Pages

جمعرات، 20 فروری، 2014

فوجی کی بیوی - 4




                سسرال پہنچی، تو باراتی ہم سے پہلے پہنچ گئے تھے استقبال ہوا۔محلہ کی ساری عورتیں ان کے گھر جمع تھیں ِ بچے بھی نعیم بھائی و انکل کی دلہن دیکھنے امنڈے  پڑ رہے تھے۔  کوئی منہ دکھائی میں ٹافیاں ڈال رہا ہے تو کوئی بسکٹ دے رہا ہے، ساڑھے دس بجے ان کو ڈھونڈا جا رہا تھا مگر یہ غائب تھے۔ چھوٹے بھائیوں کو دوستوں کے پاس دوڑایا یہ ندارد۔ رات کو گیارہ بجے مہمان جانے شروع ہوئے بستر بچھانے کے لئے، سیڑھیوں کے نیچے والے حصے کا دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ دولہا میاں تین فٹ ضرب چار فٹ کے بستر رکھنے والےمچان میں رضائیوں کے اوپر سوٹ سمیت سو رہے تھے۔  بھائی مل گئے کا نعرہ ان کی چھوٹی بہن نے لگایا یہ آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھے منھ دھویا، کمرے میں داخل کیسے ہوں دروازے پر لڑکیوں نے قبضہ جمایا ہوا تھا،پیسے دے کر جان چھڑائی، کمرے میں داخل ہوئے مسہری پر ان کا دس سالہ بھائی وسیم اور میرا چھ سالہ بھتیجا گڈو سوئے ہوئے تھے۔  ان دونوں کو اٹھایا تو دونوں نے کمرے سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ گڈو میکے میں میرے ساتھ سوتا تھا، بہر حال دونوں کو دوبارہ سونے دیا آدھے گھنٹے بعد ان کے چھوٹے بھائی چپکے سے اٹھا کر دونوں کو دوسرے کمروں میں لے گئے۔ 

                دوسرے دن جمعرات تھی ولیمہ ہوا گھر کے سامنے سڑک پر شامیانے لگائے گئے۔ دوپہر ایک بجے کھانا شروع ہوا اور دو بجے تک ختم ہو گیا، شامیانے سمیٹ لئے گئے۔ اس کے بعد آنے والے مہمانوں کو بیٹھک میں کھانا کھلایا ِ۔ تین بجے چھوٹے بھائی جان آکر مجھے لے گئے۔  اگلے دن جمعہ رات کے کھانے کے بعد میں ان کے ساتھ دوبارہ  اپنے سسرال آگئی۔ ان کی چھوٹی بہن سعیدہ نے مجھ سے پوچھا کہ بھابی آپ بھائی کو کیسے بلائیں گی؟ اب مجھے سمجھ نہ آئے، ہماری بھابیاں بھائیوں کو، اجی، سنیئے، گڈو کے ابا وغیرہ کہہ کر بلاتی تھیں میں کیا کہہ کر بلاؤں؟ کیوں کہ ان دنوں یہی چلتا تھا۔  میں نے کہا اپنے بھائی سے پوچھو انہیں کیا اچھا لگے گا؟ ان سے پوچھا انہوں نے کہا، ”نعیم“  مجھے بڑا عجیب لگا کہ، مجھ سے بڑے بھی ہیں اور شوہر بھی اور نام سے بلاؤں، چنانچہ کافی عرصہ سنیئے ہی سے کام چلایا۔

                 انہوں نے گیارہ تاریخ کو واپس اپنی یونٹ چلا جانا تھا۔لہذا دس تاریخ کورسم کے مطابق میں نے شام کو کھیر پکائی، محلے اورعزیزوں دوستوں کے گھر تقسیم کی گئی۔ مغرب کے بعد انہوں نے مجھے، اپنے چھوٹے  بھائی کی بیوی، بانو(ان کی شادی سال پہلے ہو گئی تھی)  اور دونوں بہنوں کو بٹھا لیا اور جوائینٹ فیملی سسٹم کا سب سے بڑی وجہ نزع کو انہوں نے ایک ہفتہ وار پروگرام کاغذ پر بنا کر حل کر لیا اور وہ  چاروں کی گھر کے کام کاج میں ڈیوٹیوں کی تقسیم تھی ُ کہ گھر کا کھانا کس کس نے کب کب پکانا ھے۔ صبح اور دوپہر کے برتن تو کام والی دھوتی تھی لیکن رات کے کھانے کے بعد برتن کون کون دھوئے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ٹائم ٹیبل بنا کر کچن میں ٹانگ دیا۔ اور ہاں میرا میکہ تو دو گلی چھوڑ کر تھا اور  بانو کانواب شاہ، چنانچہ اس بات کا بھی خیال رکھا، یہ اور بات کہ ہم دونو ں دیورانی اور جٹھانی نے بقائے باہمی کے اصولوں پر اپنے اپنے کام بعد میں ایڈجسٹ کر لئے، چونکہ کھانا میں اچھا بناتی تھی لہذا کھانے کی تما م ذمہ داری  مجھ پر آگئی۔  بانو کو چونکہ اسی مہینے خوشخبری ملنے والی تھی لہذا، اس کے آرام کو بھی مد نظر رکھنا پڑا۔

 اگلے دن یہ روانہ ہو ئے تومیرے آنسو نکل آئے ان کے سب گھر والوں نے میرا مذاق اڑانا شروع کر دیا،ہمارے بھائی چھٹی کے بعد واپس جاتے تو میں نے بھابیوں کو روتا ہی دیکھا اور یہ لوگ رونے سے منع کر رہے۔ ان کی امی نے کہا بہو جانے والے کو ہنسی خوشی رخصت کرتے ہیں۔تاکہ اسے پردیس میں ہنستے چہرے یاد رہیں۔ یہ بات دل کو لگی میں نے آنسو پونچھ ڈالے۔ 

                ان کے جانے کے دوسرے دن میں میکے چلی گئی۔ وہاں تین دن رہ کر سسرال واپس چھوٹی بہن کے ساتھ آئی تودس بجے  ان کا خط آیا ہوا تھا۔ سعیدہ نے خط مٹھائی کھائے بغیر دینے سے انکار کر دیا۔ بہرحال گلاب جامن منگوائے تب ان کا خط ملا۔ اب خط کیسے پڑھوں؟یہ سب لوگ اس امید پر کہ میں خط کھولوں تو یہ بھی سنیں اور میری خط کھولنے کی ہمت نہ پڑے۔یہ میرے نام کسی لڑکے کا پہلا خط تھا۔ میں نے خط الماری میں رکھ کر تالا لگادیا۔  اب یہ تینوں میرے پیچھے کہ بھائی کا خط سناؤ، اب میں پریشان،ان کی امی نے آکر سب کو دوڑا دیا۔ لیکن دوپہر کو پھر یہ سب میرے کمرے میں آگھسیں، بھائی کا خط پڑھا  میں نے کہا نہیں۔نہیں پڑھ لیا ہمیں بھی سناؤ ، سعیدہ مجھ سے تین مہینے چھوٹی تھی۔ وہ ناراض ہو گئی میں نے منایا اور کہا پہلے میں پڑھوں گی اور خود سناؤں گی۔ پڑھنے کو نہیں دوں گی۔ تینوں راضی ہوگئیں۔ میں نے دھڑکتے دل سے الماری کھولی۔ تمام دعائیں جو یاد تھیں پڑھ لیں کہ انہوں نے کوئی ایسی بات نہ لکھی ہو کہ مجھے شرمندگی ہو۔ ان کو دور بٹھا کر خط کھولا۔ پڑھا  ایک بے ضرر سا خط تھا اللہ کا شکر ادا کیا اور خط سعیدہ کو دے دیا، اس نے پڑھا اور بانو کو دے دیا،  بانو نے پڑھ کر حمیدہ کو دیا اور حمیدہ  اور فردوس دونوں نے پڑھا۔ بانو نے شرارت کی بھابی، لفافے میں دیکھیں کوئی اور رقعہ تو نہیں، لفافے کو اچھی طرح جھاڑا کچھ نہیں۔ شام کو چھوٹے بھائی آکر چھوٹی بہن فردوس کو لے گئے۔  گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر ہم سب چھت پر آبیٹھے او ر گپیں شروع ہوگئی ان کی بڑی بہن آپا کوئیٹہ سے شادی میں شرکت کے لئے اپنی  دو چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ آئی تھیں۔ انہوں نے اپنے بچپن کے قصے سنانے شروع کر دئے جو زیادہ  تر آپا اور ان کے تھے سب ہنسیں اور مجھے ہنسی بھی آئے اور غصہ بھی، کہ یہ سب میرے شوہر کا مذاق اڑا رہے ہیں ِ ان کی امی نے غالباً میر چہرہ پڑھ لیا بولیں، ”گل، میرا نمو بہت سیدھا تھا اور یہ نجمی اس کو بہت تنگ کرتی اور پھر اپنے ابا مار کھاتی“۔ آپا شادی کے بعد دو ہفتے رہیں اور دونوں  ہفتے وہ اپنی بچپن کی شرارتوں کے قصے ایسے مزے سے سناتیں کہ ہنستے ہنستے ہم سب کے پیٹ میں بل پڑھ جاتے۔ 

                غالباً یہ  1959کا ذکر ہے۔ ان کے ابو کی پوسٹنگ ایبٹ آباد میں تھی۔یہ  پانچ سال کے تھے،  آپا سات سال کی، امین  چار سال اور سعیدہ ایک سال،یہ ”پکی“ جماعت میں تھے اور آپا دوسری جماعت میں تھیں۔ سکول کا نام "گورنمنٹ برکی پرائمری سکول" تھا۔ جو ان کے گھر سے سو گز کے فاصلے پر تھا۔ آپا بچپن سے بہت ذھین اور پڑھائی میں تیز تھیں۔ تین چار دن بعد، ان کی امی نے مرغی پکائی،غالباً مہمان آئے تھی، مرغی کے پروں کو مکئی کے خالی بھٹے میں لگا کر آپا نے کھلونا بنایا جسے اوپر پھینکیں تو آرام سے گھومتا ہوا نیچے آتا تھا۔ کھیل کھیلتے ہوئے ان کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر میں یہ پر باندھ لوں تو کیا میں بھی پری کی طرح اڑ  سکوں گا۔ انہوں نے آپا سے پوچھا آپا نے کہاہاں بالکل اڑ سکتے ہو۔ آپا نے ان کے دونوں کندھوں پر، مرغی کے چھ چھ پرلگا دئے۔ اب کہاں سے اُڑا جائے؟  گھر کے نزیک بہنے والے پختہ برساتی نالی جو دو فٹ چوڑی  اور  اتنی ہی گہری تھی (جو میں نے بعد میں جون 1999) میں نعیم نے ہمیں دکھائی)  یہ چھلانگ لگا کر اسے پار کر جاتے تھے۔چنانچہ اس کے اوپر سے چھلانگ لگا کر اڑنے کا فیصلہ کیا گیا طے یہ پایا کہ پہلے یہ اڑیں گے اور پھر آپا۔دونوں بہن بھائی نے  نالی کے ایک طرف اینٹوں سے ایک فٹ اونچا  تھڑا بنایا۔ یہ پیچھے سے دوڑتے آئے، تھڑے پر پاؤں رکھا فضا میں بلند ہونے کی کوشش کی اور تھڑے کی ایک اینٹ پھسل جانے سے یہ نالی میں جاگرے اور بے ہوش ہو گئے۔ آپا نے زور زور سے رونا شروع کیا ان کی امی اور پڑوسن گلزار خالہ دوڑتی ہوئی آئیں اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔گلزار خالہ کو جب معلوم ہوا کہ یہ نجمی کی شرارت تھی تو انہوں ان کی خوب دھنائی کی۔ اس دن کے بعد محلے والے بچے انہیں ”نعیم پری“ کے نام سے چھیڑتے۔  اور ان پر ایک گانا بھی بنا لیا تھا۔
” نعیم پری آنا۔ پر لگا کر اُڑجانا۔ نالے میں گرجانا۔شور نہ مچانا۔ نعیم پری آنا “  

                گلزار خالہ، ان کی زندگی کی ایک اہم شخصیت ہیں، ان کے شوہر کا نام اقبال صاحب تھا اور یہ چواء سیدن شاہ  چکوال میں سخی سیدن شاہ کے شمال میں واقع  محلے کے رہنے والے تھے۔ ان کی شادی کو چھ سال ہو گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا تھا،  جب نعیم کی پیدائش ہوئی تو یہ دونوں گھرانے لاہور میں تھے۔ نعیم کی پیدائش پر ان کی امی بہت بیمار ہوگئیں، ان کا سسرال میرپورخاص میں تھا۔ دادی آ نہیں سکتیں تھیں چنانچہ گلزار خالہ نے انہیں پالا،  ان کے والد کی پوسٹنگ ایبٹ آباد ہو گئی، ان دو نوں وہ میڈیکل کورمیں نائب صوبیدار تھے یہ لوگ  یہاں آگئے تو یہ گلزار خالہ کی جدائی میں بہت بیمارہوگئے پھر نائب صوبیدار اقبال صاحب کی پوسٹنگ بھی چھ مہینے بعد ایبٹ آباد ہو گئی اور اتفاق سے پڑوس میں گھر مل گیا تو یہ پھر زیادہ تر گلزار خالہ کے ہاں ہی رہتے اور وہ اپنے بیٹے کی طرح اس کا خیال رکھتیں۔ بلکہ یہ انہیں اپنے ساتھ اپنے گاؤں دو مہینے کی چھٹیوں پر بھی لے کر گئیں تھیں۔ جہاں سے نعیم خالص پنجابی لہجہ لے کر آئے تھے اور گلزار خالہ کے ساتھ اپنی توتلی زبان میں پنجابی بولتے تھے۔اب تو جب میں بھی کراچی جاتی ہوں یا کراچی والے رشتہ دار آتے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ گل بھی پنجابی ہو گئی ہے اور ہمیں ان کے لہجے عجیب لگتے ہیں۔

                دوسرے دن میں ان کو خط لکھنے بیٹھی اب سمجھ نہ آئے کہ کہاں سے شروع کروں اور کیا لکھوں۔پھر خیال آیا کہ ان کے جانے کے بعد واقعات لکھنا شروع کروں۔ خط بھی لکھا جائے گا اور انہیں بھی معلومات رہے گی۔ اب ان کے ابو کہیں جلدی خط لکھ کر دو پوسٹ بھی کرنا ہے کیوں کہ لفافے میں انہوں نے بھی رقعہ ڈالنا تھا اور میر خط ختم ہی نہ ہو، اپنے سکول اور کالج میں تقریریں اور امتحان میں مضامین لکھنے کی جو مہارت تھی وہ  خط میں سموئی نہیں جارہی تھی۔بہرحال تین صفحے پر مشتمل ڈائری نامہ لکھ کر اپنے سسرکے حوالے کیا، انہوں نے میری ساس کو دکھایا۔ خط پوسٹ ہونے کے بعد ساس نے سمجھایا کہ بہو خط میں روزانہ کی کہانی نہیں لکھی جاتی۔ 

                16نومبر کو جمعہ تھا اور اس دن صبح دس بجے سے بارہ بجے تک ان کے ہاں قرآن کا درس ہوتا جو ان کی امی دیتیں تھیں، پچھلے جمعے میں اپنے میکے تھی لہذا اب ساری ذمہ داری مجھ پر سونپی گئی کیونکہ بانو کو چند دنوں میں خوشخبری ملنے والی تھی۔ لہذا وہ بستر پر لیٹ گئی۔ کوئی پچیس ،تیس کے قریب عورتیں اور بچیاں آئیں، درس قرآن کے بعد، مجھ سے نعت کی فرمائش کی گئی۔ میں نے حمد اور دو نعتیں سنائیں۔ سب نے ان کی امی کو مبارکباد دی کہ بہت اچھی بہو ملی ھے۔ میں بھی خوش  اب میری ڈیوٹی بچوں کو ترنم سے نعت سنانے کی لگ گئی۔ 


                22 نومبر کو بانوکے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ فائزہ صدف نام رکھا، ان کے خاندان میں بیٹوں سے یہ پہلی بچی تھی، خوشی منائی گئی محلے میں جانے والوں کے مٹھائی بھجوائی گئی۔ میں چونکہ اپنے بھتیجے اور بھتیجیوں کو سنبھال چکی تھی لہذا مجھے بھی بچی کو سنبھالنے میں دشواری نہیں ہوئی۔ غالباً دسمبر کا پہلا ہفتہ تھا۔ فردوس آئی اور اس نے خوشخبری سنائی کہ اس اتوار کو نورجہاں فلم لگ رہی ھے ہم سب دو پہر کا شو دیکھنے جا رہے ہیں۔ چھوٹے بھائی نے ایڈوانس بکنگ کروا لی ہے۔بھابی نے کہا ہے کہ آپ بھی آجائیں۔ میں نے انکار کر دیا، میری بہن بہت حیران ہوئی۔ ان کی امی سے اجازت لی انہوں نے کہا، گل کی مرضی۔ہفتے کو میں امی کے گھر گئی سب نے بہت زور لگایا مگر میں نے انکار کردیا۔ میں نے واپس شام تک اپنے سسرال جانا تھا۔ لیکن میں دس بجے واپس آگئی۔ ان کی امی نے کہا کے تم فلم دیکھنے نہیں جارہی۔میں نے کہا نہیں۔ ان کی امی بھی حیران ہوئیں کہ میں نے کیسے انکار کر دیا۔ حالانکہ مہینے میں کم از کم ایک دفعہ ہم سب فلم دیکھنے سینما ضرور جاتے تھے اور یہ بات میری ساس کو معلوم تھی۔ دراصل، نعیم نے مجھے منع کر دیا تھا۔ نعیم غالبا 1978 فروری میں رنگین ٹی وی، پشاور سے خرید کر لائے تھے۔ تاکہ ان کے چھوٹے دونوں بھائی باہر جا کر ٹی وی نہ دیکھیں۔  اس کے لئے انہوں نے بڑی مشکل سے اپنے ابو کو منایا تھا۔ پھر ان کی والدہ اور بہنیں جب ہمارے ہاں میری منگنی کے بعد آتیں تو ڈرامہ لازمی دیکھ کر جاتیں۔ لیکن یہ سینما فلم دیکھنے کبھی نہیں گئیں۔  

                وقت جلدی سے گذرنے لگا اور 1980آگیا، تین جنوری کو یہ ایک مہینے کی چھٹی پر اچانک آگئے۔ حالانکہ چند دن پہلے ان کا خط ملا انہوں نے اس میں ذکر تک نہیں کیا۔ سب اس اچانک سرپرائز پر خوش ہو گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیاآپ کو خط لکھنے کا وقت نہیں ملتا جو آپ ایک صفحے کا مشکل سے سادہ خط لکھتے ھیں۔ تب معلوم ہوا کہ جس علاقے میں یہ ہیں وہاں سے خط آرمی پوسٹ آفس کے ذریعے جاتے ہیں اور وہ ہر خط کو نہیں بلکہ کچھ خطوں کو کھول کر سنسر کرتے ہیں۔ لہذا سادہ خط لکھنا ان کی مجبوری ہے۔  میرپورخاص میں دو تین دن رہنے کے بعد  انہوں نے پروگرام بنایا کہ، کراچی جاکر میرے اور ان کے رشتہ داروں سے ملنا ہے۔ گویا یہ ایک قسم کا ہنی مون ٹرپ تھا۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

فوجی کی بیوی -6 - زیرِطباعت

ہونہار بِروا - 1

بدھ، 19 فروری، 2014

ہونہار بِروا - 3

    
      غالباً، جون 1999کا ذکر ہے۔ ہمارے سکول میں  چھٹیوں میں کرنے کے لئے بچوں کو مختلف کام ملے۔ جونئیر سیکشن  میں، میں نے ہر بچے کو اپنے اپنے علاقے میں چھٹیوں کے دوران، دستکاریوں، تاریخی عمارتوں، یادگاروں، پرانی تہذیبوں، کاشتکاری، ڈیم، دریا، تفریح گاہوں، جانوروں، پرندوں، حشرات الارض اوردیگر اشیاء کے بارے میں معلومات، تصویریں اور نمونے وغیرہ لانے اور ان کے بارے میں کلاس میں دو منٹ کا معلوماتی لیکچر دینے کا چھٹیوں کے بعد رکھا۔  چونکہ یہ کام بچوں کو پہلی دفعہ ملا تھا لہذا ان کا شوق دیدنی تھا۔ اب چونکہ بہت سے بچے فوٹو گرافی افورڈ نہیں کر سکتے تھے لہذا انہیں پرانی کتابوں سے یا خود ڈرائینگ کر کے تصویر لگانے کی اجازت دے دی۔  عروضہ آٹھویں میں تھی، اسے دس حشرات الارض جمع کرنے کا کام ملا۔
          بچوں کی سکول کی چھٹیوں میں ہر سال کوئٹہ سے کراچی، حیدر آباد، میرپورخاص، نواب شاہ، مورو، سکھر اور واپس کوئٹہ اپنی گاڑی پر تمام رشتہ داروں سے ملتے، مہینے کی چھٹیاں، جنوری میں گذار کر واپس کوئٹہ آجاتے، میرپورخاص میرا اور نعیم کا آبائی شہر ہے میں نے ابن رشد گرلز کالج سے 1978میں گریجویشن کی، 1977میں میری منگنی نعیم سے ہوئی یہ میرے بھائی کے دوست تھے، ہم بہنوں نے ان کا نام لمبے کانوں والا فوجی رکھا تھا۔ یہ بڑی مزیدار داستان ہے۔ موقع ملا تو آپ کو ”فوجی کی بیوی“ میں ضرور سناؤں گی۔  ”ہونہار بروا“ دراصل میرے چاروں بچوں کی داستان ہے۔ ابتداء میں نے آخری بیٹی عروضہ سے کی ہے۔کیوں کہ ان تینوں میں سب سے ذہین اور محنتی عروضہ، سائر ہ ذہین ہے، ارسلان صرف محنتی ہے اور ارمغان کی صرف یاداشت  بہت تیز ہے  ایک رات پہلے پڑھا ہوا سبق وہ فل سٹاپ اور کامے تک لکھ سکتا ہے۔ 
          نعیم کی پوسٹنگ حیدرآباد سے کوئٹہ ستمبر 1991میں ہوئی، درمیان میں نعیم ڈیڑھ سال کے لئے سیاچین پوسٹ ہوئے۔ لیکن ہم لوگ  کوئٹہ ہی میں رہے۔ سیاچین کے بعد نعیم نے اپنی پوسٹنگ واپس کوئٹہ کروا لی۔ کوئٹہ ایسی جگہ ہے جہاں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے افسر یا جوان کے علاوہ کوئی پوسٹ ہونا نہیں چاہتا اور فوج کی پالیسی کے مطابق، کوئٹہ کے رہنے والے کو ئٹہ صرف دو سال کے لئے یا پھر  Compassionate Groundپر ہی پوسٹ کیا جاسکتا ہے۔ نعیم کا تعلق کوئٹہ سے اس طرح تھا کی ان کے والد فوج میں تھے۔ یہ غالباً پانچویں جماعت سے نویں تک کوئٹہ میں رہے۔ دسویں کا امتحان انہوں نے میرپورخاص سے دیا۔  لہذا کوئٹہ ان کے لئے دوسرا گھر سمجھیں۔  کوئٹہ سے ہم لوگ اٹک آئے تو گرمیوں کی چھٹیوں میں میرپوخاص جانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔چنانچہ ہم، مری نتھیا گلی، ایبٹ آباد گھومنے پھرنے جاتے۔
          لہذا جولائی میں ہم اپنے ٹور پر نکلے، موٹر وے ان دنوں نئی نئی بنی تھی ہم نے غلطی سے گاڑی موٹر وے پر موڑ دی۔ پنڈی سے لاہور تک کا سفر ایک تھکا دینے والا سفر تھا جو بالکل کراچی سے کوئٹہ  کے سفر سے ملتا جلتا تھا۔پوری سڑک پر صرف ہم نہ کوئی آدم نہ آدم زاد، کہیں کہیں راستے میں سڑک پر کام کرنے والے لوگ یا اوور ٹیک کرتی ہوئی اکا دکا گاڑیاں نظر آتیں، اس سے کہیں بدرجہا بہتر، جی ٹی روڈ کا سفر تھا۔ بہرحال کلر کہار کے پاس ہمیں ایک کھچوا سڑک پار کرتا نظر آیا۔ عروضہ  نے دیکھا تو شور مچا دیا کی ایک Living Thing مل گئی نعیم نے گاڑی روک کر کچھوا پکڑا، عروضہ کی ضد کہ کچھوا پسنجر سیٹ کی پیروں کی جگہ میں رکھا جائے جہاں میں بیٹھی، مجھے کچھوے سے ڈر بھی لگتا  اور گھن بھی آتی۔ بہرحال طے پایا کہ کچھوا ہم واپس چھوڑ دیں یا ڈکی میں رکھیں اور واپسی پر پھر کوئی نہ کوئی کچھوا مل جائے گا ہم لے لیں گے۔ عروضہ رسک لینے پر تیار نہ تھی، چنانچہ وہ کچھوا ڈکی میں رکھنے پر تیار ہو گئی۔ ڈکی میں موجود سامان کو ایک طرف کھسکایا۔  کچھوے کو پانی اور بلحاظ حجم کچھوا دو دن کے راشن کے ساتھ رکھ دیا۔ اور ہم چل پڑے۔کچھوا ڈکی میں کیا رکھا کہ ہماری مصیبت آگئی ہر پچاس کلو میٹر کے بعد کچھوے کو دیکھا جاتا کہ وہ زندہ ہے کھانا کھا رہا ہے، پانی پی لیا ہے۔ جہاں راستے میں ہم ریسٹ کرتے کچھوے کو زمین پر چھوڑا جاتا تاکہ وہ ہماری طرح  ٹہل کر اپنی ٹانگیں سیدھی کر لے۔ خدا خدا کر کے ہم نعیم کے چچا کے گھرلاہور پہنچے وہاں کچھوے کو صحن میں چھوڑا۔ تو مرغوں نے کچھوے کو دشمن سمجھ کر اس پر حملہ کر دیا اور ٹھونگیں مارنی شروع کر دیں۔ اب عروضہ کو سمجھ نہ آئے وہ کیا کرے آخرکار کچھوے کو ٹوکرے میں ڈھک کر اس پراینٹ رکھ دی۔ تو مرغیوں نے ٹوکرے کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔وہ حیران ہو کر ٹوکرے کو ٹھونگیں مارتیں کہ اُن کے میٹرنٹی ہوم میں یہ کون مردوا گھسا ہوا ہے۔
          لاہور میں ہم  1988میں سال رہے پھر دسمبر میں نعیم کی والدہ  کی وفات پر نعیم نے اپنی پوسٹنگ گھر کے نزدیک حیدرآباد کروا لی۔ لاہور میں گھومنے کی بے شمار جگہیں ہیں۔ طے یہ پایا کے رشتہ داروں اور پرانے دوستوں کو ملنے کے علاوہ  چڑیا گھر  اور واپسی میں جی ٹی روڈ سے واپس جاتے ہوئے۔ بادشاہی مسجد اور یادگار پاکستان دیکھیں گے۔چڑیا گھر میں عروضہ کا واحد  بچپن پسندیدہ جانور ”ہاتھی“ ہے۔ کوئیٹہ پوسٹنگ کے وقت ہم کراچی سے بذریعہ کارگئے تھے تو کراچی چڑیا گھر میں۔ ایک ہاتھی کے چھوٹے بچے نے عروضہ سے لے کر پاپ کارن کھائے۔ تب سے ہاتھی عروضہ کا  پسندیدہ جانور ہو گیا۔ کوئٹہ پہنچ کر عروضہ نے ضد شروع کردی کہ اسے ہاتھی کا بچہ ”ٹم ٹم“ چاہیئے۔  
          ”ٹم ٹم“ عروضہ کا بچپن سے دوست ہے۔ جب وہ ڈیڑھ سال کی تھی تو نعیم نے اسے باقی بچوں کی طرح کہانیا ں سنانی شروع کر دیں۔ جس کا اہم کردار،  ہاتھی ’کا بچہ ’ٹم ٹم“  تھا جس پر بیٹھ کر عروضہ جنگل کے دوسرے سرے پر اپنی دوست سے ملنے جاتی، کہانی کہانی میں نعیم، نظمیں، گنتی اور حساب  سکھاتے،اس طرح بچوں کی تربیت بھی ہوتی اور وہ تعلیم بھی حاصل کرتے۔ آج کل نعیم اپنی نواسی کو اسی کہانی کا ری پلے ماڈرن انگلش نرسری رہائم، میتھ وغیرہ کے ساتھ سنا رہے ہیں۔ بہرحال  کراچی کے ”ٹم ٹم“  نے عروضہ کو باقی جانوروں کے ساتھ، ”ٹم ٹم“  رکھنے کی خواہش بیدار کر دی۔ دونوں باپ بیٹی نے  1991ستمبر میں فیصلہ کیا کہ عروضہ جتنے پیسے جمع کرے گی اُتنے اُس میں نعیم اور میں ملائیں گے اور پھر ہاتھی کا بچہ خریدیں گے جو نیا نیا پیدا ہوا  افریقہ سے چھ ہزار کا ملے گا یا نعیم کے کلاس فیلو اشرف انکل جو افریقہ میں ہیں جنگل سے پکڑ لیں گے۔ لائسنس کی فیس، گورنمنٹ کی اجازت اور بحری جہازکا افریقہ سے کراچی تک کا کرایہ۔کراچی سے کوئٹہ تک کا ٹرک کا کرایہ، ہاتھی کی رہائش کا کمرہ  وغیرہ کے اخراجات اُس وقت حساب لگائیں گے۔ 

چنانچہ عروضہ نے بازار سے سب سے بڑی گلک خریدی اور بچت شروع  ہو گئی۔ جتنے پیسے وہ ملاتی اتنے نعیم اور مجھے بھی ملانے پڑتے۔ عید ی۔ امتحان پاس ہونے پر نقدی۔ آنے والے مہمانوں کی طرف سے دئیے جانی والی رقوم سب اُس گلک کی نذر ہونے لگیں۔  روزانہ حساب بنایا جانے لگا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان اپنی والدہ کی یاد میں کینسر ہسپتال بنانے کوئٹہ آیا  آرمی پبلک سکول سٹاف کالج  بھی آنا تھا مگر وقت کی کمی کے باعث غالباً نہیں آیا  تمام بچوں نے اپنی بچت ہسپتال کو دی عروضہ نے بھی اپنی پوری گلک  ہسپتال کی نذر کر دی۔ گلگ توڑنے لگے تو عروضہ نے کہا ایسے ہی بھجوا دیں توڑیں نہیں اور ایک کاغذپر لکھے مکمل حساب کے ساتھ کہ کس کس نے اس میں ہاتھی کا بچہ ”ٹم ٹم“  خریدنے کے لئے   گلک میں رقم ڈالی ہے جو غالباً ڈیڑھ سال میں 2,753/-روپے بن چکی تھی۔ عمران خان نے اپنی ماں کی یادگار بنانے کے لئے اپنی تمام جمع پونجی زمین خریدنے اور عمارت کا سٹرکچر بنوانے میں لگا دی۔ صدقہ، فطرات، نذر و نیاز مسلمانوں نے دئیے اور ڈونیشن غیر مسلم سے ہسپتال تعمیر ہوا۔ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ عمران خان نے پہاڑی پر ہزاروں کنال کا بنی گالہ میں محل بنانے کے لئے رقم کہاں سے لی؟ 
          لاہور میں گھومنے کے بعد بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ اوریادگار پاکستان گھومنے کے بعد ہم دو بجے گجرانوالہ پہنچے جہاں نعیم کی ایک یونٹ تھی جس میں انہوں نے سروس کی تھی۔ یونٹ آفیسر نے میس میں ہمارے رہنے کا انتظام کیا۔ نعیم اور ان کے دوست گالف کھیلنے چلے گئے ہم سب ان کے دوست کے ہاں پانچ بجے چائے پر گئے۔ مغرب کے وقت واپس آئے تو ہمارے گیسٹ روم کے باہر  لوگوں کا رش پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک خوفناک سانپ ہمارے کمرے میں گھس گیا ہے۔ روم اٹینڈنٹ نے درواز بند کر دیا ہے اور کسی کو اندر نہیں جانے دے رہا، سانپ مارنے والی پارٹی بھی کھڑی ہے۔ سانپ کا سن کر عروضہ ہائپر ہو گئی کہ میں پکڑتی ہوں۔ پارٹی انچارج  اسے خوفزدہ کرے کہ بیٹی بہت خوفناک سانپ ہے۔ اندر مت جائیں۔ تھوڑی دیر بعد نعیم آگئے۔ انہوں نے سانپ پکڑنے والی پارٹی کودیکھا اور پو چھا ”چاند پر جانے کا ارادہ ہے“  نائب صوبیدار انچارج نے جواب دیا،”نہیں سر، یہ سنیک کلنگ پارٹی ہے“۔  نعیم  نے انچارج کے ہاتھ سے چار فٹ کی چھڑی لی اور عروضہ کے ساتھ، گیسٹ روم میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد عروضہ سانپ ہاتھ میں پکڑ کر نکلی، 

 پارٹی انچارج اور باقی لوگ حیران رہ گئے۔ پارٹی انچارج بار بار کہے سانپ کو نیچے ڈال دیں اسے مارنا ہے۔ نعیم نے سمجھایا کہ اس کے دانت نکال دئے ہیں اب یہ تین مہینے تک کے لئے صرف کھیلنے والا سانپ ہے۔ یہ ایک پانچ فٹ لمبا کوبرا سانپ تھا۔ عروضہ کی خوشی کے مارے برا حال کہ ایک اور
Living Thingمل گئی جو سب سے اہم ہے۔  نعیم نے وہاں سانپ پکڑنے والی پارٹی کو بغیر مارے سانپ پکڑنا سکھایا  انہوں نے کہاں سے سیکھا یہ الگ داستان میں سنئے گا۔  دوسرے دن یونٹ سے ایک چھوٹا سا بکس بن کر آگیا جس کے اوپر ہوا کے سوراخ تھے۔ یہ  ”وائیکنگ“ کوبرا کا گھر تھا،  اس نے ہمارے ساتھ اٹک جانا تھا۔ 
          گجرانوالہ سے ہم  جہلم آئے جہاں نعیم کی لوکیٹنگ بیٹری تھی جس کو نعیم نے سیاچین کے بعد کوئٹہ میں کمانڈ کیا تھا۔ یہاں ہم دو دن رہے۔ کیونکہ نعیم جہلم میں 1980سے 1983تک رہے۔ یہاں ان کے کافی سویلین دوست بھی تھے اور گالف گراونڈ بھی۔ یہاں ہم اپنے پرانے گھر بھی گئے۔جہاں نعیم کی موٹر سائیکل چوری ہوئی تھی۔ سائرہ کو وہ واقعہ فوراً یاد آگیا۔ گھر میں انفنٹری کے ایک میجر صاحب رہ رہے تھے انہوں نے ہمیں چائے پلائی۔ سائرہ نے موٹر سایکل چوری ہونے کی پوری روئیداد ان کو سنائی۔ سائرہ ان دنوں ڈھائی سال کی تھی۔ ہم اُس کی یاداشت پر حیران رہ گئے۔ میجر صاحب کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے ایک بیٹی سات سال اور بیٹا چار سال دونوں نے بڑے مزے سے یہ واقعہ سنا جب سائرہ واقع سنا چکی تو بیٹا کہنے لگا باجی اور کہانی سنائیں۔ ہم سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
جہلم سے ہم لوگ منگلا کینٹ گئے۔ یہاں نعیم کی وہ یونٹ تھی جس میں وہ حیدر آباد میں سیکنڈ ان کمانڈ رہے۔ یہاں ہم نے منگلا ڈیم اور دیگر تفریحی مقامات دیکھے۔ بچوں کا سب سے پسندیدہ مقام سوئمنگ پول تھا۔ لیکن ایک بات وہ یہ کہ بچے اپنی چھٹیوں کا کام ساتھ ساتھ کرنے کے علاوہ  مضمون ”میں نے چھٹیا ں کیسے گذاریں“ وہ بھی روزانہ کے حساب سے لکھ رہے تھے۔ نعیم کی ہدایات تھیں کہ جب بھی ہم گھومنے کے لئے اپنے شہر سے باہر جائیں گے بچے اس پر مضمون لازماً لکھیں گے، جس پر دو اچھے مضمونوں، کم غلطیاں،اہم واقعات اور خوبصورت جملوں پر الگ الگ انعام ملتا یہ اور بات کہ چاروں بچے کوئی نہ کوئی انعام حاصل کر لیتے۔  کھیل کھیل میں تعلیم اور  بچوں کی نفسیات نعیم کا پسندیدہ موضوع ہے لیکن وہ مغربی نفسیات سے زیادہ متاثر نہیں۔ اُن کے خیال میں دس بہترین باتوں سے سمجھانے کے بجائے ، ایک جوتا یا تھپڑ  بچے کو زیادہ سمجھ دلاتا ہے۔ ”کھلاؤ سونے کا نوالہ اور نقصان دہ شرارت پر دیکھو شیر کی نظر سے“  جس سے میں متفق کبھی نہیں رہی لیکن کیا کروں میری واحد مجبوری، بیوی ہونا ہے۔

اب نعیم کی نواسی نے ، نعیم کو لوہے کے چنے چبوائے ہوئے ہیں اور میں سوچتی ہوں کہ باپ اور نانا میں کتنا فرق ہوتا ہے ۔ 


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭