Pages

اتوار، 19 اکتوبر، 2014

جادو کے صرف تین جملے!

ایک دفعہ کا ذکر ہے ، کہ ایک چھوٹے سے قصبے سے ایک کنبہ شہر میں آیا ، میاں بیوی کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا کہ دونوں آپس میں بے انتہا محبت کرتے ہیں اور میاں بیوی کی عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی، باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی بڑھ رہی تھی۔ اردگرد کی عورتوں کا خیال تھا :٭ -  شاید وہ ایک بہت ماہر اور اچھا کھانا پکانے والی ہے؟
٭ -  شاید  اُس کی خوب صورتی اُس کا راز ہے ، جو عمر کے ساتھ برقرار ہے ؟
٭ -  شاید اُس کی اولاد کی وجہ سے شوہر اُس کا گرویدہ ہے ؟
٭ -  شاید یا وہ اعلیٰ نسب کی خاندانی عورت ہے؟
٭ -  شاید وہ کوئی ، ایسا ٹوٹکا یا جادو جانتی ہے ۔ جس سے اُس کا شوہر اُس کے پلو سے بندھا ہے !

بالآخر عورتوں نے ، اُس کی دائمی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کا راز جاننے کے لئے پوچھا ۔ کہ ہماری آپ کے بارے میں اِن سوچوں میں سے کون سی سہی ہے ۔ یا ہمیں بھی وہ گُر بتائے کہ ہمارے شوہر بھی ہماری محبت کا دم بھرنے لگیں ۔

تو عورت نے مسکرا کر جواب دیا ،
٭ -  اچھے کھانے یقیناً، ہر شوہر کو قابو میں رکھنے کا گُر ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی کھانا پکانے میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے،اور بعض دفعہ کھانا بھی وجہ نزع بن جاتا ہے ۔
٭ -   جسمانی خوب صورتی  رفتہ رفتہ عمر کے ساتھ ڈھلتی جاتی ہے ، لیکن اُس کو عمر کے ساتھ برقرار رکھا جا سکتا ہے ۔ لیکن بیماریاں انسان کے تعاقب میں ہوتی ہیں ، معمولی غفلت جسمانی خوبصورت کو گھن کی طرح کھا جاتی ہے ۔
٭ -  اچھی سعادت مند اولاد ،شوہر کا فخر ہوتی ہے ۔ لیکن اولاد کی تمام غلطیاں ماں کے کھاتے میں جاتی ہیں اور اچھائیاں باپ کے ، اور ممکن ہی نہیں کہ بچوں سے غلطیاں سرزد نہ ہوں جو شوہر کی نظر میں نہ آئیں ؟
٭ -   بیوی کے اعلیٰ نسب یا خاندانی وجاہت سے گرویدہ شوہر بالآخر اُکتا جاتا ہے ۔
٭ -   ٹوٹکا یا جادو ایک اہم نکتہ ہے جس سے شوہر کو بیوی اپنے پلو میں باندھ سکتی ہے ۔عورتوں نے جب ٹوٹکے اور جادو کا سُنا تو بضد ہوگئیں کہ ہمیں بھی یہ سکھائیے ۔
" جب ایک لڑکی بیوی بن کر ، شوہر کے گھر جاتی ہے تو وہ ایک خاندان سے دوسرے خاندان کی طرف اپنی مستقبل کی خوشیوں بھری زندگی کی طرف منتقل ہوتی ہے ۔شادی سے پہلے اُس کا شوہر اُس کے لئے ایک محبوب ہوتا ہے اور عورت اُس کے لئے محبوبہ ، شادی کے بعد یہ رشتہ بظاہر ختم ہو جاتا ہے اور میاں بیوی کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے ۔ لیکن ایسا نہیں ہے محبوب اور محبوبہ کا رشتہ برقرار رہتا ہے لیکن آہستہ آہستہ بیوی خود اِس تعلق کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیتی ہے ۔"عورتیں توجہ سے بزرگ خاتون کی بات سن رہی تھیں ، وہ سانس لینے کو رکی ، عورتوں نے کہا
" یہ تو ہم جانتے ہیں آپ ہمیں ٹوٹکا بتائیے ۔  کہ شوہر کو کیسے قابو کیا جائے ؟"
بزرگ خاتون مسکرائی اور گویا ہوئی ۔

 " 
خوشیوں بھری زندگی کے اسباب  خود بیوی کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر بیوی چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت کی چھاؤں بنا سکتی ہے اوروہ اپنے گھر کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سےبھی بھر سکتی ہے!

ہمارے دور میں ایسی محبتوں کا رواج نہ تھا جیسی اب ہوتی ہیں ، منگنی ہوئی تو منگیتر نے محبوب کا درجہ اختیار کرنا شروع کر دیا ۔ اُس کی عادتوں پسند یا ناپسند کے بارے میں نندوں سے پوچھنا شروع کیا ، اُنہوں نے لازماً اپنے بھائی کی تعریف ہی کرنا تھی ، اپنے حلوے کو کون برا کہتا ہے !  
 کہنا کہ بھائی کو غلط بات پر غصہ آتا ہے ۔ ورنہ بھائی بہت محبت کرنے والے اور خوش مزاج ہیں ، بچوں میں تو اُن کی جان ہے ۔ وغیرہ وغیرہ

میں جب شادی ہو کر نئے گھر آئی تو ، حسبِ معمول میری ماں اور باپ نے مجھے بے شمار نصیحتیں کیں ، کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ اُن کی بیٹی ، دکھ بھری نہیں بلکہ سکھ اور خوشیوں سے بھرپور زندگی گذارنے جا رہی ہے ۔ اُس کے ساس اور سسر نے اُن کی بیٹی کو اپنے بیٹے کی مستقبل کی ساتھی کے طور پر کئی لڑکیوں کو دیکھنے کے بعد ، اپنی ، بہو ، بیٹے کی بیوی ، بیٹیوں اور بیٹوں  کی بھابی کے طور منتخب کیا ہے ، تاکہ وہ اُن کے خاندان کے اضافے کا باعث ہو ۔ میں نے اپنے والدین کی بات کو پلے سے باندھ لیا ، لہذا سب سے پہلا مرحلہ اپنی ساس ، سسر ، نندوں اور دیوروں پر  جادو کرنے کا تھا ۔
میرا شوہر یوں سمجھو اڑیل گھوڑے کی طرح تھا ، کہ زین ڈالو تو بُدک کر بھاگے، چارہ ڈالو تو مشکوک نظروں سے دیکھے ، اپنے والدین کے ہاں جاؤں تو ساتھ جائے اور واپسی پر ساتھ لے آئے ،  نہایت غصیلا تھا ، شوہر پر جادو کرنا بڑامشکل اور صبر آزما مر حلہ تھا ۔ لیکن جادو تو کرنا تھا تاکہ اُسے قابو میں کیا جاسکے عمر بھر کے لئے ، تو میں نے جادو کے صرف "تین جملے" استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔"عورتیں  یک دم بولیں، " وہ تین جملے کیا ہیں جلدی بتائیے ؟ "
ذرا صبر کرو  بتاتی ہوں ، بتاتی ہوں ۔
وہ تین جملے تھے ، جی اچھا ، بہت بہتر ، ابھی کرتی ہوں ۔
یہ تین جادو بھرے لفظوں نے سب گھر والوں ، بشمول شوہر کو رام کرنا شروع کیا ، اِس کے علاوہ " عمل " سے بھی کام لیا اُس کے بغیرتو جادو ناممکن ہے ۔ 
 "آپ نے عاملات کی مدد لی یا حاضرات کی ؟ " عورتوں نے پوچھا
" عاملات سے بھی مدد لی اور حاضرات سے بھی ، اِن کے بغیر تو شوہر پر قابو پانا ناممکن تھا "
خواتین ہمہ تن گوش ہو گئیں ۔
 " ہاں ، میں نے بتایا کہ میرا شوہر غصیلا ہے ۔ جب اُسے غصہ آتا تو میں خاموش ہو جاتی اور چپ کر کے اُس کی باتیں سنتی رہتی، کمرے سے اُٹھ کر نہ جاتی اور چہرے کو نہ مضحکہ خیز بناتی اور نہ مسکراتی ، بس پریشانی کے تاثر لاتی ،کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ اُنہوں نے مجھے سنانی ضرور ہیں ، کمرے سے باہر جانے پر، کمرے سے بلکہ گھر سے باہر والے سنتے ، جب وہ سناتے سناتے  دل کی بھڑاس نکال چکتے تو میں خاموشی سے باہر جاتی اور اُن کے لئے چائے یا شربت یا کوئی میٹھی چیز لاتی، اُن کے پاس رکھ کر ، کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر چلی جاتی، بچوں کو بتایا ہوا تھا کہ جب اُن کے ابو غصے میں ہوں تو کمر ے میں مت آئیں اور جب وہ اُن پر غصے ہوں تو کمرے سے نہ نکلیں ، 
کمرے سے نکل کر اپنے باقی کام کرتی ، اور دماغ میں اُن کے غصے کو وجوھات  اور حل تلاش کرتی ، تاکہ آئیندہ کے لئے سدباب کیا جاسکے اور مجھے حل مل جاتا ۔ آدھے گھنٹے بعد آکر دیکھتی کہ اُنہوں نے چائے یا شربت پی لیا ہے یا نہیں ، سوئے ہوئے ہیں یا جاگے ہوئے ۔ اگر وہ جاگے ہوئے ہیں اور چائے یا شربت پڑا ہوا ہے ، تو اِس کا مطلب یہ ہوتا کہ غصہ شدید ہے ابھی بھڑاس باقی ہے ۔مجھے اندازہ ہوتا کہ غصے کے باعث ، ضائع ہونے والی توانا ئی کو واپس لانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے، لہذاپھل کاٹ کر اُن کے پاس لاکر رکھ دیتی ، چائے یا شربت  اُٹھا کر لے جاتی۔
"تو کیا آپ اپنے شوہر کے بلاوجہ غصہ پر ناراض نہ ہوتیں اور بولنا نہیں چھوڑتیں" ؟ ایک نے پوچھا ۔
"آپ بتائیے کہ کتنے دن تک ناراض رہ کر شوہر سے بات کرنا چھوڑا جا سکتا ہے ؟ انہوں نے سوال کیا ۔
"جب تک شوہر نہ منائے " ؟ اُس نے جواب دیا ۔
"اور اگر شوہر ، تین دن یا ہفتے تک نہ منائے تو ! اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اُس کو خود سے دور رکھنے کا عادی بنا رہی ہیں ۔ یاد رکھیں اگر وہ اِس کا عادی ہوگیا تو آپ کی اپنے آپ سے دشمنی کا آغاز ہو گیا ۔
کبھی ایسا نہ کرنا ، کبھی نہیں ۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم سے بات چیت چھوڑنے کا مطلب ، اُسے گھر سے باہر نکلنے کا راستہ دکھانا ہے ۔ ایسا ہر گز نہ کرنا ۔بیوی کو شوہر کی نباض ہونا چاہئیے ، جراح نہیں ۔ جراحی کا کام وقت پر چھوڑ دو ۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے سکون کے لئے ساتھ رہتے ہیں ، عورت کو اپنے لئے محفوظ قلعہ چاہئیے اور مردکو عورت سے اپنا سکون۔  میں شوہر کو کبھی نہیں جتاتی کہ وہ غلط ہے اور میں صحیح ، میں اپنے شوہر کو احساس ہی نہیں ہونے دیتی کہ میں اُس سے ناراض ہوں ، اُس کے بار بار پوچھنے پر بھی ، میں کہتی ، آئیندہ غلطی نہیں ہو گی ، جب میں دوسروں کی غلطیوں کو بھی اپنا لیتی تو اُس کا رویہ مجھ سے نرم ہوجاتا اور محبت بڑھ جاتی ۔ وہ مجھے آئیندہ غصہ نہ کرنے کا یقین دلاتا اور پیار بھری باتیں کرتا تاکہ میرے ذہن سے وہ اپنے روئیے کو مٹا سکے ۔ 
" تو کیا آپ اُس کی پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟"  عورتوں نے پوچھا 
بالکل، کیا غصے میں کہی ہوئی باتوں کا یقین کرلیں اور پُر سکون حالت میں  پیار میں کہی ہوئی باتوں پر یقین نہ کریں ؟ یہ تو بیویوں کی حماقت ہے ۔ " وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا ایک عورت کی عزتِ نفس مجروح نہیں ہوتی آخر کو وہ بھی ایک انسان ہے ؟"  عورتوں نے پوچھا
" عزت نفس تو انسان خود اپنے ہاتھوں مجروح کرتا ہے ۔ یقیناً عورت انسان ہے ، بلا وجہ کوئی انسان دوسرے انسان پر غصہ نہیں ہوتا ، اور وجہ کاسبب بننے والا ، غصے کو برداشت کرنے کی ہمت بھی پیدا کرے ۔ تاکہ اُس وجہ کا سدباب ہو جو اُس کی عزت نسب مجروح کرنے کا سبب بنی ہے " 
" لیکن ہر وقت عورت ہی کیوں ؟"  عورتوں نے پوچھا
" عورت نہیں ، بلکہ ماں یا بیوی ! یوں سمجھو کہ جو ذمہ دار ہوگا وہ برداشت کرے گا ، بیوی گھر کی مالکہ ہوتی ہےاور مرد مکان کا ، اگر بچے مکان سے باہر کوئی خرابی پیدا کر کے آئیں ، تو لوگوں کا غصہ مالک مکان کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور بچے گھر میں خرابی کریں کو ، گھر کی مالکہ کو ، میں چونکہ اپنے شوہر کے گھر میں مالکہ بن کر آئی تھی ۔ لہذا برداشت مجھے ہی کرنا تھا ، میری پوری کوشش رہتی تھی کہ میرا شوہر  اپناغصہ کسی اور  کے سامنے نکالنے کے بجائے مجھ پر ہی نکالے اور گھر سے خوش و خرم نکلے اور مجھے رونے کے لئے میرے شوہر کا ہی کندھا ملے ۔ میری زندگی کو خوشگوار اور محبت سے بھرپور بنانے والے ، وہی تین جملے ہیں جو میں نے آپ کو بتائے ۔ 
جی اچھا ، بہت بہتر ، ابھی کرتی ہوں ۔

بیوی کے منہ سے نکلنے والے الفاظ ،  خوشگوار اور محبت بھری زندگی  کا جادو ہیں ۔
 

جمعہ، 17 اکتوبر، 2014

فوجی کی بیوی -5



وقت جلدی سے گذرنے لگا اور 1980آگیا، تین جنوری کو یہ ایک مہینے کی چھٹی پر اچانک آگئے۔ حالانکہ چند دن پہلے ان کا خط ملا انہوں نے اس میں ذکر تک نہیں کیا۔ سب اس اچانک سرپرائز پر خوش ہو گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیاآپ کو خط لکھنے کا وقت نہیں ملتا جو آپ ایک صفحے کا مشکل سے سادہ خط لکھتے ہیں۔ تب معلوم ہوا کہ جس علاقے میں یہ ہیں وہاں سے خط آرمی پوسٹ آفس کے ذریعے جاتے ہیں اور وہ ہر خط کو نہیں بلکہ کچھ خطوں کو کھول کر سنسر کرتے ہیں۔ لہذا سادہ خط لکھنا ان کی مجبوری ہے۔  میرپورخاص میں دو تین دن رہنے کے بعد  انہوں نے پروگرام بنایا کہ، کراچی جاکر میرے اور ان کے رشتہ داروں سے ملنا ہے۔ گویا یہ ایک قسم کا ہنی مون ٹرپ تھا۔
پانچ جنوری کو دوپہر ڈھائی بجے، میرپورخاص سے حیدرآباد جانے والی ٹرین پر ہمارا پروگرام تھا۔ اب چونکہ ایک دن پہلے ہی تیاری شروع کی امی کے گھر سے جاکر میں اپنے کپڑے لائی تو امی نے کہا کہ ہمارے گھر سے کھانا کھا کر جانا، لہذا دس بجے آجانا۔ جب  چلنے لگے تو میں نے اپنا سوٹ کیس نکالا انہوں نے پوچھا اس میں کیا  ہے میں نے بتایا میرے کپڑے ہیں۔ یہ ایک بڑا سا سوٹ کیس تھا۔ کوئٹہ کی ہوا ابھی نہیں چلی تھی لہذا کم سردی تھی اور امید تھی کہ ہمارے کراچی ہوتے چل پڑے گی تو میں گرم کپڑے بھی رکھے۔ انہوں نے کہا سوٹ کیس کھولو۔ میں نے سوٹ کیس کھولا۔ انہوں نے میرا ایک سوئیٹر نکالا اور تین جوڑے اور کہا یہ کافی ہیں۔ میں پریشان کہ شادی کے بعد پہلی دفعہ کراچی جارہی ہوں اور صرف تین جوڑے؟
میں نے پوچھا،”بس، صرف یہی؟“
کہنے لگے، "ہم ہفتے بعد واپس آجائیں گے لہذا  اتنا سامان کون  اٹھائے گا۔ ؟ "
اب کیا کرتی، تین سوٹ ایک سوئیٹر ان کے بیگ میں ٹھونسا، جس میں ان کی ایک سوئیٹر اور دو کرتے اور پاجامے ایک پینٹ پر پہنے والی قمیض اور بس۔
 
ان کے امی، ابو، دونوں بہنوں سے مل کر نکلے دونوں چھوٹے بھائی بھی ساتھ تھے ایک نے بیگ اٹھایا اور امی کے گھر پہنچے۔ دونوں بھابیاں ان کے پیچھے کہ یہ کیا سامان ہے کراچی میں ڈھیر سارے رشتہ دار ہیں سب کے گھر نئی دلہن ایک ہی جوڑاپہن کر جائے گی۔ امی کے گھر بھی میرے کپڑے پڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ سوٹ کیس اٹھا سکتی ہے تو بے شک دو سوٹ کیس دے دیں میں تو نہیں اٹھاؤں گا۔  چھوٹی بھابی پریشان، امی نے سمجھایا۔ کہ نعیم ٹھیک تو کہہ رہے ہیں کہ کیا ضرورت ہے ہفتے کے لئے مہینے بھر کے کپڑے لے جانے کی؟ کھانا کھایا۔ گھر سے ریلوے سٹیشن تک کا سفر بیس منٹ کا تھا  اور اگر والکرٹ کی طرف سے جائیں تو  دس بارہ منٹ لگتے۔ ان کا پروگرام تھا  دوبجے نکل کر آرام سے پہنچ جائیں گے۔ ساڑھے بارہ بجے کھانے سے فارغ  ہوئے کہ دورازے پر گھنٹی بجی۔ معلوم ہوا کہ اباجان نے تانگے والے کوکہا تھا وہ آگیا یہ حیران کہ اتنی جلدی جاکرکیا کریں گے۔ خیر بڑی مشکل سے یہ تیار ہوئے۔ابا جان بضد کہ ہمیں سٹیشن پر چھوڑ کر آئیں گے، یہ کہیں کہ خالو، کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔ بڑی مشکل سے اباجان راضی ہوئے ِ ان کے دونوں بھائی کہیں کہ وہ بھی ساتھ جائیں گے اور ہمیں سٹیشن پر چھوڑ کر واپس آجائیں گے۔ انہوں نے منع کر دیا،بلکہ ان کا سب سے چھوٹا بھائی، میرے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ بھائی سے کہہ کر مجھے بھی کراچی ساتھ لے چلو۔ بہرحال ہم تانگے میں بیٹھے۔ ہمارے گھر سے آدھا میل دور پانی کی ٹینک کے پاس سے ِ میرواہ، ڈگری اور جیمس آباد جانے والی سڑک گذرتی۔ تانگہ جب وہاں پہنچاتو ایک خوبصورت سے بس اقبال کمپنی کی آکر رکی اور آوازآئی حیدر آباد کراچی،  حیدر آباد کراچی،  انہوں نے تانگے والے کو کہا روکو۔ہم بس سے جائیں گے۔ تانگے والے نے پوچھا آپ سٹیشن نہیں جائیں گے۔ انہوں کہا نہیں آپ واپس جائیں تو وہ کہنے لگا کہ باقی پیسے میں آپ کو دوں یا شیخ صاحب کو؟ انہوں نے کہا ان کو دے دینا۔  ہم دونوں بس میں سوار ہو گئے۔  بس آدھی بھری ہوئی تھی۔
انہوں نے مجھے عورتوں والی سیٹ پر بٹھایا اور خود مجھ سے دو سیٹ پیچھے کسی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ مجھے سخت غصہ آیا کہ  پیچھے دو افراد کی سیٹ خالی تھی ہم دونوں وہاں بیٹھ جاتے۔ اب سارے راستے میں چپ بیٹھ کرڈھائی گھنٹے کا سفر کروں۔ ٹنڈو الہ یار میں آدھی بس خالی ہو گئی یہ جہاں بیٹھے تھے انہوں نے مجھے وہاں بلا لیا۔ معلوم ہوا کہ ان کے دو جاننے والے بس میں بیٹھے تھے ایک تو ان کے کلاس فیلو تھے اور دوسرے ان کے ابا کے دوست۔ لہذا شرم کی وجہ سے یہ میرے ساتھ نہیں بیٹھے۔ ٹنڈو الہ یار میں بسیں تقریباً بیس منٹ رکتی ہیں۔ جو پرانے سفر کرنے والے ہیں وہ  حیدرآباد جانے کے لئے ٹنڈو الہ یار تک کا ٹکٹ لیتے اور سٹاپ پر اتر کر سب سے اگلی بس میں بیٹھ جاتے اس طرح آدھے گھنٹے کی بچت ہو جاتی۔ ہماری بس سب سے آگے آئی۔ تو عورتوں کی سیٹ پر عورتیں آکر بیٹھ گئیں۔ جو نہی بس چلنے کے لئے آگے بڑھی  تو ان کے استاد  الطاف صاحب اور ان کی بیگم بس میں سوار ہوئیں۔ انہوں نے میرے ساتھ، ان کی بیگم کو بٹھا دیا اور خود کھڑے ہوگئے۔ ان کے استاد کو ایک سیٹ مل گئی۔  مجھے پریشانی، بس کا بونٹ جو اندر ہوتا ہے وہ خالی مگر یہ اس پر نہ بیٹھے۔ ٹنڈو الہ یارسے ٹنڈو جام موڑ تک انہوں نے کھڑے ہو کر سفر کیا۔ حیدرآبادشہر میں داخل ہوئے تو ان کو سیٹ مل گئی۔ بس ریلوے سٹیشن کے پاس رکی۔ہم دونوں اترے اور وہاں سے رکشامیں بیٹھ کر ، حیدرآباد کینٹ میں ان کے ابو کے فیملی فرینڈ کے بیٹے مظہر حسین جو ایم۔ ای۔ ایس میں ایس۔ڈی۔ او،  تھے وہاں پہنچے۔ مظہربھائی آفس گئے تھے ان کی بیگم پروین باجی گھر پر تھیں بہت خوش ہوئیں۔ یہ توکھانا کھا کر سو گئے تو پروین باجی مجھے لے محلے میں اپنی تین سہیلیوں کے گھر لے کر گئیں۔ مظہر بھائی اور پروین باجی آپس میں کزن تھے اور راولپنڈی میں ٹنچ بھاٹہ میں جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے، ہماری شادی پر، پروین باجی، ان کے چھوٹے دیور اور جیٹھ  اپنی بیٹی کے ساتھ آئے تھے۔پانچ بجے،مظہر بھائی بھی آگئے۔

باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ آج آفیسر میں تمبولا ہے۔ انہوں نے فوراً پروگرام بنا لیا۔مظہر بھائی نے معذرت کر لی۔ مغرب کے بعد ہم دونوں گھر  آفیسر میس پہنچے۔ تھوڑے لوگ آئے تھے۔ انہوں نے آفیسرز میس دکھایا۔ میس میں داخل ہونے کے بعد  الٹے ہاتھ پر قائد اعظم کی تصویر تھی اس کے نیچے ایک میز پر ایک بڑا سا رجسٹر پڑا تھا جس کے غالباً پہلے صفحے پر وزیر اعظم محترم ذوالفقار علی بھٹو کے ہری سیاہی سے دستخط تھے۔ کیوں کہ انہوں نے اس میس کا افتتاح کیا تھا اور ہری رنگ کی ایک لکیر نیچے تک کھینچی ہوئی تھی۔تاکہ وزیر اعظم کے بعد کوئی اور دستخط نہ کرے اور دوسرے صفحے پرسیکنڈ لیفٹنٹ فاروق احمد کے دستخط تھے جس نے وزیر اعظم کی تقلید میں اپنے دستخط کر کے نیچے ایک نیلی لکیر کھینچ دی۔ اس کے ساتھ کیا ہوا ِ مؤرخ یہ بتانے سے قاصر ہے لیکن سنا ہے کہ بریگیڈ کمانڈر نے سیکنڈ لیفٹننٹ کو بلوایا اور خوب جھاڑا۔

میس گھوم کر باہر نکلے اور لان میں جاکر بیٹھ گئے۔ نعیم دو کارڈ لے آئے لیڈیز اوربچوں کے لئے کارڈ مفت تھا  اور مردوں   کے لئے کارڈ کی قیمت ایک روپیہ۔ مجھے سمجھانے لگے کہ تمبولا کیسے کھیلا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد کھیل شروع ہوا میں کنفیوز ہو گئی اور نعیم سے پوچھا کہ یہ کیا سیدھی طرح نمبر نہیں بول سکتے۔ نعیم، مجھے نمبر بتاتے میرا کوئی نمبر نہیں کٹ رہا تھا۔ آفیسرز اور ان کے بچے نعرے لگا رہے تھے کہ یہ نمبر نکالو۔ کھلانے والے نے اعلان کیا کہ جس کا کوئی نمبر نہیں کٹا ہو وہ کھڑا ہوجائے۔ میں شرمندگی سے کھڑی نہ ہوں کہ باقی لوگ کیا کہیں گے۔ اس نے دوبارہ اعلان کیا کہ بدقسمت لوگ کھڑے ہوجائیں۔ تو مجھ سمیت کوئی بارہ  افراد کھڑے ہو گئے جن میں تین عورتیں بھی تھیں۔ مجھے حوصلہ ہوا۔ اگلا نمبر بولا گیا۔ پانچ افراد بیٹھ گئے۔ پھر نمبر بولا تو دو افراد بیٹھ گئے۔اب دو عورتیں اور تین افراد کھڑے تھے۔پھر نمبر بولا گیا۔ ایک خاتون بیٹھ گئیں۔ کسی نے نعرہ لگایا ”نعیم میری ہمدردی تمھارے ساتھ ہیں“، یہ نعیم کے کورس میٹ  کیپٹن جاوید تھے۔ اگلے دو نمبر کے  بعد صرف میں کھڑی تھی۔ میجر ابرار جو تمبولا کھلا رہے تھے۔
انہوں نے کہا،”لیڈیز اینڈ جنٹلمین، آج کے پہلے ہاؤس کی پہلی بدقسمت خاتون“۔
کیپٹن جاوید نے دوبارہ نعرہ لگایا، ”نیولی ویڈ“۔
جس پر میجر ابرار نے کہا، ”کہ اپنے شوہر نامدار کے ساتھ تشریف لائیں“ ہم دونوں ساتھ گئے، انہوں نے، تمبولے کا تحفہ اور ”آج کے مہمان“ کا ایک تحفہ دیا۔

 سب نے تالیاں بجائیں۔  اپنی نشست پر آکر تحفہ کھولا۔ ایک بڑا مگ تھا اور دوسرا خوبصورت سا گلدان۔
تمبولا، ایک کھیل ہے جو انگریزوں نے مہینے میں ایک دفعہ اپنے گھروں سے دور فوج کی ملازمت میں رہنے والوں اور سول سروسز کے آفیسروں کے لئے ایک اچھی شام گذارنے کے لئے ایجاد کیا۔ سب اپنے اپنے کارڈ خریدتے ہر کارڈ پر خانوں کی تین لائین ہوتیں ہیں۔ اور ہر لائین میں پانچ نمبر لکھے ہوتے۔ پہلی لائین، دوسری لائین، تیسری لائین۔ کل پندرہ نمبر۔ کھلانے والے کے تھیلے میں پیتل کی ڈسک پر لکھے ہوئے کل 90نمبر ہوتے۔ کھیل میں دلچپسی کے لئے مختلف انعام رکھے جاتی ہیں ہیں۔
جن میں ”خوش قسمت“  جس کے پہلے کوئی سے پانچ نمبر کٹ جائیں۔
 ”بد قسمت“ جس کا کوئی نمبر نہ کٹے۔
  ”ٹاپ لائین“ جس کی پہلی لائین کے تمام پانچ نمبر کٹ جائیں۔
اسی طرح ”سنٹر  اور باٹم لائن“
پھر ”اہرام“  پہلی لائین کا ایک نمبر، دوسری لائن کے دو نمبر اور تیسری لائین کے تین نمبر۔ اسی طرح ”الٹا اہرام“۔
  پھر ”چار کونے اور بُل“  یعنی پہلی لائین اور تیسری  لائین کے کونے کے  نمبر اور درمیانی لائین کا بیچ کا نمبر۔
  پھر فل ہاؤس  یعنی جس کے سب سے پہلے تمام پندرہ نمبر کٹ جائیں۔
پھر  ”سنو بال“  اس میں پہلے تیس نمبر میں جس کے کارڈ کے تمام نمبر کٹ جائیں یہ اس شام کا آخری کھیل ہوتا ہے ۔
 ہاں اس گیم میں ہر ہاؤس  میں  خریدے گئے ٹکٹوں کی آدھی رقم مختلف انعاموں کے لئے اور آدھی رقم ”سنو بال“ کے لئے رکھ لی جاتی۔ نمبر پکارا جاتا اور کھیلنے والے اپنے کارڈ سے نمبر کاٹتے رہتے۔ کھلانے والا  اپنے سامنے رکھے ہوئے بورڈ پر نکلا ہوا نمبر اس کے اپنے خانے میں رکھتا جاتا  اور ہر نمبر کے ساتھ کوئی نہ کوئی واقع، جگہ یا مشہو ر فوجی یونٹ کانام یا اعزاز منسوب ہوتا۔ مثلا۔ نمبر 21نکلتا تو  ”رائل سلیوٹ“  ٹو اینڈ ون،  ٹوئینٹی ون کہا جاتا ہے۔ 88 کو ”ٹو فیٹ لیڈیز“ ایٹ اینڈ ایٹ، ایٹی ایٹ کہا جاتا۔ کھیلنے والوں  کے نمبر کٹتے جاتے۔ شور مچاتا جاتا۔ جو کھیلتے وہ تو نعرے لگاتے اور نہ کھیلنے والے بھی، فوج کے خشک ماحول کی ماہانہ گھٹن نکالنے کے لئے ان کا ساتھ دیتے۔ جس کے نمبرپہلے کٹ جاتے
جس کا  انعام نکلتا تو ایک ساتھ بیٹھاہوا گروپ  آفیسر میس یا کلب کا لان سر پر اٹھا لیتا۔
تمبولا، فوجی آفیسروں کا مقبول کھیل تھا۔  جہاں دس آفیسرز میس میں جمع ہوئے۔ وہاں تمبولا،لازمی ہوتا، جس طرح ہر کھیل، جواریوں کے ہاتھ تباہ ہوتا ہے اسی طرح تمبولا کے ساتھ بھی ہوا۔ کراچی فلیٹ کلب میں پاکستان کا سب سے بڑا تمبولا کھیلا جاتا۔ ہزاروں لوگ کھیلتے۔”سنو بال ہاؤس“ بیس ہزار تک کا شاید کھیلا جاتا۔ 1977کے بعد، تمبولے کو جواء قرار دے کر اسے ”قابل دست اندازیء پولیس“ قرار دے دیا۔  جنانچہ فوج میں بھی کچھ عرصہ تمبولا بند رہا ۔ پھر خیال آیا کہ اس طرح تو گذارا نہیں ہوگا۔ فوج کا ماحول اور گھٹن زدہ ہو گیا۔ اب صرف آفیسرز، کسی کی پوسٹنگ پر دیئے گئے کھانوں پر اپنی بیگمات کے ساتھ جمع ہوتے۔ بچوں کا آپس میں میل جول، سکول یا پڑوس میں رہ گیا۔ چنانچہ،”بنگو“ کے نام سے  اسلامی کھیل متعارف کرایا گیا۔ سارا جسم وہی تھا صرف نام کا برقع پہنا کر رقم کے بجائے گفٹ انعام میں ملنے لگے۔
جن میں، ”چھوٹے  انعام“  مگ، گلدان، فریم شدہ سینری  یا پینٹنگ  اور بڑا نعام، ہاؤس میں جمع رقم کے مطابق، کٹلری سیٹ، کافی سیٹ یا ٹی سیٹ پر مشتمل ہوتا، ہاں شور مچانے اور نعرے مارنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن  1977 سے 1980تک
زمانہ کافی آگے آچکا تھا۔ 
پہلے ہاؤس کے بعد ہمارا گروپ بھی بن گیا۔ دو نعیم کے کورس میٹ، کیپٹن  بٹ،  کپٹن جاوید، جو  اپنی بیوی اور خوبصورت سے گول مٹول ایک سالہ بیٹے  جہانزیب کے ساتھ۔ ایک کیپٹن سعید جو سی ایم ایچ میں کوارٹرماسٹر تھے اور ان سے ڈیڑھ سال سینئر تھے یعنی 51لانگ کورس کے اور پی ایم اے میں اورنگ زیب کمپنی کے تھے۔جس میں نعیم ”پہلی ٹرم“ میں تھے۔ بعد میں کیپٹن سعید فارن سروسزز  کے لئے سلیکٹ ہو گئے وہ اپنی بیوی اور بہن کے ساتھ آئے تھے۔ ہماری ٹیبل پر آگئے۔ کیوں کہ سب سے جونئیر ہم لوگ تھے۔باقی سینئر آفیسرز تھے۔ ان کے یونٹ کے میجر ”طارق“ جو کشمیر میں ان کے ساتھ تھے اور حیدرآباد کے رہنے والے تھے اپنی بیوی اور تین۔ چھوٹی بیٹیوں۔ ماریہ۔(دس سال)۔ کنزہ (آٹھ سال) اور جویریہ (پانچ سال) یہ  پہلے ہاؤس  کے بعد آئے تھے۔

 پہلا ہاؤس کھیلنے کے بعد میں نے انکار کر دیا۔ کیوں کہ مجھے نمبر سمجھ نہیں آتے تھے۔ میرا کارڈ نعیم ہی کاٹتے رہے۔ تینوں بچیوں کے آنے سے میں ان کے ساتھ مصروف ہو گئی۔ ماریہ اور کنزہ بہت تیز تھیں اورذہین بھی۔ کوئی نمبر پکارا جاتا، تو میں انہیں تنگ کرنے کے لئے کوئی دوسرا نمبر بتاتی لیکن مجال ہے کہ ان کی توجہ میں کوئی فرق آیا ہو۔ ہاؤس مکمل ہونے کے بعد سب، کارڈ مجھے دے دیتے۔ میں سب کو میز پر بچھا کر جویریہ کے ساتھ، جو نمبر پکارا جاتا میں کاٹتی رہتی۔ کوئی نہ کوئی کارڈ پورا کٹ جا تا۔ جویریہ کی خوشی قابل دید ہوتی۔
  جویریہ زور سے پکارتی ”یس“۔
جس کا مطلب ہوتا کہ ہمارا کارڈ کٹ گیا ہے۔ جس پر لوگ ہماری طرف متوجہ ہو جاتے۔ تھوڑی دیر تک جب ہماری ٹیبل سے کوئی نہ کھڑا ہوتا تو، ”بوگی، بوگی“ کا شور  مچتا لیکن جویریہ اپنی ”ماما“کو کارڈ دکھاتی ”مسز طارق“ اپنے بیگ سے دو ٹافیاں نکالتیں اور جویریہ کو دیتیں۔ جویریہ ایک مجھے دیتی اور ایک خود کھاتی۔ تیسرے ہاؤس کے بعد  کیپٹن جاوید کی مسز کپٹن سعید کی مسز اور ان کی بہن بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئیں۔ انہیں بھی نمبر سمجھ نہیں آتے جس کی وجہ سے وہ بور ہونے لگیں۔ اب وہ میرے ساتھ گپیں لگانا چاہیں اور جویریہ شور مچائے۔ کہ میں اس کے ساتھ ”بنگو“ کھیلوں۔ سب مردوں نے ”ویٹرز“ کو آرڈر دے کر ”چپس، پکوڑے، تکے اور کولڈ ڈرنکس منگوائیں۔ نعیم کو میجر طارق نے منع کر دیا۔ جوتھے ہاؤس کے دوران ویٹر کھانے کا سامان لے آیا ِ ہم تینوں کے علاوہ، باقی چھ افراد انہماک  سے ”بنگو“ کھیلنے اور کھانے میں 
مصروف تھے اور میں دیگر خواتین کے ساتھ باتیں کرنے کے علاوہ،جویریہ کے ساتھ، اس کے کارڈ کٹوا رہی تھی۔

پانچواں ہاؤس ”سنو بال“ تھا۔ اسے کے لئے کوئی کارڈ فری نہیں تھا۔ قیمت وہی ایک روپیہ۔ اس وقت تک کھیل اپنے جوبن پر پہنچ چکا تھا۔ مجھے اور باقی تینوں خواتین نے بھی کھیلنے کا پروگرام بنایا کیوں کہ انعام میں چھ افراد کاکٹلری سیٹ تھا۔ ایک شیٹ  پر چھ کوپن ہوتے ہیں جس میں پورے 90نمبر ہوتے ہیں۔ سب نے ایک ایک شیٹ خریدی،اورتو اور دونوں بچیوں نے دو دو کوپن کی ضد کی۔ نعیم تو دو کارڈ لائے،
کیپٹن  جاوید نے چوٹ کی، ”یار کنجوسی مت دکھاخود نہیں تو بھابھی کے لئے ایک شیٹ  لے لے“۔
”نعیم نے کہا کہ یہ آج کاا نعام لے چکی ہیں اور میرا انعام آج تک نہیں نکلا تو خواہ مخواہ پیسے ضائع کرنے کی کیا -ضرورت؟۔ خوشی کے لئے کھیلو جوئے کیلئے نہیں“۔
میجر طارق فوراً چمک کر بولے، ”فتویٰ مت دے۔ امیر المؤمنین نے جائز کر دیا ہے“۔

باقی اب پھر خواتین اپنے اپنے مردوں کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ جویریہ کو بھی معلوم تھا کہ اس ہاؤس میں تنگ نہیں کرنا اس کی امی نے اسے اپنے پاس بلایا، لیکن وہ میرے ساتھ چپکی رہی۔

سنو بال شروع ہوا اور25 نمبروں  کے بعد میرا صرف ایک نمبر 54رہ گیا تھا۔جو نعیم کا پی ایم اے کا کورس تھا۔ سب کی توجہ ہم پرہوگئی۔ جویریہ دعائیں مانگنے لگی۔ میری بھی عجیب حالت۔ ہر نمبر نکلنے سے پہلے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔
 آخری نمبر سے پہلے میجر ابرار نے پوچھاAny body sweating ?,
    پورے گروپ نے نعرہ لگایا ”یس“۔  
میجر ابرار نے نمبر نکالا اور بولے، " Guess which Number"
شور مچا، 54۔
 لیکن نمبر تھا 11۔
مجھے نہیں معلوم کہ آپ  پڑھتے ہوئے کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن یہ لکھتے ہوئے۔ میں اس وقت، حیدرآبا د آفیسرز میس کے لان میں بیٹھی ہوئی ہوں ، یک دم خاموشی چھا گئی ہے ۔ ٹھنڈی سڑک سے گذرنے والے رکشے کی ٹرٹراہٹ ، خاموشی میں جل تھل پیدا کرتی ہے اور پھر خاموشی اور ان سب پر حاوی میری  ”سانس“ ہے  جو اس وقت نکلی تھی۔ سب نے ہمدردی کی، لیکن میں سوچ رہی تھی کہ کیا میں واقعی، ”بد قسمت“ ہوں۔ میں نے نعیم سے،رندھی ہوئی آواز میں پوچھا۔ وہ بولے، ”بے وقوف، یہ ایک کھیل ہے انعام نکل گیا تو بہتر ورنہ کھیل کو تو انجوئے کیا۔ اچھا چلو کھڑی ہوجاؤ“۔ کیوں میں نے پوچھا۔  میجر ابرار نے اعلان کیا ہے کہ جن کا آخری نمبر رہ گیا ہے وہ کھڑے ہو جائیں۔

مجھ سمیت تین افراد کھڑے ہو گئے۔  صرف میرا 54 نمبر تھا ان دونوں کے 44،  میجر ابرار نے پھر کہا کہ جن کے دو نمبر رہتے ہوں وہ کھڑے ہوں۔ پانچ افراد  اور کھڑے ہو گئے۔  54اور  26 کے تین،  44 اور 26 کے دو ۔ گویا تین نمبر میجر ابرار نے پوچھا کیا 93نمبر تک”سنو بال“ بڑھا دیں۔  سب نے  ہاں، ہاں کا شور مچایا۔ میجر ابرار نے تھیلے کو ہلا کر نمبر نکالا اور ہمارے صبر کا امتحان لیتے رہے کسی کا بھی نمبر نہیں نکلا۔  اب انعام تو دینا تھا۔ کٹلری سیٹ کے بجائے۔ ٹی سیٹ کا اعلان ہوا۔ اب ہاؤس باقی سات نمبروں میں نکلنا تھا۔  چھٹا نمبر پکارا گیا۔ 54 ۔ہمارے گروپ  نے بلند آواز میں نعرہ مارا ”گریٹ“ اور یوں  ٹی سیٹ کی حقدار میں ٹہری۔  اس کے بعد،  ٹوکن کے پیچھے نام لکھ کر  ”لکی ڈرا“ کے لئے ڈالنے تھے۔ مردوں اور عورتوں کے الگ الگ بکس تھے۔ ہمارے گروپ نے تمام کوپن کے پیچھے  جویریہ کا نام لکھ کر جویریہ سے بکس میں ڈلوادیا۔  لیڈیز کا انعام،  جویریہ کا نکلا۔  اور اس طرح میری زندگی کہ پہلی شام میرے لئے یادگار بن گئی۔ 





٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

فوجی کی بیوی -6 - زیرِطباعت

ہونہار بِروا - 1

بدھ، 19 مارچ، 2014

ماں کی نصیحت ، بیٹی کی نام

 میری پیاری بیٹی ،میری آنکھو ں کی ٹھنڈک ،شوہر کے گھر جا کر قناعت والی زندگی گزارنے کا اہتمام کرنا۔ جو دال روٹی ملے اس پر راضی رہنا ، جو روکھی سو کھی شو ہر کی خوشی کے ساتھ مل جائے وہ اس مر غ پلاؤ سے بہتر ہے جو تمہارے ۔اصرار کرنے پر اس نے نا راضگی سے دیا ہو ۔
میری پیاری بیٹی ، اس بات کا خیال رکھنا کہ اپنے شوہر کی با ت کو ہمیشہ توجہ سے سننا اور اسکو اہمیت دینا اور ہر حال میں ان کی بات پر عمل کرنے کی کو شش کرنا اس طر ح تم ان کے دل میں جگہ بنا لو گی کیو نکہ آدمی نہیں، بلکہ آدمی کا کام پیارا ہو تا ہے ۔

میری پیاری بیٹی ، اپنی زینت و جمال کا ایسا خیال رکھنا کہ جب وہ تجھے نگاہ بھر کے دیکھے تو اپنے انتخاب پر خو ش ہو اور سادگی کے ساتھ جتنی بھی استطاعت ہو خوشبو کا اہتمام ضرور کرنا اور یاد رکھنا کہ تیرے جسم ولباس کی کوئی بو یا کوئی بری ہیت اسے نفر ت و کرا ہت نہ دلائے ۔

میری پیاری بیٹی ، اپنے شو ہر کی نگاہ میں بھلی معلوم ہو نے کے لیے اپنی آنکھوں کو سرمے اور کاجل سے حسن دینا کیونکہ پر کشش آنکھیں پورے وجود کو دیکھنے والے کی نگا ہوں میں جچا دیتی ہیں ۔ غسل اور وضو کا اہتمام کرنا کہ یہ سب سے اچھی خوشبو ہے اور لطافت کا بہترین ذریعہ ہے ۔

میری پیاری بیٹی ، ان کا کھانا وقت سے پہلے ہی اہتمام سے تیار رکھنا کیونکہ دیر تک برداشت کی جانی والی بھوک بھڑکتے ہوئے شعلے کی مانند ہو جاتی ہے اور ان کے آرام کرنے اور نیند پوری کرنے کے اوقات میں سکون کا ماحول بنانا کیونکہ نیند ادھوری رہ جائے تو طبیعت میں غصہ اور چڑچڑاپن پیدا ہو جا تا ہے ۔
میری پیاری بیٹی ، ان کے گھر اور انکے مال کی نگرانی یعنی ان کے بغیر اجازت کوئی گھر میں نہ آئے اور ان کا مال لغویات ، نمائش و فیشن میں بر باد نہ کرنا کیونکہ مال کی بہتر نگہداشت حسن انتظام سے ہوتی ہے اور اہل عیال کی بہتر حفاظت حسن تدبر سے ۔میری پیاری بیٹی ،  یاد رکھنا ، تمھارے شوہر کی اجازت کے بٖغیر ، تمھارے شوہرکا مال ، تمھارے شوہر کی بغیر اجازت ، بہن بھائیوں کو دئیے گئے تحفے ، ہمارے لئے ناجائز ہیں ۔ شوہر کی کمائی سے یہاں تک کہ تمھیں دئیے ہوئے اس کے مال سے بھی اس کی اجازت اور تحفہ اسے دکھائے بغیر کسی کو نہ دینا ۔
میری پیاری بیٹی ،کرے گی اور تم اگر اس کا راز دوسروں سے چھپا کر نہ رکھ سکیں تو اسکا اعتماد تم پر سے ہٹ جا ئیگا اور پھر تم بھی اس کے دو رخے پن سے محفوظ نہیں رہ سکو گی ۔
میری پیاری بیٹی ، جب وہ کسی با ت پر غمگین ہو ، تو اپنی کسی خوشی کا اظہار ان کے سامنے نہ کرنا یعنی ان کے غم میں برابر کی شریک رہنا۔ شوہر کی کسی خوشی کے وقت غم کے اثرات چہرے پر نہ لا نا اورنہ ہی شوہر سے ان کے کسی رویے کی شکایت کر نا ۔ ان کی خوشی میں خوش رہنا۔ورنہ تم ان کے قلب کے مکدر کرنے والی شمار ہو گی۔

میری پیاری بیٹی ، اگر تم ان کی نگا ہوں میں قابل تکریم بننا چاہتی ہو تو اس کی عزت اور احترام کا خوب خیال رکھنا اور اسکی مرضی کے مطابق چلنا تو اس کو بھی ہمیشہ ہمیشہ اپنی زندگی کے ہر ہر مرحلے میں اپنا بہترین رفیق پاؤ  گی۔
میری پیاری بیٹی ، میری اس نصیحت کو پلو سے باندھ لو اور اس پر گرہ لگا لو کہ جب تک تم ان کی خوشی اور مرضی کی خاطر کئی بار اپنا دل نہیں مارو گی اور اس کی بات اوپر رکھنے کے لیے خواہ تمہیں پسند ہو یا ناپسند، زندگی کے کئی مرحلوں میں اپنے دل میں اٹھنے والی خواہشو ں کو دفن نہیں کرو گی اس وقت تک تمہاری زندگی میں بھی خوشیو ں کے پھول نہیں کھلیں گے ۔

اے میری پیا ری اور لا ڈلی بیٹی ان نصیحتو ں کے ساتھ میں تمہیں اللہ کے حوالہ کرتی ہوں اللہ تعالیٰ زندگی کے تمام مرحلوں میں تمہارے لیے خیر مقدر فرمائے اور ہر برائی سے تم کو بچائے۔ 

پیر، 3 مارچ، 2014

ہونہار بِروا - 4


          منگلا سے ہم مری روانہ ہوئے، جہاں ہم ہفتہ  کلڈنہ  ٹہرے نعیم کے  یونٹ آفیسر وہاں
 انسٹرکٹر تھے۔ کمروں  کی ایک لمبی سی لائن کے آخر میں ایک کمرہ ہمیں ملا ہو تھا جس کے بعد چیڑ کے درخت تھے جن پر بندر اپنی فیملی کے ساتھ آجاتے اور انسانوں کو دیکھتے  رہتے کہ کوئی کھانے کی چیز کب پھینکتے ہیں۔ان میں ایک بندریا اپنے پندرہ دن یا مہینے کے لاغر بچے کو کمر پر بٹھائے یا سینے سے چمٹائے کھانے کی چیزیں لینے آتی۔ تیسری صبح بھی بندر اپنی فیملی کے ساتھ آئے۔ بچے ناشتہ کرنے کمرے میں آگئے۔ عروضہ باہر کرسی پر بیٹھ گئی اور بندروں  کی درختوں پر اچھل کود دیکھنے کے لئے رک گئی میں نے اس کا ناشتہ باہر دے دیا وہ  وقفے وقفے کے بعد پاپ کارن پھینک دیتی جو بندر اچک کر لے جاتے۔ ہم کمرے میں ناشتہ کر رہے تھے۔

عروضہ کمرے میں آئی اور اپنا پراٹھا لے کر باہر چلی گئی۔پھر آئی اور پراٹھا مانگا میں حیران تھی کہ اس نے بغیر منت سماجت کئے ناشتہ کیسے کر لیا۔ میں نے پراٹھا دے دیا۔ نعیم نے سائرہ کو کہا دیکھو کہیں یہ بندروں کو ناشتہ تو نہیں کرا رہی۔ سائرہ باہر گئی اور بتایا کہ ایک بندریا اپنے بچے کے ساتھ کرسی پر بیٹھی ہے اور عروضہ برامدے میں بیٹھ کر بندریا کو پراٹھے کے ٹکڑے پھینک رہی ہے۔ اور وہ اچک اچک کر خود بھی کھا ر ہی ہے اور منہ سے چبا کر بچے کو بھی دے رہی ہے۔باقی بندر درختوں پر بیٹھے خو خو کر رہے ہیں۔ ہم لوگوں کے باہر نکلنے سے بندریا اپنے بچے کو پیٹھ پر بٹھائے چھلانگ مار کر درخت پر چڑھ گئی۔باقی بندر دور ہٹ گئے۔ اب روزانہ صبح، عروضہ کا یہی مشغلہ ہو گیا۔ وہ اپنا اور بندریا اور اُس کے بچے کا پراٹھا لے کر باہر جا بیٹھتی اور بندریا کو ناشتہ کراتی، بندریا اُس سے ہل گئی اور درخت سے اتر کر اس کے قریب آکر بیٹھ جاتی لیکن چوکس انداز میں اگر عروضہ کوئی چیز لانے کے لئے اُٹھتی تو وہ چھلانگ مار کر درخت پر چڑھ جاتی۔
            اس سارے  عرصے میں سانپ اور کچھوا بھی ہمارے ساتھ تھا۔ بلکہ مری  سے چارگھونگھے Snailبھی پکڑ لئے تھے ۔عروضہ کی بڑی خواہش تھی کہ بندریا بچے کو چھوڑے تو وہ بچہ پکڑ لے اور پھر اپنے ساتھ اٹک لے جائے۔ تب نعیم نے اسے ڈرایا، کہ دیکھو وہ جو بچے کا باپ ہے تمھیں غور سے دیکھ رہا ہے اور بندریا کو  کہہ رہا ہے کہ یہ لڑکی کتنی اچھی ہے۔ ہمیں پراٹھا دے رہی ہے  او رتمھیں پراٹھا بنانا نہیں آتا۔ کیوں نہ ہم اس لڑکی کو لے جائیں یہ ہمیں پراٹھے بنا کر دے گی۔ہم اس کا درخت پر خوبصورت سا پنجرہ بنا دیں گے۔ عروضہ یہ سن کر خوف زدہ ہوگئی کہ میں اپنے ماما اور پپا کے بغیر کیسے رہ سکتی ہوں۔ تب نعیم نے سمجھایا کہ وہ دیکھو چھوٹے بچے کا بھائی ہے وہ بہن ہے وہ خالہ چچا اور دوسرے  رشتہ دار ہیں سب ایک ساتھ رہتے ہیں اگر ان سے بچہ چھین لیا جائے تو یہ پاگل ہوجائیں گے اور انسانوں کو دشمن سمجھ کر کاٹیں گے۔ عروضہ کے بات سمجھ آگئی

لیکن ایک اور پریشانی پید ہو گئی۔ اس نے نعیم سے پوچھا کہ کیا سارے، پرندوں، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے ماں، باپ اور بہن بھائی ہوتے ہیں؟ نعیم نے بتایا کہ ہاں سب کے ہوتے ہیں۔ تو پھر جو سانپ اور کچھوا ہم لے کر جارہے ہیں، پھر ان کے بھی ماں، باپ اور بہن بھائی ہوں گے نعیم نے کہا ہاں، Snail
 کی تو پوری فیملی ہمارے ساتھ تھی لہذا اس کی عروضہ کو فکر نہ ہوئی لیکن سانپ اور کچھوے کے لئے عروضہ پیچھے پڑ گئی۔کہ ان دونوں کو واپس اسی جگہ چھوڑکر آئیں۔کچھوے کے بارے میں وہ مان گئی، کیوں کہ کوئٹہ میں ہمارے پاس جو کچھوا تھا وہ اکیلا تھا لیکن اُس نے بتایا کہ گوجرانوالہ میس میں جو ویٹر چاچا تھا اُس نے بتایا تھا کہ سانپ کی مادہ ہوتی ہے وہ  اکیلی رہ گئی ہو گی اور اب آپ لوگ جہاں بھی جائیں آپ کے پیچھے آجائے گی۔  نعیم نے کہا کوئی بات نہیں، مادہ گجرانوالہ سے چل پڑی ہوگی۔سانپ ایک دن میں تین میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ ابھی تو وزیر آباد بھی نہیں پہنچی ہوگی اٹک پہنچنے میں مہینہ لگے گا۔ ہم اس کو بھی اپنے پاس رکھ لیں گے۔ تاکہ بے چاروں کو کھانے کی پریشانی نہ رہے۔

مری خوبصورت اور قدرتی نظاروں سے بھر پور ہے۔ فوج کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جہاں ہوتی ہے بنجر زمین کو نخلستان بنا دیتی ہے۔ صفائی کے لحاظ سے کنٹونمنٹ ایریا کی مثال دی جا سکتی ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شادی کے بعد، میں نعیم کے ساتھ پہلی بچی کی پیدائش سے پہلے خوب گھومی۔ لاہور سے پارا چنار کے اس وقت کے کینٹ اور آج، ڈویلپمنٹ کے لحاظ سے زمین
آسمان کا فرق ہے۔ کینٹ کی آبادی بڑھنے کے باوجود کینٹ کی صفائی میں کوئی فرق نہیں آیا۔

      مری میں سب سے خوبصورت بھوربن کا کھلا علاقہ ہے۔ نعیم اور دوسرے آفیسر نے اتوار کو گالف کھیلنے کا پروگرام اور ہم تمام فیملیز نے پکنک کا پروگرام بنایا، یہ تو آٹھ بجے اپنے اپنے بیگ کے ساتھ نکل گئے، ارمغان اور سائرہ بھی ساتھ گئے۔ میں عروضہ اور ارسلان، خواتین
اورپکنک کے سامان ساتھ دس بجے بھوربن پہنچے۔عروضہ نے سانپ کا بکس بھی ساتھ لے لیا تھا۔

گالف کلب کے ایک حصے میں، بیٹھنے کا انتظام کیا۔ بچے اپنے اپنے کھیل کھیلنے لگے، ہم خواتین کا
 ایک ہی موضوع ہوتا ہے اور وہ صرف شاپنگ اور شاپنگ ہی ہے کہ کون سی اچھی اور سستی مارکیٹ ہے جہاں دھوکہ نہیں دیا جاتا۔ ہم بات کر رہے تھے کہ سائرہ اور ارمغان، ایک راونڈ گالف کھیل کر واپس آئے۔ سائرہ نے سانپ کا بکس کھولا اور چینخی۔ ماما اس میں سانپ نہیں ہے۔ تمام خواتین اور بچے بشمول میں چینختے ہوئے دور بھاگے۔ ہمیں بھاگتا دیکھ کر سائرہ نے قہقہ لگایا۔ ہم سمجھ گئیں کہ اس نے مذاق کیا ہے۔ خواتین اور بچے نزدیک آئے تو سائرہ نے سانپ کو اٹھا کر نکال لیا تمام خواتین اور بچے، اسے نصیحتیں کریں کہ اسے واپس ڈال دو ورنہ یہ کاٹ لے گا۔

بہرحال بعد میں تمام بہادر خواتین اور بچوں نے سانپ کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھا اور تصویریں بنائیں۔ ساڑھے گیارہ بجے چاروں مرد حضرات گالف کھیل کر واپس آئے، بچوں نے اپنے اپنے ابو کو سانپ کا بتا یا وہ بھی حیران ہوئے کہ اُن کے بچوں نے سانپ پکڑنے کی بہادری کیسے  دکھائی۔ سانپ سے کھیلنا پکنک کا سب سے اچھا ایونٹ رہا،  میں سب کو بطور کنسلٹنٹ  ہدایات دیتی،کہ سانپ کو کس طرح پکڑنا ہے کہ وہ ہاتھ کے دباؤ سے خوفزدہ نہ ہوجائے۔ تمام بھابیاں بھی مجھ سے مرعوب تھیں۔ کہ سائرہ نے بھانڈا پھوڑا، ہو ایوں کہ میں آرام سے بیٹھی گپ لگا رہی تھی کہ اُس نے سانپ کی دم میری آنکھوں کے سامنے میرے پیچھے کھڑے ہو کر لہرائی۔
میری چینخ بلا مبالغہ مری مال روڈ تک سنائی دی ہو گی۔ تب راز کھلا کہ سب سے زیادہ سانپ سے میں ڈرتی ہوں، ایک بھابی نے پوچھا۔ اس کے تو دانت نکال دیئے ہیں۔اب تو تین مہینے کے بعد آئیں گئے۔ پھر آپ کیوں ڈر رہی ہیں۔میں نے کہا واہ بھابی آپ تین مہینے کا انتظار کر رہی ہیں اور اگر سانپ کے دانت ابھی اُگ آئے تو کیا ہوگا؟ 



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعرات، 20 فروری، 2014

فوجی کی بیوی - 4




                سسرال پہنچی، تو باراتی ہم سے پہلے پہنچ گئے تھے استقبال ہوا۔محلہ کی ساری عورتیں ان کے گھر جمع تھیں ِ بچے بھی نعیم بھائی و انکل کی دلہن دیکھنے امنڈے  پڑ رہے تھے۔  کوئی منہ دکھائی میں ٹافیاں ڈال رہا ہے تو کوئی بسکٹ دے رہا ہے، ساڑھے دس بجے ان کو ڈھونڈا جا رہا تھا مگر یہ غائب تھے۔ چھوٹے بھائیوں کو دوستوں کے پاس دوڑایا یہ ندارد۔ رات کو گیارہ بجے مہمان جانے شروع ہوئے بستر بچھانے کے لئے، سیڑھیوں کے نیچے والے حصے کا دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ دولہا میاں تین فٹ ضرب چار فٹ کے بستر رکھنے والےمچان میں رضائیوں کے اوپر سوٹ سمیت سو رہے تھے۔  بھائی مل گئے کا نعرہ ان کی چھوٹی بہن نے لگایا یہ آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھے منھ دھویا، کمرے میں داخل کیسے ہوں دروازے پر لڑکیوں نے قبضہ جمایا ہوا تھا،پیسے دے کر جان چھڑائی، کمرے میں داخل ہوئے مسہری پر ان کا دس سالہ بھائی وسیم اور میرا چھ سالہ بھتیجا گڈو سوئے ہوئے تھے۔  ان دونوں کو اٹھایا تو دونوں نے کمرے سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ گڈو میکے میں میرے ساتھ سوتا تھا، بہر حال دونوں کو دوبارہ سونے دیا آدھے گھنٹے بعد ان کے چھوٹے بھائی چپکے سے اٹھا کر دونوں کو دوسرے کمروں میں لے گئے۔ 

                دوسرے دن جمعرات تھی ولیمہ ہوا گھر کے سامنے سڑک پر شامیانے لگائے گئے۔ دوپہر ایک بجے کھانا شروع ہوا اور دو بجے تک ختم ہو گیا، شامیانے سمیٹ لئے گئے۔ اس کے بعد آنے والے مہمانوں کو بیٹھک میں کھانا کھلایا ِ۔ تین بجے چھوٹے بھائی جان آکر مجھے لے گئے۔  اگلے دن جمعہ رات کے کھانے کے بعد میں ان کے ساتھ دوبارہ  اپنے سسرال آگئی۔ ان کی چھوٹی بہن سعیدہ نے مجھ سے پوچھا کہ بھابی آپ بھائی کو کیسے بلائیں گی؟ اب مجھے سمجھ نہ آئے، ہماری بھابیاں بھائیوں کو، اجی، سنیئے، گڈو کے ابا وغیرہ کہہ کر بلاتی تھیں میں کیا کہہ کر بلاؤں؟ کیوں کہ ان دنوں یہی چلتا تھا۔  میں نے کہا اپنے بھائی سے پوچھو انہیں کیا اچھا لگے گا؟ ان سے پوچھا انہوں نے کہا، ”نعیم“  مجھے بڑا عجیب لگا کہ، مجھ سے بڑے بھی ہیں اور شوہر بھی اور نام سے بلاؤں، چنانچہ کافی عرصہ سنیئے ہی سے کام چلایا۔

                 انہوں نے گیارہ تاریخ کو واپس اپنی یونٹ چلا جانا تھا۔لہذا دس تاریخ کورسم کے مطابق میں نے شام کو کھیر پکائی، محلے اورعزیزوں دوستوں کے گھر تقسیم کی گئی۔ مغرب کے بعد انہوں نے مجھے، اپنے چھوٹے  بھائی کی بیوی، بانو(ان کی شادی سال پہلے ہو گئی تھی)  اور دونوں بہنوں کو بٹھا لیا اور جوائینٹ فیملی سسٹم کا سب سے بڑی وجہ نزع کو انہوں نے ایک ہفتہ وار پروگرام کاغذ پر بنا کر حل کر لیا اور وہ  چاروں کی گھر کے کام کاج میں ڈیوٹیوں کی تقسیم تھی ُ کہ گھر کا کھانا کس کس نے کب کب پکانا ھے۔ صبح اور دوپہر کے برتن تو کام والی دھوتی تھی لیکن رات کے کھانے کے بعد برتن کون کون دھوئے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ٹائم ٹیبل بنا کر کچن میں ٹانگ دیا۔ اور ہاں میرا میکہ تو دو گلی چھوڑ کر تھا اور  بانو کانواب شاہ، چنانچہ اس بات کا بھی خیال رکھا، یہ اور بات کہ ہم دونو ں دیورانی اور جٹھانی نے بقائے باہمی کے اصولوں پر اپنے اپنے کام بعد میں ایڈجسٹ کر لئے، چونکہ کھانا میں اچھا بناتی تھی لہذا کھانے کی تما م ذمہ داری  مجھ پر آگئی۔  بانو کو چونکہ اسی مہینے خوشخبری ملنے والی تھی لہذا، اس کے آرام کو بھی مد نظر رکھنا پڑا۔

 اگلے دن یہ روانہ ہو ئے تومیرے آنسو نکل آئے ان کے سب گھر والوں نے میرا مذاق اڑانا شروع کر دیا،ہمارے بھائی چھٹی کے بعد واپس جاتے تو میں نے بھابیوں کو روتا ہی دیکھا اور یہ لوگ رونے سے منع کر رہے۔ ان کی امی نے کہا بہو جانے والے کو ہنسی خوشی رخصت کرتے ہیں۔تاکہ اسے پردیس میں ہنستے چہرے یاد رہیں۔ یہ بات دل کو لگی میں نے آنسو پونچھ ڈالے۔ 

                ان کے جانے کے دوسرے دن میں میکے چلی گئی۔ وہاں تین دن رہ کر سسرال واپس چھوٹی بہن کے ساتھ آئی تودس بجے  ان کا خط آیا ہوا تھا۔ سعیدہ نے خط مٹھائی کھائے بغیر دینے سے انکار کر دیا۔ بہرحال گلاب جامن منگوائے تب ان کا خط ملا۔ اب خط کیسے پڑھوں؟یہ سب لوگ اس امید پر کہ میں خط کھولوں تو یہ بھی سنیں اور میری خط کھولنے کی ہمت نہ پڑے۔یہ میرے نام کسی لڑکے کا پہلا خط تھا۔ میں نے خط الماری میں رکھ کر تالا لگادیا۔  اب یہ تینوں میرے پیچھے کہ بھائی کا خط سناؤ، اب میں پریشان،ان کی امی نے آکر سب کو دوڑا دیا۔ لیکن دوپہر کو پھر یہ سب میرے کمرے میں آگھسیں، بھائی کا خط پڑھا  میں نے کہا نہیں۔نہیں پڑھ لیا ہمیں بھی سناؤ ، سعیدہ مجھ سے تین مہینے چھوٹی تھی۔ وہ ناراض ہو گئی میں نے منایا اور کہا پہلے میں پڑھوں گی اور خود سناؤں گی۔ پڑھنے کو نہیں دوں گی۔ تینوں راضی ہوگئیں۔ میں نے دھڑکتے دل سے الماری کھولی۔ تمام دعائیں جو یاد تھیں پڑھ لیں کہ انہوں نے کوئی ایسی بات نہ لکھی ہو کہ مجھے شرمندگی ہو۔ ان کو دور بٹھا کر خط کھولا۔ پڑھا  ایک بے ضرر سا خط تھا اللہ کا شکر ادا کیا اور خط سعیدہ کو دے دیا، اس نے پڑھا اور بانو کو دے دیا،  بانو نے پڑھ کر حمیدہ کو دیا اور حمیدہ  اور فردوس دونوں نے پڑھا۔ بانو نے شرارت کی بھابی، لفافے میں دیکھیں کوئی اور رقعہ تو نہیں، لفافے کو اچھی طرح جھاڑا کچھ نہیں۔ شام کو چھوٹے بھائی آکر چھوٹی بہن فردوس کو لے گئے۔  گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر ہم سب چھت پر آبیٹھے او ر گپیں شروع ہوگئی ان کی بڑی بہن آپا کوئیٹہ سے شادی میں شرکت کے لئے اپنی  دو چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ آئی تھیں۔ انہوں نے اپنے بچپن کے قصے سنانے شروع کر دئے جو زیادہ  تر آپا اور ان کے تھے سب ہنسیں اور مجھے ہنسی بھی آئے اور غصہ بھی، کہ یہ سب میرے شوہر کا مذاق اڑا رہے ہیں ِ ان کی امی نے غالباً میر چہرہ پڑھ لیا بولیں، ”گل، میرا نمو بہت سیدھا تھا اور یہ نجمی اس کو بہت تنگ کرتی اور پھر اپنے ابا مار کھاتی“۔ آپا شادی کے بعد دو ہفتے رہیں اور دونوں  ہفتے وہ اپنی بچپن کی شرارتوں کے قصے ایسے مزے سے سناتیں کہ ہنستے ہنستے ہم سب کے پیٹ میں بل پڑھ جاتے۔ 

                غالباً یہ  1959کا ذکر ہے۔ ان کے ابو کی پوسٹنگ ایبٹ آباد میں تھی۔یہ  پانچ سال کے تھے،  آپا سات سال کی، امین  چار سال اور سعیدہ ایک سال،یہ ”پکی“ جماعت میں تھے اور آپا دوسری جماعت میں تھیں۔ سکول کا نام "گورنمنٹ برکی پرائمری سکول" تھا۔ جو ان کے گھر سے سو گز کے فاصلے پر تھا۔ آپا بچپن سے بہت ذھین اور پڑھائی میں تیز تھیں۔ تین چار دن بعد، ان کی امی نے مرغی پکائی،غالباً مہمان آئے تھی، مرغی کے پروں کو مکئی کے خالی بھٹے میں لگا کر آپا نے کھلونا بنایا جسے اوپر پھینکیں تو آرام سے گھومتا ہوا نیچے آتا تھا۔ کھیل کھیلتے ہوئے ان کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر میں یہ پر باندھ لوں تو کیا میں بھی پری کی طرح اڑ  سکوں گا۔ انہوں نے آپا سے پوچھا آپا نے کہاہاں بالکل اڑ سکتے ہو۔ آپا نے ان کے دونوں کندھوں پر، مرغی کے چھ چھ پرلگا دئے۔ اب کہاں سے اُڑا جائے؟  گھر کے نزیک بہنے والے پختہ برساتی نالی جو دو فٹ چوڑی  اور  اتنی ہی گہری تھی (جو میں نے بعد میں جون 1999) میں نعیم نے ہمیں دکھائی)  یہ چھلانگ لگا کر اسے پار کر جاتے تھے۔چنانچہ اس کے اوپر سے چھلانگ لگا کر اڑنے کا فیصلہ کیا گیا طے یہ پایا کہ پہلے یہ اڑیں گے اور پھر آپا۔دونوں بہن بھائی نے  نالی کے ایک طرف اینٹوں سے ایک فٹ اونچا  تھڑا بنایا۔ یہ پیچھے سے دوڑتے آئے، تھڑے پر پاؤں رکھا فضا میں بلند ہونے کی کوشش کی اور تھڑے کی ایک اینٹ پھسل جانے سے یہ نالی میں جاگرے اور بے ہوش ہو گئے۔ آپا نے زور زور سے رونا شروع کیا ان کی امی اور پڑوسن گلزار خالہ دوڑتی ہوئی آئیں اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔گلزار خالہ کو جب معلوم ہوا کہ یہ نجمی کی شرارت تھی تو انہوں ان کی خوب دھنائی کی۔ اس دن کے بعد محلے والے بچے انہیں ”نعیم پری“ کے نام سے چھیڑتے۔  اور ان پر ایک گانا بھی بنا لیا تھا۔
” نعیم پری آنا۔ پر لگا کر اُڑجانا۔ نالے میں گرجانا۔شور نہ مچانا۔ نعیم پری آنا “  

                گلزار خالہ، ان کی زندگی کی ایک اہم شخصیت ہیں، ان کے شوہر کا نام اقبال صاحب تھا اور یہ چواء سیدن شاہ  چکوال میں سخی سیدن شاہ کے شمال میں واقع  محلے کے رہنے والے تھے۔ ان کی شادی کو چھ سال ہو گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا تھا،  جب نعیم کی پیدائش ہوئی تو یہ دونوں گھرانے لاہور میں تھے۔ نعیم کی پیدائش پر ان کی امی بہت بیمار ہوگئیں، ان کا سسرال میرپورخاص میں تھا۔ دادی آ نہیں سکتیں تھیں چنانچہ گلزار خالہ نے انہیں پالا،  ان کے والد کی پوسٹنگ ایبٹ آباد ہو گئی، ان دو نوں وہ میڈیکل کورمیں نائب صوبیدار تھے یہ لوگ  یہاں آگئے تو یہ گلزار خالہ کی جدائی میں بہت بیمارہوگئے پھر نائب صوبیدار اقبال صاحب کی پوسٹنگ بھی چھ مہینے بعد ایبٹ آباد ہو گئی اور اتفاق سے پڑوس میں گھر مل گیا تو یہ پھر زیادہ تر گلزار خالہ کے ہاں ہی رہتے اور وہ اپنے بیٹے کی طرح اس کا خیال رکھتیں۔ بلکہ یہ انہیں اپنے ساتھ اپنے گاؤں دو مہینے کی چھٹیوں پر بھی لے کر گئیں تھیں۔ جہاں سے نعیم خالص پنجابی لہجہ لے کر آئے تھے اور گلزار خالہ کے ساتھ اپنی توتلی زبان میں پنجابی بولتے تھے۔اب تو جب میں بھی کراچی جاتی ہوں یا کراچی والے رشتہ دار آتے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ گل بھی پنجابی ہو گئی ہے اور ہمیں ان کے لہجے عجیب لگتے ہیں۔

                دوسرے دن میں ان کو خط لکھنے بیٹھی اب سمجھ نہ آئے کہ کہاں سے شروع کروں اور کیا لکھوں۔پھر خیال آیا کہ ان کے جانے کے بعد واقعات لکھنا شروع کروں۔ خط بھی لکھا جائے گا اور انہیں بھی معلومات رہے گی۔ اب ان کے ابو کہیں جلدی خط لکھ کر دو پوسٹ بھی کرنا ہے کیوں کہ لفافے میں انہوں نے بھی رقعہ ڈالنا تھا اور میر خط ختم ہی نہ ہو، اپنے سکول اور کالج میں تقریریں اور امتحان میں مضامین لکھنے کی جو مہارت تھی وہ  خط میں سموئی نہیں جارہی تھی۔بہرحال تین صفحے پر مشتمل ڈائری نامہ لکھ کر اپنے سسرکے حوالے کیا، انہوں نے میری ساس کو دکھایا۔ خط پوسٹ ہونے کے بعد ساس نے سمجھایا کہ بہو خط میں روزانہ کی کہانی نہیں لکھی جاتی۔ 

                16نومبر کو جمعہ تھا اور اس دن صبح دس بجے سے بارہ بجے تک ان کے ہاں قرآن کا درس ہوتا جو ان کی امی دیتیں تھیں، پچھلے جمعے میں اپنے میکے تھی لہذا اب ساری ذمہ داری مجھ پر سونپی گئی کیونکہ بانو کو چند دنوں میں خوشخبری ملنے والی تھی۔ لہذا وہ بستر پر لیٹ گئی۔ کوئی پچیس ،تیس کے قریب عورتیں اور بچیاں آئیں، درس قرآن کے بعد، مجھ سے نعت کی فرمائش کی گئی۔ میں نے حمد اور دو نعتیں سنائیں۔ سب نے ان کی امی کو مبارکباد دی کہ بہت اچھی بہو ملی ھے۔ میں بھی خوش  اب میری ڈیوٹی بچوں کو ترنم سے نعت سنانے کی لگ گئی۔ 


                22 نومبر کو بانوکے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ فائزہ صدف نام رکھا، ان کے خاندان میں بیٹوں سے یہ پہلی بچی تھی، خوشی منائی گئی محلے میں جانے والوں کے مٹھائی بھجوائی گئی۔ میں چونکہ اپنے بھتیجے اور بھتیجیوں کو سنبھال چکی تھی لہذا مجھے بھی بچی کو سنبھالنے میں دشواری نہیں ہوئی۔ غالباً دسمبر کا پہلا ہفتہ تھا۔ فردوس آئی اور اس نے خوشخبری سنائی کہ اس اتوار کو نورجہاں فلم لگ رہی ھے ہم سب دو پہر کا شو دیکھنے جا رہے ہیں۔ چھوٹے بھائی نے ایڈوانس بکنگ کروا لی ہے۔بھابی نے کہا ہے کہ آپ بھی آجائیں۔ میں نے انکار کر دیا، میری بہن بہت حیران ہوئی۔ ان کی امی سے اجازت لی انہوں نے کہا، گل کی مرضی۔ہفتے کو میں امی کے گھر گئی سب نے بہت زور لگایا مگر میں نے انکار کردیا۔ میں نے واپس شام تک اپنے سسرال جانا تھا۔ لیکن میں دس بجے واپس آگئی۔ ان کی امی نے کہا کے تم فلم دیکھنے نہیں جارہی۔میں نے کہا نہیں۔ ان کی امی بھی حیران ہوئیں کہ میں نے کیسے انکار کر دیا۔ حالانکہ مہینے میں کم از کم ایک دفعہ ہم سب فلم دیکھنے سینما ضرور جاتے تھے اور یہ بات میری ساس کو معلوم تھی۔ دراصل، نعیم نے مجھے منع کر دیا تھا۔ نعیم غالبا 1978 فروری میں رنگین ٹی وی، پشاور سے خرید کر لائے تھے۔ تاکہ ان کے چھوٹے دونوں بھائی باہر جا کر ٹی وی نہ دیکھیں۔  اس کے لئے انہوں نے بڑی مشکل سے اپنے ابو کو منایا تھا۔ پھر ان کی والدہ اور بہنیں جب ہمارے ہاں میری منگنی کے بعد آتیں تو ڈرامہ لازمی دیکھ کر جاتیں۔ لیکن یہ سینما فلم دیکھنے کبھی نہیں گئیں۔  

                وقت جلدی سے گذرنے لگا اور 1980آگیا، تین جنوری کو یہ ایک مہینے کی چھٹی پر اچانک آگئے۔ حالانکہ چند دن پہلے ان کا خط ملا انہوں نے اس میں ذکر تک نہیں کیا۔ سب اس اچانک سرپرائز پر خوش ہو گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیاآپ کو خط لکھنے کا وقت نہیں ملتا جو آپ ایک صفحے کا مشکل سے سادہ خط لکھتے ھیں۔ تب معلوم ہوا کہ جس علاقے میں یہ ہیں وہاں سے خط آرمی پوسٹ آفس کے ذریعے جاتے ہیں اور وہ ہر خط کو نہیں بلکہ کچھ خطوں کو کھول کر سنسر کرتے ہیں۔ لہذا سادہ خط لکھنا ان کی مجبوری ہے۔  میرپورخاص میں دو تین دن رہنے کے بعد  انہوں نے پروگرام بنایا کہ، کراچی جاکر میرے اور ان کے رشتہ داروں سے ملنا ہے۔ گویا یہ ایک قسم کا ہنی مون ٹرپ تھا۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

فوجی کی بیوی -6 - زیرِطباعت

ہونہار بِروا - 1

بدھ، 19 فروری، 2014

ہونہار بِروا - 3

    
      غالباً، جون 1999کا ذکر ہے۔ ہمارے سکول میں  چھٹیوں میں کرنے کے لئے بچوں کو مختلف کام ملے۔ جونئیر سیکشن  میں، میں نے ہر بچے کو اپنے اپنے علاقے میں چھٹیوں کے دوران، دستکاریوں، تاریخی عمارتوں، یادگاروں، پرانی تہذیبوں، کاشتکاری، ڈیم، دریا، تفریح گاہوں، جانوروں، پرندوں، حشرات الارض اوردیگر اشیاء کے بارے میں معلومات، تصویریں اور نمونے وغیرہ لانے اور ان کے بارے میں کلاس میں دو منٹ کا معلوماتی لیکچر دینے کا چھٹیوں کے بعد رکھا۔  چونکہ یہ کام بچوں کو پہلی دفعہ ملا تھا لہذا ان کا شوق دیدنی تھا۔ اب چونکہ بہت سے بچے فوٹو گرافی افورڈ نہیں کر سکتے تھے لہذا انہیں پرانی کتابوں سے یا خود ڈرائینگ کر کے تصویر لگانے کی اجازت دے دی۔  عروضہ آٹھویں میں تھی، اسے دس حشرات الارض جمع کرنے کا کام ملا۔
          بچوں کی سکول کی چھٹیوں میں ہر سال کوئٹہ سے کراچی، حیدر آباد، میرپورخاص، نواب شاہ، مورو، سکھر اور واپس کوئٹہ اپنی گاڑی پر تمام رشتہ داروں سے ملتے، مہینے کی چھٹیاں، جنوری میں گذار کر واپس کوئٹہ آجاتے، میرپورخاص میرا اور نعیم کا آبائی شہر ہے میں نے ابن رشد گرلز کالج سے 1978میں گریجویشن کی، 1977میں میری منگنی نعیم سے ہوئی یہ میرے بھائی کے دوست تھے، ہم بہنوں نے ان کا نام لمبے کانوں والا فوجی رکھا تھا۔ یہ بڑی مزیدار داستان ہے۔ موقع ملا تو آپ کو ”فوجی کی بیوی“ میں ضرور سناؤں گی۔  ”ہونہار بروا“ دراصل میرے چاروں بچوں کی داستان ہے۔ ابتداء میں نے آخری بیٹی عروضہ سے کی ہے۔کیوں کہ ان تینوں میں سب سے ذہین اور محنتی عروضہ، سائر ہ ذہین ہے، ارسلان صرف محنتی ہے اور ارمغان کی صرف یاداشت  بہت تیز ہے  ایک رات پہلے پڑھا ہوا سبق وہ فل سٹاپ اور کامے تک لکھ سکتا ہے۔ 
          نعیم کی پوسٹنگ حیدرآباد سے کوئٹہ ستمبر 1991میں ہوئی، درمیان میں نعیم ڈیڑھ سال کے لئے سیاچین پوسٹ ہوئے۔ لیکن ہم لوگ  کوئٹہ ہی میں رہے۔ سیاچین کے بعد نعیم نے اپنی پوسٹنگ واپس کوئٹہ کروا لی۔ کوئٹہ ایسی جگہ ہے جہاں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے افسر یا جوان کے علاوہ کوئی پوسٹ ہونا نہیں چاہتا اور فوج کی پالیسی کے مطابق، کوئٹہ کے رہنے والے کو ئٹہ صرف دو سال کے لئے یا پھر  Compassionate Groundپر ہی پوسٹ کیا جاسکتا ہے۔ نعیم کا تعلق کوئٹہ سے اس طرح تھا کی ان کے والد فوج میں تھے۔ یہ غالباً پانچویں جماعت سے نویں تک کوئٹہ میں رہے۔ دسویں کا امتحان انہوں نے میرپورخاص سے دیا۔  لہذا کوئٹہ ان کے لئے دوسرا گھر سمجھیں۔  کوئٹہ سے ہم لوگ اٹک آئے تو گرمیوں کی چھٹیوں میں میرپوخاص جانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔چنانچہ ہم، مری نتھیا گلی، ایبٹ آباد گھومنے پھرنے جاتے۔
          لہذا جولائی میں ہم اپنے ٹور پر نکلے، موٹر وے ان دنوں نئی نئی بنی تھی ہم نے غلطی سے گاڑی موٹر وے پر موڑ دی۔ پنڈی سے لاہور تک کا سفر ایک تھکا دینے والا سفر تھا جو بالکل کراچی سے کوئٹہ  کے سفر سے ملتا جلتا تھا۔پوری سڑک پر صرف ہم نہ کوئی آدم نہ آدم زاد، کہیں کہیں راستے میں سڑک پر کام کرنے والے لوگ یا اوور ٹیک کرتی ہوئی اکا دکا گاڑیاں نظر آتیں، اس سے کہیں بدرجہا بہتر، جی ٹی روڈ کا سفر تھا۔ بہرحال کلر کہار کے پاس ہمیں ایک کھچوا سڑک پار کرتا نظر آیا۔ عروضہ  نے دیکھا تو شور مچا دیا کی ایک Living Thing مل گئی نعیم نے گاڑی روک کر کچھوا پکڑا، عروضہ کی ضد کہ کچھوا پسنجر سیٹ کی پیروں کی جگہ میں رکھا جائے جہاں میں بیٹھی، مجھے کچھوے سے ڈر بھی لگتا  اور گھن بھی آتی۔ بہرحال طے پایا کہ کچھوا ہم واپس چھوڑ دیں یا ڈکی میں رکھیں اور واپسی پر پھر کوئی نہ کوئی کچھوا مل جائے گا ہم لے لیں گے۔ عروضہ رسک لینے پر تیار نہ تھی، چنانچہ وہ کچھوا ڈکی میں رکھنے پر تیار ہو گئی۔ ڈکی میں موجود سامان کو ایک طرف کھسکایا۔  کچھوے کو پانی اور بلحاظ حجم کچھوا دو دن کے راشن کے ساتھ رکھ دیا۔ اور ہم چل پڑے۔کچھوا ڈکی میں کیا رکھا کہ ہماری مصیبت آگئی ہر پچاس کلو میٹر کے بعد کچھوے کو دیکھا جاتا کہ وہ زندہ ہے کھانا کھا رہا ہے، پانی پی لیا ہے۔ جہاں راستے میں ہم ریسٹ کرتے کچھوے کو زمین پر چھوڑا جاتا تاکہ وہ ہماری طرح  ٹہل کر اپنی ٹانگیں سیدھی کر لے۔ خدا خدا کر کے ہم نعیم کے چچا کے گھرلاہور پہنچے وہاں کچھوے کو صحن میں چھوڑا۔ تو مرغوں نے کچھوے کو دشمن سمجھ کر اس پر حملہ کر دیا اور ٹھونگیں مارنی شروع کر دیں۔ اب عروضہ کو سمجھ نہ آئے وہ کیا کرے آخرکار کچھوے کو ٹوکرے میں ڈھک کر اس پراینٹ رکھ دی۔ تو مرغیوں نے ٹوکرے کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔وہ حیران ہو کر ٹوکرے کو ٹھونگیں مارتیں کہ اُن کے میٹرنٹی ہوم میں یہ کون مردوا گھسا ہوا ہے۔
          لاہور میں ہم  1988میں سال رہے پھر دسمبر میں نعیم کی والدہ  کی وفات پر نعیم نے اپنی پوسٹنگ گھر کے نزدیک حیدرآباد کروا لی۔ لاہور میں گھومنے کی بے شمار جگہیں ہیں۔ طے یہ پایا کے رشتہ داروں اور پرانے دوستوں کو ملنے کے علاوہ  چڑیا گھر  اور واپسی میں جی ٹی روڈ سے واپس جاتے ہوئے۔ بادشاہی مسجد اور یادگار پاکستان دیکھیں گے۔چڑیا گھر میں عروضہ کا واحد  بچپن پسندیدہ جانور ”ہاتھی“ ہے۔ کوئیٹہ پوسٹنگ کے وقت ہم کراچی سے بذریعہ کارگئے تھے تو کراچی چڑیا گھر میں۔ ایک ہاتھی کے چھوٹے بچے نے عروضہ سے لے کر پاپ کارن کھائے۔ تب سے ہاتھی عروضہ کا  پسندیدہ جانور ہو گیا۔ کوئٹہ پہنچ کر عروضہ نے ضد شروع کردی کہ اسے ہاتھی کا بچہ ”ٹم ٹم“ چاہیئے۔  
          ”ٹم ٹم“ عروضہ کا بچپن سے دوست ہے۔ جب وہ ڈیڑھ سال کی تھی تو نعیم نے اسے باقی بچوں کی طرح کہانیا ں سنانی شروع کر دیں۔ جس کا اہم کردار،  ہاتھی ’کا بچہ ’ٹم ٹم“  تھا جس پر بیٹھ کر عروضہ جنگل کے دوسرے سرے پر اپنی دوست سے ملنے جاتی، کہانی کہانی میں نعیم، نظمیں، گنتی اور حساب  سکھاتے،اس طرح بچوں کی تربیت بھی ہوتی اور وہ تعلیم بھی حاصل کرتے۔ آج کل نعیم اپنی نواسی کو اسی کہانی کا ری پلے ماڈرن انگلش نرسری رہائم، میتھ وغیرہ کے ساتھ سنا رہے ہیں۔ بہرحال  کراچی کے ”ٹم ٹم“  نے عروضہ کو باقی جانوروں کے ساتھ، ”ٹم ٹم“  رکھنے کی خواہش بیدار کر دی۔ دونوں باپ بیٹی نے  1991ستمبر میں فیصلہ کیا کہ عروضہ جتنے پیسے جمع کرے گی اُتنے اُس میں نعیم اور میں ملائیں گے اور پھر ہاتھی کا بچہ خریدیں گے جو نیا نیا پیدا ہوا  افریقہ سے چھ ہزار کا ملے گا یا نعیم کے کلاس فیلو اشرف انکل جو افریقہ میں ہیں جنگل سے پکڑ لیں گے۔ لائسنس کی فیس، گورنمنٹ کی اجازت اور بحری جہازکا افریقہ سے کراچی تک کا کرایہ۔کراچی سے کوئٹہ تک کا ٹرک کا کرایہ، ہاتھی کی رہائش کا کمرہ  وغیرہ کے اخراجات اُس وقت حساب لگائیں گے۔ 

چنانچہ عروضہ نے بازار سے سب سے بڑی گلک خریدی اور بچت شروع  ہو گئی۔ جتنے پیسے وہ ملاتی اتنے نعیم اور مجھے بھی ملانے پڑتے۔ عید ی۔ امتحان پاس ہونے پر نقدی۔ آنے والے مہمانوں کی طرف سے دئیے جانی والی رقوم سب اُس گلک کی نذر ہونے لگیں۔  روزانہ حساب بنایا جانے لگا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان اپنی والدہ کی یاد میں کینسر ہسپتال بنانے کوئٹہ آیا  آرمی پبلک سکول سٹاف کالج  بھی آنا تھا مگر وقت کی کمی کے باعث غالباً نہیں آیا  تمام بچوں نے اپنی بچت ہسپتال کو دی عروضہ نے بھی اپنی پوری گلک  ہسپتال کی نذر کر دی۔ گلگ توڑنے لگے تو عروضہ نے کہا ایسے ہی بھجوا دیں توڑیں نہیں اور ایک کاغذپر لکھے مکمل حساب کے ساتھ کہ کس کس نے اس میں ہاتھی کا بچہ ”ٹم ٹم“  خریدنے کے لئے   گلک میں رقم ڈالی ہے جو غالباً ڈیڑھ سال میں 2,753/-روپے بن چکی تھی۔ عمران خان نے اپنی ماں کی یادگار بنانے کے لئے اپنی تمام جمع پونجی زمین خریدنے اور عمارت کا سٹرکچر بنوانے میں لگا دی۔ صدقہ، فطرات، نذر و نیاز مسلمانوں نے دئیے اور ڈونیشن غیر مسلم سے ہسپتال تعمیر ہوا۔ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ عمران خان نے پہاڑی پر ہزاروں کنال کا بنی گالہ میں محل بنانے کے لئے رقم کہاں سے لی؟ 
          لاہور میں گھومنے کے بعد بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ اوریادگار پاکستان گھومنے کے بعد ہم دو بجے گجرانوالہ پہنچے جہاں نعیم کی ایک یونٹ تھی جس میں انہوں نے سروس کی تھی۔ یونٹ آفیسر نے میس میں ہمارے رہنے کا انتظام کیا۔ نعیم اور ان کے دوست گالف کھیلنے چلے گئے ہم سب ان کے دوست کے ہاں پانچ بجے چائے پر گئے۔ مغرب کے وقت واپس آئے تو ہمارے گیسٹ روم کے باہر  لوگوں کا رش پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک خوفناک سانپ ہمارے کمرے میں گھس گیا ہے۔ روم اٹینڈنٹ نے درواز بند کر دیا ہے اور کسی کو اندر نہیں جانے دے رہا، سانپ مارنے والی پارٹی بھی کھڑی ہے۔ سانپ کا سن کر عروضہ ہائپر ہو گئی کہ میں پکڑتی ہوں۔ پارٹی انچارج  اسے خوفزدہ کرے کہ بیٹی بہت خوفناک سانپ ہے۔ اندر مت جائیں۔ تھوڑی دیر بعد نعیم آگئے۔ انہوں نے سانپ پکڑنے والی پارٹی کودیکھا اور پو چھا ”چاند پر جانے کا ارادہ ہے“  نائب صوبیدار انچارج نے جواب دیا،”نہیں سر، یہ سنیک کلنگ پارٹی ہے“۔  نعیم  نے انچارج کے ہاتھ سے چار فٹ کی چھڑی لی اور عروضہ کے ساتھ، گیسٹ روم میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد عروضہ سانپ ہاتھ میں پکڑ کر نکلی، 

 پارٹی انچارج اور باقی لوگ حیران رہ گئے۔ پارٹی انچارج بار بار کہے سانپ کو نیچے ڈال دیں اسے مارنا ہے۔ نعیم نے سمجھایا کہ اس کے دانت نکال دئے ہیں اب یہ تین مہینے تک کے لئے صرف کھیلنے والا سانپ ہے۔ یہ ایک پانچ فٹ لمبا کوبرا سانپ تھا۔ عروضہ کی خوشی کے مارے برا حال کہ ایک اور
Living Thingمل گئی جو سب سے اہم ہے۔  نعیم نے وہاں سانپ پکڑنے والی پارٹی کو بغیر مارے سانپ پکڑنا سکھایا  انہوں نے کہاں سے سیکھا یہ الگ داستان میں سنئے گا۔  دوسرے دن یونٹ سے ایک چھوٹا سا بکس بن کر آگیا جس کے اوپر ہوا کے سوراخ تھے۔ یہ  ”وائیکنگ“ کوبرا کا گھر تھا،  اس نے ہمارے ساتھ اٹک جانا تھا۔ 
          گجرانوالہ سے ہم  جہلم آئے جہاں نعیم کی لوکیٹنگ بیٹری تھی جس کو نعیم نے سیاچین کے بعد کوئٹہ میں کمانڈ کیا تھا۔ یہاں ہم دو دن رہے۔ کیونکہ نعیم جہلم میں 1980سے 1983تک رہے۔ یہاں ان کے کافی سویلین دوست بھی تھے اور گالف گراونڈ بھی۔ یہاں ہم اپنے پرانے گھر بھی گئے۔جہاں نعیم کی موٹر سائیکل چوری ہوئی تھی۔ سائرہ کو وہ واقعہ فوراً یاد آگیا۔ گھر میں انفنٹری کے ایک میجر صاحب رہ رہے تھے انہوں نے ہمیں چائے پلائی۔ سائرہ نے موٹر سایکل چوری ہونے کی پوری روئیداد ان کو سنائی۔ سائرہ ان دنوں ڈھائی سال کی تھی۔ ہم اُس کی یاداشت پر حیران رہ گئے۔ میجر صاحب کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے ایک بیٹی سات سال اور بیٹا چار سال دونوں نے بڑے مزے سے یہ واقعہ سنا جب سائرہ واقع سنا چکی تو بیٹا کہنے لگا باجی اور کہانی سنائیں۔ ہم سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
جہلم سے ہم لوگ منگلا کینٹ گئے۔ یہاں نعیم کی وہ یونٹ تھی جس میں وہ حیدر آباد میں سیکنڈ ان کمانڈ رہے۔ یہاں ہم نے منگلا ڈیم اور دیگر تفریحی مقامات دیکھے۔ بچوں کا سب سے پسندیدہ مقام سوئمنگ پول تھا۔ لیکن ایک بات وہ یہ کہ بچے اپنی چھٹیوں کا کام ساتھ ساتھ کرنے کے علاوہ  مضمون ”میں نے چھٹیا ں کیسے گذاریں“ وہ بھی روزانہ کے حساب سے لکھ رہے تھے۔ نعیم کی ہدایات تھیں کہ جب بھی ہم گھومنے کے لئے اپنے شہر سے باہر جائیں گے بچے اس پر مضمون لازماً لکھیں گے، جس پر دو اچھے مضمونوں، کم غلطیاں،اہم واقعات اور خوبصورت جملوں پر الگ الگ انعام ملتا یہ اور بات کہ چاروں بچے کوئی نہ کوئی انعام حاصل کر لیتے۔  کھیل کھیل میں تعلیم اور  بچوں کی نفسیات نعیم کا پسندیدہ موضوع ہے لیکن وہ مغربی نفسیات سے زیادہ متاثر نہیں۔ اُن کے خیال میں دس بہترین باتوں سے سمجھانے کے بجائے ، ایک جوتا یا تھپڑ  بچے کو زیادہ سمجھ دلاتا ہے۔ ”کھلاؤ سونے کا نوالہ اور نقصان دہ شرارت پر دیکھو شیر کی نظر سے“  جس سے میں متفق کبھی نہیں رہی لیکن کیا کروں میری واحد مجبوری، بیوی ہونا ہے۔

اب نعیم کی نواسی نے ، نعیم کو لوہے کے چنے چبوائے ہوئے ہیں اور میں سوچتی ہوں کہ باپ اور نانا میں کتنا فرق ہوتا ہے ۔ 


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭