریشان،ان کی امی نے آکر سب کو
دوڑا دیا۔ لیکن دوپہر کو پھر یہ سب میرے کمرے میں آگھسیں، بھائی کا خط پڑھا <span class="apple-converted-space"> </span>میں نے کہا نہیں۔نہیں پڑھ لیا ہمیں بھی
سناؤ ، سعیدہ مجھ سے تین مہینے چھوٹی تھی۔ وہ ناراض ہو گئی میں نے منایا اور کہا
پہلے میں پڑھوں گی اور خود سناؤں گی۔ پڑھنے کو نہیں دوں گی۔ تینوں راضی ہوگئیں۔
میں نے دھڑکتے دل سے الماری کھولی۔ تمام دعائیں جو یاد تھیں پڑھ لیں کہ انہوں نے
کوئی ایسی بات نہ لکھی ہو کہ مجھے شرمندگی ہو۔ ان کو دور بٹھا کر خط کھولا۔
پڑھا <span class="apple-converted-space"> </span>ایک بے ضرر سا خط تھا
اللہ کا شکر ادا کیا اور خط سعیدہ کو دے دیا، اس نے پڑھا اور بانو کو دے
دیا، <span class="apple-converted-space"> </span>بانو نے پڑھ کر حمیدہ
کو دیا اور حمیدہ <span class="apple-converted-space"> </span>اور فردوس
دونوں نے پڑھا۔ بانو نے شرارت کی بھابی، لفافے میں دیکھیں کوئی اور رقعہ تو نہیں،
لفافے کو اچھی طرح جھاڑا کچھ نہیں۔ شام کو چھوٹے بھائی آکر چھوٹی بہن فردوس کو لے
گئے۔ <span class="apple-converted-space"> </span>گھر کے کام کاج سے فارغ
ہو کر ہم سب چھت پر آبیٹھے او ر گپیں شروع ہوگئی ان کی بڑی بہن آپا کوئیٹہ سے شادی
میں شرکت کے لئے اپنی <span class="apple-converted-space"> </span>دو
چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ آئی تھیں۔ انہوں نے اپنے بچپن کے قصے سنانے شروع کر دئے جو
زیادہ <span class="apple-converted-space"> </span>تر آپا اور ان کے تھے
سب ہنسیں اور مجھے ہنسی بھی آئے اور غصہ بھی، کہ یہ سب میرے شوہر کا مذاق اڑا رہے
ہیں ِ ان کی امی نے غالباً میر چہرہ پڑھ لیا بولیں، ”گل، میرا نمو بہت سیدھا تھا اور
یہ نجمی اس کو بہت تنگ کرتی اور پھر اپنے ابا مار کھاتی“۔ آپا شادی کے بعد دو ہفتے
رہیں اور دونوں <span class="apple-converted-space"> </span>ہفتے وہ اپنی
بچپن کی شرارتوں کے قصے ایسے مزے سے سناتیں کہ ہنستے ہنستے ہم سب کے پیٹ میں بل
پڑھ جاتے۔<span class="apple-converted-space"> </span><br /><br />
<!--[endif]--></span><span lang="AR-SA"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span class="apple-converted-space"> </span>غالباً یہ <span class="apple-converted-space"> </span>1959کا ذکر ہے۔ ان کے ابو کی پوسٹنگ
ایبٹ آباد میں تھی۔یہ <span class="apple-converted-space"> </span>پانچ
سال کے تھے، <span class="apple-converted-space"> </span>آپا سات سال کی،
امین <span class="apple-converted-space"> </span>چار سال اور سعیدہ ایک
سال،یہ ”پکی“ جماعت میں تھے اور آپا دوسری جماعت میں تھیں۔ سکول کا نام
"گورنمنٹ برکی پرائمری سکول" تھا۔ جو ان کے گھر سے سو گز کے فاصلے پر
تھا۔ آپا بچپن سے بہت ذھین اور پڑھائی میں تیز تھیں۔ تین چار دن بعد، ان کی امی نے
مرغی پکائی،غالباً مہمان آئے تھی، مرغی کے پروں کو مکئی کے خالی بھٹے میں لگا کر
آپا نے کھلونا بنایا جسے اوپر پھینکیں تو آرام سے گھومتا ہوا نیچے آتا تھا۔ کھیل
کھیلتے ہوئے ان کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر میں یہ پر باندھ لوں تو کیا میں بھی
پری کی طرح اڑ <span class="apple-converted-space"> </span>سکوں گا۔
انہوں نے آپا سے پوچھا آپا نے کہاہاں بالکل اڑ سکتے ہو۔ آپا نے ان کے دونوں کندھوں
پر، مرغی کے چھ چھ پرلگا دئے۔ اب کہاں سے اُڑا جائے؟ گھر کے نزیک بہنے والے
پختہ برساتی نالی جو دو فٹ چوڑی <span class="apple-converted-space"> </span>اور <span class="apple-converted-space"> </span>اتنی ہی گہری تھی (جو میں نے بعد میں
جون 1999) میں نعیم نے ہمیں دکھائی) <span class="apple-converted-space"> </span>یہ
چھلانگ لگا کر اسے پار کر جاتے تھے۔چنانچہ اس کے اوپر سے چھلانگ لگا کر اڑنے کا
فیصلہ کیا گیا طے یہ پایا کہ پہلے یہ اڑیں گے اور پھر آپا۔دونوں بہن بھائی
نے <span class="apple-converted-space"> </span>نالی کے ایک طرف اینٹوں
سے ایک فٹ اونچا <span class="apple-converted-space"> </span>تھڑا بنایا۔
یہ پیچھے سے دوڑتے آئے، تھڑے پر پاؤں رکھا فضا میں بلند ہونے کی کوشش کی اور تھڑے
کی ایک اینٹ پھسل جانے سے یہ نالی میں جاگرے اور بے ہوش ہو گئے۔ آپا نے زور زور سے
رونا شروع کیا ان کی امی اور پڑوسن گلزار خالہ دوڑتی ہوئی آئیں اور انہیں ہسپتال
لے جایا گیا۔گلزار خالہ کو جب معلوم ہوا کہ یہ نجمی کی شرارت تھی تو انہوں ان کی
خوب دھنائی کی۔ اس دن کے بعد محلے والے بچے انہیں ”نعیم پری“ کے نام سے
چھیڑتے۔ <span class="apple-converted-space"> </span>اور ان پر ایک گانا
بھی بنا لیا تھا۔</span><span lang="AR-SA"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">” نعیم پری آنا۔ پر لگا کر اُڑجانا۔ نالے میں گرجانا۔شور نہ مچانا۔
نعیم پری آنا “ <span class="apple-converted-space"> </span><br /><br />
<!--[endif]--></span><span lang="AR-SA"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span class="apple-converted-space"> </span>گلزار خالہ، ان کی زندگی کی ایک اہم
شخصیت ہیں، ان کے شوہر کا نام اقبال صاحب تھا اور یہ چواء سیدن شاہ <span class="apple-converted-space"> </span>چکوال میں سخی سیدن شاہ کے شمال میں
واقع <span class="apple-converted-space"> </span>محلے کے رہنے والے تھے۔
ان کی شادی کو چھ سال ہو گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا
تھا، <span class="apple-converted-space"> </span>جب نعیم کی پیدائش ہوئی
تو یہ دونوں گھرانے لاہور میں تھے۔ نعیم کی پیدائش پر ان کی امی بہت بیمار ہوگئیں،
ان کا سسرال میرپورخاص میں تھا۔ دادی آ نہیں سکتیں تھیں چنانچہ گلزار خالہ نے
انہیں پالا، <span class="apple-converted-space"> </span>ان کے والد کی
پوسٹنگ ایبٹ آباد ہو گئی، ان دو نوں وہ میڈیکل کورمیں نائب صوبیدار تھے یہ
لوگ <span class="apple-converted-space"> </span>یہاں آگئے تو یہ گلزار
خالہ کی جدائی میں بہت بیمارہوگئے پھر نائب صوبیدار اقبال صاحب کی پوسٹنگ بھی چھ
مہینے بعد ایبٹ آباد ہو گئی اور اتفاق سے پڑوس میں گھر مل گیا تو یہ پھر زیادہ تر
گلزار خالہ کے ہاں ہی رہتے اور وہ اپنے بیٹے کی طرح اس کا خیال رکھتیں۔ بلکہ یہ
انہیں اپنے ساتھ اپنے گاؤں دو مہینے کی چھٹیوں پر بھی لے کر گئیں تھیں۔ جہاں سے
نعیم خالص پنجابی لہجہ لے کر آئے تھے اور گلزار خالہ کے ساتھ اپنی توتلی زبان میں
پنجابی بولتے تھے۔اب تو جب میں بھی کراچی جاتی ہوں یا کراچی والے رشتہ دار آتے ہیں
وہ یہی کہتے ہیں کہ گل بھی پنجابی ہو گئی ہے اور ہمیں ان کے لہجے عجیب لگتے ہیں۔<br /><br />
<!--[endif]--></span><span lang="AR-SA"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span class="apple-converted-space"> </span>دوسرے دن میں ان کو خط لکھنے بیٹھی اب
سمجھ نہ آئے کہ کہاں سے شروع کروں اور کیا لکھوں۔پھر خیال آیا کہ ان کے جانے کے
بعد واقعات لکھنا شروع کروں۔ خط بھی لکھا جائے گا اور انہیں بھی معلومات رہے گی۔
اب ان کے ابو کہیں جلدی خط لکھ کر دو پوسٹ بھی کرنا ہے کیوں کہ لفافے میں انہوں نے
بھی رقعہ ڈالنا تھا اور میر خط ختم ہی نہ ہو، اپنے سکول اور کالج میں تقریریں اور
امتحان میں مضامین لکھنے کی جو مہارت تھی وہ <span class="apple-converted-space"> </span>خط میں سموئی نہیں جارہی تھی۔بہرحال تین
صفحے پر مشتمل ڈائری نامہ لکھ کر اپنے سسرکے حوالے کیا، انہوں نے میری ساس کو
دکھایا۔ خط پوسٹ ہونے کے بعد ساس نے سمجھایا کہ بہو خط میں روزانہ کی کہانی نہیں
لکھی جاتی۔<span class="apple-converted-space"> </span><br /><br />
<!--[endif]--></span><span lang="AR-SA"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span class="apple-converted-space"> </span>16نومبر کو جمعہ تھا اور اس دن صبح دس
بجے سے بارہ بجے تک ان کے ہاں قرآن کا درس ہوتا جو ان کی امی دیتیں تھیں، پچھلے
جمعے میں اپنے میکے تھی لہذا اب ساری ذمہ داری مجھ پر سونپی گئی کیونکہ بانو کو
چند دنوں میں خوشخبری ملنے والی تھی۔ لہذا وہ بستر پر لیٹ گئی۔ کوئی پچیس ،تیس کے
قریب عورتیں اور بچیاں آئیں، درس قرآن کے بعد، مجھ سے نعت کی فرمائش کی گئی۔ میں
نے حمد اور دو نعتیں سنائیں۔ سب نے ان کی امی کو مبارکباد دی کہ بہت اچھی بہو ملی
ھے۔ میں بھی خوش <span class="apple-converted-space"> </span>اب میری
ڈیوٹی بچوں کو ترنم سے نعت سنانے کی لگ گئی۔<span class="apple-converted-space"> </span><br />
<br />
<!--[if !supportLineBreakNewLine]--><br />
<!--[endif]--></span><span lang="AR-SA"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span class="apple-converted-space"> </span>22 نومبر کو بانوکے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔
فائزہ صدف نام رکھا، ان کے خاندان میں بیٹوں سے یہ پہلی بچی تھی، خوشی منائی گئی
محلے میں جانے والوں کے مٹھائی بھجوائی گئی۔ میں چونکہ اپنے بھتیجے اور بھتیجیوں
کو سنبھال چکی تھی لہذا مجھے بھی بچی کو سنبھالنے میں دشواری نہیں ہوئی۔ غالباً
دسمبر کا پہلا ہفتہ تھا۔ فردوس آئی اور اس نے خوشخبری سنائی کہ اس اتوار کو
نورجہاں فلم لگ رہی ھے ہم سب دو پہر کا شو دیکھنے جا رہے ہیں۔ چھوٹے بھائی نے
ایڈوانس بکنگ کروا لی ہے۔بھابی نے کہا ہے کہ آپ بھی آجائیں۔ میں نے انکار کر دیا،
میری بہن بہت حیران ہوئی۔ ان کی امی سے اجازت لی انہوں نے کہا، گل کی مرضی۔ہفتے کو
میں امی کے گھر گئی سب نے بہت زور لگایا مگر میں نے انکار کردیا۔ میں نے واپس شام
تک اپنے سسرال جانا تھا۔ لیکن میں دس بجے واپس آگئی۔ ان کی امی نے کہا کے تم فلم
دیکھنے نہیں جارہی۔میں نے کہا نہیں۔ ان کی امی بھی حیران ہوئیں کہ میں نے کیسے
انکار کر دیا۔ حالانکہ مہینے میں کم از کم ایک دفعہ ہم سب فلم دیکھنے سینما ضرور
جاتے تھے اور یہ بات میری ساس کو معلوم تھی۔ دراصل، نعیم نے مجھے منع کر دیا تھا۔
نعیم غالبا 1978 فروری میں رنگین ٹی وی، پشاور سے خرید کر لائے تھے۔ تاکہ ان کے
چھوٹے دونوں بھائی باہر جا کر ٹی وی نہ دیکھیں۔ <span class="apple-converted-space"> </span>اس کے لئے انہوں نے بڑی مشکل سے اپنے
ابو کو منایا تھا۔ پھر ان کی والدہ اور بہنیں جب ہمارے ہاں میری منگنی کے بعد آتیں
تو ڈرامہ لازمی دیکھ کر جاتیں۔ لیکن یہ سینما فلم دیکھنے کبھی نہیں گئیں۔ <span class="apple-converted-space"> </span><br /><br />
<!--[endif]--></span><span lang="AR-SA"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span class="apple-converted-space"> </span>وقت جلدی سے گذرنے لگا اور 1980آگیا،
تین جنوری کو یہ ایک مہینے کی چھٹی پر اچانک آگئے۔ حالانکہ چند دن پہلے ان کا خط
ملا انہوں نے اس میں ذکر تک نہیں کیا۔ سب اس اچانک سرپرائز پر خوش ہو گئے۔ میں نے
پوچھا کہ کیاآپ کو خط لکھنے کا وقت نہیں ملتا جو آپ ایک صفحے کا مشکل سے سادہ خط
لکھتے ھیں۔ تب معلوم ہوا کہ جس علاقے میں یہ ہیں وہاں سے خط آرمی پوسٹ آفس کے
ذریعے جاتے ہیں اور وہ ہر خط کو نہیں بلکہ کچھ خطوں کو کھول کر سنسر کرتے ہیں۔
لہذا سادہ خط لکھنا ان کی مجبوری ہے۔ <span class="apple-converted-space"> </span>میرپورخاص
میں دو تین دن رہنے کے بعد <span class="apple-converted-space"> </span>انہوں
نے پروگرام بنایا کہ، کراچی جاکر میرے اور ان کے رشتہ داروں سے ملنا ہے۔ گویا یہ
ایک قسم کا ہنی مون ٹرپ تھا۔</span><span lang="AR-SA"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<br />
<div style="text-indent: 0px;">
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></span></div>
<div style="text-indent: 0px;">
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: #666666; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;">فوجی کی بیوی -6 - زیرِطباعت</span></div>
<div style="text-indent: 0px;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/10/5.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 5</a></div>
<div style="text-indent: 0px;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/02/4.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 4</a></div>
<div style="text-indent: 0px;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/3.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 3</a></div>
<div style="text-indent: 0px;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/2.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 2</a><span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/1.html" style="color: blue; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 1</a></span></div>
<h3 class="post-title entry-title" dir="ltr" style="background-color: #f3f3f3; color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: 30px; font-stretch: normal; font-weight: normal; margin: 0px; position: relative; text-align: left; text-indent: 0px;">
ہونہار بِروا - 1</h3>
</div>
</div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-79374069946139115892014-02-19T12:54:00.000-08:002015-07-04T12:23:37.002-07:00ہونہار بِروا - 3<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 13.5pt; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;"> </span></span><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi0dDtQdbRmD4WiASVl2kWjgwRDUFXKhgi3mUz0Hp-IMiAeJjKJ5VyKSfg4kxnQZZvK7RLjTA9pwc7jz_0iQvJHhhCqE9ktYh8tMo-F1_epHO2cftnMEkmnMaOWbxovGI1YLBVXC5RoOsI/s1600/008-Hunihaar+Birwa-003.jpg" imageanchor="1" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 20pt; margin-left: 1em; margin-right: 1em; text-align: center;"><img border="0" height="110" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi0dDtQdbRmD4WiASVl2kWjgwRDUFXKhgi3mUz0Hp-IMiAeJjKJ5VyKSfg4kxnQZZvK7RLjTA9pwc7jz_0iQvJHhhCqE9ktYh8tMo-F1_epHO2cftnMEkmnMaOWbxovGI1YLBVXC5RoOsI/s1600/008-Hunihaar+Birwa-003.jpg" width="320" /></a></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: 13.5pt; margin-left: 0in; margin-right: 0in; margin-top: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;"> </span></span><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 20pt;">غالباً، جون 1999کا ذکر ہے۔ ہمارے سکول میں چھٹیوں میں کرنے
کے لئے بچوں کو مختلف کام ملے۔ جونئیر سیکشن میں، میں نے ہر بچے کو اپنے
اپنے علاقے میں چھٹیوں کے دوران، دستکاریوں، تاریخی عمارتوں، یادگاروں، پرانی
تہذیبوں، کاشتکاری، ڈیم، دریا، تفریح گاہوں، جانوروں، پرندوں، حشرات الارض اوردیگر
اشیاء کے بارے میں معلومات، تصویریں اور نمونے وغیرہ لانے اور ان کے بارے میں کلاس
میں دو منٹ کا معلوماتی لیکچر دینے کا چھٹیوں کے بعد رکھا۔ چونکہ یہ کام
بچوں کو پہلی دفعہ ملا تھا لہذا ان کا شوق دیدنی تھا۔ اب چونکہ بہت سے بچے فوٹو
گرافی افورڈ نہیں کر سکتے تھے لہذا انہیں پرانی کتابوں سے یا خود ڈرائینگ کر کے
تصویر لگانے کی اجازت دے دی۔ عروضہ آٹھویں میں تھی، اسے دس حشرات الارض جمع
کرنے کا کام ملا۔</span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 13.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;"> </span></span><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;">بچوں کی سکول کی چھٹیوں میں ہر سال کوئٹہ سے کراچی، حیدر آباد،
میرپورخاص، نواب شاہ، مورو، سکھر اور واپس کوئٹہ اپنی گاڑی پر تمام رشتہ داروں سے
ملتے، مہینے کی چھٹیاں، جنوری میں گذار کر واپس کوئٹہ آجاتے، میرپورخاص میرا اور
نعیم کا آبائی شہر ہے میں نے ابن رشد گرلز کالج سے 1978میں گریجویشن کی، 1977میں
میری منگنی نعیم سے ہوئی یہ میرے بھائی کے دوست تھے، ہم بہنوں نے ان کا نام لمبے
کانوں والا فوجی رکھا تھا۔ یہ بڑی مزیدار داستان ہے۔ موقع ملا تو آپ کو ”فوجی کی
بیوی“ میں ضرور سناؤں گی۔ ”ہونہار بروا“ دراصل میرے چاروں بچوں کی
داستان ہے۔ ابتداء میں نے آخری بیٹی عروضہ سے کی ہے۔کیوں کہ ان تینوں میں سب سے
ذہین اور محنتی عروضہ، سائر ہ ذہین ہے، ارسلان صرف محنتی ہے اور ارمغان کی صرف
یاداشت بہت تیز ہے ایک رات پہلے پڑھا ہوا سبق وہ فل سٹاپ اور کامے تک
لکھ سکتا ہے۔ <o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 13.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;"> </span></span><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;">نعیم کی پوسٹنگ حیدرآباد سے کوئٹہ ستمبر 1991میں ہوئی، درمیان میں
نعیم ڈیڑھ سال کے لئے سیاچین پوسٹ ہوئے۔ لیکن ہم لوگ کوئٹہ ہی میں رہے۔
سیاچین کے بعد نعیم نے اپنی پوسٹنگ واپس کوئٹہ کروا لی۔ کوئٹہ ایسی جگہ ہے جہاں
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے افسر یا جوان کے علاوہ کوئی پوسٹ ہونا نہیں چاہتا اور
فوج کی پالیسی کے مطابق، کوئٹہ کے رہنے والے کو ئٹہ صرف دو سال کے لئے یا پھر
</span><span dir="LTR" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;">Compassionate Ground</span><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;">پر ہی پوسٹ کیا
جاسکتا ہے۔ نعیم کا تعلق کوئٹہ سے اس طرح تھا کی ان کے والد فوج میں تھے۔ یہ
غالباً پانچویں جماعت سے نویں تک کوئٹہ میں رہے۔ دسویں کا امتحان انہوں نے
میرپورخاص سے دیا۔ لہذا کوئٹہ ان کے لئے دوسرا گھر سمجھیں۔ کوئٹہ سے
ہم لوگ اٹک آئے تو گرمیوں کی چھٹیوں میں میرپوخاص جانا جوئے شیر لانے سے کم نہ
تھا۔چنانچہ ہم، مری نتھیا گلی، ایبٹ آباد گھومنے پھرنے جاتے۔<o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 13.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;"> </span></span><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;">لہذا جولائی میں ہم اپنے ٹور پر نکلے، موٹر وے ان دنوں نئی نئی
بنی تھی ہم نے غلطی سے گاڑی موٹر وے پر موڑ دی۔ پنڈی سے لاہور تک کا سفر ایک تھکا
دینے والا سفر تھا جو بالکل کراچی سے کوئٹہ کے سفر سے ملتا جلتا تھا۔پوری سڑک
پر صرف ہم نہ کوئی آدم نہ آدم زاد، کہیں کہیں راستے میں سڑک پر کام کرنے والے لوگ
یا اوور ٹیک کرتی ہوئی اکا دکا گاڑیاں نظر آتیں، اس سے کہیں بدرجہا بہتر، جی ٹی روڈ کا سفر
تھا۔ بہرحال کلر کہار کے پاس ہمیں ایک کھچوا سڑک پار کرتا نظر آیا۔ عروضہ نے
دیکھا تو شور مچا دیا کی ایک </span><span dir="LTR" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;">Living Thing</span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span> مل گئی نعیم نے گاڑی روک کر کچھوا پکڑا، عروضہ کی ضد کہ کچھوا
پسنجر سیٹ کی پیروں کی جگہ میں رکھا جائے جہاں میں بیٹھی، مجھے کچھوے سے ڈر بھی
لگتا اور گھن بھی آتی۔ بہرحال طے پایا کہ کچھوا ہم واپس چھوڑ دیں یا ڈکی میں
رکھیں اور واپسی پر پھر کوئی نہ کوئی کچھوا مل جائے گا ہم لے لیں گے۔ عروضہ رسک
لینے پر تیار نہ تھی، چنانچہ وہ کچھوا ڈکی میں رکھنے پر تیار ہو گئی۔ ڈکی میں
موجود سامان کو ایک طرف کھسکایا۔ کچھوے کو پانی اور بلحاظ حجم کچھوا دو دن
کے راشن کے ساتھ رکھ دیا۔ اور ہم چل پڑے۔کچھوا ڈکی میں کیا رکھا کہ ہماری مصیبت
آگئی ہر پچاس کلو میٹر کے بعد کچھوے کو دیکھا جاتا کہ وہ زندہ ہے کھانا کھا رہا
ہے، پانی پی لیا ہے۔ جہاں راستے میں ہم ریسٹ کرتے کچھوے کو زمین پر چھوڑا جاتا
تاکہ وہ ہماری طرح ٹہل کر اپنی ٹانگیں سیدھی کر لے۔ خدا خدا کر کے ہم نعیم
کے چچا کے گھرلاہور پہنچے وہاں کچھوے کو صحن میں چھوڑا۔ تو مرغوں نے کچھوے کو دشمن
سمجھ کر اس پر حملہ کر دیا اور ٹھونگیں مارنی شروع کر دیں۔ اب عروضہ کو سمجھ نہ
آئے وہ کیا کرے آخرکار کچھوے کو ٹوکرے میں ڈھک کر اس پراینٹ رکھ دی۔ تو مرغیوں نے
ٹوکرے کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔وہ حیران ہو کر ٹوکرے کو ٹھونگیں مارتیں کہ اُن کے
میٹرنٹی ہوم میں یہ کون مردوا گھسا ہوا ہے۔<o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 13.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;"> </span></span><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;">لاہور میں ہم 1988میں سال رہے پھر دسمبر میں نعیم کی والدہ
کی وفات پر نعیم نے اپنی پوسٹنگ گھر کے نزدیک حیدرآباد کروا لی۔ لاہور میں
گھومنے کی بے شمار جگہیں ہیں۔ طے یہ پایا کے رشتہ داروں اور پرانے دوستوں کو ملنے
کے علاوہ چڑیا گھر اور واپسی میں جی ٹی روڈ سے واپس جاتے ہوئے۔
بادشاہی مسجد اور یادگار پاکستان دیکھیں گے۔چڑیا گھر میں عروضہ کا واحد بچپن
پسندیدہ جانور ”ہاتھی“ ہے۔ کوئیٹہ پوسٹنگ کے وقت ہم کراچی سے بذریعہ کارگئے تھے تو
کراچی چڑیا گھر میں۔ ایک ہاتھی کے چھوٹے بچے نے عروضہ سے لے کر پاپ کارن کھائے۔ تب
سے ہاتھی عروضہ کا پسندیدہ جانور ہو گیا۔ کوئٹہ پہنچ کر عروضہ نے ضد شروع
کردی کہ اسے ہاتھی کا بچہ ”ٹم ٹم“ چاہیئے۔ <o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 13.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;"> </span></span><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;">”ٹم ٹم“ عروضہ کا بچپن سے دوست ہے۔ جب وہ ڈیڑھ سال کی تھی تو نعیم
نے اسے باقی بچوں کی طرح کہانیا ں سنانی شروع کر دیں۔ جس کا اہم کردار،
ہاتھی ’کا بچہ ’ٹم ٹم“ تھا جس پر بیٹھ کر عروضہ جنگل کے دوسرے سرے پر
اپنی دوست سے ملنے جاتی، کہانی کہانی میں نعیم، نظمیں، گنتی اور حساب
سکھاتے،اس طرح بچوں کی تربیت بھی ہوتی اور وہ تعلیم بھی حاصل کرتے۔ آج کل
نعیم اپنی نواسی کو اسی کہانی کا ری پلے ماڈرن انگلش نرسری رہائم، میتھ وغیرہ کے
ساتھ سنا رہے ہیں۔ بہرحال کراچی کے ”ٹم ٹم“ نے عروضہ کو باقی جانوروں
کے ساتھ، ”ٹم ٹم“ رکھنے کی خواہش بیدار کر دی۔ دونوں باپ بیٹی نے
1991ستمبر میں فیصلہ کیا کہ عروضہ جتنے پیسے جمع کرے گی اُتنے اُس میں نعیم
اور میں ملائیں گے اور پھر ہاتھی کا بچہ خریدیں گے جو نیا نیا پیدا ہوا
افریقہ سے چھ ہزار کا ملے گا یا نعیم کے کلاس فیلو اشرف انکل جو افریقہ میں
ہیں جنگل سے پکڑ لیں گے۔ لائسنس کی فیس، گورنمنٹ کی اجازت اور بحری جہازکا افریقہ
سے کراچی تک کا کرایہ۔کراچی سے کوئٹہ تک کا ٹرک کا کرایہ، ہاتھی کی رہائش کا کمرہ
وغیرہ کے اخراجات اُس وقت حساب لگائیں گے۔<span class="apple-converted-space"> </span><br />
<br />
چنانچہ عروضہ نے بازار سے سب سے بڑی گلک خریدی اور بچت شروع ہو گئی۔ جتنے
پیسے وہ ملاتی اتنے نعیم اور مجھے بھی ملانے پڑتے۔ عید ی۔ امتحان پاس ہونے پر
نقدی۔ آنے والے مہمانوں کی طرف سے دئیے جانی والی رقوم سب اُس گلک کی نذر ہونے
لگیں۔ روزانہ حساب بنایا جانے لگا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان اپنی
والدہ کی یاد میں کینسر ہسپتال بنانے کوئٹہ آیا آرمی پبلک سکول سٹاف کالج
بھی آنا تھا مگر وقت کی کمی کے باعث غالباً نہیں آیا تمام بچوں نے
اپنی بچت ہسپتال کو دی عروضہ نے بھی اپنی پوری گلک ہسپتال کی نذر کر دی۔ گلگ
توڑنے لگے تو عروضہ نے کہا ایسے ہی بھجوا دیں توڑیں نہیں اور ایک کاغذپر لکھے مکمل
حساب کے ساتھ کہ کس کس نے اس میں ہاتھی کا بچہ ”ٹم ٹم“ خریدنے کے لئے
گلک میں رقم ڈالی ہے جو غالباً ڈیڑھ سال میں 2,753/-روپے بن چکی تھی۔ عمران خان نے
اپنی ماں کی یادگار بنانے کے لئے اپنی تمام جمع پونجی زمین خریدنے اور عمارت کا
سٹرکچر بنوانے میں لگا دی۔ صدقہ، فطرات، نذر و نیاز مسلمانوں نے دئیے اور ڈونیشن
غیر مسلم سے ہسپتال تعمیر ہوا۔ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ عمران خان نے پہاڑی پر ہزاروں
کنال کا بنی گالہ میں محل بنانے کے لئے رقم کہاں سے لی؟ <o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;"> </span></span><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;">لاہور
میں گھومنے کے بعد بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ اوریادگار پاکستان گھومنے کے بعد ہم دو
بجے گجرانوالہ پہنچے جہاں نعیم کی ایک یونٹ تھی جس میں انہوں نے سروس کی تھی۔ یونٹ
آفیسر نے میس میں ہمارے رہنے کا انتظام کیا۔ نعیم اور ان کے دوست گالف کھیلنے چلے
گئے ہم سب ان کے دوست کے ہاں پانچ بجے چائے پر گئے۔ مغرب کے وقت واپس آئے تو ہمارے
گیسٹ روم کے باہر لوگوں کا رش پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک خوفناک سانپ ہمارے
کمرے میں گھس گیا ہے۔ روم اٹینڈنٹ نے درواز بند کر دیا ہے اور کسی کو اندر نہیں
جانے دے رہا، سانپ مارنے والی پارٹی بھی کھڑی ہے۔ سانپ کا سن کر عروضہ ہائپر ہو
گئی کہ میں پکڑتی ہوں۔ پارٹی انچارج اسے خوفزدہ کرے کہ بیٹی بہت خوفناک سانپ
ہے۔ اندر مت جائیں۔ تھوڑی دیر بعد نعیم آگئے۔ انہوں نے سانپ پکڑنے والی پارٹی
کودیکھا اور پو چھا ”چاند پر جانے کا ارادہ ہے“ نائب صوبیدار انچارج نے جواب
دیا،”نہیں سر، یہ سنیک کلنگ پارٹی ہے“۔ نعیم نے انچارج کے ہاتھ سے چار
فٹ کی چھڑی لی اور عروضہ کے ساتھ، گیسٹ روم میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد عروضہ
سانپ ہاتھ میں پکڑ کر نکلی،<span class="apple-converted-space"> </span><br />
<br />
پارٹی انچارج اور باقی لوگ حیران رہ گئے۔ پارٹی انچارج بار بار کہے سانپ کو
نیچے ڈال دیں اسے مارنا ہے۔ نعیم نے سمجھایا کہ اس کے دانت نکال دئے ہیں اب یہ تین
مہینے تک کے لئے صرف کھیلنے والا سانپ ہے۔ یہ ایک پانچ فٹ لمبا کوبرا سانپ تھا۔
عروضہ کی خوشی کے مارے برا حال کہ ایک اور </span><span dir="LTR" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;">Living Thing</span><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;">مل گئی جو سب سے اہم ہے۔ نعیم نے وہاں سانپ پکڑنے والی پارٹی
کو بغیر مارے سانپ پکڑنا سکھایا انہوں نے کہاں سے سیکھا یہ الگ داستان میں
سنئے گا۔ دوسرے دن یونٹ سے ایک چھوٹا سا بکس بن کر آگیا جس کے اوپر ہوا کے
سوراخ تھے۔ یہ ”وائیکنگ“ کوبرا کا گھر تھا، اس نے ہمارے ساتھ اٹک جانا
تھا۔ <o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 13.5pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;"> </span></span><span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;">گجرانوالہ سے ہم جہلم آئے جہاں نعیم کی لوکیٹنگ بیٹری تھی جس
کو نعیم نے سیاچین کے بعد کوئٹہ میں کمانڈ کیا تھا۔ یہاں ہم دو دن رہے۔ کیونکہ
نعیم جہلم میں 1980سے 1983تک رہے۔ یہاں ان کے کافی سویلین دوست بھی تھے اور گالف
گراونڈ بھی۔ یہاں ہم اپنے پرانے گھر بھی گئے۔جہاں نعیم کی موٹر سائیکل چوری ہوئی
تھی۔ سائرہ کو وہ واقعہ فوراً یاد آگیا۔ گھر میں انفنٹری کے ایک میجر صاحب رہ رہے
تھے انہوں نے ہمیں چائے پلائی۔ سائرہ نے موٹر سایکل چوری ہونے کی پوری روئیداد ان
کو سنائی۔ سائرہ ان دنوں ڈھائی سال کی تھی۔ ہم اُس کی یاداشت پر حیران رہ گئے۔
میجر صاحب کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے ایک بیٹی سات سال اور بیٹا چار سال دونوں نے
بڑے مزے سے یہ واقعہ سنا جب سائرہ واقع سنا چکی تو بیٹا کہنے لگا باجی اور کہانی
سنائیں۔ ہم سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔<o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #0070c0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 20.0pt;">جہلم سے ہم لوگ منگلا کینٹ گئے۔ یہاں نعیم کی وہ یونٹ تھی جس میں
وہ حیدر آباد میں سیکنڈ ان کمانڈ رہے۔ یہاں ہم نے منگلا ڈیم اور دیگر تفریحی
مقامات دیکھے۔ بچوں کا سب سے پسندیدہ مقام سوئمنگ پول تھا۔ لیکن ایک بات وہ یہ کہ
بچے اپنی چھٹیوں کا کام ساتھ ساتھ کرنے کے علاوہ مضمون ”میں نے چھٹیا ں کیسے
گذاریں“ وہ بھی روزانہ کے حساب سے لکھ رہے تھے۔ نعیم کی ہدایات تھیں کہ جب بھی ہم
گھومنے کے لئے اپنے شہر سے باہر جائیں گے بچے اس پر مضمون لازماً لکھیں گے، جس پر
دو اچھے مضمونوں، کم غلطیاں،اہم واقعات اور خوبصورت جملوں پر الگ الگ انعام ملتا
یہ اور بات کہ چاروں بچے کوئی نہ کوئی انعام حاصل کر لیتے۔ کھیل کھیل میں
تعلیم اور بچوں کی نفسیات نعیم کا پسندیدہ موضوع ہے لیکن وہ مغربی نفسیات سے
زیادہ متاثر نہیں۔ اُن کے خیال میں دس بہترین باتوں سے سمجھانے کے بجائے ، ایک جوتا یا
تھپڑ بچے کو زیادہ سمجھ دلاتا ہے۔ ”کھلاؤ سونے کا نوالہ اور نقصان دہ شرارت
پر دیکھو شیر کی نظر سے“ جس سے میں متفق کبھی نہیں رہی لیکن کیا کروں میری
واحد مجبوری، بیوی ہونا ہے۔<br /><br />اب نعیم کی نواسی نے ، نعیم کو لوہے کے چنے چبوائے ہوئے ہیں اور میں سوچتی ہوں کہ باپ اور نانا میں کتنا فرق ہوتا ہے ۔ <o:p></o:p></span><br />
<br />
<div>
<span style="background-color: white; color: #073763; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21.3333339691162px; line-height: 20px; text-align: -webkit-center;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span><span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: #999999; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/3.html" style="font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -7</a> - زیرِطباعت</span></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2015/04/6.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -6</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2015/04/5.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -5</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/03/4.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -4</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/02/3.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -3</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/01/2.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -2</a></div>
<div>
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/01/1.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -1</a></div>
<div dir="ltr" style="text-align: left;">
<span style="background-color: white; color: #073763; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21.3333339691162px; line-height: 20px; text-align: -webkit-center;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></div>
<div style="text-align: left;">
<span style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/1.html" style="color: blue; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 1</a></span><br />
<div>
<br /></div>
</div>
</div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-81517998290709446702014-01-07T11:45:00.002-08:002015-07-04T12:23:07.672-07:00ہونہار بِروا - 2<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" dir="rtl" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjHUTyMi8P53cyDlEbLqUvEDWnhgxvj0xtitcelmFsG8sSLNstqmlQBAHLu8BS0TZUdnADO4nc3Y2OOeQiBPhJd6UNmFIkxxOdA29yBy5nQO2o3vCC9yjE_-Rrvr53tfpPIyvqvN0XK9rM/s1600/007-Hunihaar+Birwa-002.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><span style="color: #073763;"><img border="0" height="109" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjHUTyMi8P53cyDlEbLqUvEDWnhgxvj0xtitcelmFsG8sSLNstqmlQBAHLu8BS0TZUdnADO4nc3Y2OOeQiBPhJd6UNmFIkxxOdA29yBy5nQO2o3vCC9yjE_-Rrvr53tfpPIyvqvN0XK9rM/s1600/007-Hunihaar+Birwa-002.jpg" width="320" /></span></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><span style="color: #073763;"><br /></span></span></div>
<div dir="rtl" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #134f5c; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;">پانچویں کلاس کے بچوں سے تقریری مقابلہ
شروع ہوا۔موافق میں پہلی تقریر ارمغان نے کی اور مخالفت بل میں ارسلان۔باقی بچے
بھی ترتیب سے آتے رہے۔ اب تک ارمغان اور ارسلان پہلی پوزیشن پر جارہے تھے۔ آخرکار
کلاس ون کی عروضہ نعیم کا نام پکارا گیا۔ عروضہ پردے کے پیچھے سے سٹیج پر آئی۔ڈائس
کے سامنے آکر جھک کر سب کو سلام کیا۔نعیم پرنظر پڑی تو سکھائے ہوئے سبق کوبھول کر
ہنس کر نعیم کو ہاتھ ہلا کے خوشی کا اظہار کیا اور ڈائس کے پیچھے رکھی ہوئی کرسی
پرکھڑی ہو کراپنے مخصوص سٹائل سے تقریر شروع کی۔ مجھے <span class="apple-converted-space"> </span>نہ صرف اس کی تقریر زبانی یاد تھی بلکہ
اُس کا ایک ایک ایکشن بھی۔ تقریر کے خاتمے پر اُس نے شعر پڑھا <span class="apple-converted-space"> </span>اورتالیوں کی گونج نے بتایا کی عروضہ نے
معرکہ مار لیا ہے، یو ں وہ اپنے بھائی <span class="apple-converted-space"> </span>ارمغان
کو شکست دے کر پہلی پوزیشن حاصل کر چکی تھی۔کلاس ون سے لے کر کلاس تھری تک اُس نے
اردو اور انگلش تقریری مقابلوں لگاتار پہلی پوزیشن لے کر ہیٹ ٹرک مکمل کی اوراس پر
کلاس ففتھ تک اردو اور انگلش تقریری مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی لگ گئی۔کلاس
فورتھ میں اُس نے۔ حمد اور نعت کے مقابلے میں حصہ لیا۔وہاں ہمیں معلوم ہوا کہ چڑیا
کی طرح چہکنے والی، کوئل کی طرح کوک بھی سکتی ہے۔حمد، نعت اور غزل کے مقابلوں میں
بھی وہ پہلی اور دوسری پوزیشن پر رہی۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;"> <span class="apple-converted-space"> </span>کوئٹہ میں سردیوں میں غضب کی سردی پڑتی
ہے اور بچوں کو سردی سے بچاؤ کے لئے بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے لیکن جب برف باری
ہوتی ہے تو بچے ساری احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اُس وقت تک برف میں کھیلتے
رہتے ہیں جب تک وہ گیلے نہ ہوجائیں، نتیجتاً، کھانسی اور بخار۔ چنانچہ 1991دسمبر
کی برف باری میں عروضہ بھی بیمار ہوگئی ڈاکٹر نے <span class="apple-converted-space"> </span>سینے کا ایکسرے تجویز کیا۔ میں نے اُسے
بتایا کہ کل آپ کا ایکسرے ہوگا اُس نے پوچھا کہایکسرے کیا ہوتا ہے میں نے اُسے
بتایا کہ ایکسرے میں سینے میں جو کچھ ہوتا ہے اُس کی تصویر آتی ہے اُس سے ڈاکٹر کو
اندازہ ہوجاتا ہے کہ بچہ کیوں بیمار ہوا ہے۔عروضہ،”لیکن ماما اُس میں تو آپ کی
تصویر آئے گی“ میں نے پوچھا،”کیوں میری تصویر کیوں آئے گی“۔ ”ماما اِس لئے کہ میرے
دل میں آپ رہتی ہیں“ عروضہ کے معصومانہ جواب پر مجھے اُس پر بے انتہا پیار آیا۔<u2:p></u2:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;"> <span class="apple-converted-space"> </span>سب
سے یادگار سال 1993تھا نعیم سال کے لئے اپنی یونٹ کے سیکنڈ اِن کمانڈ بن کر سیاچین
چلے گئے عروضہ کلاس تھری میں تھی تقریر کا اعلان ہو چکا تھا اب تقریر لکھ کر دینے
والا کوئی نہیں تھا۔ سیاچین بات کرنا بہت مشکل تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھاکہ
اچانک تقریر سے ہفتہ پہلے نعیم سے با ت ہو گئی میں نے انہیں تقریر کاعنوان<span class="apple-converted-space"> </span>”دولت انسانی اقدار کی قاتل ہے“<span class="apple-converted-space"> </span>یہ عروضہ اور ارمغان کے
لئے اور " عورتیں بہترین ٹیچر ہوتی ہیں " ارسلان اور
سائرہ کے لئے ، لکھوا دیا۔ نعیم نے فوراً دو موافقت میں اور دومخالفت میں
تقریر یں لکھیں۔اور اسی دن چھٹی جانے والوں کے ہاتھ اسے لفافے میں ڈال کر سکردو
بھجوایا۔ جہاں ایک ہفتے سے ان کی یونٹ کے آفیسر میجر پرویزچھٹی پر کوئٹہ آنے کے
لئے موسم صاف ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔جنھیں لفافہ صبح صبح صوبیدار محمداقبال او
سی رئیر نے دیا۔ میجر پرویز روزانہ کی طرح تیار ہو کر ائرپورٹ پر پہنچے۔ فضا میں
جہاز کی گونج سنائی دی۔<u2:p></u2:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;">
اچانک شمال کی جانب سے بادلوں میں ذرا سا رخنا پڑا اور وہاں سے ایک بوئینگ داخل ہو
کر سکردو ایر پورٹ اترا <span class="apple-converted-space"> </span>جس
پر ہفتے سے انتظار کرتے ہوئے خوش قسمت مسافر سوار ہوئے اور ساڑھے آٹھ بجے وہی جہاز
سکردو سے اڑ کر اسلام آباد ایرپورٹ پر اترا اور نو بجے اسلام آباد کوئیٹہ کی
فلائیٹ پر میجر پرویز نے بورڈنگ کارڈ لیا۔تین بجے میجر پرویز اپنی مسز اورتین سالہ
بیٹی کے ساتھ ہمارے ہاں آئے تقریر <span class="apple-converted-space"> </span>دینے
آئے اور لفافہ دیتے <span class="apple-converted-space"> </span>ہوئے
انہوں نے بچوں کو کہا کہ اگر آپ لوگوں نے پہلا انعام نہیں لیا تو میری ساری محنت
بے کار جائے گی تقریر کے دن وہ اپنی مسز کے ساتھ سکول آئے۔عروضہ کے لئے نعیم نے
خاص طور پر تقریر لکھی کیونکہ، اُس تقریر کے جیتے ہی اُس کی لگاتار پہلی پوزیشن
حاصل کرنے سے ہیٹ ٹرک مکمل ہو جاتی۔ تقریر کے خاتمے پر ا’س نے شعر پڑھا۔”باپ بڑا
نہ بھیّا،سب سے بڑا روپیّہ“ <span class="apple-converted-space"> </span>تالیوں
کے شور نے <span class="apple-converted-space"> </span>اُس کے جیتنے کا
اعلان کر دیا۔ چاروں بچوں نے پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کیں،اُن کے جیتنے کی سب
سے زیادہ خوشی میجر پرویز کو ہوئی۔ میجر پرویز کی مسز کا تعلق ہزارہ قوم سے تھا،
بہت نفیس خاتون اور کوئٹہ کی وکیل تھیں، <span class="apple-converted-space"> </span>یحییٰ
بختیار کی رشتہ دار تھیں یوں سمجھیں کہ زیبا بختیار کی کاپی تھیں ،پرنسپل <span class="apple-converted-space"> </span>بریگیڈئر (ر) <span class="apple-converted-space"> </span>چنگیزی، اُن کے انکل تھے چائے پر میجر
پرویز نے انہیں تقریر کے سفر کی کہانی سنائی کہ یہ تقریریں سیاچین سے آئی ہیں۔
پرنسپل نے عروضہ کو اپنی جیب سے سو روپے انعام دیا اور کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ
صرف ماں ہی بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دے تو بچے قابل نکلتے ہیں یہاں تو باپ بھی
بچوں کی تربیت کے لئے اُتنی ہی محنت کر رہا ہے۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><u2:p></u2:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;"> <span class="apple-converted-space"> </span> عروضہ کو ہر قسم کے جانوروں سے
بڑی محبت تھی۔اس کی غالباًبنیادی وجہ وہ کہانیاں تھیں جو <span class="apple-converted-space"> </span>نعیم اسے بچپن میں سناتے تھے۔اُس کی
خواہش کے مطابق کوئٹہ میں ہمارا گھر ایک چڑیا گھر تھا۔جس میں صرف ہاتھی کے بچے
ڈبّو کی کمی تھی ورنہ مرغیاں، بطخیں، تیتریاں، بلیاں، کتے،کچھوے اور مچھلیاں سب
موجود تھے اور یہ سب ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے بلی کی کیا مجال کہ وہ اس کے سامنے
دندناتے چوزوں کی طرف برُی آنکھ سے دیکھے۔چوزے مکھیوں کے پیچھے بھاگتے اور سوئی
ہوئی بلی کے اوپر سے چھلانگیں مارتے اور بلی ایک آنکھ کھول کر اپنے خواب ِ استراحت
میں خلل ڈالنے والے شر پسندوں کو دیکھتی اور پھر آنکھیں بند کر لیتی البتہ مکھیوں
کے اضافے سے چوزوں کے طوفانِ بدتمیزی میں اضافہ ہوجاتا تو وہ انگڑائیاں لیتی ہوئی
اٹھتی اور پلنگ کے نیچے جا گھستی۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;">ایک مخلوط النسل لیبریڈور کتے ّ”ایرک“اور بازار سے خریدے جانے والے
چوزوں کی نسل میں سے بچنے والے آخری چشم و چراغ” سیبر“کی دوستی فقید المثال تھی۔
ایرک کو سائرہ کی کلاس فیلو<span class="apple-converted-space"> </span> سونیا
مشوانی، کرنل ڈاکٹرمشوانی کی بیٹی نے <span class="apple-converted-space"> </span>ایک
ماہ کا بچہ دیا تھا۔ سیبر سوئے ہوئے ایرک کے سر پر سوتا اور بلی ایرک کے ڈربے میں
اُس کے ساتھ سوتی، عروضہ نے ہر جانور اور پرندے کا نام رکھا ہو اتھا۔ ”ایرک“، چوزے
کو چاٹ چاٹ کر اپنی لذتِ کام ودہن کی تسکین کرتا اور” سیبر“ اس کے بدلے اُس کے
کندھوں پر سوتا اور سارے گھر کی سیر کرتا۔ایک دن عروضہ میرے ساتھ بازار گئی میں نے
بچوں کو گاڑی ہی میں بیٹھے رہنے کا کہہ کر اتر گئی واپس آئی تو دیکھاآوارہ بلی کا
ایک بچہ اُس نے گود میں اُٹھایا ہوا ہے۔یہ بچہ زخمی تھا کیونکہ اسے بازار میں گلی
کے بچوں نے عروضہ کے سامنے پتھر مارے تھے۔اور بچہ گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا۔عروضہ
نے چاچا ڈرا ئیور سے کہہ کر بچوں کو بھگوایا اور بلی کے بچے کو اُٹھا کر گاڑی میں
رکھ لیا۔عروضہ کلاس ون میں تھی اُس نے اُس بچے کی اتنی تیمارداری کی کہ وہ ٹھیک ہو
گیا۔جنگلی بلی کا وہ بچہ ”کٹو“ گھر کے گیٹ پر عروضہ کا انتطار کرتا اور جب وہ سکول
سے آتی تو اس کے پاؤں میں لپٹتا۔ ” کٹو “ واحد جانور تھا جو ہمارے بیڈ روم میں
اپنی ٹوکری میں سوتا۔<u2:p></u2:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;"> <span class="apple-converted-space"> </span>نعیم گالف کھیل کر واپس آتے، <span class="apple-converted-space"> </span>تو ہم دونوں میاں بیوی واک پر
نکلتے <span class="apple-converted-space"> </span>”ایرک“ <span class="apple-converted-space"> </span>بھی ساتھ ہوتا۔ایک دن عروضہ بھی ہمارے
ساتھ واک پر نکلی۔تھوڑی دور جا کر ہمیں میاؤں میاؤں کی آواز آئی۔مڑ کر دیکھا تو
’’کٹو“ تھی جو سڑک <span class="apple-converted-space"> </span>پر دوڑتی
آرہی تھی۔ہم اپنے گھر سے تقریباً <span class="apple-converted-space"> </span>پچاس
گز دور <span class="apple-converted-space"> </span>جاچکے تھے۔
’’کٹو“ <span class="apple-converted-space"> </span>ہمارے پاس پہنچی
عروضہ نے اُسے گود میں اُٹھا لیا۔ میں نے عروضہ کو کہا کہ وہ اسے نیچے اتار دے اور
اسے ہمارے پیچھے آنے دے۔عروضہ نے اسے نیچے اتار دیا اور ”ایرک“ <span class="apple-converted-space"> </span>کو حکم دیا کہ وہ ’’ کٹو “ کا خیال
رکھے۔ہم دور نکلتے تو <span class="apple-converted-space"> </span>”ایرک“ <span class="apple-converted-space"> </span>ہمارے سامنے آ کر بھونک کر ہمیں رکنے کا
کہتا۔جب ’’کٹو“ <span class="apple-converted-space"> </span>ہمارے پاس
پہنچ جاتی تو ہم آگے چلتے۔گھر کے نزدیک ’’ کٹو “ کافی پیچھے رہ گئی۔ تو <span class="apple-converted-space"> </span>”ایرک“ <span class="apple-converted-space"> </span>نے ہمیں روکا۔عروضہ نے ”ایرک“ <span class="apple-converted-space"> </span>کو کہا کہ جاؤ اسے لے آؤ۔ ”ایرک“ <span class="apple-converted-space"> </span>لپک کر گیا اور ’’ کٹو “ کو اپنے منہ
میں اسکی گردن سے پکڑ کر اٹھا کر لے آیا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;">تب مجھے معلوم ہوا کہ گھر کے تمام جانور اس کا کہنا مانتے ہیں اور
اس کی وجہ یہ تھی کہ عروضہ ہر شام اور اتوار کو خصوصی طور پر تمام جانوروں
اورپرندوں کو کہانی سناتی ور اُن سے باتیں کرتی۔ہمارے گھریلو چڑیا گھر میں <span class="apple-converted-space"> </span>پانچ کتے بھی تھے جن میں دو جرمن شیپرڈ
(بُلِّٹ <span class="apple-converted-space"> </span>اور شیرا)، دو چھوٹے
سفید روسی پوڈلز(کوڈو اور ٹینا) اور ایک السیشن کتیا (شہپر) تھی۔ </span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;">”ایرک“ <span class="apple-converted-space"> </span>ایک
دن گھر سے باہر گیا تو اسے کسی نے زہر دے دیا۔ نعیم <span class="apple-converted-space"> </span>اُن دنوں فوجی <span class="apple-converted-space"> </span>مشقوں پر سبّی گئے ہوئے تھے۔ ہمار ا گھر
کینٹ میں ہزارہ کالونی کے بالکل کونے پر تھا۔ وہاں چوکیدارانہ نظام کے باوجود
چوریاں بہت ہوتی تھیں۔چنانچہ نعیم نے اپنے ایک دوست خان کو فون پر کہا اُس نے عاریتاً
شہپردے دی۔ صبح <span class="apple-converted-space"> </span>ایرک کی موت
ہوئی اور شام کو شہپر آگئی اور نو بجے رات کوشہپر کے بھونکنے، کسی کے تیزی سے
دوڑنے اور دیوارکی اینٹیں گرنے پر معلوم ہو ا کہ ایرک کی موت اور چوری کے لئے صحن
میں آنے والا اتفاقی واقعہ نہیں تھا۔دوسرے دن شہپر ٹوٹی ہوئی دیوار سے باہر نکل
گئی۔ کچلاک میں رہنے والے نعیم کے کلاس فیلو نے دو سفید روسی پوڈلز پپی بھجوا دئیے
اور نعیم کے بہنوئی عبدالخالق نے دو جرمن شیپرڈپپی بھجوا دئیے اور خان نے چار دن
بعد زخمی شہپر بھجوا دی۔شہپر کا عروضہ نے علاج کیا وہ ہمارے گھر کی ہو گئی۔نعیم
مشقوں سے واپس آئے۔عروضہ کو بڑا سمجھایا کہ دو جرمن شیپرڈ چھوڑ کر باقی تمام کتے
واپس کر دیتے ہیں۔ عروضہ نے نعیم کی ہر منطق کو ماننے سے انکار کر دیا اور یوں
شہپر کی سربراہی میں باقی چار کتوں کے بچے دیگر پرندوں کے ساتھ پلنے لگے۔ جرمن
شیپرڈدیکھتے ہی دیکھتے شہپر سے اونچے ہو گئے۔<u2:p></u2:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;"> <span class="apple-converted-space"> </span>ایک دن صبح عروضہ کے رونے کی آواز آئی۔
معلوم ہوا کہ پانچوں کتوں میں سے کسی نے <span class="apple-converted-space"> </span>ایک
کچھوا کھا لیا۔ہمارے گھر میں جب کوئی نیا جانور آتا عروضہ اس کا سب کتوں سے تعارف
کراتی۔ وہ اسے گھوم کر اور سونگھ کر دیکھتے، پھر دور بیٹھ کر لالچی انداز میں
دیکھتے رہتے ۔عروضہ اُسے سب کے پاس باری باری لے جاتی اور ہاتھ اٹھا کر مارنے کے
انداز میں ڈانٹ کر بتاتی کہ اب یہ یہاں رہے گا اسے نہ تنگ کرنا اور نہ ہی کھانا۔یہ
کچھوا،رات کو ہی عروضہ، ڈولی کی سہیلی سونیا کے گھر سے لائی تھی اور اس کا تعارف
کرانا بھول گئی۔ اور اسے دوسر ے کچھووں کے ساتھ رکھ دیا۔ اب انکوائری <span class="apple-converted-space"> </span>شروع ہوئی ہمارا شک بُلِّٹ پر تھا۔کچھو
ے لان میں تھے اور باقی جانور گھر کے پچھلے حصے میں باڑے میں رہتے تھے۔سب سے پہلے
بلٹ کو لایا۔ اُسے کھچوا سنگھایا گیا اور پوچھا یہ کس نے کھایا ہے؟ <span class="apple-converted-space"> </span>بُلِّٹ نے <span class="apple-converted-space"> </span>ایک شانِ بے نیازی سے ہماری طرف دیکھا
اور ایک طرف کھڑا ہو کر دم ہلانے لگا۔ شیرا نے بھی کوئی توجہ نہ دی البتہ شہپر نے
کھچوے کو سونگھنے سے انکار کر دیا اور آنکھیں نیچی کر کے ایک کونے میں جا بیٹھی۔
یوں مجرم پکڑا گیا۔ اس حادثے کو ٹینا (پوڈل)نے محسوس کیا وہ کچھوے کو سونگھتی
عروضہ کے پاؤں میں لوٹتی اور بھونکتی <span class="apple-converted-space"> </span>اور
شہپر کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی یوں ہمیں معلوم کہ ٹینا اِس وقوعے کی چشم دید گوا
ہ ہے مگر مجرم کے خوف سے بیان نہیں دے رہی۔ایک دن صبح میں کھڑکی کے پاس کھڑی <span class="apple-converted-space"> </span>اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی، موسم
اچھا تھا میں نے گنگنانا شروع کیا۔ اچانک شیرا کھڑکی کے پاس آکی مجھ پر بھونکنا
شروع کر دیا۔ میں شیرا کے اِس رویئے پر حیران رہ گئی کہ اِس کم بخت کو کیا ہوا؟
بعد میں سمجھ آئی کہ نامعقول مجھے مانگنے والی سمجھ کر بھونک رہی تھی۔<u2:p></u2:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;"> <span class="apple-converted-space"> </span>جب عروضہ کلاس ففتھ میں آئی تو نعیم کی
ٹرانسفر اٹک ہو گئی۔تمام جانور اور پرندے تقسیم ہو گئے۔صرف جرمن شیپرڈ (بُلِّٹ اور
شیرا) لے کر ہم اٹک آگئے <span class="apple-converted-space"> </span>اٹک
آنے سے پہلے ہم تین دنوں کے لئے گھر کے سامنے آفیسر ز میس میں منتقل ہو گئے۔
’’کٹو“ <span class="apple-converted-space"> </span>کیونکہ جنگلی بلی تھی
چنانچہ وہ اسی گھر میں رہی۔ شام کو ہم واک کر رہے تھے۔ہم گھر کے پاس سے گزرے
کہ <span class="apple-converted-space"> </span>’’کٹو “ بھی ہماری خوشبو
سونگھ کرساتھ ہو لی اور ہمارے ساتھ میس <span class="apple-converted-space"> </span>کے
کمرے میں آگئی۔ اور تھوڑی دیر بعد بھاگ گئی۔رات کو کمرے <span class="apple-converted-space"> </span>کے دروازے کے باہر میاؤں کی آواز آئی
دیکھا تو <span class="apple-converted-space"> </span>’’کٹو“ <span class="apple-converted-space"> </span>بیٹھی تھی۔عروضہ سو رہی تھی اُٹھ گئی ہم
باہر نکلے تو ’’کٹو“ <span class="apple-converted-space"> </span>ہمار ے
آگے چلنے لگی اور ہماری رہنمائی کرتے ہو ئے گھر کے بند گیٹ کے سامنے آکر میاؤں
میاؤں کرنے لگی۔صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ہمیں ہماری غلطی کا احساس دلا رہی تھی
کہ ہم بھول کر غلط جگہ چلے گئے ہیں ہمارا گھر یہ ہے۔ہم نے سنا تھا کہ بلی مکان سے
اور کتا مکین سے مانوس ہوتا ہے۔جو ’’ کٹو “ اور بعد میں دوسری بلیوں نے غلط ثابت
کیا۔<u2:p></u2:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;"> <span class="apple-converted-space"> </span>اٹک میں میرے سارے بچے سینئیر سیکشن میں
تھے اور میں جونئیر سیکشن میں ٹیچر تھی بعد میں وائس پرنسپل بنی۔چاروں بچوں کو اِس
بات کا احساس تھا کہ اُنہوں نے کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی جس سے اُن کی ماں کو
شرمندگی ہو۔ اٹک میں عروضہ نے نہ صرف اپنی غیر نصابی سرگرمیوں کی دھاک بٹھائی بلکہ
سکول میں پہلی پوزیشن اُس نے اپنے اعصاب پر سوار کر لی۔اٹک کے گالف کلب میں بڑی
بطخیں تھیں۔جو وہاں چھوٹے تالاب میں تیرتی رہتی تھیں۔یہ بڑی خونخوار تھیں خصوصی
طور پر بچوں کی دشمن تھیں انہیں دیکھتے ہی گردن نیچے کر کے کسی ٹینک کی مانند حملہ
کرتیں۔اب عروضہ نے ضد پکڑ لی کہ اِن میں سے ایک میں نے لینی ہے۔آخر کار نعیم بازار
سے <span class="apple-converted-space"> </span>ایک جوڑا خرید کر گھر لے
آئے۔عروضہ نے باقی بہن بھائیوں سے مشورے کے بعد اُن کا نام ڈونلڈ اور ڈیزی
رکھا۔ <span class="apple-converted-space"> </span>ڈونلڈ اور ڈیزی نے آتے
ہی گھر میں دہشت پھیلا دی۔ یہاں تک کہ ان کے ٹینک نما حملوں نے بلٹ اور شیراکو بھی
پسپائی پر مجبور کر دیا۔عروضہ نے انہیں مانوس کرنے کی بڑی کوشش کی اور اُن کے حملے
میں زخمی بھی ہوئی۔لیکن آخر کار وہ عروضہ سے مانوس ہو گئے۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;">ایک اتوار کی صبح <span class="apple-converted-space"> </span>میں
نے بیڈروم کی کھڑکی سے دیکھا عروضہ اپنی چھوٹی کر سی پربیٹھی تھی ڈیزی اس
طرح <span class="apple-converted-space"> </span>لیٹی تھی کہ اس کی گردن
پوری زمین کے ساتھ لگی تھی اور وہ اپنی چونچ کے ساتھ عروضہ کے جوتے کو کھانے کی
کوشش کر رہی تھی اور ڈونلڈ کسی کلاس میں بیٹھے ہوئے شریف بچے کی طرح عروضہ کی
کہانی سُن رہا تھا جو وہ بچوں کے رسالے سے پڑھ کر اُسے سنا رہی تھی۔بلٹ اور شیرا،
ڈونلڈ کی پہنچ سے دور بیٹھے تھے۔ بلٹ عروضہ کے پاس آنے کی کوشش کرتا تو ڈونلڈ اُس
کی طرف دیکھتا۔ بلڈ واپس مڑ کر شریف بچے کی طرح اپنی جگہ پر واپس بیٹھ جاتا۔<u2:p></u2:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;"> <span class="apple-converted-space"> </span>بلٹ اور شیرا کے خاندان میں دو السیشن
پپی کا اضافہ ہوا۔ جو نعیم نے اپنے دوست کو دے کر اُ س سے کالے لیبریڈور کے پپی کا
جوڑا لیا۔ جن کے نام عروضہ نے لیلیٰ اور لٹو رکھا کیوں کہ۔لٹو کا کام اپنی دم کو پکڑنے
کی کوشش میں لٹو کی طرح چکر کھاتے رہنا تھا۔ لیلیٰ کھانا کھانے کے بعد بچا ہوا
کھانا زمین میں دبا کر بند کر دیتی تھی۔ جو بلٹ نکال کر کھا لیتا اُس کے بعد جب
لیلیٰ کو بھوک لگتی تو وہ کھانے کی تلاش میں نالی کی شکل میں لان کھود ڈالتی۔دوسال
کے اند رڈونلڈ اور ڈیزی <span class="apple-converted-space"> </span>بیس
بچوں کے کنبے کے سربراہ بن گئے۔اِن بڑی بطخوں کی ایک مکمل جوائینٹ فیملی تھی جن کا
سربراہ ڈونلڈ تھا۔جو نہ صرف اُن سیاسی بلکہ ملٹری لیڈر بھی تھا۔ہمارے گھر کے قریب
سے گذرنے والے <span class="apple-converted-space"> </span>افراد،شیر نما
بلٹ سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا وہ ڈونلڈ اور اس کے سپاہیوں سے خوفزدہ ہوتے تھے۔ڈونلڈ
اپنی پوری پلٹن کے ساتھ پوری کالونی کا چکر لگاتا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;">عروضہ کی چند سہیلیوں نے اِس سے ملنے کا پروگرام بنایا، چنانچہ
انہوں نے عروضہ سے گھر کا ایڈریس پوچھا اُس نے انہیں بتا یا کہ سکول سے باہر
نکلیں، پارک کے بعد سیدھے ہاتھ پر مڑیں اور سیدھے چلیں۔آگے بہت ساری بڑی بطخیں نظر
آئیں گی اُن کے سامنے ہمارا گھر ہے۔وہ لڑکیاں ہمارے گھر کے لئے آئیں انہیں گھر
نہیں ملا، انہوں نے ایک بچے سے پوچھا کہ بڑی بطخیں کہاں ہیں۔اِس وقت بطخیں ٹہلنے
کے موڈ میں تھیں اوربچے نے انہیں تیسری گلی میں دیکھا تھا اس نے انہیں بتا
دیا۔بچیاں بطخوں کے پاس پہنچیں اور پریشان ہو گئیں۔ کیوں کہ آدھی بطخوں کامنہ ایک
طرف اور آدھی کا دوسری طرف تھا۔ایک بچی نے مشورہ دیا کہ ان کو بھگاتے ہیں یہ جس
گھر میں جائیں گی وہ عروضہ کا گھر ہوگا۔ انہوں نے غلط فیصلہ کیا تھا۔ <o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right; text-indent: .5in; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin-bottom: 0in; margin-left: 0in; margin-right: .5in; margin-top: 0in; text-align: right; text-indent: .5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;">جو نہی انہوں نے بطخوں کو
بھگانے کی کوشش کی، بطخوں کے بطخے، صف بنا کر بچیوں پر حملہ آور ہوئے وہ چینخیں
مارتے ہوئے بھاگیں۔بطخوں کی آوازوں اور لڑکیوں کے شور نے عروضہ کو بتا دیا کہ کوئی
اُس کی فوجوں کے قابو چڑھ چکا ہے۔عروضہ گھر سے باہر آئی تو بھاگتا ہوا لشکر دشمن
نہیں بلکہ اُس کی سہیلیاں تھیں اُس نے حملہ آور بطخوں کو ڈانٹ کر روکا اور سہیلیوں
کو پکارا، کمانڈر <span class="apple-converted-space"> </span>ڈونلڈ،عروضہ
کی آواز سنتے ہے سر جھکا کر شرمندگی سے اپنے <span class="apple-converted-space"> </span>سنچورئین بریگیڈکے ساتھ ایک طرف کھڑا ہو
گیا عروضہ سہیلیوں کو گھر لائی اُن کی خاطرتواضح کی، اتنے میں ساری <span class="apple-converted-space"> </span>بطخیں اپنے ڈربے کی طرف آچکی تھیں عروضہ
نے سہیلیوں کا بطخوں سے تعارف کروایا۔ سہیلیاں ڈرتے ڈرتے بطخوں کے پاس گئیں۔ بطخوں
نے خاموش بیٹھ کر اُن کا استقبال کیا اور دوستی کر لی۔<u2:p></u2:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right; unicode-bidi: embed;">
</div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt;"> <span class="apple-converted-space"> </span>1999کی بہار میں ڈونلڈ فیملی کی بطخوں
نے 70انڈے دیئے۔یوں ان کے ڈربے میں ایک پورا میٹرنٹی وارڈ قائم ہو گیا۔جس
میں <span class="apple-converted-space"> </span>شروع شروع میں سوائے
ڈونلڈ کے تمام بطخے اپنی اپنی ماداؤں کی چہل قدمی کے وقت انڈوں پر بیٹھتے۔اور بعد
میں ماداؤں سے انڈوں پر بیٹھنے کی ذمہ داری مکمل طور بطخوں نے <span class="apple-converted-space"> </span>زبردستی لے لی۔کیونکہ وہ یہ بھول گئے کہ
کون سی اُن کی مادہ کے انڈے ہیں اور کون سی دوسری مادہ<span class="apple-converted-space"> </span> کے ہیں ۔چنانچہ ہم نے بطخوں کو
زبردستی زنانہ میٹرنٹی وارڈ سے نکال کر اسے بند کر دیا اور ماداؤں نے اپنی اپنی
جگہ سنبھالی۔ہم خوفزدہ تھے کہ اگر ان 70انڈوں سے چوزے نکلے تو کیا ہو گا؟ بہرحال
عروضہ کو بہت سمجھانے کے بعد اُس نے اِن چوزوں کے پر نکلنے کے بعد تقسیم کا فیصلہ
کیا۔اُس نے سب سے پہلے اُن سہلیوں کا انتخاب کیا جو جھگڑالو نہیں تھیں۔اُن کے گھر
جا کر اِن چوزوں کے رہنے کی جگہ دیکھی۔اور ایک ہدایت نامہ برائے دیکھ بھال خود
لکھا اور اس کی ایک ایک فوٹو کاپی اپنی اُن سہیلیوں کو دی۔جنہوں نے بطخ کے بچوں کا
سرپرست بننا تھا یہ اور بات کہ صرف چار چوزے نکلے اور وہ بھی پر نکلنے سے پہلے
اپنے بزرگوں کے ملکیتی جھگڑوں کے وقت پاؤں تلے آکر مارے گئے۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<u1:p></u1:p>
</div>
<div dir="rtl" style="margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<div style="text-align: center;">
<br />
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: white; color: #073763; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21.3333339691162px; line-height: 20px; text-align: -webkit-center;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span><span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: #999999; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/3.html" style="font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -7</a> - زیرِطباعت</span></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2015/04/6.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -6</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2015/04/5.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -5</a></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/03/4.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -4</a></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/02/3.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -3</a></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/01/2.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -2</a></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/01/1.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -1</a></div>
<div dir="ltr" style="text-align: left;">
<span style="background-color: white; color: #073763; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21.3333339691162px; line-height: 20px; text-align: -webkit-center;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></div>
<div style="text-align: left;">
<span style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/1.html" style="color: blue; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 1</a></span><br />
<div>
<br /></div>
</div>
</div>
</div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-83727966141583441212014-01-01T06:52:00.001-08:002015-07-04T12:25:30.653-07:00ہونہار بِروا - 1<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> </span></span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgzNRy6wvi6Q5MMqaScGNEyunYXEyFEEwYOTPCMDdYyZ-X8adqYCLnEmsJIMxZcBUuP_T34zTROXkPU5366-SXYNiXgBKnE09gmwhhmHt7UASyBP-ACLUo2Lk0WU5kw0L0WuDM_0GmmgQA/s1600/006-Hunihaar+Birwa-001.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="108" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgzNRy6wvi6Q5MMqaScGNEyunYXEyFEEwYOTPCMDdYyZ-X8adqYCLnEmsJIMxZcBUuP_T34zTROXkPU5366-SXYNiXgBKnE09gmwhhmHt7UASyBP-ACLUo2Lk0WU5kw0L0WuDM_0GmmgQA/s320/006-Hunihaar+Birwa-001.jpg" width="320" /></a></div>
<span class="apple-tab-span"><span dir="LTR" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></span><br />
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: right; text-indent: .5in; unicode-bidi: embed;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjtPB3hw66Cwf6o7ASsAKx3MnBYn5gIY5Z4YHyu7X60387F6AuGL5SZx3VJAlwH9SJ4ZFo7I0w6lEO1W4Ot372Hs5Wu2jxGuH7klrHuxdk0eAcKWmgqF4ZnCxusPYENEbtXoUHEazQZWFI/s1600/SDC12699.JPG" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjtPB3hw66Cwf6o7ASsAKx3MnBYn5gIY5Z4YHyu7X60387F6AuGL5SZx3VJAlwH9SJ4ZFo7I0w6lEO1W4Ot372Hs5Wu2jxGuH7klrHuxdk0eAcKWmgqF4ZnCxusPYENEbtXoUHEazQZWFI/s1600/SDC12699.JPG" width="320" /></a><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">یہ 22 نومبر 2009 کا ذکر ہے ، اُس کی خوشی کا عالم دیکھا نہ جاتا تھا، کار سے اتر
کر سب سے گلے ملی اور تیز قدموں سے چلتی ہوئ بس میں جا بیٹھی۔ کھڑکی میں بیٹھ کر
اس کی خوشی کا عالم دیدنی تھا۔وہ ہماری طرف دیکھتی اور ہاتھ ہلاتی میں آنسووں کو
روکے مصنوعی ہنسی ہنس رہی تھی۔ بس نے رینگنا شروع کیا اور میری آنکھوں کے سامنے
دھند چھا گئی اور اُس دھند میں بس غائب ہو گئی پھر دھندا کے پیچھے سے،ڈولی
(سائرہ)کمرے میں اپنے پاپا کا ہاتھ کھینچی ہوئی داخل ہوئی۔ ماما، ماما،پپا کو گڑیا
دکھائیں۔ میں نے اپنے پہلو میں لیٹی روئی کے گالے کی مانند بچی کے اوپر سے چادر
ہٹائی نعیم نے بچی کو جھک کر پیار کیا۔ ثانی (ارسلان)میرا بڑا بیٹا اور
مانی(ارمغان) چھوٹا بیٹا دونوں باپ کے دائیں بائیں سے گھس کر بچی کو دیکھنے کی
کوشش کر رہے تھے کہ ڈولی چلائی،” ابھی اسے ہاتھ نہ لگاؤ یہ سو رہی ہے۔تمھارے ہاتھ
گندے ہیں“ دونوں بھائی ڈر کر پیچھے ہٹ گئے۔ میری امی نے نعیم کے سر پر ہاتھ رکھ کر
دوسری بیٹی کی مبارکباد دی۔بچی کسمائی۔”ثانی مانی تم نے شور کر کے اسے اٹھا دیا۔اب
یہ روئے گی“۔ جواب میں بچی نے باریک سی آواز میں چلا کر ڈولی کی بات سچ کر دی۔
نعیم نے بچی کو گود میں اُٹھایا اوراُس کے کان میں آذان دی۔ مانی نے آذان کے بعد
بچی کو اپنی گود میں لینے کے لئے شور مچایا۔ نعیم نے مانی کو اپنی گود میں بٹھایا
اور بچی کو اُس کی گود میں رکھ دیا۔مانی بولا۔”پپا یہ پنک،پنک ہے“ اس گڑیا کا نام
”پنکی“ پڑ گیا۔</span><span dir="LTR" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgWdyGNo2V7JDRW0TF91yHI9tHk2XPq8V21Z8eV-dowUkGz03G2PYZnV6zMXBV241PHWqqTKkgwrhs8coRh9t2eB_9WsiDe37KRaR70rRKrUguXQXbsdZf1P8hRTOkjQXfZ6vhZQlmCGgI/s1600/46.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em; text-indent: 0.5in;"><img border="0" height="200" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgWdyGNo2V7JDRW0TF91yHI9tHk2XPq8V21Z8eV-dowUkGz03G2PYZnV6zMXBV241PHWqqTKkgwrhs8coRh9t2eB_9WsiDe37KRaR70rRKrUguXQXbsdZf1P8hRTOkjQXfZ6vhZQlmCGgI/s1600/46.jpg" width="140" /></a><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span> </span></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-converted-space"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> </span></span><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">اُن دنوں نعیم چمن(کوئیٹہ کے نزدیک ایک سرحدی شہر) میں پوسٹ تھے۔
تین دن بعد ہم چمن کے لئے روانہ ہوئے نعیم کے دو یونٹ آفیسر، کیپٹن صفدر اور کیپٹن
خالد بھی ساتھ تھے۔ سارے راستے برف باری ہو رہی تھی۔کوئی پندرہ سال بعد چمن میں
بھی برف پڑی۔ ”پنکی“ ساری آفیسرز کالونی میں بچوں کی آنکھوں کا تارہ
بن گئی سب اُس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کرتے۔ڈولی نے خود بخود بڑی بہن کے فرائض
سنبھال لئے۔مانی البتہ ”پنکی“ سے تھوڑا حسد محسوس کرنے لگا کیونکہ ”پنکی“ نے
اُسے میرے پلنگ سے نعیم کے پلنگ پر ہجرت کروا دی۔غالباً چوتھا یا پانچوں دن ہو گا
کہ اُس کی ہمت جواب دے گئی اور اُس نے ضد پکڑ لی کہ اب ”پنکی“ کو واپس
ہسپتال چھوڑ آؤاور رو، رو کر مجھے خوب پریشان کیا میری امی نے اُسے سمجھانے کی
کوشش کی مگر اُس نے کوئی بات سننے سے انکار کر دیا، آخر روتے روتے سو گیا۔ نعیم
آفس سے واپس آئے میں نے بتا یا کہ مانی اِسے گھر میں رکھنے کے لئے تیار نہیں۔ اور
ابھی روتے ہوئے سویا ہے۔ نعیم کے کھانا کھانے کے بعد مانی اٹھ گیا اور پھر رونا شروع
کر دیا کہ اسے ابھی ہسپتال واپس کر کے آؤ نعیم نے بڑا سمجھایا ا کہ اب
ہسپتال والے اسے واپس نہیں لیں گے کیونکہ اسے ہمارے پاس کافی دن ہو گئے ہیں اور
پھر وہاں بستر پر دوسری گڑیا آگئی ہو گی۔ ”تو پھر اسے واپس کر کے ایسی گڑیا لاؤ
جیسی ڈولی کی ہے۔ہم سب خوب ہنسے۔ کیونکہ ڈولی کی گڑیا نے اس کی جگہ نہیں لی
تھی۔بہرحال میرے ایک طرف ”پنکی“دوسری طرف مانی سوتا رہا، وقت گزرتا گیا۔امی
دو مہینے بعد واپس میرپورخاص چلی گئیں۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> </span></span><span class="apple-converted-space"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> </span></span><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">نعیم نوشہرہ میں ہونے والے ایک سال کے کورس کے لئے کامیاب ہوئے ہم
مارچ میں بذریعہ کار چمن سے کوئٹہ، کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، نوابشاہ، مورو،
سکھر، رحیم یار خان،بہاولپور، اوکاڑہ،لاہوراور پنڈی رشتہ داروں سے ملتے ہوئے
نوشہرہ پہنچے۔ نعیم کی مصروفیت پڑھائی کی وجہ سے بے انتہا بڑھ گئی اور مجھ پر گھر
کے علاوہ چار بچوں کا بوجھ بڑھ گیا اور اس پر ستم یہ کہ میس کے کھانے سے اکتایا
ہوا کوئی نہ کوئی بیچلر آفیسر ہر شام پڑھائی کے بہانے آجاتا، نعیم صرف ایک جملہ
کہتے،”گل ہم ساتھ کھانا بھی کھائیں گے“۔ یوں میرے کام میں صرف ایک فرد کے کھانے کا
اضافہ نہیں بلکہ، سوئیٹ ڈش، گرین ٹی اورپھر کھاناڈائیننگ پر لگانا سب سے بڑا معرکہ
ہوتا تھا۔مجھ سے بچے تو سنبھالے جاتے تھے نعیم کے مہمان نہیں۔تنگ آکر اپنی امی کو
فون کیا کہ آپ نوشہرہ آجائیں ۔اُن کے آنے کے بعد نعیم نے یہ جملہ کہنا چھوڑ دیا
اور میرے لئے پکی<span class="apple-converted-space"> </span></span><span dir="LTR" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">SOP</span><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">بن گئی۔ چنانچہ جونہی بیٹ مین صفدر بتاتا
کہ صاحب کے کمرے میں کوئی صاحب آئے ہیں میں کھانے کی تیاری میں لگ جاتی۔فوج میں
بیٹ مین، ایک نعمت ہے اور اگر اُسے کھانا بناناآتا ہو تو وہ اللہ کی رحمت سمجھا
جاتا تھا۔ صفدر نعیم کی پیرنٹ یونٹ سے تھا، اُسے صرف جوتے پالش کرنا آتا تھا۔امی
کے آنے کے بعد مجھے بے حد آسانی ہوگئی بچوں کا چارج انہوں نے لے لیا اور میں نے
کچن کا۔ <u1:p></u1:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”پنکی“ ڈیڑھ سال کی ہوچکی تھی اور اوں آں اور ماما پپا کے
سواء کچھ نہیں بولتی۔امی کے احساس دلانے پر یاد آیا کہ باقی سب بچوں نے سال کی عمر
سے پہلے بولنا شروع کر دیا تھا۔خیر انہوں نے ایک دیسی ٹوٹکا آزمایا۔ ایک چڑیا پکڑ
کر اس کی چونچ ”پنکی“ کے منہ میں ڈالی۔جب تک چڑیا نے تنگ آکر چوں چوں
نہ بولی اُس کی جان بخشی نہ ہوئی۔اُس کے بعد جو اس کو زبان لگی۔تو اُس سے نہ
صرف اسے ملنے جلنے والوں بلکہ جب سکول جانے لگی تو اُستانیوں نے اُس کے سوالات سے
پناہ مانگنی شروع کردی۔کہانی سننا اُس کا دلچپ مشغلہ تھا۔اللہ جھوٹ نہ بلوائے، جو
کہانیاں نعیم نے اپنی طرف سے گھڑ گھڑ کر اُسے سنائیں اگر وہ انہیں لکھ لیتے
تو میر امن کی ”الف لیلہ ہزار داستان“کا ریکارڈ ٹوٹ جاتا۔ہاں یہ تو میں
لکھنا بھول گئی کہ ”پنکی“ کا نام ہم نے عروضہ نعیم رکھا۔لوگوں کے پوچھنے پر
وہ اپنا نام ”عوا“ بتاتی یو ں وہ پورے خا ندان میں ”عوا“ کے نام سے مشہور ہو
گئی۔ حیدر آباد میں ”عوا“ نے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز کیا اور اُس نے اپنے تینوں
بڑے بہن بھائیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ سکول میں ہر گریڈڈ امتحان میں پوزیشن حاصل
کرنے پرنعیم جو انعام دیتے وہ الگ، اس کے علاوہ پرسنٹیج کی بنیاد پر چاروں بہن
بھائیوں کی پوزیشن میں وہ ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرتی رہی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے
کہ کوئیٹہ میں اُس نے پہلی بار کلاس ون سے کلاس ففتھ تک کے بچوں کے درمیان ہونے
والے اردو اور انگلش تقریری مقابلوں حصہ لیا۔اُ س کے مقابلے پر نہ صرف اُس
کے دونوں بھائی بلکہ سکول کے بہترین بچے تھے۔ پہلا مقابلہ اردو میں تقریر کا
تھا۔ثانی (ارسلان فورتھ کلاس) اس کا مقابل اور مانی(ارمغان تھرڈ کلاس) اُس
کے موافق میں تھا دونوں بھائیوں نے پچھلے سال ہونے والے مقابلوں میں (موافق
اور مقابل) پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔اور سائرہ نے سینئر سیکشن میں اپنی دھاک
بٹھائی ہوئی تھی۔ اور گذشتہ سالوں سے دونوں بھائی یہ پوزیشن لیتے آرہے۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgs-CD6qPGcrWBh7-uOBIrfmvcyUxsnOZ9s1yNAPbxncA2HqmliHYLzYipiNG_qV_eH_u1VwrbgnO-Uv8cyzah1veka6WxviD99IGQU96bj99GeBcxANPuZ833Tq2GCoE6mZkavNQ7TwfY/s1600/61.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgs-CD6qPGcrWBh7-uOBIrfmvcyUxsnOZ9s1yNAPbxncA2HqmliHYLzYipiNG_qV_eH_u1VwrbgnO-Uv8cyzah1veka6WxviD99IGQU96bj99GeBcxANPuZ833Tq2GCoE6mZkavNQ7TwfY/s1600/61.jpg" width="215" /></a><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">ہمارا خیال تھا کہ ”عوا“ کاپہلا مقابلہ ہے کم ازکم
حوصلہ افزائی کا انعام مل جائے گا۔تقریری مقابلوں کی ہمارے گھر میں خوب زور و شور
کی تیاری ہوتی۔ مکمل سٹیج بنتا۔سامعین میں رشتہ داروں یا محلے والوں کے بچے
ہوتے۔تینوں بچے خوب زور شور سے تیاری کرتے۔ تقریر لکھنا نعیم کا کام ہوتا
اور تیاری کرانا میرا۔ موافقت اور مخالفت،کی پہلی اور دوسری پوزیشن، ایک
دفعہ بھی ہمارے گھر سے باہر نہیں گئی تھی۔اُس دفعہ مضمون بڑا جاندار تھا
”عورت بحیثیت ٹیچر، مردوں پر فوقیت رکھتی ہے“۔ ارسلان نے مخالفت میں تقریر
کرنے کا پروگرام بنایا۔ارمغان نے موافقت میں،عروضہ کو بھی موافقت ہی میں تقریر کی
تیاری کرائی گئی۔ ” عوا “ نے پہلی دفعہ حصہ لیا نعیم بھی تقریرسننے کے لئے
بچوں کے سکول آئے۔ میری ڈیوٹی والدین کو خوش آمدید کہنے اور بٹھانے پر لگی۔ ہاں
میں یہ بتاتا تو بھول گئی کہ ایک دن ہمارے گھر نعیم کے دوست میجر منیر بٹ آئے۔ اُن
کی مسز عروضہ کی کلاس ٹیچر تھی اور اُن کی بیٹی مومنہ عروضہ کی کلاس فیلو۔ میں اور
مسز منیر لان میں بیٹھے تھے، نعیم اور بٹ بھائی ڈرائینگ روم میں، اچانک عروضہ نے
مسز منیر سے پوچھا”آنٹی آپ نے کتنی کلاسیں پڑھی ہیں“۔ انہوں نے جواب دیا،”ایف اے“۔
”نہیں آنٹی ون ٹو تھری کی طرح گن کر بتائیں“ عروضہ نے کہا۔ مسز بٹ نے جواب
دیا،"<span class="apple-converted-space"> </span></span><span dir="LTR" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">Twelve</span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span>" عروضہ نے مجھ سے پوچھا،”ماما، آپ نے کتنی کلاس پڑھی ہیں“۔
میں نے جواب دیا،"<span class="apple-converted-space"> </span></span><span dir="LTR" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">Sixteen</span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span>"عروضہ حیرت سے
بولی،”ماما </span><span dir="LTR" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">Sixteen</span><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span class="apple-converted-space"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span> </span></span><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> ماما آپ کیوں نہیں
ٹیچر بن جاتیں“ مسز بٹ بولیں،”ہاں بھابی آپ کیوں نہیں سکول جوائین کر لیتیں
ویسے بھی کل سکول میں ٹیچر ز کے لئے انٹرویوز ہو رہے ہیں آپ آجائیں“۔ عروضہ میر ے
پیچھے پڑھ گئی میں نے جان چھڑانے کے لئے کہا،”جاؤ پپا سے پوچھ لو اگر وہ
اجازت دیں تو میں سکول جوائین کر لوں گی“ مجھے معلوم تھا کہ نعیم کو بیوی کا جاب
کرنا پسند نہیں تھا۔لہذا میں نے اُن پر ڈال دیا عروضہ اور مومنہ ڈرائینگ روم کی
طرف دوڑیں تھوڑی دیر بعد وہ چلاتی ہوئی باہر آئی،”ماما، پپا نے اجازت دے
دی“۔ میں حیران رہ گئی</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> مہمانوں کے جانے کے بعد میں نے نعیم سے پوچھا کہ کیا آپ نے
واقعی اجازت دے دی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اور بٹ بات کر رہے تھے انہوں نے ٹالنے کے
لئے کہا کہ ٹھیک ہے۔ ماما کو کہو سکول جوائین کر لیں۔ دوسرے دن عروضہ صبح صبح اٹھ
کر میرے پیچھے پڑگئی۔ میرے کپڑے منتخب کئے کہ یہ پہن کر انٹرویو دینے آئیں میں نے
نعیم سے بات کی انہوں نے کہا ٹھیک ہے چلی جاؤ۔ میں گھبرا گئی بولی،”میں نے آج تک
انٹرویو نہیں دیا میں وہاں کیا بولوں گی“۔ ”کیا تم نے سلیکٹ ہو جانا ہے“ نعیم نے
پوچھا۔ ”نہیں“۔ تو پھرڈر کس بات کا، جو سوال کریں اُن کا اپنی مرضی سے جواب دینا
تمہیں کیا غم اگر وہ سلیکٹ نہ کریں اور پھر عروضہ کا دل خوش ہو جائے گا“۔
نعیم نے سمجھایا۔ ”ٹھیک ہے۔آپ نو بجے آجانا“ میں نے جواب دیا۔ بچے سکول اور نعیم
ساڑھے سات بجے آفس چلے گئے۔ ساڑھے آٹھ بجے نعیم آئے میں اُنکے ساتھ سکول کی طرف
روانہ ہوگئی۔ دل میں خوف تھا سکول کے پاس پہنچ کر میں نے نعیم کو کہا کہ مجھے خوف
لگ رہا ہے میں نہیں جاتی۔ نعیم نے حوصلہ دلایا کہ انٹرویو دینے چلی جاؤ،ہم اُس کو
یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ماما نے انٹرویو کی تیاری نہیں کی تھی اگر عروضہ کو
یہ معلوم ہو کہ اُس کی ماما ڈر کر انٹرویوہی دینے نہیں گئی تو وہ اِس بات کو دل پر
لے گی۔<u1:p></u1:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> </span></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">خیر میں اللہ کا نام لے کر دعائیں پڑھتی سکول میں داخل ہوئی۔گیٹ پر
چوکیدار نے پوچھا میں نے اُسے وجہ بتا تی تو اس نے مجھے پرنسپل کے کمرے کے پاس
موجود سٹاف روم کی طرف رہنمائی کی۔سٹاف روم کی طرف بڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا
کہ1984 میں یہ سکول بریگیڈیر برکی کی مسز نے قائم کیا تھا اُس کا نام کہکشاں
پبلک سکول رکھا تھا۔اُس کے افتتاح پر میں تینوں بڑے بچوں کے ساتھ آئی تھی اور
کنڈرگارٹن میں ڈولی کو ڈالا تھا۔ اُس سکول کو بنانے میں نعیم بھی سرگرم تھے کیوں
کہ یہ بریگیڈیر برکی کی انڈرکمانڈ یونٹ میں کیپٹن کوارٹرماسٹر تھے۔ماضی ایک فلم کی
طرح دماغ میں ریوائینڈ ہو رہاتھا۔”ماما“ اچانک عروضہ کی آواز نے ماضی کے در بند کر
دئیے۔ سامنے سے وہ دوڑ آرہی تھی۔ میرے پاس آکر اُس نے پھولے سانسوں سے
کہا،”ماما امتحان میں پاس ہونا۔ تاکہ میں سٹاف روم میں آپ کے ساتھ ٹی بریک کروں“
یہ کہتے ہوئے وہ کینٹین کی طرف دوڑ گئی اور مجھے بڑے امتحان میں ڈال گئی۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> خیر سٹاف روم میں داخل ہوئی وہاں کافی امیدوار بیٹھی تھیں۔
میں نے رجسٹریشن ڈیسک پر بیٹھی ہوئی ٹیچر کو اپنے کاغذات دئیے۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> اُس نے پوچھا ”آپ اِن کی فوٹو سٹیٹ نہیں لائیں“ میں نے بتایا
کہ مجھے رات ہی معلوم ہوا تھا اس لئے اوریجنل کاغذات لائی ہوں۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> ”ٹھیک ہے آپ بعدمیں مجھ سے یہ لے لینا تاگہ گم نہ ہوجائیں۔
آپ سائرہ (ڈولی)کی امی ہیں“۔ اس نے پوچھا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”جی“ میں نے جواب دیا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”آپ کے تین اور بچے بھی اس سکول میں پڑھتے ہیں“ اس نے اپنی معلومات
کا اظہار کیا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”ہاں“ میں نے جواب دیا اور ایک کرسی پر جا بیٹھی۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">امیدوار کو وہ اپنی اپنی باری پر اندر بھیجتی رہی۔ سب سے آخر میں
میری باری آئی۔ میں کمرے میں داخل ہوئی۔ انٹرویو لینے کے لئے جو چہرے نظر آئے وہ
سب شناسا لگے، میرا اعتماد ایک دم بحال ہو گیا۔پرنسپل، وائس پرنسپل، کرنل کوآرڈ
اور بریگیڈیر، غلام محمد (چیف آف سٹاف) میں نے سلام کیا۔ مجھے کرسی پر بیٹھنے کا
کہا، بریگیڈیر صاحب نے کاغذات دیکھے اور پرنسپل بریگیڈیر (ر) چنگیزی کی طرف بڑھا
دیئے۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”آپ نے کس سبجیکٹ ماسٹر کیا ہے؟“ ۔ پرنسپل صاحب نے پوچھا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”اسلامک سٹڈیز میں“۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”کیا آپ نے پہلے پڑھایا ہے؟“ بریگیڈیر صاحب نے سوال داغا جو
انٹرویو کا مشکل ترین سوال تھا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> ”جی ہاں“ میں نے جواب دیا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”کہاں“ سوال ہوا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”سر میں جن بچوں کو پڑھاتی ہوں۔ وہ 95% سے زیادہ مارکس ہر امتحان
میں لیتے ہیں“ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنے بیگ سے چاروں بچوں کے کارڈ نکالے اور
پرنسپل صاحب کو دئے،</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> انہوں نے یہ کارڈ بریگیڈیر کو دئے انہوں نے دیکھ کر
کہا ”ویری گڈ“۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">لیکن پرنسپل صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا،”یہ ہمارے سکول کے بچے
ہیں اِن کو ہم نے پڑھایا ہے“۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> ”یہ بچے چار مختلف کلاسز میں پڑھتے ہیں اگر اِن کے یہ مارکس
آپ کی وجہ سے ہیں تو اِن چاروں کلاس کے باقی بچوں نے بھی 95%سے اوپر مارکس لیے ہوں
گے؟ تب میں کہوں گی کہ آپ کی ٹیچر<span class="apple-converted-space"> </span></span><span lang="ER" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt; mso-bidi-language: ER;">،</span><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">آوٹ سٹینڈنگ ٹیچر ہوں
گی“۔ میں نے جواب دیا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><u1:p></u1:p><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> بریگیڈیرصاحب نے کہا ”ویری گڈ۔ بہت بہت شکریہ۔ آپ جا سکتی
ہیں‘‘۔<u1:p></u1:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”کیا“ میں نے حیرت سے پوچھا ”آپ مزید سوال نہیں کریں گے؟“۔<u1:p></u1:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> ”نو تھینکس“ بریگیڈیرصاحب نے جواب دیا ۔<u1:p></u1:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">میں سوال کر کے باہر آگئی۔ سٹاف روم میں بیٹھی۔ تھوڑی دیرمیں وائس
پرنسپل داخل ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے کاغذات چھوڑ دوں فوٹو کاپی کرواکر کل
آپ کو واپس کر دیں گے ہاں اور اپنا ٹیلیفون نمبر دے دیں۔میں نے نعیم کا نمبر دے
دیا۔ گیارہ بجے نعیم آگئے ہم گھر کو روانہ ہوئے۔ انہوں نے انٹرویو کے بارے میں
پوچھا جب میں نے بتایا تو انہوں نے کہا بہت اچھا جواب دیا۔ اگر میں ہوتا تو تمھارے
جواب پر تمھیں سلیکٹ کر لیتا ۔ عروضہ سکول سے آئی اُس نے آتے ہی پوچھا ماما رزلٹ
کب نکلے گا میں نے بتایا کل۔ اُس نے کپڑے تبدیل کئے اور وضو کر کے جانماز بچھا کر
میرے پاس ہونے کی دعا مانگی۔<u1:p></u1:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; unicode-bidi: embed;">
<span class="apple-tab-span"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> </span></span><span class="apple-converted-space"><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> </span></span><span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">دوسرے دن نعیم نے بتایا کہ میں بحیثیت ٹیچر آرمی پبلک سکول میں
سلیکٹ کر لی گئی ہوں۔ بچوں کا خوشی کے مارے برا حال تھا اور عروضہ کی خوشی سب سے
زیادہ تھی اور اُس نے اعلان کر دیا کہ سٹاف روم میں صرف ایک بچے کی اجازت ہے اور
صرف وہ سٹاف روم میں جایا کرے گی۔تیسرے دن مجھے عارضی اپائینٹمنٹ لیٹر مل گیا میں
نے سکول جوائن کر لیا۔ مجھے پانچویں سے لے کر آٹھویں کلاس تک کا ڈرائنگ ٹیچر
بنادیا گیا۔ وجہ پوچھی تو پرنسپل نے بتایا کہ بریگیڈیرصاحب (چیف آف سٹاف)
نے آپ کو ڈرائینگ ٹیچر رکھنے کا کہا ہے۔<u1:p></u1:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">آہ نعیم نے مجھے مروا دیا۔نعیم بہت اچھی واٹر کلرکلر اور آئیل پینٹ
سے پورٹریٹ بناتے تھے۔ وہ اسی وقت پنسل سے سکیچ بنا کر دے دیتے تھے۔اور پینسل کا
استعمال مجھے صرف لکھنے یا کاغذ پر سکیل کے ساتھ لائنیں لگانے کے لئے آتا
تھا۔جو میں بچوں کی کاپیوں پر لگایا کرتی تھی۔ اپنے کورس میں وہ نعیم پینٹر کے نام
سے مشہور ہیں۔ فوج کے بہت آفیسروں کو انہوں نے پورٹریٹ بنا کر دئے ہیں۔ جس یونٹ
میں رہے اس کے فیلڈ میس کو سینری یا گن فا ئرنگ کی پینٹنگ ضرور بنا کر دی، یا ایک
پانچ سرپٹ بھاگتے گھوڑوں کی پینٹنگ بھی بہت افسروں نے بنوائی۔<u1:p></u1:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">یہ جہلم کا واقع ہے۔ بریگیڈیر نیاز ایم حنفی کمانڈر تھے۔ جہلم میں
آرٹلری آفیسر کے لئے میس بنا، کمانڈر نے معائنہ کیا ڈی کیو کو کہا کہ اچھی سی
پینٹنگ ہونی چاہیئں اور یوں یہ کام ”فوجی کام بن کر“ نعیم کو مل گیا۔آئل کلر، کینوس،
برش اور دیگر لوازمات ڈی کیو نے پنڈی سے منگوا کر دئیے، ہمارے گھر کا سٹڈی روم،
آرٹ روم میں تبدیل ہو گیا، ہر وقت پورے گھر میں تارپین، السی، وارنش، مٹی کا تیل
اور رنگوں کی بو پھیلی رہتی۔ نعیم کا جس وقت موڈ ہوتا۔ آفس سے آنے کے بعد دن کے
کسی بھی حصے میں جو کپڑے پہنے ہوتے (سوائے وردی کے) تصویربنانی شروع کر
دیتے۔ کینوس کے ساتھ رنگ کپڑوں پر بھی لگ جاتا۔ اُن کے کورس میٹ طارق نور بھائی،
اُن سے ملنے آئے اور چھوٹی سے خوبصورت گھوڑوں کی پینٹگ کسی اطالوی آرٹسٹ کی دی اور
حکم دیا کہ یہ ڈھائی فٹ اور چارفٹ سائز میں بنا کر دینی ہے۔ نعیم نے
بنا کر دے دی۔ وہ اتنی مقبول ہوئی کہ جہلم کینٹ کے ہر جاننے والے نے فرمائش کی یوں
ہمارا گھر کسی سینما کے پینٹر کے گھر میں تبدیل ہو گیا۔ جو تصویر بنواتا وہ بورڈ،
آئل پینٹ، برش اور تیل منوا گر دیتا، ان دنوں غالباً سوروپے سے زیاد ہ خرچہ نہ آتااور
ایک بہترین پینٹنگ سو روپے میں ان کے ڈرائینگ روم کی زینت بن جاتی، کئی
قریبی دوستوں کو نعیم بچے ہوئے رنگوں سے تصویر بنا کر مشکور ہونے کا موقع دیتے۔<u1:p></u1:p></span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> نعیم نے اپنی آسانی کے پانچوں گھوڑوں کے سٹینسل کاٹ لئے،
مجھے کینوس کی بیس بنانا سکھا دی، یوں تھوڑا بہت پینٹنگ کی وادی میں ہم نے بھی قدم
رکھ دیا۔ ہاں ایک دن مزیدار واقع ہوا، ایک چور نعیم کی موٹر سائیکل رات کوگھر سے
لے گیا۔اُس کی تفصیل بعد میں بیان کروں گی۔ نعیم کے کئی بے تکلف دوست ہمارے گھر
میں لگی ہوئی پینٹنگ جاتے ہوئے دیوار سے اتار کر لے جاتے اور نہایت قیمتی مشورہ
دیتے،”اپنے لئے خود بنا لینا“۔ ہم اُن لاہور میں تھے بہت سخت بارش ہو رہی
تھی۔دروازے کی گھنٹی بجی۔بیٹ مین باہر گیا اُس نے مہمانوں کو ڈرائینگ روم میں
بٹھایا اور نعیم کو بتایا کہ میجر نسیم اپنی فیملی کے ساتھ آئے ہیں، ہم دونوں نیچے
اترے، فرسٹ ٹرم میں نعیم کے ساتھ پی ایم اے داخل ہونے والے ای ایم ای کے ٹیکنیکل
گریجوئیٹ میجر نسیم (اب بریگیڈیر ڈاکٹر) گرم جوشی سے نعیم سے ملے۔ </span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”بیگم وہ تصویر
اِس نے بنائی تھی“ نسیم نے انکشاف کیا۔ </span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”بھائی بہت اچھا پینسل سکیچ آپ نے
بنایا تھا“۔میجر نسیم کی بیگم نے تعریف کی </span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> ”لیکن میں نے آپ کو تو کوئی سکیچ
نہیں دیا“۔ نعیم نے کہا۔</span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: right; text-indent: 0.5in; unicode-bidi: embed;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjNrpBRV9TjshCYZgcKTm53IZLy0Ikxj9s_bbIovJZuAYwSXsU-H4ggjnxpZBJxWj-8ziiANZCUPkfgf64UitWSFupA-eIxGCXNjDFGg9d1K39UguTguvxhW_poGzMkc3PApcDsqwO7S64/s1600/108.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="232" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjNrpBRV9TjshCYZgcKTm53IZLy0Ikxj9s_bbIovJZuAYwSXsU-H4ggjnxpZBJxWj-8ziiANZCUPkfgf64UitWSFupA-eIxGCXNjDFGg9d1K39UguTguvxhW_poGzMkc3PApcDsqwO7S64/s1600/108.jpg" width="320" /></a></div>
<span lang="AR-SA" style="color: #002060; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> میجر نسیم نے بتایا کہ جس پنسل سکیچ پر تمھیں پہلا انعام
ملا تھا۔ وہ نمائش کے بعد میں لے گیا تھا۔ ٹھیک چودہ سال بعد میجر نسیم نے تصویر
کی گمشدگی کا راز کھولا۔ </span><span lang="AR-SA" style="font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div align="center" dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; text-align: center; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #073763; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt;"><br /></span>
<br />
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: #999999; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/3.html" style="font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -7</a> - زیرِطباعت</span></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2015/04/6.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -6</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2015/04/5.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -5</a></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/03/4.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -4</a></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/02/3.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -3</a></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/01/2.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -2</a></div>
<div style="text-align: right;">
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/01/1.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">ہونہار برِوا -1</a></div>
<div dir="ltr" style="text-align: left;">
<div style="text-align: left;">
<span style="background-color: white; color: #073763; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 21.3333339691162px; line-height: 20px; text-align: -webkit-center;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></div>
</div>
<div style="text-align: left;">
<span style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/1.html" style="color: blue; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 1</a></span></div>
<br /></div>
<div class="MsoNormal">
<br /></div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-23758632321637528622013-12-30T05:41:00.001-08:002015-06-30T23:39:13.249-07:00فوجی کی بیوی - 3<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj2H9_pv3bWjoP_ZJvmuPBcWv77QiZ_G4pouw8WHJIGOtgfOOeoX5RETCsWGE6udbWGSDjCE3_G4gYUzwj88GAZS73c695jdQLd4QOSdTRZjaQtjdsIVovrkrWYzSnYyk4DJKUYxE1GWOc/s1600/005-Fauji-ki-bivi-03.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><span style="font-size: x-large;"><img border="0" height="90" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj2H9_pv3bWjoP_ZJvmuPBcWv77QiZ_G4pouw8WHJIGOtgfOOeoX5RETCsWGE6udbWGSDjCE3_G4gYUzwj88GAZS73c695jdQLd4QOSdTRZjaQtjdsIVovrkrWYzSnYyk4DJKUYxE1GWOc/s320/005-Fauji-ki-bivi-03.jpg" width="320" /></span></a></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: x-large;"> </span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;">”<span dir="RTL" lang="AR-SA">ارے بیٹے ذرا
جلدی سے پانی پلا“ انہوں نے گڈو سے کہا، </span><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">گڈو پانی لینے
دوڑا۔</span><span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><o:p></o:p></span></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;">”<span dir="RTL" lang="AR-SA">آپا میں نے نعیم
کو آپ کا جواب بتا کر ابھی کراچی کے لئے نکلنا ہے</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span>“ <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">امی نے پوچھا
ُ ”بہن کیا فون آیا ہے؟ ّ</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span>“ <o:p></o:p></span></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">نعیم کی امی
بولیں، ”جی، آپانعیم نے پنڈی سے فون کیا ہے، وہ کہہ رہا ہے میں کل گھر چھٹی آرہا
ہوں۔ آپ سے پوچھ کر بتائیں کہ پانچ یا سات نومبر کو شادی رکھ دیں</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span>“ <o:p></o:p></span></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> <span dir="RTL" lang="AR-SA">اس سے پہلے کہ امی بولتیں، بڑی بھابی بولیں، ”خالہ ایسے تھوڑا
شادی کی تاریخ لیتے ہیں اسے آنے دیں، ہم مشورہ کر کے بتا دیں گے</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span>“<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;">”<span dir="RTL" lang="AR-SA">ہاں تو خالہ
اور کیا؟ ایسی کیا مجبوری ہے“ چھوٹی بھابی
نے لقمہ دیا۔</span><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> ”<span dir="RTL" lang="AR-SA">خالدہ مجبوری ہے وہ
کہہ رہا ہے کہ بڑی مشکل سے چھٹی ملی ہے اگرآپ لوگ نہیں مانتے تو وہ واپس چلا جائے
گا</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span>“ <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">منجھلی بھابی
بولیں،”خالہ تو وہ دوبارہ آجائے گا، دونوں بھائی باہرہیں، لقمان اور ابا کیسے
انتظامات سنبھالیں گے، آپ اسے کہیں کہ بعد میں چھٹی لے کر آجائے“۔</span><span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><o:p></o:p></span></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> <span dir="RTL" lang="AR-SA">میں کمرے میں بیٹھی سب
سن رہی تھی اور مجھے غصہ بھی آرہا تھا، کہ کہاں تو موصوف شادی لٹکارہے تھے اوراب
ہمیں وقت نہیں دے رہے، آج سے پانچ یا سات دن بعد بارات لے کر آنے پر تلے ہوئے ہیں۔</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> <span dir="RTL" lang="AR-SA">کہ ان کی امی نے بم پھاڑا،”نعیم کہہ رہا ہے کہ اگر لڑکی والے
نہیں مانتے تو بے شک پھر اُس کی طرف سے منگنی ختم کر دیں۔ آپا یہ سن کر تو میرے
ہول اُٹھ رہے ہیں اور اس کے ابا بھی پریشان ہیں۔میری تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ میں
تو اِس لڑکے سے تنگ ہوں،آپ فیصلہ کریں“۔</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span lang="AR-SA"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> </span><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> <span dir="RTL" lang="AR-SA">امی معاملے کی نزاکت سمجھتے ہوئے بولیں،”ٹھیک ہے بہن، اس کو کہیں
آجائے، ان دونوں میں سے کوئی تاریخ رکھ لیں گے</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span>“<o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> ”<span dir="RTL" lang="AR-SA">بہت بہت شکریہ۔ بس اب
اس کا فون آئے گا میں اسے بتا کر نکل جاؤں گی، گل کہاں ہے َ</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span>“ <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> <span dir="RTL" lang="AR-SA">یہ کہتے ہوئے دوسرے کمرے میں آئیں میری بلائیں لیں اوربرقعہ
سنبھالتے ہوئے اپنے گھر چلی گئی۔ لیکن اب ہم سب کو ہول اٹھنے شروع ہو گئے۔ نہ کوئی
انتظام نہ لوگوں کو بلاوہ اور دونوں بھائی بھی باہر۔ بھابیاں پریشان اور ہم حیران۔</span><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> <span dir="RTL" lang="AR-SA">امی نے سب کی ہمت یہ کہہ کر بڑھائی،”کہ اللہ مالک ہے سب کام ہو
جائیں گے۔تاریخ پانچ کے بجائے سات رکھ لیں گے۔ اس طرح دو دن اور مل جائیں گے،
فوجاں میں ایسے ہی چھٹی ملے“۔ ہماری امی
اور ابو حیدرآباد دکن میں ہبلی شہر کے ہیں۔</span><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="font-size: x-large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">سب نے اپنے
اپنے ذمے مختلف کام بانٹ لئے دوسرے دن یکم نومبر تھی اور دو نومبر کو بقر عید تھی،
عید کے انتظام کے ساتھ شادی کے انتظامات بھی شروع ہو گئے۔</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span lang="AR-SA" style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> </span><span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><o:p></o:p></span></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> <span dir="RTL" lang="AR-SA">لفٹین صاحب،دوپہر تک جہاز سے کراچی پہنچ گئے۔ ارے
ہاں میں یہ بتانا بھول گئی کہ 19اکتوبر کو یہ کپتان صاحب ہو گئے تھے۔ کپتان
صاحب، پر یاد آیا۔ کہ جب ان کے کپتان بننے
کا معلوم ہوا تو مجھے اپنے کالج میں این سی سی کی ٹریننگ کرانے کے لئے آنے والے
کپتان صاحب یاد آگئے۔ جن کے جسم کو اگر آدھا کیا جاتا تو دو کپتان بنتے۔ میرے خیال
میں لفٹین اس وقت کپتان بنتا ہے جب تک اس کی توند نہ نکلے، ویسے سیانیاں کہتی تھیں کہ شوہر کے دل کا راستہ
اس کے پیٹ سے ہو کر گذرتا ہے۔ اسی لئے میں نے کھانوں میں مہارت حاصل کر لی تھی۔حیدرآبادی
کھانے، بمبئی کے کھانے اور دلّی کے کھانوں
کے علاوہ چینی کھانوں میں، سوپ بنانا آگیا تھا۔ لیکن میں سوچتی کہ اگر لنگر کے
کھانے (بارڈر پر آبزرور کو لنگر کا کھاناملتا ہے) نے ان کو گول مٹول بنا دیا تو
پھر، میرے کھانوں کی گنجائش تو ختم ہو جائے گی۔</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> <span dir="RTL" lang="AR-SA">یکم نومبر کی رات ہم سونے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ کراچی سے
آنے والی ریل کار مہران کی کوک سنائی دی۔ چھوٹے بھائی، نعیم کی امی کے ساتھ کراچی
چلے گئے تھے۔ کیوں کہ انہوں نے تمام رشتہ داروں کے ہاں جا کر شادی کی دعوت دینی تھی۔
اور آج واپس آنا تھا۔ ان دنوں نہ موبائل ہوتا تھا اور ٹیلیفون تو کم گھروں میں
ہوتا تھا۔ لوگ ٹیلی پیتھی سے ہی کام چلاتے تھے۔ چھوٹی بھابی کو یقین تھا کہ چھوٹے
بھائی شائد آدھے گھنٹے بعد آجائیں تو انہیں اٹھ کر کھانا دینا ہو گا۔ کیوں کہ کل عیدہونی
تھی ۔ لہذا ان کا سونے کا پروگرام لیٹ تھا۔ مہران کی کوک سن کر منجھلی بھابی بولیں
کی اُن کی دائیں آنکھ پھڑک رہی ہے شاید گڈو کے آبا آجائیں، بڑی بھابی نے کہا ابھی
چھوٹی عید پر تو ہو کر گئے ہیں اتنی جلدی کیسے آئیں گے؟ آپ آنکھوں میں عرق گلاب
ڈالیں آنکھیں دکھنے کو آئیں گی۔ سواگیارہ بجے گھنٹی بجی اور چھوٹے بھائی جان کی
آواز آئی۔ بھابی نے مجھے کہا دروازہ کھو لو میں کھانا گرم کرتی ہوں۔ دونوں بھابیاں
بھی اس امید پر اٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گئیں۔ کہ شائد اُن کے شوہر بھی آئے ہوں۔مگر
صرف چھوٹے بھائی اندر آئے انہوں نے دروازہ بند کیا اور صحن میں آکر سب کو سلام کیا
اور واش روم میں چلے گئے۔ بھابیاں جواب دے کر ناامید ہو کر لیٹ گئیں۔ میں بھی لیٹ
گئی اچانک میں نے دو سایوں کو کمرے سے نکل کر دبے پاؤں بڑھتے دیکھا۔ میرے منہ سے ایک
خوفناک چینخ نکلی، سب گھبرا کر اٹھ گئے، اچانک صحن کی لائٹ جلی، تو سامنے بڑے بھائی
جان اور منجھلے بھائی جان ہنس رہے تھے۔</span><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> <span dir="RTL" lang="AR-SA">گھر میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ ہم سب کی خوشی ؤؤعالم مت پوچھیں،معلوم
ہوا کہ مسقط میں ان کی کمپنی کے مالک کے ہاں بیٹا ہوا تھا تو اُس نے سب کو تین
تنخواہوں کے برابر بونس دیا۔ چنانچہ دونوں بھائیوں نے 30تاریخ کو دس بجے پاکستان
آنے کا پروگرام بنایا اور یکم کودو بجے کی فلائیٹ سے کراچی پہنچ گئے۔چھوٹے بھائی
کو یہ دونوں کراچی میں مہران پر ملے تھے، چھوٹے بھائی بھی ان کو اچانک دیکھ کر بہت
خوش ہوئے۔ لیکن ہمیں شک کہ اچانک یہ سارے اتفاقات کیسے ہو گئے، کہ نعیم کا اچانک
شادی کا کہنا اور بھائیوں کا آجانا۔ کہیں ملی بھگت تو نہیں؟ لیکن یہ ملی بھگت نہیں
تھی، امی کے ایمان کی وجہ سے کہ اللہ مالک ہے سب کام ہو جائیں گے اور سب کام خود
بخود ہو گئے۔</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> <o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> <span dir="RTL" lang="AR-SA">عید کا پہلا دن تو قربانی کے ہنگامے میں گذرا شام کو نعیم کے
ابو اور امی۔چھوٹی دونوں بیٹیوں کے ساتھ ہمارے گھر باقائد ہ شادی کی تاریخ لینے
آئے جو پروگرام کے مطابق 7نومبر قرار پائی۔ہمارے چھوٹے بھائی کا پروگرام تھا کہ
چار تاریخ کو گانے شروع ہو جائیں، نعیم سے کہہ کر حیدرآباد سے فوجی بینڈ بلوائیں
گے۔ ان کا گھر ہمارے گھر سے دو گلیاں چھوڑ کر تھا کوئی تین سو گز کا فاصلہ ہو
گا۔لہذا بارات پورے سیٹلائیٹ ٹاؤن میں گھوم کر ہمارے گھر آئے گی وغیرہ
وغیرہ ۔</span><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> <span dir="RTL" lang="AR-SA">نو بجے رات یہ بھائیوں
اور ابا سے ملنے آئے۔ان کے جانے کے بعد معلوم ہو ا کہ کپتان صاحب نے سخت قسم کے
مارشل لاء کا اعلان کر دیا ہے۔ شادی بالکل سادگی سے ہوگی۔ کسی قسم کا گانا بجانا
نہیں ہو گا۔ ٹھیک پانچ بجے نکاح ہو گا۔ مغرب کے بعد کھانا اور بارات کی واپسی۔ تمام
رسموں، کا خاتمہ کوئی مذاق نہیں وغیرہ وغیرہ۔ چھوٹے بھائی جان کو سخت غصہ آئے کہ یہ
کوئی شادی ہے۔ مگر بڑے بھائی نے سمجھایا کہ نعیم کی بات بالکل صحیح ہے کہ اُن کے
امی اور ابو، درسوں میں ہندوانہ رسومات سے پرہیز اور سادگی کا درس دیتے ہیں <br />لہذاہمیں
نعیم کی بات ماننی پڑے گی۔ چنانچہ نعیم صاحب کی بات مانی گئی۔</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span lang="AR-SA"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> </span><o:p></o:p></span></div>
<div align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEijQrMcDEF3JTyDctdniSbHp4w9mPcPA_GxBu3fwwg9x4fVHUc5gqFRLHgC5ASrmgTGF4gIEW6jOHc8vkR5Xc89MMEH6UBscQmmHai3z7B36X4ot7B7nE2GSGHDAgQgRQwFitHGyUevjbw/s1600/81.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><span style="font-size: x-large;"><img border="0" height="132" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEijQrMcDEF3JTyDctdniSbHp4w9mPcPA_GxBu3fwwg9x4fVHUc5gqFRLHgC5ASrmgTGF4gIEW6jOHc8vkR5Xc89MMEH6UBscQmmHai3z7B36X4ot7B7nE2GSGHDAgQgRQwFitHGyUevjbw/s1600/81.jpg" width="200" /></span></a><span style="font-size: x-large;"><span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><br /><br /> <span dir="RTL" lang="AR-SA">میری سہیلیوں نے ایک کمرے میں ڈھولک بجا کر اپنے ارمان پورے
کئے۔شادی کے دن گھر کے</span></span><span style="color: #7030a0; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> باہر چھوٹے بھائی کودوستوں کے ساتھ کھڑا ہونا پڑا کہ مہمان
گھر آکر یہ سمجھ کر واپس نہ جائیں کہ شادی ملتوی ہو گئی ہے۔کیوں کہ میرپورخاص
مہمانوں کو صرف محلہ بتانا پڑتا ہے۔ کان پھاڑتے لاوڈ سپیکر باقی راستہ خود بتاتے ہیں۔
بارات میں صرف ان کے گھر کے لوگ تھے۔ کیوں کہ ان کے دوست میرے تینوں بھائیوں کے بھی
دوست تھے۔وہ سیدھے ہمارے گھر آگئے۔بارات پونے پانچ پہنچ گئی 7نومبر کو ٹھیک جب گھڑی نے پانچ بجائے، قاضی
شوکت مرحوم نے نکاح شروع کیا۔ نکاح کے بعد آرسی مصحف اور دودھ پلائی ہوئی پھر یہ
نماز کے لئے مسجد چلے گئے کھانا ہوا اور تقریبا ً
آٹھ بجے رخصتی کا شور مچا، ہمیں اٹھایا گیا کپڑوں کی سلوٹیں بہن اور بھابیوں
نے دور کیں، سسرال سے آیا ہوا برقعہ پہنایا گیا، جونہی کمرے سے نکلے، اچانک احساس
ہوا کہ، بس اب بابل کا گھر چھوٹا اور اس کے ساتھ ہی آنسو چھاجوں برسنے لگے، کہاں
خوشی اب تو رونے کا سماں ہو گیا، ہم تو ہر شادی پر یہ سمجھتے تھے کہ رخصتی کے وقت
رفیع کی آواز میں جو گانا لگایا جاتا ہے،</span><span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><o:p></o:p></span></span></div>
<div align="center" class="MsoNormal" style="text-align: center;">
<span style="font-size: x-large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">بابل کی دعائیں
لیتی جا جا تجھ کو سکھی سنسار ملے،</span><span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><o:p></o:p></span></span></div>
<div align="center" class="MsoNormal" style="text-align: center;">
<span style="font-size: x-large;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">میکے کی کبھی
نہ یاد آئے سسرال میں ایسا پیار ملے</span><span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><o:p></o:p></span></span></div>
<div class="MsoNormal" dir="rtl" style="text-align: right;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgVrQiRF2CVHxIZ5nRyL2XA35uK-hK0bk-DrikhPUEc3HCLB6SOMEs5SgaS5aOj3thJGS2tWJLMzMHYqyCbrK4aSHN1NxofrSTHdg4pAAN6QIj0ssXWhX-oO8CdyPqRwUrbCYBlUXz92ZM/s1600/GUL03+(2).BMP" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><span style="font-size: x-large;"><img border="0" height="166" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgVrQiRF2CVHxIZ5nRyL2XA35uK-hK0bk-DrikhPUEc3HCLB6SOMEs5SgaS5aOj3thJGS2tWJLMzMHYqyCbrK4aSHN1NxofrSTHdg4pAAN6QIj0ssXWhX-oO8CdyPqRwUrbCYBlUXz92ZM/s1600/GUL03+(2).BMP" width="200" /></span></a><span style="color: #7030a0; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> <span dir="RTL" lang="AR-SA">دلہنیں یقیناً یہ گاناوہ سن کر روتی ہیں، لیکن ہمارے آنسو تو
گانے کی غیر موجودگی میں نکل رہے تھے، ابا جان، بڑے بھائی، منجھلے بھائی اور چھوٹے بھائی سب رو رہے تھے،
اور یہاں تک کہ ہمارے دولہا بھائی بھی اپنی آنکھیں رومال سے صاف کر رہے تھے، کمرے
سے دروازے تک کا سفرروتے اور بہن بھائیوں سے گلے ملتے ہوئے جاری رہا، چھوٹی بھابی
ہمارے سر پر سبز غلاف میں لپٹے ہوئے قرآن کا سایہ کر رہی تھیں، گھر کے گیٹ کے بعد
حقدار بدل گئے، ان کی چھوٹی بھابی بانو اور دونوں بہنوں نے، سنبھال لیا، ہماری سسکیاں
جاری تھیں کہ بانو بولی، ”بھابی زیادہ نہ روئیں میک اپ خراب ہوجائے گا“ یہ سننا تھا کہ ہماری ہنسی چھوٹنے والی تھی کہ
بڑی مشکل سے روکی، ہمیں کار میں بٹھایا گیا،یہ،
ان کی امی، چھوٹے بھائی کی بیوی بانو لے کر واپس روانہ ہوئی۔ باقی سب باراتی
پیدل اپنے اپنے گھروں کو واپس گئے یہ بھی
پیدل جانے پر بضد تھے لیکن بڑے بھائی جان نے زبردستی انہیں کار میں بٹھایا۔ یوں ہم
بابل کے گھر سے پیا گھر سدھارے۔</span><o:p></o:p></span><br />
<br />
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></span><br />
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: #666666; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;">فوجی کی بیوی -6 - زیرِطباعت</span><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/10/5.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 5</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/02/4.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 4</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/3.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 3</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/2.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 2</a><span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/1.html" style="color: blue; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 1</a></span><br />
<h3 class="post-title entry-title" dir="ltr" style="background-color: #f3f3f3; color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: 30px; font-stretch: normal; font-weight: normal; margin: 0px; position: relative; text-align: left;">
ہونہار بِروا - 1</h3>
</div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-69745844899156436552013-12-21T14:53:00.002-08:002015-08-13T00:59:00.686-07:00فوجی کی بیوی - 2<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #0b5394;"><span class="Apple-tab-span" style="font-size: x-large; white-space: pre;"> </span></span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="color: #0b5394; font-size: x-large;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjkXpHsj_yTG7_dV4Fin_GhOdVgvXHrz1fJNCYs_U1ZK4t8KXEviW4vJH4wic_mDBY_u-tlfqUABowPz3Ie0yfKLET-6JJW1u58uPQKB3G_AWLl13CE7ajABN3CanFYGDmF91TdiTgErHk/s1600/002-Fauji-ki-bivi-02.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="91" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjkXpHsj_yTG7_dV4Fin_GhOdVgvXHrz1fJNCYs_U1ZK4t8KXEviW4vJH4wic_mDBY_u-tlfqUABowPz3Ie0yfKLET-6JJW1u58uPQKB3G_AWLl13CE7ajABN3CanFYGDmF91TdiTgErHk/s320/002-Fauji-ki-bivi-02.jpg" width="320" /></a></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div align="right" style="margin: 0in 0in 0.0001pt;">
<span style="font-size: x-large;"><span style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><br /> <span dir="RTL" lang="AR-SA">غالباً 10جولائی تھی اِن کا خط
اپنی بہن سعیدہ کے نام آیا۔ وہ خط لے کر ہمارے گھر آئی اور بتایا کہ بھائی کا خط
آیا ہے۔ میں گھبرا گئی کہ نہ معلوم میرے بارے میں کیا لکھا ہو میری چھوٹی بہن
فردوس، خط پڑھنے پرمُصراور میں منع کروں کہ دوسروں کا خط نہیں پڑھتے۔ بہرحال سعیدہ
کے کہنے پر اُس نے اونچی آواز میں خط پڑھنا شروع کیا۔ جو ریل کے سفر سے شروع ہو کر
کرم ایجنسی میں پارا چنار میں ختم ہوا اور راستے میں یہ جن رشتہ داروں سے ملے اُن
کی تفصیل، سب سے مزیدار اِن کا کوہاٹ سے ٹل تک کا سفر تھا۔ چار گھنٹوں کا یہ سفر
انہوں نے ناک پر رومال رکھ کر سفر کیا کیوں کہ پوری بس میں نسوار اور تھوک کی بو
میں سانس دوبھر تھا۔ مجھے بڑا ترس آیا۔ آخر میں ایک جملہ،”محلے والوں کو سلام“
پر مجھے بہت غصہ آیا کہ میرے متعلق ایک بات بھی نہیں لکھی اور "اپنے
محلے والوں" کے لئے سلام بھجوا دیا ہے۔</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span> کالج میں میری دوسری پوزیشن آئی، میں تھرڈ ایر
سے فورتھ ایر میں اپنی سہیلوں کے ساتھ چلی گئی۔ فردوس نے چپکے سے اپنی طرف سے خط
لکھ کر سعیدہ کو دیا اُس نے وہ اِن کو بھجوا دیا۔ جواب میں، فردوس کے نام خط آیا،
اُس میں ایک روپے کے نوٹ پر اپنے دستخط کے ساتھ لکھا،”اعلی کامیابی پر“ اور
خط کے آخر میں پھر وہی جملہ،”محلے والوں کو سلام“ تب عقدہ کھلا
کہ،”محلے والے“ ہمارے لئے استعارہ ہے۔ اِن کے خط آتے رہے نومبر 77کی بات ہے
ہم لوگ دس بجے دھوپ سینکنے کے لئے سامنے والے صحن میں بیٹھے تھے میں کسی کام
کے لئے اُٹھی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی، چھوٹی بھابی گئیں اور پوچھا کون ہے؟
جواب میں پوچھا،”لقمان صاحب ہیں“ بھابی نے دوبارہ پوچھا آپ کون؟ آواز آئی، ”عبدا
لغنی“۔ بھابی حیران کہ اس نام کا تو بھائی کا کوئی دوست نہیں اور پھر بھائی گھر پر
نہیں تھے۔ بتا دیا کہ وہ نہیں ہیں۔ بھابی نے واپس ہونے والے کو دیکھا، اِن کا
انداز نظر آیا مجھے بلایا دیکھو یہ کون ہے میں نے دروازے کے سوراخ سے جھانک کر
دیکھا۔ یہ سامنے سڑک پر کھڑے کسی سے بات کر رہے تھے۔ میں گھبرا کر پیچھے ہٹی اور
اندر دوڑ گئی۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> فردوس
باہر نکلی انہیں بلایا مگر یہ چلے گئے، معلوم ہوا کہ مہینے کی چھٹی لے کر آئے ہیں
۔ امی کو معلوم ہوا تو نارض ہوئیں کہ اندر کیوں نہیں بلایا۔ شام کو بھائی آئے تو
منجھلے بھائی کے بیٹے گڈّوکو بھیج کر بلوایا، یہ گھرپر نہیں تھے مغرب کے بعد اپنے
ہمزاد، آزاد بھائی کے ساتھ آئے۔امی نے کھانے کا پوچھا تو معلوم ہوا کھانا کھا کر
آئے ہیں، حال احوال پوچھا اور چائے بھجوائی۔ تھوڑی دیر میں ناہید اور اس کی بہن
آگئی۔ اُن کا پروگرام اِن سے مذاق کرنے کا تھا۔اِن کے لئے چائے اہتمام سے بنائی
گئی۔ ناہید نے گڈّو کو بتایا کہ یہ کپ اِن کے سامنے رکھنا اور ہنسنا بالکل نہیں۔
گڈّو چائے رکھ کر پلٹا، ناہید، اس کی بہن اور فردوس سٹول رکھ کر دروازے کے اوپر
بنے روشندان سے جھانکنے لگیں۔چائے اُن کے سامنے رکھی یہ پیالی نہیں اُٹھا رہے،
یہاں سسپنس بڑھتا جارہا تھا۔بھائی نے اصرار کیا بھئی چائے پیو انہوں نے کہا پہلے
پانی پیوں گا۔بھائی پانی لینے اُٹھے۔آزاد بھائی نے اُٹھ کر سامنے بڑی میز سے اخبار
جہاں اُٹھایا اور واپس بیٹھ گئے۔ چائے کی پیالیاں ویسے ہی پڑی تھیں۔ بھائی نے پانی
دیا انہوں نے پانی پیا۔آزاد بھائی نے چائے کی چسکی لی اور پیالی واپس رکھتے ہوئے
میز پر گر گئی۔آزاد بھائی نے، بھائی سے معذرت کی اور اِن سے کچھ کہا، انہوں نے
اپنی چائے دینے کی کوشش کی۔ شکر ہے آزاد بھائی نے انکار کر دیا۔انہوں نے پیالی
اُٹھا کر چسکی لی تھوڑا سا منہ بنایا، بات بات کی خبر اوپر سے ہماری طرف آرہی
تھی۔امی، باورچی خانے میں تھیں اور ہم سب منہ میں دوپٹے ٹھونسے ہنس رہے تھے اور یہ
منہ بنا بنا کر چائے پیتے جا رہے تھے، تھوڑی دیر بعد ہم حیران ہوئے پھر ہمارے چہرے
پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ کہ چار چاول کے چمچے نمک ملی چائے پینے کے بعد انسان کی
کیا حالت ہو گی، بہر حال وہ چائے انہوں نے پی لی اور جاتے ہوئے کہا،”لقمان بھائی
چائے بڑی مزیدار تھی“۔ ہم سب پریشان اب کیا ہوگا۔ مجھے غصہ بھی آرہا تھا کہ مذاق
تھا ساری چائے پینے کی کیا ضرورت تھی، عجب ڈھیٹ آدمی ہے اگر کچھ ہو گیا تو پھر۔
دوسرے دن معلوم ہوا کہ اِن کی طبیعت خراب ہو گئی اور یہ اپنی امی کے ساتھ
حیدآباد سی ایم ایچ گئے ہیں۔ مجھے خود پر غصہ آیا کہ منگیتر تو میرے تھے میں نے
کیوں مذاق کرنے دیا اور ندیدوں کی طرح ساری چائے پینے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا گھر
میں چائے نہیں ملتی۔ </span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span class="apple-converted-space"> </span>امی
سے ہمیں بہت جھاڑ پڑی ناہید کو بھی باتیں سنی پڑیں اور سب نے وعدہ کیا کہ آئیند ہ
کوئی ایسا مذاق نہیں کریں گے۔ہمیں افسوس کہ شاید سسرالی چائے کا بھرم رکھنے میں یہ
مجنوں سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ آزاد بھائی سے
گرنے والی چائے دراصل نمکین چائے تھی جو سیکنڈ کے وقفے میں آزاد بھائی کے روشندان
کی سامنے سے ہو کر اخبار جہاں اُٹھانے کے وقت تبدیل کردی۔ یہ پہلے سے تیار ہو کر
آئے تھے کہ مذاق ہو نہ ہو پیالیاں کسی طرح تبدیل کرنی ہیں اور کسی بھی چیز کو پہلے
آزاد چکھے گا اور بعد میں یہ، چنانچہ آزاد بھائی نے چائے پی کر بتا دیا کہ
نمک ڈالا ہے یہ ویسے ہی منہ بنا بنا کر پیتے رہے۔ پہلے ہم اپنی کامیابی پر خوش
ہوئے اور بعد میں اِن کی حالت کا اندازہ کر کے پریشان اور باقی کسر، سعیدہ نے
فردوس کو یہ کہہ کر پوری کر دی کہ بھائی کی طبیعت خراب تھی،امی کے ساتھ حیدآباد سی
ایم ایچ گئے ہیں۔ بعد میں سعیدہ نے بتایا کہ بھائی کو اِس قسم کا مذاق پسند
نہیں،جس میں نقصان پہنچے۔بہرحال مذاق سے ہم نے جزوی توبہ کی لیکن کہتے ہیں
کہ چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں وہ سالیاں ہی کیا جو دلہابھائی کو زچ
نہ کریں۔ لیکن ہونے والی دلہن کی آشیرباد کے بعد۔اُن کی پلاننگ کے بعد ہماری
اپروول کے بعد کاروائی ہوتی۔لیکن انہوں نے اپنے بھائی اور آزاد بھائی کے ساتھ مل
کر ایک دفعہ لوہاری مذاق کیا۔ یعنی سو سنار کی اور ایک لوہار کی۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span class="apple-converted-space"> </span>انہیں
آئے ہوئے کوئی بیس بائیس دن ہو گئے تھے،ہر تیسرے چوتھے دن مغرب کے بعد آزاد کے
ساتھ ہمارے ہاں چائے پینے آتے۔کہانیاں اور مختلف واقعات سنانے میں انہیں مہارت
حاصل تھی، کیوں کہ ہر قسم کے ڈائجسٹ، ناول، تاریخی کہانیا ں اور عمران سیریز
پڑھتے، چنانچہ گڈو اور فردوس فرمائش کر کے قصے سنتے، جن میں اِن کے دونوں چھوٹے
بھائی اور بہنیں بھی شامل ہو جاتیں۔کبھی کسوٹی بھی کھیلا جاتا، ہم لوگ دروازے کے
دوسری طرف روشندان سے آنے والی آوازیں سنتے رہتے، بعد میں فردوس اور گڈو تفصیل
بتاتے۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">
میرپور خاص میں توہم پرستی بہت زیادہ ہے، چنانچہ وہاں جنوں، بھوتوں اور
چڑیلوں کا بھی راج ہے اب معلوم نہیں کہ وہی حال ہے یا لوگ تعلیم کی وجہ سے بہادر
ہو گئے ہیں۔ہمارے گھر کے سامنے بڑی سڑک ہے اور پچھلی طرف چھوٹی گلی ہے جس میں
لوگوں نے اپنی بھینسیں باندھی ہوتی ہیں، یہ گلی آٹھ بجے کے بعد سنسان ہو جاتی
ہے۔ہاں ہم جو اِن سے مذاق کرتے اُس میں چھوٹے بھائی بھی شامل ہوتے ۔ اُس دن انہوں
نے جنوں، بھوتوں اور چڑیلوں کی خوفناک کہانی سنائی، رات ساڑھے دس بجے کا وقت تھا،
یہ تینو ں بعد میں اپنے گھر چلے گئے، گھر میں چھوٹے بھائی، اور ہم سب تھے
ابا کراچی گئے ہوئے تھے۔ہم سونے کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ چھوٹے بھائی نماز
پڑھ کر تھوڑی دیر ہوئی اٹھے تھے اور صحن میں گھومتے ہوئے دعائیں پڑھ رہے تھے۔
گیارہ بجے ہماری پچھلی گلی کے دروازے کی کنڈی کسی نے بجائی، ہم سب چارپائیوں پر
لیٹے ہوئے تھے۔ چھوٹے بھائی نے پوچھا کون ہے، ہمیں انّا خالہ کی لرزتی آواز
سنائی دی ”لقمان دروازہ کھولو“ بھائی نے کمرے سے چابی لا کر دروازے کے اندر
لگا ہوا تالا کھولا، ہم سب بھی صحن میں آگئے، چھوٹی بھابی اور بھائی نے دروازہ کھول
کر باہر اندھیرے میں جھانکا، دروازے کے باہر کوئی نظر نہیں آیا، چھوٹی بھابی نے
آواز دی انّا کہاں ہو۔ سامنے دائیں طرف دیوار کی طرف سے آواز آئی ”یہاں ہوں“
انہوں نے سامنے دیکھا۔ اچانک ایک سفید ٹھگنا سا سایہ بھائی کی طرف لپکا اور
بھائی کے سر سے ٹوپی اتار کر تاریکی میں گم ہو گیا۔ اُس کے گم ہوتے ہی سامنے سے
گھٹی گھٹی آواز میں ہنسنے کی آوازآئی۔ بھابی نے لپک کر بھائی کو اندر کھینچا۔
دروازے کو کنڈی لگائی تو دروازے کو دھکا دینے اور کھرونچنے اور انّا خالہ کے
رونے کی آواز آئی۔ بھائی،بھابی اور ہم سب چھلانگیں مارتے اور ہانپتے کانپتے کمرے
میں گھس کے دروازے کو کنڈی لگا دی اور ہماری رات سوتے اور ڈرتے گذری، دوسرے
دن شام سعیدہ اور حمیدہ ہمارے گھر آئیں۔اُنہیں ہم نے ساری کہانی سنائی وہ
بھی حیران ہو کر ہماری کہانی سنتی رہیں بعد میں سعیدہ نے کہا کہ نعیم بھائی نے یہ
ٹوپی بھجوائی ہے۔اُس نے لفافے سے لقمان بھائی کی ٹوپی نکال کر دی جو سایہ لے کر
بھاگ گیا تھا اور ہمیں سب کو چیئیں (املی کی گٹھلیاں) پڑھنے پر لگا گیا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> <span class="apple-converted-space"> </span>آزاد
بھائی اِن کے میٹرک کے کلاس فیلوہیں اور دونوں گہرے دوست ہیں، آزاد بھائی صحافت
میں چلے گئے اور یہ فوج میں، دونوں ایک جیسے کپڑے پہنتے اور چشمہ لگاتے تو ہم شکل
جڑواں بھائی نظر آتے، اِن کی امی آزاد بھائی کو ہمزاد کہتیں۔کئی دفعہ شہر سے گھر
آنے کے بعد پوچھتیں "نعیم کہاں ہے؟ " سعیدہ بتاتی کہ بھائی تو نہیں آئے
تو کہتیں میں نے خود شہر میں دیکھا ہے۔ </span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> وقت گذرتا رہا ہم 1978میں گریجوئیٹ ہو گئے۔
انہوں نے دس روپے کا نوٹ دستخط کر کے فردوس کو بھجوایا اور تنبیہ کی کہ”محلے
والوں“ کو بتائیں کہ اِس کے پکوڑے مت کھانا۔ آگے پڑھنے کے لئے ہمیں حیدرآباد جانا
پڑتا جس کی اباجان نے اجازت نہیں دی، چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کیوں کہ اِس سال شادی
ہونی ہے لہذا پرائیویٹ کوشش کی جائے۔ یہ اُن دنوں نوشہرہ میں کورس کر رہے تھے کہ
ایک بری خبر ملی وہ یہ کہ اپریل 1978میں افغانستان میں انقلاب آیا اور کچھ روسی
دستے افغانستان میں داخل ہو گئے۔اور ہماری مغربی سرحد جو ایک پر سکون سرحد تھی،
سورش زدہ علاقے میں تبدیل ہوگئی۔ اِن کی یونٹ کے آبزرور کو سرحد پر دفاعی پوزیشن
سنبھالنے کا حکم ہو ا جو پارا چنار اور علی زئی کے علاقوں میں بنائی گئیں یہاں سے
پاکستان میں گاڑیوں کے راستے آتے تھے۔ کورس کے بعد یہ اپنی بیٹری کی آبزرویشن پوسٹ
پر چلے گئے۔ یہ ستمبر میں چھٹی آئے۔ اپنے اباجان سے مل کر انہیں سارا حال بتایا۔
اِن کے ابا نے ہمارے ابو کو بتایا کہ حالات کی وجہ سے سال تک شادی ممکن نہیں، ابو
نے کہا کوئی بات نہیں۔ یہ واپس چلے گئے۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> خاندانی سازشوں سے شائد کوئی خاندان بچا ہو،
جہاں دوست ہوتے ہیں وہاں حاسد بھی بہت، فروری یا مارچ 1979کی بات ہے کہ ابو جان کے
نام ایک خط آیا جو اِن کی طرف سے تھا اور ہمارے صحن میں پڑا تھا ابو نے خط کھولا،
پریشان ہو گئے، امی اور بھائیوں نے پڑھا۔ اُن کی بھی یہی حالت ہمیں بھی سن گن ملی
کہ اِنہوں نے کوہاٹ میں کسی کیپٹن لیڈی ڈاکٹر سے شادی کر لی ہے۔ مجھے بھی دکھ
ہو ا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ ریجیکشن کا جو احساس ایک لڑکی کو ہوتا ہے اُس نے ہمیں
بھی افسردہ کر دیا۔ فیصلہ ہوا کہ اِن کے ابو سے بات کی جائے، امی اور ابو اِن کے
گھر گئے۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">
ہمارے ابو نے اِن کے ابو کو وہ خط دے دیا اِن کے ابو نے وہ خط پڑھا
اور ابو سے پوچھا،</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">" عبدالغفورصاحب آپ نے
یقین کر لیا۔ ابو نے جواب دیا، یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ؟"</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">اِ ن کے ابو نے کہا،
"پہلی بات تو یہ نعیم ایسا نہیں کر سکتا، اگر اُس نے لیڈی ڈاکٹر سے
شادی کرنی ہوتی تو حیدرآباد میں میرے دوست کی بیٹی لیڈی ڈاکٹر تھی انہوں نے رشتے
کاکہلوایا تھا ۔ مگر نعیم نے انکار کر دیا ، وہ مکمل گھریلو بیوی چاہتا ہے دوسرے
یہ </span><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> اُس کی</span><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">لکھائی نہیں، اُس کا لفافہ کہاں ہے؟"</span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> میرے ابو نے کہا " وہ
تو گھر پڑا ہے"</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> بھتیجے گڈّو کو بھیجا کہ لفافہ لے کر آئے۔سعید لفافہ لے کر آیا۔ انہوں نے لفافہ دیکھا تو
اُس پر مہر کے بجائے دوات کے ڈھکن سے گول مہر لگائی گئی تھی۔ اِن کے ابو نے بتایا،
کہ کوئی فساد پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے اور اپنی میز کی دراز سے ایک خط نکال کر
دیا اور کہا کہ ایسے تین خط پہلے بھی مجھے مل چکے ہیں جو میں پڑھ کر پھاڑ چکا ہوں
یہ چوتھا خط ہے جو کل ملا ہے آپ گھر لے جائیں اور پڑھیں لیکن اُن دونوں خطوں کی
لکھائی ایک ہے۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">
ابو معذرت کر کے خط گھر لے آئے پڑھا، بلکہ ہم نے بھی دراز سے نکال کر پڑھا
بہت غصہ آیا لیکن تھوڑی سی خوشی بھی ہو ئی کہ چلو کوئی تو ہمارے لئے خودکشی کرنے
کے لئے تیار ہے اور ایک یہ ہمارے منگیتر صاحب ہیں کہ بیس ماہ کی منسوبیت کے
باوجودہمارا رتبہ ”محلے والوں“ سے آگے نہیں بڑھا اور ایک ہم ہیں کہ ہم نے اپنے
بھتیجے گڈّو کے ہاتھوں، اِن کے پینے والے پائپ کا تمباکو، سگریٹ، فردوس کو
لکھے ہوئے اِن کے خط جمع کر کر کے رکھے۔ اور یہ سوچ بھی آتی تھی کہ انہوں نے ہمیں
ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا اور نہ ہی دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، کہیں ایسا تو نہیں کہ
یہ ماں کی مجبوری سے بند گئے ہیں۔خدانخوستہ کہیں وہ خط سچ نہ ہو اِنہوں نے شادی نہ
کر لی ہو! وسوے دبے پاؤں آتے رہے ، </span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiL-PZRvF7YitSqYjJN0_pSuxiEdb3yCVwoXDGsMLcKlz5kWoHuDz0qYiZyB97dpsu14JOC7CXNhok41kMIR4F87K2TySo3rBjkvBTQoskt2sKw5jtP8MIu_LTsr_U80I59ZF7CHPFnSo8/s1600/IMG_20150813_104813.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiL-PZRvF7YitSqYjJN0_pSuxiEdb3yCVwoXDGsMLcKlz5kWoHuDz0qYiZyB97dpsu14JOC7CXNhok41kMIR4F87K2TySo3rBjkvBTQoskt2sKw5jtP8MIu_LTsr_U80I59ZF7CHPFnSo8/s320/IMG_20150813_104813.jpg" width="320" /></a></div>
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">
وقت آہستہ آہستہ رینگتا رہا،اِن کے گھر والے شادی کا نام نہیں لیتے، جب امی،
ان کی امی سے پوچھتیں تو وہ کہتیں کہ دیکھیں نعیم کب راضی ہوتا ہے۔ اور نعیم صاحب
تھے کہ شادی سے زیادہ شہادت کی طرف راغب تھے۔ افغانوں کے ساتھ مل کر روسیوں سے لڑ
رہے تھے۔ستمبر 1979کی بات ہے بھابی کی انّا خالہ نے امی کو رائے دی۔ کہ مجھے لڑکے
والوں کا شادی کا ارادہ نہیں لگتا اُس سے پہلے کہ لڑکے والے انکار کریں آپ لوگ خود
منگنی توڑ دیں۔یہ بات امی، انّا اور چھوٹی بھابی کے درمیان خفیہ طور پر گردش کر
رہی تھی ابھی تک کسی اور کو ہوا نہ لگی تھی۔ لڑکا بھی تلاش کر لیا گیا، چھوٹی
بھابی کا ماموں زاد رضاعی بھائی سعید عرف گلّو، لڑکے میں کوئی برائی نہ تھی سوائے
ایک بات کے کہ اُس کے والد گالیاں دینے کے ماہر تھے۔ جو امی کے لئے قابل قبول نہ
تھی۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">
نہ جانے یہ بات کس طرح ”وکی لیکس“ بن گئی اور ناہید کے ذریعے نہ صرف ہم تک
پہنچی بلکہ میری منجھلی بھابی کے ذریعے اُن کی امی تک، وہاں سعید ہ سے ہوتی
ہوئی۔اِن تک پہنچ گئی۔اِن کا خط آیا کہ اگر ”گل“ کی خواہش ہے تو مجھے کوئی اعتراض
نہیں انہیں یہ منگنی توڑنے کی اجازت ہے۔ مجھے معلوم ہوا تو پھر شدید دکھ ہوا
نہ کوئی شور نہ کوئی ڈائیلاگ، اُن دنوں سدھیر اور محمد علی کے ظالم سسر یا
باغی حسینہ کے خلاف بولے جانے والے ڈائیلاگ زیادہ گونجتے تھی یہ فوجی تو
ڈائیلاگ بولنے میں واقعی وحید مراد نکلا۔ </span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">
لفٹین صاحب نے کتنی آسانی سے بات ہم پر ڈال دی اور خود صاف بچ گئے۔ تاکہ خود نیک
نام ہوں اور ہم بدنام۔ کہ لڑکی نے ایک شریف آدمی سے منگنی توڑ ڈالی۔ اور وہ بھی
23ماہ بعد، ہم نے انّا خالہ کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا، ہم پر بڑا زور ڈالا
جانے لگا، ہم اپنی جگہ پر قائم تھے لیکن دل میں خوف بھی تھا کہ کہیں ہم شرمندہ نہ
ہوجائیں، میری گہری سہیلی نے اپنی خدمات پیش کیں کہ وہ نعیم کو خط لکھ
کر پوچھتی ہے کہ وہ شادی کیوں نہیں کرتے ایک شریف لڑکی کو انتظار کی صلیب پر کیوں
لٹکایا ہوا ہے۔میں نے سختی سے منع کر دیا کہ نہیں اُنہوں نے گیند میری طرف لڑھکا
دی ہے اور فیصلہ میں نے کرنا ہے اور وہ یہ کہ میں انتظار کروں گی۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> وہ 30اکتوبر 79کی بات ہے، صبح کے نو بجے
تھے امی، انّا خالہ ،تینوں بھابیاں، میں اور فردوس بیچ کے کمرے میں
بیٹھے ہوئے تھے کہ گیٹ بجا۔ گڈّو دروازہ کھولا، اِن کی امی گھبرائی ہوئی
داخل ہوئیں، دادی کہاں ہیں، گڈّو نے جواب دیا اندر بڑے کمرے میں بیٹھی ہیں ۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div align="right" style="margin: 0in 0in 0.0001pt;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><span dir="RTL"></span><span dir="RTL"></span> امی ”یا اللہ
خیر“ کہتے ہوئے اُٹھیں، ”آپا سلام"</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> "وعلیکم“ نعیم کی
امی بولیں ”نعیم کا پنڈی سے فون آیا ہے“</span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"><o:p></o:p></span></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span style="font-size: x-large;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin-bottom: .0001pt; margin: 0in; text-align: justify; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: x-large;"> وہ بھرائی ہوئی سانس
میں بولیں، ایسا لگتا تھا کہ تقریباً دوڑتی ہوئی آئی ہیں۔ </span><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span><br />
<br />
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></span><br />
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: #666666; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;">فوجی کی بیوی -6 - زیرِطباعت</span><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/10/5.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 5</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/02/4.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 4</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/3.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 3</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/2.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 2</a><span style="background-color: white; color: #333333; font-family: Arial, Tahoma, Helvetica, FreeSans, sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span><span style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: large; font-stretch: normal;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/1.html" style="color: blue; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 1</a></span><br />
<h3 class="post-title entry-title" dir="ltr" style="background-color: #f3f3f3; color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: 30px; font-stretch: normal; font-weight: normal; margin: 0px; position: relative; text-align: left;">
ہونہار بِروا - 1</h3>
</div>
</div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-64944335849111941292013-12-21T08:38:00.000-08:002014-06-14T13:58:12.780-07:00فوجی کی بیوی کا اعزاز<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<b><span style="color: purple; font-size: large;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhMqyJ6T91DSMFApJ6K8TfF0N3I9mcCROE1pyA3sBtSLSaQ9Ypy1aordKjNKMrY8BcrC4UU8J5NNr4zh_aQyPy6XAmADIgcAzDxNNm_zi8YheOvYx1K6SJbzJUbwjOlTH_p88aJ2hoWmZU/s1600/003-Tribute-soldiers+wife.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhMqyJ6T91DSMFApJ6K8TfF0N3I9mcCROE1pyA3sBtSLSaQ9Ypy1aordKjNKMrY8BcrC4UU8J5NNr4zh_aQyPy6XAmADIgcAzDxNNm_zi8YheOvYx1K6SJbzJUbwjOlTH_p88aJ2hoWmZU/s320/003-Tribute-soldiers+wife.jpg" height="91" width="320" /></a></span></b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br />
<br />
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;"><br />
میں وردی نہیں پہنتی، لیکن میں فوج میں ہوں، کیوں کہ میں اس کی بیوی ہوں </span></b><span dir="LTR" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">میں اس عہدے پر ہوں جو دکھائی نہیں دیتا،
میرے کندھوں پر کوئی رینک نہیں </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">میں سلیوٹ نہیں کرتی، لیکن فوج کی دنیا
میں میرا مسکن ہے </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">میں احکام کی زنجیر میں نہیں،لیکن میرا
شوہر اس کی اہم کڑی ہے </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;"> میں فوجی احکام کا حصہ ہوں، کیوں کہ
میرا شوہر ان کا پابند ہے </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">میرے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں، لیکن
میری دعائیں میرا سہارا ہیں </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">میری زندگی اتنی ہی جانگسل ہے، کیوں کہ
میں پیچھے رہتی ہوں </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">میرا شوہر، جذبہ حریت سے بھرپور، بہادر
اور قابل فخر، انسان ہے </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">تپتے صحرا ہوں، ریگستان ہوں، برفیلے میدان
یا کھاری سمندر </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">ملک کی خدمت کے لئے اس کا بلاوہ، کسی کی
سمجھ میں نہیں آسکتا</span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">میرا شوہر، قربانی دیتا ہے اپنی جان کی،
میں اور میرے بچے بھی </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">میں سرحدوں سے دور، امیدوں کے ہمراہ، اپنے
پر آشوب مستقبل کی </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">میں محبت کرتی ہوں اپنے شوہر سے، جس کی
زندگی سپاہیانہ ہے </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: purple; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">لیکن میں، فوج کے عہدوں میں نمایا ں ہوں،
کیوں کہ میں فوجی کی بیوی ہوں </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<br />
<div class="MsoNormal">
<br /></div>
</div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com5tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-77013154428532473062013-12-20T03:06:00.000-08:002014-06-14T13:58:26.337-07:00میں سو نہ سکی <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhVrHycaDFkaiwVQLI16-YTmYjKm3u2aERGoMEi6hFeW1LMedqUyMXBrDh8dW2AS1wPRCJgcyVACkjt_uzZeu8BVBiltr6aXSnb0pgn-45VFm_BHp1dSjXh58_fHgbVn2yEw9FDmmOMuWY/s1600/002-I+could+not+sleep.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhVrHycaDFkaiwVQLI16-YTmYjKm3u2aERGoMEi6hFeW1LMedqUyMXBrDh8dW2AS1wPRCJgcyVACkjt_uzZeu8BVBiltr6aXSnb0pgn-45VFm_BHp1dSjXh58_fHgbVn2yEw9FDmmOMuWY/s320/002-I+could+not+sleep.jpg" height="91" width="320" /></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #990000;"><br /></span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEihfhlfGlSEPieDwpb1sCCuimAwv8bOrny-X7L1CDk8XF6LpM5YRZoqHcJGFPdS9xnVfmQUZjfSWlEjzMoTBF3Oo5g3XAPq5DXd1wMcV1xGOvRGwKdPvEuPvV96cmnZXt4r2AGhK-RtDmk/s1600/Henious.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><span style="color: #990000;"><img border="0" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEihfhlfGlSEPieDwpb1sCCuimAwv8bOrny-X7L1CDk8XF6LpM5YRZoqHcJGFPdS9xnVfmQUZjfSWlEjzMoTBF3Oo5g3XAPq5DXd1wMcV1xGOvRGwKdPvEuPvV96cmnZXt4r2AGhK-RtDmk/s200/Henious.jpg" height="200" width="200" /></span></a></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #990000;"><br /></span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">وہ بچی تھی</span></b><span dir="LTR" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">چھوٹی سی پیاری سی</span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">میری نواسی عالی جیسی</span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">اپنے باپ کی گود میں سہمی سی</span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">نرم و نازک کونپل کی طرح لرزاں </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">وہ کھیل رہی تھی ہنس رہی تھی </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">اپنی دادی کی گود میں چند لمحے
پہلے </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">اپنی ماں کو شرارت سے چڑاتی ہوئی </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">دادی کی گود میں چُوری شوق سے کھاتی
ہوئی </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">اب وہ خاموش ہے انے باپ کو گود میں </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">سر سے بہتا خون، جسم سے رستا خون </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">کپڑوں کو بھگوتا، ایڑیوں کو بھگوتا ٹپ ٹپ
گرتا </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">غزہ کی سڑک پر لمبی سی اک لکیر
</span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">سرخ رنگ کے قطروإ کی دور معدوم ہوتی جاتی
ہے </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">وہ ننھی معصوم سی پیاری بچی </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">قطر قطرہ خالی ہوتی ہے </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">انکھیں بند ہوتی ہیں </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">میری آنکھیں بھی دھندلی ہوتی ہیں </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">قطرہ قطرہ وہاں خون ہے یہاں آنسو
ہیں </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">وہ ننھی پیار ی معصوم بچی سو گئی </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">ہسپتال پہنچنے سے پہلے اک ابدی نیند
میں </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">وہ ننھی پیاری معصوم سی بچی </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">میری نواسی عالی جیسی</span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">میں سو نہ سکی، انسانوں کے ظلم پر </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<b><span lang="AR-SA" style="color: #990000; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt;">جو وہ کرتے ہیں اپنے بچوں کے امن کی
خاطر </span></b><span lang="AR-SA" style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<br />
<div class="MsoNormal">
<br /></div>
</div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-101338387689139046.post-16388126087597903922013-12-18T12:09:00.001-08:002019-02-11T04:19:02.615-08:00فوجی کی بیوی- 1<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<span style="color: #351c75;"> </span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="color: #351c75;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg8TAQzo3C3N_Vol4KK3v1UQMkO-hJcelgVnZOHuGh8NK-xwZiE0e9KK6zJc9iLW2N99_zBx5QlWHsQIy4VQc3Sell9tlr_urOr7aE8ZAENXOgGow9C6ijeYkamvoUTBAS9-0fFMXnMHFs/s1600/Fauji-ki-bivi-01.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="89" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg8TAQzo3C3N_Vol4KK3v1UQMkO-hJcelgVnZOHuGh8NK-xwZiE0e9KK6zJc9iLW2N99_zBx5QlWHsQIy4VQc3Sell9tlr_urOr7aE8ZAENXOgGow9C6ijeYkamvoUTBAS9-0fFMXnMHFs/s320/Fauji-ki-bivi-01.jpg" width="320" /></a></span></div>
<br />
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> وہ 29جون 1977 کا دن تھا میں چھوٹے بھائی جان اور بھابی کے
ساتھ کراچی مہینے کی چھٹیاں گذار کر مہران سے واپس رات گیارہ بجے میرپورخاص خاص
پہنچی۔ آج سے ٹھیک پینتیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ یوں لگتا ہے کل کا دن ہو۔ ریلوے
سٹیشن سے تانگے پر اپنے گھرسیٹلائیٹ ٹاؤن پہنچے۔ نہا کر کھانا کھایا، امی، ابا،
بڑے بھائی، بھابی، منجھلی بھابی، چھوٹے بھائی، بھابی اور چھوٹی بہن سب صحن میں
چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ بھتیجے اور بھتیجیاں سو چکی تھیں ہم کراچی کے واقعات سنا
رہے تھے۔ </span><span dir="LTR" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> کہ
چھوٹی بہن نے میرے کان میں ایٹم بم پھاڑا، ”باجی وہ سعیدہ باجی ہیں نا ۔<span class="apple-converted-space"> </span><br />
"ہاں کیا ہوا ان کو " میں نے پوچھا ۔<br />
بہن بولی ، "ان کے بھائی ہیں نا وہ جو فوج میں ہیں“<span class="apple-converted-space"> </span><br />
میں نے فوراً کہا،”ہاں وہ لمبے کانوں والا فوجی؟“</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> ”جی ہاں“ چھوٹی بہن نے مسکراتے
ہوئے کہا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”کیا ہوا اُس کو اور تم دانت کیوں نکال
رہی ہو؟“ میں نے پوچھا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> ”کل آپ کی اُن سے منگنی ہو رہی
ہے!“ چھوٹی بہن نے جواب دیا۔<span class="apple-converted-space"> </span> میں
حیرت سے چیخی ”کیا، نعیم الدین خالد سے؟ " </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> نہیں وہ ایٹم
بم نہیں غالبا نیوٹرون بم کا دھماکہ تھا۔ میرے کانوں میں سائیں سائیں ہونے لگی۔
مجھے کسی کی آوازنہیں آرہی تھی۔ جب یہ بھائی سے ملنے آتے تو ہم بھابی کو چھیڑتے
کہتے،</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”بھائی کے وہ لمبے کانوں والے اور
لمبے نام والے نعیم الدین خالد صاحب آئے ہیں اور ساتھ ان کے ہمزاد بھی ہے آپ چائے
بنائیں“ </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 13.5pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">اور بھابی چڑ جاتی تھیں، ان کے گہرے دوست اور کلاس فیلو کو ہم
ہمزاد کہتے تھے وہ بھی ساتھ ہوتے۔ </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">امی نے پوچھا،”گل تمھیں اعتراض تو نہیں“</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">میں کچھ نہ کہہ سکی۔اگلے دن میں ہونق بنی
پھرتی رہی۔ ہر کام روبوٹک ایکشن پر ہو رہے تھے۔ جب مجھے منگنی کی انگوٹھی غالباً
پانچ بجے اِن کی امی نے پہنائی۔ یہ باقی مردوں کے ساتھ بیٹھک میں تھے۔ تب
مجھ پر ایک خوفناک آگہی ہوئی کہ میں اُس لمبے کانوں والے فوجی کی بیوی بنوں گی۔ اب
سب مجھے چھیڑیں گے کہ”لمبے کانوں والے کی بیوی“ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
کہ کیا کروں۔ مجھے اپنے بچپن کا زمانہ یاد آگیا جب ہم والکرٹ میں ایک گروپ
کی صورت میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کواونچی آواز میں چھیڑا کرتے تھے۔<span class="apple-converted-space"> </span><br />
" لمبے کانوں والا ، تیرے لمبے لمبے کان ، تیری حلوائی کی دکان ، کھاتا رہتا
ہے تو پان ، بیوی نکالے گی تیری جان "</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> کان چھوٹے
نہیں کرائے جا سکتے اور نعیم کے بال ایسے کٹے ہوتے تھے کی جیسے کسی رنگروٹ نائی نے
سر پر پیالہ رکھ کر مشین چلا دی ہو۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کروں
میٹرک پاس کرنے کے بعد میرے رشتے آنے شروع ہو گئے۔ کسی پر امی ابا نے اعتراض
کیا کسی پر بہن بھائیوں نے اور کسی کو ہم نے قابل اعتراض گردانا۔ ابھی کراچی میں
خالہ کی بیٹی کی شادی میں دو خواتین نے ہم کو پسند کر لیا ایک تو جولائی کے پہلے
ہفتے میں رشتہ لے کر آنے والی تھیں۔ اب کیا ہوگا۔ نعیم کے ہم نے ماردھاڑ کے بہت
قصے سنے ہوئے تھے اور دیگر وہ قصے بھی مشہور تھے جو نہیں ہونے چاہییں۔ جن میں کچھ
تو ہماری کلاس فیلو تھیں اور کچھ ان کی محلہ دار اور ایک تو پڑوسن تھیں، جن کے
ساتھ بیٹھ کر یہ اپنی امی کے سامنے گپ شپ لگایا کرتے تھے۔ یہ بات خود ان کے چھوٹے
بھائی نے ہمیں بتائی۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">
انگوٹھی پہنے کے بعد ہم نے اپنے چھوٹے بھائی جان کی طرف دیکھا، شاید
ان کی آنکھوں میں افسردگی ہو۔ کیوں کہ وہ ان کے گہرے دوست اور راز و نیاز کے
ساتھی تھے۔ شاید ان کے مشہور کرتوتوں کے بارے میں جانتے ہوں۔ لیکن چھوٹے بھائی ان
کے نمبر دو بھائی سے ہنسی مذاق کر رہے تھے ان کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔ میری گہری
سہیلی ناہید مجھ سے چپکے چپکے مذاق کر رہی تھی اور میں ابھی تک دھماکوں کی
زد میں تھیں۔ </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> امی کو
دیکھو ہر آنے والے رشتے کو ایسے پھٹکتی تھیں جیسے چھاج میں گندم ۔ ایک رشتے کو تو
صرف اس لئے انکار کردیا کہ لڑکا ، پان بہت کھاتا ہے ۔ کمال ہے، انہوں نے بھی کوئی
قانونی شق نہیں نکالی۔ صرف دولہا بھائی نے اعتراض کیا تھا کہ لڑکا سگریٹ پیتا ہے
اور بزرگوں کو (یعنی انہیں) سب کے سامنے سگریٹ پینے پر اکساتا بھی ہے ، مزید
ستم یہ کہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ بھی بیٹھتا ہے۔ یعنی ایک نہیں تین تین خامیاں تھیں اور
اس پر ستم یہ کہ دولہا بھائی کو فوج کے لطیفے بھی سناتا ۔ بڑوں کا ادب لحاظ نہیں
تھا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی امی اور بہنوں کو دیکھ کر یہ رشتہ قبول کر لیا
کہ بیٹی نے رہنا تو سسرال میں ہے ۔ </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> ان کی چھوٹی دونوں بہنیں، سعیدہ اور حمیدہ خوشی
سے نہال ہو رہی تھیں، دونوں چھوٹے بھائی نسیم اور وسیم میرے دائیں بائیں
گھسے ہوئے تھے سب سے چھوٹاوسیم، جو آٹھ سال کا تھا میری گود میں سر رکھ کر لیٹا
تھا، ان کی امی میری بلائیں لے رہی تھیں۔ آہستہ آہستہ میرے کان میں کل رات ہونے
والے دھماکے کی آواز کی شدت میں کمی محسوس ہونے لگی۔<br />
<br /> میں نے غور کیا تو کانوں کو چھپانے کا حل سمجھ میں
آگیا۔ جیسی ٹوپی ہمارے دولہا بھائی پہنتے تھے میں بھی شادی کے بعد اِن کے لئے وہی
ٹوپی خرید کر تحفے میں دوں گی جس سے کان چھپے رہتے ہیں اور سردیوں میں منہ کے لئے
ایک گول سا سوراخ ہوتا ہے۔ میرپورخاص کے باہر بے شک وہ یہ ٹوپی نہ پہنیں ۔ لیکن
یہاں تو یہ ٹوپی ہر خاص و عام میں سردیوں میں مقبول تھی خاص طور پر جب کوئیٹہ کی
ہوا آتی ۔<span class="apple-converted-space"> </span>یہ اُن دنوں ٹل کوہاٹ
میں تھے جہاں سخت سردی پڑتی ہے۔ یہ وہاں بھی کام آسکتی تھی۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> ابھی میں اِن سوچوں
میں گم تھی کہ اِن کی چھوٹی بہن سعیدہ نے ایک تصویر دکھائی، بھابی یہ دیکھیں۔ میں
نے دیکھا اور بولی، ”شاید یہ وحید مراد کے بچپن کی ہے“۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">جب ہم والکرٹ میں تھے تو، دلیپ کمار
اورراج کپوردور تھا ہمارے سب سے بڑے بھائی، دلیپ کمار کی ایسی نقل اتارتے کہ ہم
بچیاں حیران رہ جاتیں اور سوچتیں کہ فلم والوں کی نظر ہمارے بھائی پر کیوں نہیں
پڑتی، اُ ن دنوں سڑکوں پر وحید مراد، محمد علی اور ندیم نظر آتے تھے،</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”نہیں!نعیم بھائی کی ہے جب میٹرک میں تھے
کوئٹہ میں کھنچوائی تھی“ سعیدہ نے جواب۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">میں نے غور سے دیکھا سات سال پہلے کی
تصویر تھی جب انہوں نے میٹرک کیا تھا۔ مجھے ان کے لمبے بالوں میں کان نظر نہیں
آئے۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">” کیا کان میٹرک کے بعد بڑھے ہیں؟“ میں
نے پوچھا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">”کون سے کان بیٹی؟“ اُن کی امی نے پوچھا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">میں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ کیا بہانہ
کروں۔ میری چھوٹی بہن فوراً بولی،”خالہ، نعیم بھائی کے کان بہت بڑے ہیں“۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">ان کی امی کھلکھلا کر ہنسیں اور
بولیں،”گل، تمام فوجی جب بال کٹواتے ہیں تو اُن کے کان نکل آتے ہیں، میرے بیٹے کے
کان تو بہت چھوٹے ہیں“۔ میری سانس میں سانس آئی۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><br /></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> ”سعیدہ یہ کونسی تصویر ہے دکھانا ذرا“
ان کی امی نے تصویر مانگی، تصویر دیکھ کر ہنس پڑیں اور واپس کر
دی۔’’امی یہ وہی والی ہے“ سعیدہ نے بتایا۔ ”اچھا ٹھیک ہے“۔ اِن کی امی نے
جواب دیا۔ " وہی والی " یہ کوڈ ورڈ ہمیں سمجھ نہ آیا ، بعد
میں معلوم ہوا کہ ان کے سر پر لمبے بالوں کی یہ آخری یادگار تصویر ہے ، کیوں ان کے
والد نے کوئیٹہ میں غصے میں آکر قینچی لے کر ، خود ان کی ٹنڈ کر دی تھی، اس کے بعد
غالباً ان کے بالوں نے لمبے ہونے سے انکار کردیا یا پھر انہوں نے والد کے ڈر سے
بال ہی نہیں بڑھائے ۔ </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> اِن
کے امی اور ابو ”جماعت اسلامی میں تھے“۔ امی کونسلر بھی تھیں اور تھرپارکر
کی غالبا ً عورتوں کی امیر بھی، دو تین ماہ پہلے ”نظام مصطفیٰ کی تحریک“ میں
باقی لوگوں کے ساتھ ان کے ابو گرفتار بھی ہوئے، عورتوں کو بھی گرفتار کیا تھا۔
اُسی جلوس میں اُن کی امی بھی تھیں۔ اِن کی امی بھی بینر اُٹھا کر آگے آگے چل رہی
تھیں دونوں بہنیں بھی تھیں۔جلوس جب، بلدیہ کے آفس کے سامنے پہنچا تو وہاں رک گیا
تقریریں شروع ہوئیں۔ ان کی امی چِوڑی گلی میں رشتے کی بھتیجی کے ہاں دونوں بیٹیوں
کو ساتھ لے کر پانی پینے دو اور عورتوں کے ساتھ گئیں، وہاں، انہوں نے اُن کو کھانا
کھلایا، گھر کی کھڑکی سے جلوس نظر آرہا تھا۔جلوس چلنے لگا تو انہوں نے سوچا نماز
پڑھ جلوس میں ملتے ہیں۔ جلوس تھوڑا آگے چل کر پولیس لائن کے پاس پہنچا تو، پولیس
نے نکل کر ہلا بول دیا اور سارے اگلی صفوں کے شرکاء کو گرفتار کر لیا۔ یہ عورتیں
باہر نکلنے لگیں تو ”بھتیجی“ نے منع کیا جب یہ باہر نکلنے لگیں تو وہ تیزی سے باہر
نکلی اور دروازے کو تالا لگا کر نیچے اتر گئی۔ باہر ہنگامہ مچا ہو اتھا۔ دوڑ بھاگ
ہو رہی تھی۔پو لیس نے خوب لاٹھی چارج کیا۔ بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ جب ہنگامہ تھما تو
بھتیجی واپس آئی اور ہنستے ہوئے بولی،”ممانی“، اب گھر جائیں اور ماموں کے لئے،
تھانے میں کھانے پکا کر بھیجیں۔ </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> مجھے یاد ہے کہ میں اور باجی گورنمنٹ گرلز مڈل
سکول میں المعروف”لال سکول“ میں پانچویں تک پڑھے۔ باجی مجھ سے دو تین کلاس آگے
تھیں جب انہوں نے آٹھویں اور میں نے پانچویں کلاس پاس کی تو ہمیں گورنمنٹ گرلز
ہائی سکول، شفٹ کر دیا، دھندلی دھندلی یادیں آنکھوں کے سامنے لہراتی ہیں۔اسی وقت
ہم والکرٹ سے سیٹلائیٹ ٹاؤن میں گھر بننے کے بعد ہم 1968میں شفٹ ہوئے تھے۔ باجی تو
برقع پہنتی تھیں مجھے بھی گیارھویں سال میں برقع پہنا دیا گیا اور ایسا سخت پردہ
کہ ہاتھوں پر دستانے پہننے کا حکم تھا ہم تین بھائی اور تین بہنیں ہیں،
تینوں بہنیں بھائیوں سے چھوٹی ہیں۔ </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">
1974میں میرے سب سے چھوٹے بھائی کی شادی ہوئی تو یہ شہ بالے بنے تھے۔ ہاں
یاد آیا، چھوٹے بھائی نے اپنی سالی کے لئے اِن کو کنونس کرنے کی کوشش کی تھی بلکہ
شادی کے ہجوم میں دکھائی بھی تھی۔ مگر اُن دنوں اِن کی نظر کہیں اور تھی۔ ہم تو
اچانک اِن کی امی کی لسٹ میں اچانک 27جون کو آگئے۔جب اِن کی امی نے میرپورخاص سے
باہر شادی کو قطعاً ممنوع کر دیا اور اپنی ایک خاص سہیلی کی بیٹی کے لئے اِن کو
کہا۔ مگر اِنہوں نے انکار کر دیاتین، چار اور لڑکیا ں ہٹ لسٹ پر لائی گئیں، سب
میٹرک یا ایف اے تھیں۔ صرف دو لڑکیا ں اِن کے جانے والوں میں کوالی فائی کر رہی
تھیں، ایک کی بات چل رہی تھی، باتیں تو سب ہی لڑکیوں کی چل رہی تھیں۔ کہتے ہیں کہ
بیری ہو تو پتھر آتے ہیں۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> اِنہوں نے
شرط لگا دی۔ کہ لڑکی گریجویٹ ہونی چاہیئے۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">ان کی امی نے کہا،”شیخ صاحب! کی بیٹی ہے
وہ ابھی تھرڈ ایر کا امتحان دے رہی ہے“۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">یہ بولے،”کون! لقمان کی بہن؟“ ۔
ہاں، ان کی امی جواب دیا۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">
اِنہیں معلوم تھا کہ، لقمان کی امی کبھی بھی رشتہ نہیں دیں گی۔ کیوں کہ،
1971میں چھوٹے بھائی سے ملنے آنے پر، ہمارے کتے کے بھونکنے اور ان کو لپک کر
کاٹنے پر انہوں نے لات مار کر اُسے دور پھینک دیاتھا۔ اور ہماری امی کو یہی دکھ
تھا کہ بے زبان جانور کو مارا۔ اِن کی امی سے شکائیت کی۔ اِنہوں نے کافی صفائی پیش
کی کہ امی مجھ میں چودہ ٹیکے اور وہ بھی پیٹ میں لگوانے کی ہمت نہیں تھی اور اُس
نے مجھے پہچاننے کے باوجود مجھ پر حملہ کیوں کیا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ میں لقمان
کا دوست ہوں ؟ اس کے بعد ہمارا کتا انہیں دیکھتے ہی دم دبا کر ، اندر بھاگ آتا اور
یہ زور سے قہقہہ لگاتے ۔ </span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">
بہرحال اِنھیں سو فیصدیقین تھا کہ، ہماری امی اِن کا نام لیتے ہی، نہ کہہ
دیں گی۔اور اِن کی جہاں ”نظر“ تھی وہاں کے لئے شائد راضی ہو جائیں ۔ کیوں کہ اِن
کی امی کے علاوہ سب راضی تھے بلکہ، اِن کی چچی کوئی مہینہ پہلے راولپنڈی سے چکر
لگا کر گئیں۔ اور ان کی امی کو کافی منایا۔ کہ آپا راضی ہو جائیں۔ اِن کی امی کا
کہنا تھا کہ اگر بیٹے کی شادی پنڈی میں کر دی تو میں بیٹے کا منہ دیکھنے کو ترس
جاؤں گی۔ کیوں کی اِس نے رہنا تو پنجاب میں ہے۔ ہر چھٹی پھر یہ پنڈی گذارے گا۔بڑی
مثالیں دی لیکن اِن کی امی ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ تنگ آکر انہوں نے چچی کو کہا کہ
”ساجدہ“ تم شادی کروا دو میں نہیں آؤں گی۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> اِن کا کہنا
تھا کہ امی نہ آئیں تو میں شادی ہی نہیں کروں، اور نہ رشہ مانگنے کے لئے امی کے
علاوہ کسی کو بھیجوں گا۔ بلکہ پاس آؤٹ ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد میں پلاٹ
کے لئے ایڈوانس جمع کروا دیا تھا، امی کی دھمکی کی وجہ سے پلاٹ کینسل کروانا پڑا۔
صرف ان کی امی کی ایک”نہ“ کی وجہ سے یہ ”پنڈی وال“ نہ بن سکے۔ بلکہ بعد میں السر
کے مریض بن گئے۔ خیر دوسرے دن اِن کی امی ہمارے ہاں آئیں میں تو کراچی میں تھی۔
اِن کی امی نے رشتہ مانگا۔میری امی نے ایک دن مانگا۔ اور دوسرے دن انہوں نے ہاں
کردی۔اور اِن کی تمام امیدیں ختم ہو گئیں۔ یہ بار بار پوچھیں مذاق تو نہیں
کر رہیں۔ اِ ن کی امی جواب دیں ہرگز نہیں اور 30 تاریخ کو منگنی ہے۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj_4ZKXKAycN3I5cWhtMww3qwgO8SZ1qh1baAcJeXsswjjKtNx347gHtRBZM0DVkWEDGoP4VRxf90uCGYIAJC4a8PQ_DwJliOMy9iEdnsbD9K5bs2UxYTvliU_MsAgXyyexfZ7GjDLMeRA/s1600/N-1977-11-10.BMP" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="200" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj_4ZKXKAycN3I5cWhtMww3qwgO8SZ1qh1baAcJeXsswjjKtNx347gHtRBZM0DVkWEDGoP4VRxf90uCGYIAJC4a8PQ_DwJliOMy9iEdnsbD9K5bs2UxYTvliU_MsAgXyyexfZ7GjDLMeRA/s1600/N-1977-11-10.BMP" width="162" /></a><span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> منگنی کے دوسرے دن یہ اپنی یونٹ ٹل کے لئے روانہ
گئے۔ ناہید نے اپنے گھر جاتے ہوئے محلے میں رہنے والی ساری کلاس فیلوز کو بتا دیا
۔ میں تھرڈ ایر میں تھی کالج گئی تو سب نے مبارکباد دی اور مٹھائی کا تقاضا کیا
اور پوچھا کہ منگنی کس سے ہوئی ہے۔ میری ایک کلاس فیلو۔”خالدہ قمر“جو مڈل
سکول میں مجھ سے ایک سال سینئیرتھی اور اب ہمارے ساتھ تھی، ہمارے گھر سے دو گلیاں
چھوڑ کر رہتی تھی۔اُس نے اپنے پرس سے ایک تصویر نکالی اور ساری لڑکیوں کو دکھاتی
ہوئی بولی”اِس سے“-</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiY_-Vx4f7UdwMZtrxG6keIeYVHaeNNVqAyoR5zCEWstcAjEQgBJreUTFRVweCVr6btHidTznC2J7DNuIGrc6aA9Jy4jv8CxdOmdLyCe2JaOdG3WRVMxMmyc0qyJbE7vnSRkyozTBWneec/s1600/110.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="320" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiY_-Vx4f7UdwMZtrxG6keIeYVHaeNNVqAyoR5zCEWstcAjEQgBJreUTFRVweCVr6btHidTznC2J7DNuIGrc6aA9Jy4jv8CxdOmdLyCe2JaOdG3WRVMxMmyc0qyJbE7vnSRkyozTBWneec/s1600/110.jpg" width="277" /></a><span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> میری نظر تصویر پر
پڑی۔کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، خجالت سے میں زمین میں گڑی جارہی تھی۔تصویر میں یہ
سمندر کے کنارے، اپنے دو اور دوستوں کے ساتھ، سوئمنگ کاسٹیوم میں کھڑے تھے یہ اِن
کی 1972کی تصویر تھی۔ ناہید، خالدہ قمر کا مذاق سمجھ گئی اور اس سے تصویر لیتے
ہوئے بولی،”یہ دو کانگڑی پہلوان کون ہیں۔ ان میں سے غالباً ایک تمھارے ماموں
ہیں؟“</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> پھر اپنے پرس سے اِن کی سرمونیل ڈریس میں
سیکنڈ لیفٹننٹ کی تصویر نکالی جو ناہید نے اپنی امی کو دکھانے کے لئے مانگی
تھی۔”یہ ہیں پاک فوج کے آفیسر“ ناہید نے سب کو دکھاتے ہوئے کہا ”جس سے ہماری
کلاس پریفیکٹ کی منگنی ہوئی ہے“۔ لڑکیوں نے وہ تصویر اچک لی اور خوب تعریف کی،
اتنے میں مس”سکندر عسکری“ کا مسلم ہسٹری کا پیریڈ شروع ہوا وہ کلاس میں داخل
ہوئیں، انہوں نے تصویر دیکھی اور مجھے مبارکباد دی اور سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی۔</span><span lang="AR-SA" style="font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<br /></div>
<div dir="RTL" style="direction: rtl; margin: 0in 0in 0.0001pt; unicode-bidi: embed;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiO3cdhOl7TA7krFTt826UrpYbHVCJfFKCfCdt0a-AaPrBNn7XXbiVCaQ6bgQSYYW9QFsHI6LrqKZn-xOzDhpZ9oVI7JJSugGTzsDTGd5_gzXsfdnCeE5teCXdEUrX2C2vSNgXTm5EQy_s/s1600/IRG-College-1978.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="201" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiO3cdhOl7TA7krFTt826UrpYbHVCJfFKCfCdt0a-AaPrBNn7XXbiVCaQ6bgQSYYW9QFsHI6LrqKZn-xOzDhpZ9oVI7JJSugGTzsDTGd5_gzXsfdnCeE5teCXdEUrX2C2vSNgXTm5EQy_s/s1600/IRG-College-1978.jpg" width="320" /></a><span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"> <span class="apple-converted-space"> </span>اب بھی میں اپنے سر پر اُن کا مامتا
جیسا لمس محسوس کر رہی ہوں۔ وقت کتنی جلدی گذرجاتا ہے اور فاصلوں کی دھند میں کتنے
اچھے، کتنے پیارے اور حوصلہ دلانے والے چہرے چھپ جاتے ہیں۔ وہ چہرے جنہوں نے
مستقبل سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیا ہوتا ہے، وہ ہنس مکھ چہرے جو ناامیدی میں
حوصلہ بڑھاتے، آج وہ چہرے ایک ایک کرکے میری آنکھوں کے سامنے سے گذرتے جا
رہے ہیں۔کتنے شفیق چہرے تھے جنہوں نے قدم قدم پر میری راہنمائی کی۔</span><br />
<span lang="AR-SA" style="color: #351c75; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><br /></span></div>
<br />
<br />
<div class="MsoNormal">
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: "arial" , "tahoma" , "helvetica" , "freesans" , sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;">٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭</span></span><br />
<span style="background-color: white; color: #333333; font-family: "arial" , "tahoma" , "helvetica" , "freesans" , sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span>
<span style="color: #666666; font-family: "jameel noori kasheeda" , "alqalam taj nastaleeq" , "jameel noori nastaleeq" , "alvi nastaleeq" , "nafees web naskh" , "urdu naskh asiatype" , "arial" , "tahoma" , "freesans" , sans-serif , "helvetica"; font-size: large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی -6 - زیرِطباعت</span><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/10/5.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 5</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2014/02/4.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 4</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/3.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 3</a><br />
<a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/2.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: x-large; font-stretch: normal; text-decoration: none;">فوجی کی بیوی - 2</a><span style="background-color: white; color: #333333; font-family: "arial" , "tahoma" , "helvetica" , "freesans" , sans-serif; font-size: 15px; line-height: 20px; text-align: justify;"><span lang="AR-SA" style="color: #0b5394; font-family: "jameel noori nastaleeq"; font-size: 13.5pt;"><br /></span></span>
<span style="color: blue; font-family: "jameel noori kasheeda" , "alqalam taj nastaleeq" , "jameel noori nastaleeq" , "alvi nastaleeq" , "nafees web naskh" , "urdu naskh asiatype" , "arial" , "tahoma" , "freesans" , sans-serif , "helvetica"; font-size: large; font-stretch: normal; text-decoration: none;"><a href="http://gul-nama.blogspot.com/2013/12/1.html" style="color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-stretch: normal; text-decoration: none;" target="_blank">فوجی کی بیوی - 1</a></span><br />
<h3 class="post-title entry-title" dir="ltr" style="background-color: #f3f3f3; color: blue; font-family: 'Jameel Noori Kasheeda', 'AlQalam Taj Nastaleeq', 'Jameel Noori Nastaleeq', 'Alvi Nastaleeq', 'Nafees Web Naskh', 'Urdu Naskh Asiatype', Arial, Tahoma, FreeSans, sans-serif, Helvetica; font-size: 30px; font-stretch: normal; font-weight: normal; margin: 0px; position: relative; text-align: left;">
ہونہار بِروا - 1</h3>
</div>
</div>
</div>
Gul Naeemuddinhttp://www.blogger.com/profile/04328893144257549491noreply@blogger.com1