Pages

منگل، 7 جنوری، 2014

ہونہار بِروا - 2


پانچویں کلاس کے بچوں سے تقریری مقابلہ شروع ہوا۔موافق میں پہلی تقریر ارمغان نے کی اور مخالفت بل میں ارسلان۔باقی بچے بھی ترتیب سے آتے رہے۔ اب تک ارمغان اور ارسلان پہلی پوزیشن پر جارہے تھے۔ آخرکار کلاس ون کی عروضہ نعیم کا نام پکارا گیا۔ عروضہ پردے کے پیچھے سے سٹیج پر آئی۔ڈائس کے سامنے آکر جھک کر سب کو سلام کیا۔نعیم پرنظر پڑی تو سکھائے ہوئے سبق کوبھول کر ہنس کر نعیم کو ہاتھ ہلا کے خوشی کا اظہار کیا اور ڈائس کے پیچھے رکھی ہوئی کرسی پرکھڑی ہو کراپنے مخصوص سٹائل سے تقریر شروع کی۔ مجھے  نہ صرف اس کی تقریر زبانی یاد تھی بلکہ اُس کا ایک ایک ایکشن بھی۔ تقریر کے خاتمے پر اُس نے شعر پڑھا  اورتالیوں کی گونج نے بتایا کی عروضہ نے معرکہ مار لیا ہے، یو ں وہ اپنے بھائی  ارمغان کو شکست دے کر پہلی پوزیشن حاصل کر چکی تھی۔کلاس ون سے لے کر کلاس تھری تک اُس نے اردو اور انگلش تقریری مقابلوں لگاتار پہلی پوزیشن لے کر ہیٹ ٹرک مکمل کی اوراس پر کلاس ففتھ تک اردو اور انگلش تقریری مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی لگ گئی۔کلاس فورتھ میں اُس نے۔ حمد اور نعت کے مقابلے میں حصہ لیا۔وہاں ہمیں معلوم ہوا کہ چڑیا کی طرح چہکنے والی، کوئل کی طرح کوک بھی سکتی ہے۔حمد، نعت اور غزل کے مقابلوں میں بھی وہ پہلی اور دوسری پوزیشن پر رہی۔

                کوئٹہ میں سردیوں میں غضب کی سردی پڑتی ہے اور بچوں کو سردی سے بچاؤ کے لئے بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے لیکن جب برف باری ہوتی ہے تو بچے ساری احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اُس وقت تک برف میں کھیلتے رہتے ہیں جب تک وہ گیلے نہ ہوجائیں، نتیجتاً، کھانسی اور بخار۔ چنانچہ 1991دسمبر کی برف باری میں عروضہ بھی بیمار ہوگئی ڈاکٹر نے  سینے کا ایکسرے تجویز کیا۔ میں نے اُسے بتایا کہ کل آپ کا ایکسرے ہوگا اُس نے پوچھا کہایکسرے کیا ہوتا ہے میں نے اُسے بتایا کہ ایکسرے میں سینے میں جو کچھ ہوتا ہے اُس کی تصویر آتی ہے اُس سے ڈاکٹر کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ بچہ کیوں بیمار ہوا ہے۔عروضہ،”لیکن ماما اُس میں تو آپ کی تصویر آئے گی“ میں نے پوچھا،”کیوں میری تصویر کیوں آئے گی“۔ ”ماما اِس لئے کہ میرے دل میں آپ رہتی ہیں“ عروضہ کے معصومانہ جواب پر مجھے اُس پر بے انتہا پیار آیا۔

            سب سے یادگار سال 1993تھا نعیم سال کے لئے اپنی یونٹ کے سیکنڈ اِن کمانڈ بن کر سیاچین چلے گئے عروضہ کلاس تھری میں تھی تقریر کا اعلان ہو چکا تھا اب تقریر لکھ کر دینے والا کوئی نہیں تھا۔ سیاچین بات کرنا بہت مشکل تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھاکہ اچانک تقریر سے ہفتہ پہلے نعیم سے با ت ہو گئی میں نے انہیں تقریر کاعنوان ”دولت انسانی اقدار کی قاتل ہے“ یہ عروضہ اور ارمغان کے لئے  اور " عورتیں بہترین ٹیچر ہوتی ہیں "  ارسلان اور سائرہ کے لئے ، لکھوا دیا۔ نعیم نے فوراً دو موافقت میں اور دومخالفت میں تقریر یں لکھیں۔اور اسی دن چھٹی جانے والوں کے ہاتھ اسے لفافے میں ڈال کر سکردو بھجوایا۔ جہاں ایک ہفتے سے ان کی یونٹ کے آفیسر میجر پرویزچھٹی پر کوئٹہ آنے کے لئے موسم صاف ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔جنھیں لفافہ صبح صبح صوبیدار محمداقبال او سی رئیر نے دیا۔ میجر پرویز روزانہ کی طرح تیار ہو کر ائرپورٹ پر پہنچے۔ فضا میں جہاز کی گونج سنائی دی۔

            اچانک شمال کی جانب سے بادلوں میں ذرا سا رخنا پڑا اور وہاں سے ایک بوئینگ داخل ہو کر سکردو ایر پورٹ اترا  جس پر ہفتے سے انتظار کرتے ہوئے خوش قسمت مسافر سوار ہوئے اور ساڑھے آٹھ بجے وہی جہاز سکردو سے اڑ کر اسلام آباد ایرپورٹ پر اترا اور نو بجے اسلام آباد کوئیٹہ کی فلائیٹ پر میجر پرویز نے بورڈنگ کارڈ لیا۔تین بجے میجر پرویز اپنی مسز اورتین سالہ بیٹی کے ساتھ ہمارے ہاں آئے تقریر  دینے آئے اور لفافہ دیتے  ہوئے انہوں نے بچوں کو کہا کہ اگر آپ لوگوں نے پہلا انعام نہیں لیا تو میری ساری محنت بے کار جائے گی تقریر کے دن وہ اپنی مسز کے ساتھ سکول آئے۔عروضہ کے لئے نعیم نے خاص طور پر تقریر لکھی کیونکہ، اُس تقریر کے جیتے ہی اُس کی لگاتار پہلی پوزیشن حاصل کرنے سے ہیٹ ٹرک مکمل ہو جاتی۔ تقریر کے خاتمے پر ا’س نے شعر پڑھا۔”باپ بڑا نہ بھیّا،سب سے بڑا روپیّہ“  تالیوں کے شور نے  اُس کے جیتنے کا اعلان کر دیا۔ چاروں بچوں نے پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کیں،اُن کے جیتنے کی سب سے زیادہ خوشی میجر پرویز کو ہوئی۔ میجر پرویز کی مسز کا تعلق ہزارہ قوم سے تھا، بہت نفیس خاتون اور کوئٹہ کی وکیل تھیں،  یحییٰ بختیار کی رشتہ دار تھیں یوں سمجھیں کہ زیبا بختیار کی کاپی تھیں ،پرنسپل  بریگیڈئر (ر)  چنگیزی، اُن کے انکل تھے چائے پر میجر پرویز نے انہیں تقریر کے سفر کی کہانی سنائی کہ یہ تقریریں سیاچین سے آئی ہیں۔ پرنسپل نے عروضہ کو اپنی جیب سے سو روپے انعام دیا اور کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ صرف ماں ہی بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دے تو بچے قابل نکلتے ہیں یہاں تو باپ بھی بچوں کی تربیت کے لئے اُتنی ہی محنت کر رہا ہے۔

                 عروضہ کو ہر قسم کے جانوروں سے بڑی محبت تھی۔اس کی غالباًبنیادی وجہ وہ کہانیاں تھیں جو  نعیم اسے بچپن میں سناتے تھے۔اُس کی خواہش کے مطابق کوئٹہ میں ہمارا گھر ایک چڑیا گھر تھا۔جس میں صرف ہاتھی کے بچے ڈبّو کی کمی تھی ورنہ مرغیاں، بطخیں، تیتریاں، بلیاں، کتے،کچھوے اور مچھلیاں سب موجود تھے اور یہ سب ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے بلی کی کیا مجال کہ وہ اس کے سامنے دندناتے چوزوں کی طرف برُی آنکھ سے دیکھے۔چوزے مکھیوں کے پیچھے بھاگتے اور سوئی ہوئی بلی کے اوپر سے چھلانگیں مارتے اور بلی ایک آنکھ کھول کر اپنے خواب ِ استراحت میں خلل ڈالنے والے شر پسندوں کو دیکھتی اور پھر آنکھیں بند کر لیتی البتہ مکھیوں کے اضافے سے چوزوں کے طوفانِ بدتمیزی میں اضافہ ہوجاتا تو وہ انگڑائیاں لیتی ہوئی اٹھتی اور پلنگ کے نیچے جا گھستی۔

ایک مخلوط النسل لیبریڈور کتے ّ”ایرک“اور بازار سے خریدے جانے والے چوزوں کی نسل میں سے بچنے والے آخری چشم و چراغ” سیبر“کی دوستی فقید المثال تھی۔ ایرک کو سائرہ کی کلاس فیلو  سونیا مشوانی، کرنل ڈاکٹرمشوانی کی بیٹی نے  ایک ماہ کا بچہ دیا تھا۔ سیبر سوئے ہوئے ایرک کے سر پر سوتا اور بلی ایرک کے ڈربے میں اُس کے ساتھ سوتی، عروضہ نے ہر جانور اور پرندے کا نام رکھا ہو اتھا۔ ”ایرک“، چوزے کو چاٹ چاٹ کر اپنی لذتِ کام ودہن کی تسکین کرتا اور” سیبر“ اس کے بدلے اُس کے کندھوں پر سوتا اور سارے گھر کی سیر کرتا۔ایک دن عروضہ میرے ساتھ بازار گئی میں نے بچوں کو گاڑی ہی میں بیٹھے رہنے کا کہہ کر اتر گئی واپس آئی تو دیکھاآوارہ بلی کا ایک بچہ اُس نے گود میں اُٹھایا ہوا ہے۔یہ بچہ زخمی تھا کیونکہ اسے بازار میں گلی کے بچوں نے عروضہ کے سامنے پتھر مارے تھے۔اور بچہ گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا۔عروضہ نے چاچا ڈرا ئیور سے کہہ کر بچوں کو بھگوایا اور بلی کے بچے کو اُٹھا کر گاڑی میں رکھ لیا۔عروضہ کلاس ون میں تھی اُس نے اُس بچے کی اتنی تیمارداری کی کہ وہ ٹھیک ہو گیا۔جنگلی بلی کا وہ بچہ ”کٹو“ گھر کے گیٹ پر عروضہ کا انتطار کرتا اور جب وہ سکول سے آتی تو اس کے پاؤں میں لپٹتا۔ ” کٹو “ واحد جانور تھا جو ہمارے بیڈ روم میں اپنی ٹوکری میں سوتا۔

                نعیم گالف کھیل کر واپس آتے،  تو ہم دونوں میاں بیوی واک پر نکلتے  ”ایرک“  بھی ساتھ ہوتا۔ایک دن عروضہ بھی ہمارے ساتھ واک پر نکلی۔تھوڑی دور جا کر ہمیں میاؤں میاؤں کی آواز آئی۔مڑ کر دیکھا تو ’’کٹو“ تھی جو سڑک  پر دوڑتی آرہی تھی۔ہم اپنے گھر سے تقریباً  پچاس گز دور  جاچکے تھے۔ ’’کٹو“  ہمارے پاس پہنچی عروضہ نے اُسے گود میں اُٹھا لیا۔ میں نے عروضہ کو کہا کہ وہ اسے نیچے اتار دے اور اسے ہمارے پیچھے آنے دے۔عروضہ نے اسے نیچے اتار دیا اور ”ایرک“  کو حکم دیا کہ وہ ’’ کٹو “ کا خیال رکھے۔ہم دور نکلتے تو  ”ایرک“  ہمارے سامنے آ کر بھونک کر ہمیں رکنے کا کہتا۔جب ’’کٹو“  ہمارے پاس پہنچ جاتی تو ہم آگے چلتے۔گھر کے نزدیک ’’ کٹو “ کافی پیچھے رہ گئی۔ تو  ”ایرک“  نے ہمیں روکا۔عروضہ نے ”ایرک“  کو کہا کہ جاؤ اسے لے آؤ۔ ”ایرک“  لپک کر گیا اور ’’ کٹو “ کو اپنے منہ میں اسکی گردن سے پکڑ کر اٹھا کر لے آیا۔

تب مجھے معلوم ہوا کہ گھر کے تمام جانور اس کا کہنا مانتے ہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عروضہ ہر شام اور اتوار کو خصوصی طور پر تمام جانوروں اورپرندوں کو کہانی سناتی ور اُن سے باتیں کرتی۔ہمارے گھریلو چڑیا گھر میں  پانچ کتے بھی تھے جن میں دو جرمن شیپرڈ (بُلِّٹ  اور شیرا)، دو چھوٹے سفید روسی پوڈلز(کوڈو اور ٹینا) اور ایک السیشن کتیا (شہپر) تھی۔ 

”ایرک“  ایک دن گھر سے باہر گیا تو اسے کسی نے زہر دے دیا۔ نعیم  اُن دنوں فوجی  مشقوں پر سبّی گئے ہوئے تھے۔ ہمار ا گھر کینٹ میں ہزارہ کالونی کے بالکل کونے پر تھا۔ وہاں چوکیدارانہ نظام کے باوجود چوریاں بہت ہوتی تھیں۔چنانچہ نعیم نے اپنے ایک دوست خان کو فون پر کہا اُس نے عاریتاً شہپردے دی۔ صبح  ایرک کی موت ہوئی اور شام کو شہپر آگئی اور نو بجے رات کوشہپر کے بھونکنے، کسی کے تیزی سے دوڑنے اور دیوارکی اینٹیں گرنے پر معلوم ہو ا کہ ایرک کی موت اور چوری کے لئے صحن میں آنے والا اتفاقی واقعہ نہیں تھا۔دوسرے دن شہپر ٹوٹی ہوئی دیوار سے باہر نکل گئی۔ کچلاک میں رہنے والے نعیم کے کلاس فیلو نے دو سفید روسی پوڈلز پپی بھجوا دئیے اور نعیم کے بہنوئی عبدالخالق نے دو جرمن شیپرڈپپی بھجوا دئیے اور خان نے چار دن بعد زخمی شہپر بھجوا دی۔شہپر کا عروضہ نے علاج کیا وہ ہمارے گھر کی ہو گئی۔نعیم مشقوں سے واپس آئے۔عروضہ کو بڑا سمجھایا کہ دو جرمن شیپرڈ چھوڑ کر باقی تمام کتے واپس کر دیتے ہیں۔ عروضہ نے نعیم کی ہر منطق کو ماننے سے انکار کر دیا اور یوں شہپر کی سربراہی میں باقی چار کتوں کے بچے دیگر پرندوں کے ساتھ پلنے لگے۔ جرمن شیپرڈدیکھتے ہی دیکھتے شہپر سے اونچے ہو گئے۔

                ایک دن صبح عروضہ کے رونے کی آواز آئی۔ معلوم ہوا کہ پانچوں کتوں میں سے کسی نے  ایک کچھوا کھا لیا۔ہمارے گھر میں جب کوئی نیا جانور آتا عروضہ اس کا سب کتوں سے تعارف کراتی۔ وہ اسے گھوم کر اور سونگھ کر دیکھتے، پھر دور بیٹھ کر لالچی انداز میں دیکھتے رہتے ۔عروضہ اُسے سب کے پاس باری باری لے جاتی اور ہاتھ اٹھا کر مارنے کے انداز میں ڈانٹ کر بتاتی کہ اب یہ یہاں رہے گا اسے نہ تنگ کرنا اور نہ ہی کھانا۔یہ کچھوا،رات کو ہی عروضہ، ڈولی کی سہیلی سونیا کے گھر سے لائی تھی اور اس کا تعارف کرانا بھول گئی۔ اور اسے دوسر ے کچھووں کے ساتھ رکھ دیا۔ اب انکوائری  شروع ہوئی ہمارا شک بُلِّٹ پر تھا۔کچھو ے لان میں تھے اور باقی جانور گھر کے پچھلے حصے میں باڑے میں رہتے تھے۔سب سے پہلے بلٹ کو لایا۔ اُسے کھچوا سنگھایا گیا اور پوچھا یہ کس نے کھایا ہے؟  بُلِّٹ نے  ایک شانِ بے نیازی سے ہماری طرف دیکھا اور ایک طرف کھڑا ہو کر دم ہلانے لگا۔ شیرا نے بھی کوئی توجہ نہ دی البتہ شہپر نے کھچوے کو سونگھنے سے انکار کر دیا اور آنکھیں نیچی کر کے ایک کونے میں جا بیٹھی۔ یوں مجرم پکڑا گیا۔ اس حادثے کو ٹینا (پوڈل)نے محسوس کیا وہ کچھوے کو سونگھتی عروضہ کے پاؤں میں لوٹتی اور بھونکتی  اور شہپر کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی یوں ہمیں معلوم کہ ٹینا اِس وقوعے کی چشم دید گوا ہ ہے مگر مجرم کے خوف سے بیان نہیں دے رہی۔ایک دن صبح میں کھڑکی کے پاس کھڑی  اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی، موسم اچھا تھا میں نے گنگنانا شروع کیا۔ اچانک شیرا کھڑکی کے پاس آکی مجھ پر بھونکنا شروع کر دیا۔ میں شیرا کے اِس رویئے پر حیران رہ گئی کہ اِس کم بخت کو کیا ہوا؟ بعد میں سمجھ آئی کہ نامعقول مجھے مانگنے والی سمجھ کر بھونک رہی تھی۔

                جب عروضہ کلاس ففتھ میں آئی تو نعیم کی ٹرانسفر اٹک ہو گئی۔تمام جانور اور پرندے تقسیم ہو گئے۔صرف جرمن شیپرڈ (بُلِّٹ اور شیرا) لے کر ہم اٹک آگئے   اٹک آنے سے پہلے ہم تین دنوں کے لئے گھر کے سامنے آفیسر ز میس میں منتقل ہو گئے۔ ’’کٹو“  کیونکہ جنگلی بلی تھی چنانچہ وہ اسی گھر میں رہی۔ شام کو ہم واک کر رہے تھے۔ہم گھر کے پاس سے گزرے کہ  ’’کٹو “ بھی ہماری خوشبو سونگھ کرساتھ ہو لی اور ہمارے ساتھ میس  کے کمرے میں آگئی۔ اور تھوڑی دیر بعد بھاگ گئی۔رات کو کمرے  کے دروازے کے باہر میاؤں کی آواز آئی دیکھا تو  ’’کٹو“  بیٹھی تھی۔عروضہ سو رہی تھی اُٹھ گئی ہم باہر نکلے تو ’’کٹو“  ہمار ے آگے چلنے لگی اور ہماری رہنمائی کرتے ہو ئے گھر کے بند گیٹ کے سامنے آکر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ہمیں ہماری غلطی کا احساس دلا رہی تھی کہ ہم بھول کر غلط جگہ چلے گئے ہیں ہمارا گھر یہ ہے۔ہم نے سنا تھا کہ بلی مکان سے اور کتا مکین سے مانوس ہوتا ہے۔جو ’’ کٹو “ اور بعد میں دوسری بلیوں نے غلط ثابت کیا۔

                اٹک میں میرے سارے بچے سینئیر سیکشن میں تھے اور میں جونئیر سیکشن میں ٹیچر تھی بعد میں وائس پرنسپل بنی۔چاروں بچوں کو اِس بات کا احساس تھا کہ اُنہوں نے کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی جس سے اُن کی ماں کو شرمندگی ہو۔ اٹک میں عروضہ نے نہ صرف اپنی غیر نصابی سرگرمیوں کی دھاک بٹھائی بلکہ سکول میں پہلی پوزیشن اُس نے اپنے اعصاب پر سوار کر لی۔اٹک کے گالف کلب میں بڑی بطخیں تھیں۔جو وہاں چھوٹے تالاب میں تیرتی رہتی تھیں۔یہ بڑی خونخوار تھیں خصوصی طور پر بچوں کی دشمن تھیں انہیں دیکھتے ہی گردن نیچے کر کے کسی ٹینک کی مانند حملہ کرتیں۔اب عروضہ نے ضد پکڑ لی کہ اِن میں سے ایک میں نے لینی ہے۔آخر کار نعیم بازار سے  ایک جوڑا خرید کر گھر لے آئے۔عروضہ نے باقی بہن بھائیوں سے مشورے کے بعد اُن کا نام ڈونلڈ اور ڈیزی رکھا۔  ڈونلڈ اور ڈیزی نے آتے ہی گھر میں دہشت پھیلا دی۔ یہاں تک کہ ان کے ٹینک نما حملوں نے بلٹ اور شیراکو بھی پسپائی پر مجبور کر دیا۔عروضہ نے انہیں مانوس کرنے کی بڑی کوشش کی اور اُن کے حملے میں زخمی بھی ہوئی۔لیکن آخر کار وہ عروضہ سے مانوس ہو گئے۔

ایک اتوار کی صبح  میں نے بیڈروم کی کھڑکی سے دیکھا عروضہ اپنی چھوٹی کر سی پربیٹھی تھی ڈیزی اس طرح  لیٹی تھی کہ اس کی گردن پوری زمین کے ساتھ لگی تھی اور وہ اپنی چونچ کے ساتھ عروضہ کے جوتے کو کھانے کی کوشش کر رہی تھی اور ڈونلڈ کسی کلاس میں بیٹھے ہوئے شریف بچے کی طرح عروضہ کی کہانی سُن رہا تھا جو وہ بچوں کے رسالے سے پڑھ کر اُسے سنا رہی تھی۔بلٹ اور شیرا، ڈونلڈ کی پہنچ سے دور بیٹھے تھے۔ بلٹ عروضہ کے پاس آنے کی کوشش کرتا تو ڈونلڈ اُس کی طرف دیکھتا۔ بلڈ واپس مڑ کر شریف بچے کی طرح اپنی جگہ پر واپس بیٹھ جاتا۔

                بلٹ اور شیرا کے خاندان میں دو السیشن پپی کا اضافہ ہوا۔ جو نعیم نے اپنے دوست کو دے کر اُ س سے کالے لیبریڈور کے پپی کا جوڑا لیا۔ جن کے نام عروضہ نے لیلیٰ اور لٹو رکھا کیوں کہ۔لٹو کا کام اپنی دم کو پکڑنے کی کوشش میں لٹو کی طرح چکر کھاتے رہنا تھا۔ لیلیٰ کھانا کھانے کے بعد بچا ہوا کھانا زمین میں دبا کر بند کر دیتی تھی۔ جو بلٹ نکال کر کھا لیتا اُس کے بعد جب لیلیٰ کو بھوک لگتی تو وہ کھانے کی تلاش میں نالی کی شکل میں لان کھود ڈالتی۔دوسال کے اند رڈونلڈ اور ڈیزی  بیس بچوں کے کنبے کے سربراہ بن گئے۔اِن بڑی بطخوں کی ایک مکمل جوائینٹ فیملی تھی جن کا سربراہ ڈونلڈ تھا۔جو نہ صرف اُن سیاسی بلکہ ملٹری لیڈر بھی تھا۔ہمارے گھر کے قریب سے گذرنے والے  افراد،شیر نما بلٹ سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا وہ ڈونلڈ اور اس کے سپاہیوں سے خوفزدہ ہوتے تھے۔ڈونلڈ اپنی پوری پلٹن کے ساتھ پوری کالونی کا چکر لگاتا۔

عروضہ کی چند سہیلیوں نے اِس سے ملنے کا پروگرام بنایا، چنانچہ انہوں نے عروضہ سے گھر کا ایڈریس پوچھا اُس نے انہیں بتا یا کہ سکول سے باہر نکلیں، پارک کے بعد سیدھے ہاتھ پر مڑیں اور سیدھے چلیں۔آگے بہت ساری بڑی بطخیں نظر آئیں گی اُن کے سامنے ہمارا گھر ہے۔وہ لڑکیاں ہمارے گھر کے لئے آئیں انہیں گھر نہیں ملا، انہوں نے ایک بچے سے پوچھا کہ بڑی بطخیں کہاں ہیں۔اِس وقت بطخیں ٹہلنے کے موڈ میں تھیں اوربچے نے انہیں تیسری گلی میں دیکھا تھا اس نے انہیں بتا دیا۔بچیاں بطخوں کے پاس پہنچیں اور پریشان ہو گئیں۔ کیوں کہ آدھی بطخوں کامنہ ایک طرف اور آدھی کا دوسری طرف تھا۔ایک بچی نے مشورہ دیا کہ ان کو بھگاتے ہیں یہ جس گھر میں جائیں گی وہ عروضہ کا گھر ہوگا۔ انہوں نے غلط فیصلہ کیا تھا۔

جو نہی انہوں نے بطخوں کو بھگانے کی کوشش کی، بطخوں کے بطخے، صف بنا کر بچیوں پر حملہ آور ہوئے وہ چینخیں مارتے ہوئے بھاگیں۔بطخوں کی آوازوں اور لڑکیوں کے شور نے عروضہ کو بتا دیا کہ کوئی اُس کی فوجوں کے قابو چڑھ چکا ہے۔عروضہ گھر سے باہر آئی تو بھاگتا ہوا لشکر دشمن نہیں بلکہ اُس کی سہیلیاں تھیں اُس نے حملہ آور بطخوں کو ڈانٹ کر روکا اور سہیلیوں کو پکارا، کمانڈر  ڈونلڈ،عروضہ کی آواز سنتے ہے سر جھکا کر شرمندگی سے اپنے  سنچورئین بریگیڈکے ساتھ ایک طرف کھڑا ہو گیا عروضہ سہیلیوں کو گھر لائی اُن کی خاطرتواضح کی، اتنے میں ساری  بطخیں اپنے ڈربے کی طرف آچکی تھیں عروضہ نے سہیلیوں کا بطخوں سے تعارف کروایا۔ سہیلیاں ڈرتے ڈرتے بطخوں کے پاس گئیں۔ بطخوں نے خاموش بیٹھ کر اُن کا استقبال کیا اور دوستی کر لی۔

                1999کی بہار میں ڈونلڈ فیملی کی بطخوں نے 70انڈے دیئے۔یوں ان کے ڈربے میں ایک پورا میٹرنٹی وارڈ قائم ہو گیا۔جس میں  شروع شروع میں سوائے ڈونلڈ کے تمام بطخے اپنی اپنی ماداؤں کی چہل قدمی کے وقت انڈوں پر بیٹھتے۔اور بعد میں ماداؤں سے انڈوں پر بیٹھنے کی ذمہ داری مکمل طور بطخوں نے  زبردستی لے لی۔کیونکہ وہ یہ بھول گئے کہ کون سی اُن کی مادہ کے انڈے ہیں اور کون سی دوسری مادہ  کے ہیں ۔چنانچہ ہم نے بطخوں کو زبردستی زنانہ میٹرنٹی وارڈ سے نکال کر اسے بند کر دیا اور ماداؤں نے اپنی اپنی جگہ سنبھالی۔ہم خوفزدہ تھے کہ اگر ان 70انڈوں سے چوزے نکلے تو کیا ہو گا؟ بہرحال عروضہ کو بہت سمجھانے کے بعد اُس نے اِن چوزوں کے پر نکلنے کے بعد تقسیم کا فیصلہ کیا۔اُس نے سب سے پہلے اُن سہلیوں کا انتخاب کیا جو جھگڑالو نہیں تھیں۔اُن کے گھر جا کر اِن چوزوں کے رہنے کی جگہ دیکھی۔اور ایک ہدایت نامہ برائے دیکھ بھال خود لکھا اور اس کی ایک ایک فوٹو کاپی اپنی اُن سہیلیوں کو دی۔جنہوں نے بطخ کے بچوں کا سرپرست بننا تھا یہ اور بات کہ صرف چار چوزے نکلے اور وہ بھی پر نکلنے سے پہلے اپنے بزرگوں کے ملکیتی جھگڑوں کے وقت پاؤں تلے آکر مارے گئے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بدھ، 1 جنوری، 2014

ہونہار بِروا - 1

                


یہ 22 نومبر 2009 کا ذکر ہے ، اُس کی خوشی کا عالم دیکھا نہ جاتا تھا، کار سے اتر کر سب سے گلے ملی اور تیز قدموں سے چلتی ہوئ بس میں جا بیٹھی۔ کھڑکی میں بیٹھ کر اس کی خوشی کا عالم دیدنی تھا۔وہ ہماری طرف دیکھتی اور ہاتھ ہلاتی میں آنسووں کو روکے مصنوعی ہنسی ہنس رہی تھی۔ بس نے رینگنا شروع کیا اور میری آنکھوں کے سامنے دھند چھا گئی اور اُس دھند میں بس غائب ہو گئی پھر دھندا کے پیچھے سے،ڈولی (سائرہ)کمرے میں اپنے پاپا کا ہاتھ کھینچی ہوئی داخل ہوئی۔ ماما، ماما،پپا کو گڑیا دکھائیں۔ میں نے اپنے پہلو میں لیٹی روئی کے گالے کی مانند بچی کے اوپر سے چادر ہٹائی نعیم نے بچی کو جھک کر پیار کیا۔ ثانی (ارسلان)میرا بڑا بیٹا اور مانی(ارمغان) چھوٹا بیٹا دونوں باپ کے دائیں بائیں سے گھس کر بچی کو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ڈولی چلائی،” ابھی اسے ہاتھ نہ لگاؤ یہ سو رہی ہے۔تمھارے ہاتھ گندے ہیں“ دونوں بھائی ڈر کر پیچھے ہٹ گئے۔ میری امی نے نعیم کے سر پر ہاتھ رکھ کر دوسری بیٹی کی مبارکباد دی۔بچی کسمائی۔”ثانی مانی تم نے شور کر کے اسے اٹھا دیا۔اب یہ روئے گی“۔ جواب میں بچی نے باریک سی آواز میں چلا کر ڈولی کی بات سچ کر دی۔ نعیم نے بچی کو گود میں اُٹھایا اوراُس کے کان میں آذان دی۔ مانی نے آذان کے بعد بچی کو اپنی گود میں لینے کے لئے شور مچایا۔ نعیم نے مانی کو اپنی گود میں بٹھایا اور بچی کو اُس کی گود میں رکھ دیا۔مانی بولا۔”پپا یہ پنک،پنک ہے“ اس گڑیا کا نام ”پنکی“ پڑ گیا۔
               
 اُن دنوں نعیم چمن(کوئیٹہ کے نزدیک ایک سرحدی شہر) میں پوسٹ تھے۔ تین دن بعد ہم چمن کے لئے روانہ ہوئے نعیم کے دو یونٹ آفیسر، کیپٹن صفدر اور کیپٹن خالد بھی ساتھ تھے۔ سارے راستے برف باری ہو رہی تھی۔کوئی پندرہ سال بعد چمن میں بھی برف پڑی۔  ”پنکی“  ساری آفیسرز کالونی میں بچوں کی آنکھوں کا تارہ بن گئی سب اُس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کرتے۔ڈولی نے خود بخود بڑی بہن کے فرائض سنبھال لئے۔مانی البتہ ”پنکی“ سے تھوڑا حسد محسوس کرنے لگا کیونکہ ”پنکی“  نے اُسے میرے پلنگ سے نعیم کے پلنگ پر ہجرت کروا دی۔غالباً چوتھا یا پانچوں دن ہو گا کہ اُس کی ہمت جواب دے گئی اور اُس نے ضد پکڑ لی کہ اب ”پنکی“  کو واپس ہسپتال چھوڑ آؤاور رو، رو کر مجھے خوب پریشان کیا میری امی نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی مگر اُس نے کوئی بات سننے سے انکار کر دیا، آخر روتے روتے سو گیا۔ نعیم آفس سے واپس آئے میں نے بتا یا کہ مانی اِسے گھر میں رکھنے کے لئے تیار نہیں۔ اور ابھی روتے ہوئے سویا ہے۔ نعیم کے کھانا کھانے کے بعد مانی اٹھ گیا اور پھر رونا شروع کر دیا کہ اسے ابھی ہسپتال واپس کر کے آؤ  نعیم نے بڑا سمجھایا ا کہ اب ہسپتال والے اسے واپس نہیں لیں گے کیونکہ اسے ہمارے پاس کافی دن ہو گئے ہیں اور پھر وہاں بستر پر دوسری گڑیا آگئی ہو گی۔ ”تو پھر اسے واپس کر کے ایسی گڑیا لاؤ جیسی ڈولی کی ہے۔ہم سب خوب ہنسے۔ کیونکہ ڈولی کی گڑیا نے اس کی جگہ نہیں لی تھی۔بہرحال  میرے ایک طرف ”پنکی“دوسری طرف مانی سوتا رہا، وقت گزرتا گیا۔امی دو مہینے بعد واپس میرپورخاص چلی گئیں۔

                نعیم نوشہرہ میں ہونے والے ایک سال کے کورس کے لئے کامیاب ہوئے ہم مارچ میں بذریعہ کار چمن سے کوئٹہ، کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، نوابشاہ، مورو، سکھر، رحیم یار خان،بہاولپور، اوکاڑہ،لاہوراور پنڈی رشتہ داروں سے ملتے ہوئے نوشہرہ پہنچے۔ نعیم کی مصروفیت پڑھائی کی وجہ سے بے انتہا بڑھ گئی اور مجھ پر گھر کے علاوہ چار بچوں کا بوجھ بڑھ گیا اور اس پر ستم یہ کہ میس کے کھانے سے اکتایا ہوا کوئی نہ کوئی بیچلر آفیسر ہر شام پڑھائی کے بہانے آجاتا، نعیم صرف ایک جملہ کہتے،”گل ہم ساتھ کھانا بھی کھائیں گے“۔ یوں میرے کام میں صرف ایک فرد کے کھانے کا اضافہ نہیں بلکہ، سوئیٹ ڈش، گرین ٹی اورپھر کھاناڈائیننگ پر لگانا سب سے بڑا معرکہ ہوتا تھا۔مجھ سے بچے تو سنبھالے جاتے تھے نعیم کے مہمان نہیں۔تنگ آکر اپنی امی کو فون کیا کہ آپ نوشہرہ آجائیں ۔اُن کے آنے کے بعد نعیم نے یہ جملہ کہنا چھوڑ دیا اور میرے لئے پکی SOPبن گئی۔ چنانچہ جونہی بیٹ مین صفدر بتاتا کہ صاحب کے کمرے میں کوئی صاحب آئے ہیں میں کھانے کی تیاری میں لگ جاتی۔فوج میں بیٹ مین، ایک نعمت ہے اور اگر اُسے کھانا بناناآتا ہو تو وہ اللہ کی رحمت سمجھا جاتا تھا۔ صفدر نعیم کی پیرنٹ یونٹ سے تھا، اُسے صرف جوتے پالش کرنا آتا تھا۔امی کے آنے کے بعد مجھے بے حد آسانی ہوگئی بچوں کا چارج انہوں نے لے لیا اور میں نے کچن کا۔  

”پنکی“  ڈیڑھ سال کی ہوچکی تھی اور اوں آں اور ماما پپا کے سواء کچھ نہیں بولتی۔امی کے احساس دلانے پر یاد آیا کہ باقی سب بچوں نے سال کی عمر سے پہلے بولنا شروع کر دیا تھا۔خیر انہوں نے ایک دیسی ٹوٹکا آزمایا۔ ایک چڑیا پکڑ کر اس کی چونچ  ”پنکی“  کے منہ میں ڈالی۔جب تک چڑیا نے تنگ آکر چوں چوں نہ بولی اُس کی جان بخشی نہ ہوئی۔اُس کے بعد  جو اس کو زبان لگی۔تو اُس سے نہ صرف اسے ملنے جلنے والوں بلکہ جب سکول جانے لگی تو اُستانیوں نے اُس کے سوالات سے پناہ مانگنی شروع کردی۔کہانی سننا اُس کا دلچپ مشغلہ تھا۔اللہ جھوٹ نہ بلوائے، جو کہانیاں نعیم نے اپنی طرف سے گھڑ گھڑ کر اُسے سنائیں  اگر وہ انہیں لکھ لیتے  تو میر امن کی ”الف لیلہ ہزار داستان“کا ریکارڈ ٹوٹ جاتا۔ہاں یہ تو میں لکھنا بھول گئی کہ ”پنکی“  کا نام ہم نے عروضہ نعیم رکھا۔لوگوں کے پوچھنے پر وہ اپنا نام ”عوا“ بتاتی یو ں وہ پورے خا ندان میں ”عوا“  کے نام سے مشہور ہو گئی۔ حیدر آباد میں ”عوا“ نے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز کیا اور اُس نے اپنے تینوں بڑے بہن بھائیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ سکول میں ہر گریڈڈ امتحان میں پوزیشن حاصل کرنے پرنعیم جو انعام دیتے وہ الگ، اس کے علاوہ پرسنٹیج کی بنیاد پر چاروں بہن بھائیوں کی پوزیشن میں وہ ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرتی رہی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کوئیٹہ میں اُس نے پہلی بار کلاس ون سے کلاس ففتھ تک کے بچوں کے درمیان ہونے والے  اردو اور انگلش تقریری مقابلوں حصہ لیا۔اُ س کے مقابلے پر نہ صرف اُس کے دونوں بھائی بلکہ سکول کے بہترین بچے تھے۔ پہلا مقابلہ اردو میں تقریر کا تھا۔ثانی (ارسلان  فورتھ کلاس) اس کا مقابل اور مانی(ارمغان تھرڈ کلاس) اُس  کے موافق میں تھا دونوں بھائیوں نے پچھلے سال ہونے والے مقابلوں میں (موافق اور مقابل) پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔اور سائرہ  نے سینئر سیکشن میں اپنی دھاک بٹھائی ہوئی تھی۔ اور گذشتہ سالوں سے دونوں بھائی یہ پوزیشن لیتے آرہے۔

ہمارا خیال تھا کہ  ”عوا“  کاپہلا مقابلہ ہے کم ازکم حوصلہ افزائی کا انعام مل جائے گا۔تقریری مقابلوں کی ہمارے گھر میں خوب زور و شور کی تیاری ہوتی۔ مکمل سٹیج بنتا۔سامعین میں رشتہ داروں یا محلے والوں کے بچے ہوتے۔تینوں بچے خوب زور شور سے تیاری کرتے۔ تقریر لکھنا  نعیم کا کام ہوتا اور تیاری کرانا میرا۔ موافقت اور مخالفت،کی پہلی اور دوسری پوزیشن، ایک  دفعہ بھی ہمارے گھر سے باہر نہیں گئی تھی۔اُس دفعہ مضمون بڑا جاندار تھا ”عورت بحیثیت ٹیچر، مردوں پر فوقیت رکھتی ہے“۔  ارسلان نے مخالفت میں تقریر کرنے کا پروگرام بنایا۔ارمغان نے موافقت میں،عروضہ کو بھی موافقت ہی میں تقریر کی تیاری کرائی گئی۔ ” عوا “ نے پہلی دفعہ حصہ لیا  نعیم بھی تقریرسننے کے لئے بچوں کے سکول آئے۔ میری ڈیوٹی والدین کو خوش آمدید کہنے اور بٹھانے پر لگی۔ ہاں میں یہ بتاتا تو بھول گئی کہ ایک دن ہمارے گھر نعیم کے دوست میجر منیر بٹ آئے۔ اُن کی مسز عروضہ کی کلاس ٹیچر تھی اور اُن کی بیٹی مومنہ عروضہ کی کلاس فیلو۔ میں اور مسز منیر لان میں بیٹھے تھے، نعیم اور بٹ بھائی ڈرائینگ روم میں، اچانک عروضہ نے مسز منیر سے پوچھا”آنٹی آپ نے کتنی کلاسیں پڑھی ہیں“۔ انہوں نے جواب دیا،”ایف اے“۔   ”نہیں آنٹی ون ٹو تھری کی طرح گن کر بتائیں“ عروضہ نے کہا۔ مسز بٹ نے جواب دیا،" Twelve" عروضہ نے مجھ سے پوچھا،”ماما، آپ نے کتنی کلاس پڑھی ہیں“۔ میں نے جواب دیا،" Sixteen"عروضہ حیرت سے بولی،”ماما  Sixteen   ماما آپ کیوں نہیں ٹیچر بن جاتیں“  مسز بٹ بولیں،”ہاں بھابی آپ کیوں نہیں سکول جوائین کر لیتیں ویسے بھی کل سکول میں ٹیچر ز کے لئے انٹرویوز ہو رہے ہیں آپ آجائیں“۔ عروضہ میر ے پیچھے پڑھ گئی میں نے جان چھڑانے کے لئے کہا،”جاؤ  پپا سے پوچھ لو اگر وہ اجازت دیں تو میں سکول جوائین کر لوں گی“ مجھے معلوم تھا کہ نعیم کو بیوی کا جاب کرنا پسند نہیں تھا۔لہذا میں نے اُن پر ڈال دیا عروضہ اور مومنہ ڈرائینگ روم کی طرف دوڑیں تھوڑی دیر بعد وہ چلاتی ہوئی باہر آئی،”ماما،  پپا نے اجازت دے دی“۔ میں حیران رہ گئی

 مہمانوں کے جانے کے بعد میں نے نعیم سے پوچھا کہ کیا آپ نے واقعی اجازت دے دی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اور بٹ بات کر رہے تھے انہوں نے ٹالنے کے لئے کہا کہ ٹھیک ہے۔ ماما کو کہو سکول جوائین کر لیں۔ دوسرے دن عروضہ صبح صبح اٹھ کر میرے پیچھے پڑگئی۔ میرے کپڑے منتخب کئے کہ یہ پہن کر انٹرویو دینے آئیں میں نے نعیم سے بات کی انہوں نے کہا ٹھیک ہے چلی جاؤ۔ میں گھبرا گئی بولی،”میں نے آج تک انٹرویو نہیں دیا میں وہاں کیا بولوں گی“۔ ”کیا تم نے سلیکٹ ہو جانا ہے“ نعیم نے پوچھا۔ ”نہیں“۔ تو پھرڈر کس بات کا، جو سوال کریں اُن کا اپنی مرضی سے جواب دینا تمہیں کیا غم اگر وہ سلیکٹ نہ کریں  اور پھر عروضہ کا دل خوش ہو جائے گا“۔ نعیم نے سمجھایا۔ ”ٹھیک ہے۔آپ نو بجے آجانا“ میں نے جواب دیا۔ بچے سکول اور نعیم ساڑھے سات بجے آفس چلے گئے۔ ساڑھے آٹھ بجے نعیم آئے میں اُنکے ساتھ سکول کی طرف روانہ ہوگئی۔ دل میں خوف تھا سکول کے پاس پہنچ کر میں نے نعیم کو کہا کہ مجھے خوف لگ رہا ہے میں نہیں جاتی۔ نعیم نے حوصلہ دلایا کہ انٹرویو دینے چلی جاؤ،ہم اُس کو یہ تو کہہ  سکتے ہیں کہ ماما نے انٹرویو کی تیاری نہیں کی تھی اگر عروضہ کو یہ معلوم ہو کہ اُس کی ماما ڈر کر انٹرویوہی دینے نہیں گئی تو وہ اِس بات کو دل پر لے گی۔
               
خیر میں اللہ کا نام لے کر دعائیں پڑھتی سکول میں داخل ہوئی۔گیٹ پر چوکیدار نے پوچھا میں نے اُسے وجہ بتا تی تو اس نے مجھے پرنسپل کے کمرے کے پاس موجود سٹاف روم کی طرف  رہنمائی کی۔سٹاف روم کی طرف بڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ1984 میں یہ سکول بریگیڈیر  برکی کی مسز نے قائم کیا تھا اُس کا نام کہکشاں پبلک سکول رکھا تھا۔اُس کے افتتاح پر میں تینوں بڑے بچوں کے ساتھ آئی تھی اور کنڈرگارٹن میں ڈولی کو ڈالا تھا۔ اُس سکول کو بنانے میں نعیم بھی سرگرم تھے کیوں کہ یہ بریگیڈیر برکی کی انڈرکمانڈ یونٹ میں کیپٹن کوارٹرماسٹر تھے۔ماضی ایک فلم کی طرح دماغ میں ریوائینڈ ہو رہاتھا۔”ماما“ اچانک عروضہ کی آواز نے ماضی کے در بند کر دئیے۔ سامنے سے وہ  دوڑ آرہی تھی۔ میرے پاس آکر اُس نے پھولے سانسوں سے کہا،”ماما امتحان میں پاس ہونا۔ تاکہ میں سٹاف روم میں آپ کے ساتھ ٹی بریک کروں“ یہ کہتے ہوئے وہ کینٹین کی طرف دوڑ گئی  اور مجھے بڑے امتحان میں ڈال گئی۔

 خیر سٹاف روم میں داخل ہوئی وہاں کافی امیدوار بیٹھی تھیں۔ میں نے رجسٹریشن ڈیسک پر بیٹھی ہوئی ٹیچر کو اپنے کاغذات دئیے۔
 اُس نے پوچھا ”آپ اِن کی فوٹو سٹیٹ نہیں لائیں“ میں نے بتایا کہ مجھے رات ہی معلوم ہوا تھا اس لئے اوریجنل کاغذات لائی ہوں۔
 ”ٹھیک ہے آپ بعدمیں مجھ سے یہ لے لینا تاگہ گم نہ ہوجائیں۔ آپ سائرہ (ڈولی)کی امی ہیں“۔ اس نے پوچھا۔
”جی“ میں نے جواب دیا۔
”آپ کے تین اور بچے بھی اس سکول میں پڑھتے ہیں“ اس نے اپنی معلومات کا اظہار کیا۔
”ہاں“  میں نے جواب دیا اور ایک کرسی پر جا بیٹھی۔
امیدوار کو وہ اپنی اپنی باری پر اندر بھیجتی رہی۔ سب سے آخر میں میری باری آئی۔ میں کمرے میں داخل ہوئی۔ انٹرویو لینے کے لئے جو چہرے نظر آئے وہ سب شناسا لگے، میرا اعتماد ایک دم بحال ہو گیا۔پرنسپل، وائس پرنسپل، کرنل کوآرڈ اور بریگیڈیر، غلام محمد (چیف آف سٹاف)  میں نے سلام کیا۔ مجھے کرسی پر بیٹھنے کا کہا، بریگیڈیر صاحب نے کاغذات دیکھے اور پرنسپل بریگیڈیر (ر) چنگیزی کی طرف بڑھا دیئے۔
”آپ نے کس سبجیکٹ ماسٹر کیا ہے؟“ ۔  پرنسپل صاحب نے پوچھا۔
”اسلامک سٹڈیز میں“۔
”کیا آپ نے پہلے پڑھایا ہے؟“ بریگیڈیر صاحب نے سوال داغا جو انٹرویو کا مشکل ترین سوال تھا۔
 ”جی ہاں“ میں نے جواب دیا۔
”کہاں“ سوال ہوا۔
”سر میں جن بچوں کو پڑھاتی ہوں۔ وہ 95% سے زیادہ مارکس ہر امتحان میں لیتے ہیں“ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنے بیگ سے چاروں بچوں کے کارڈ نکالے اور پرنسپل صاحب کو دئے،
 انہوں  نے یہ کارڈ بریگیڈیر کو دئے انہوں نے دیکھ کر کہا ”ویری گڈ“۔
لیکن پرنسپل صاحب نے مسکراتے ہوئے  کہا،”یہ ہمارے سکول کے بچے ہیں اِن کو ہم نے پڑھایا ہے“۔
 ”یہ بچے چار مختلف کلاسز میں پڑھتے ہیں اگر اِن کے یہ مارکس آپ کی وجہ سے ہیں تو اِن چاروں کلاس کے باقی بچوں نے بھی 95%سے اوپر مارکس لیے ہوں گے؟  تب میں کہوں گی کہ آپ کی ٹیچر ،آوٹ سٹینڈنگ ٹیچر ہوں گی“۔ میں نے جواب دیا۔
 بریگیڈیرصاحب نے کہا ”ویری گڈ۔ بہت بہت شکریہ۔ آپ جا سکتی ہیں‘‘۔
”کیا“ میں نے حیرت سے پوچھا ”آپ مزید سوال نہیں کریں گے؟“۔
 ”نو تھینکس“ بریگیڈیرصاحب نے جواب دیا ۔
میں سوال کر کے باہر آگئی۔ سٹاف روم میں بیٹھی۔ تھوڑی دیرمیں وائس پرنسپل داخل ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے کاغذات چھوڑ دوں فوٹو کاپی کرواکر کل آپ کو واپس کر دیں گے ہاں اور اپنا ٹیلیفون نمبر دے دیں۔میں نے نعیم کا نمبر دے دیا۔ گیارہ بجے نعیم آگئے ہم گھر کو روانہ ہوئے۔ انہوں نے انٹرویو کے بارے میں پوچھا جب میں نے بتایا تو انہوں نے کہا بہت اچھا جواب دیا۔ اگر میں ہوتا تو تمھارے جواب پر تمھیں سلیکٹ کر لیتا ۔ عروضہ سکول سے آئی اُس نے آتے ہی پوچھا ماما رزلٹ کب نکلے گا میں نے بتایا کل۔ اُس نے کپڑے تبدیل کئے اور وضو کر کے جانماز بچھا کر میرے پاس ہونے کی دعا مانگی۔

                دوسرے دن نعیم نے بتایا کہ میں بحیثیت ٹیچر آرمی پبلک سکول میں سلیکٹ کر لی گئی ہوں۔ بچوں کا خوشی کے مارے برا حال تھا اور عروضہ کی خوشی سب سے زیادہ تھی اور اُس نے اعلان کر دیا کہ سٹاف روم میں صرف ایک بچے کی اجازت ہے اور صرف وہ سٹاف روم میں جایا کرے گی۔تیسرے دن مجھے عارضی اپائینٹمنٹ لیٹر مل گیا میں نے سکول جوائن کر لیا۔ مجھے پانچویں سے لے کر آٹھویں کلاس تک کا ڈرائنگ ٹیچر بنادیا گیا۔ وجہ پوچھی تو پرنسپل نے بتایا کہ بریگیڈیرصاحب  (چیف آف سٹاف)  نے آپ کو ڈرائینگ ٹیچر رکھنے کا کہا ہے۔
آہ نعیم نے مجھے مروا دیا۔نعیم بہت اچھی واٹر کلرکلر اور آئیل پینٹ سے پورٹریٹ بناتے تھے۔ وہ اسی وقت پنسل سے سکیچ بنا کر دے دیتے تھے۔اور پینسل کا استعمال مجھے صرف لکھنے  یا کاغذ پر سکیل کے ساتھ لائنیں لگانے کے لئے آتا تھا۔جو میں بچوں کی کاپیوں پر لگایا کرتی تھی۔ اپنے کورس میں وہ نعیم پینٹر کے نام سے مشہور ہیں۔ فوج کے بہت آفیسروں کو انہوں نے پورٹریٹ بنا کر دئے ہیں۔ جس یونٹ میں رہے اس کے فیلڈ میس کو سینری یا گن فا ئرنگ کی پینٹنگ ضرور بنا کر دی، یا ایک پانچ سرپٹ بھاگتے گھوڑوں کی پینٹنگ بھی بہت افسروں نے بنوائی۔

یہ جہلم کا واقع ہے۔ بریگیڈیر نیاز ایم حنفی کمانڈر تھے۔ جہلم میں آرٹلری آفیسر کے لئے میس بنا، کمانڈر نے معائنہ کیا ڈی کیو کو کہا کہ اچھی سی پینٹنگ ہونی چاہیئں اور یوں یہ کام ”فوجی کام بن کر“ نعیم کو مل گیا۔آئل کلر، کینوس، برش اور دیگر لوازمات ڈی کیو نے پنڈی سے منگوا کر دئیے، ہمارے گھر کا سٹڈی روم، آرٹ روم میں تبدیل ہو گیا، ہر وقت پورے گھر میں تارپین، السی، وارنش، مٹی کا تیل اور رنگوں کی بو پھیلی رہتی۔ نعیم کا جس وقت موڈ ہوتا۔ آفس سے آنے کے بعد دن کے کسی بھی حصے میں جو کپڑے پہنے ہوتے (سوائے وردی کے)  تصویربنانی شروع کر دیتے۔ کینوس کے ساتھ رنگ کپڑوں پر بھی لگ جاتا۔ اُن کے کورس میٹ طارق نور بھائی، اُن سے ملنے آئے اور چھوٹی سے خوبصورت گھوڑوں کی پینٹگ کسی اطالوی آرٹسٹ کی دی اور حکم دیا کہ یہ ڈھائی فٹ اور چارفٹ سائز میں بنا کر دینی ہے۔  نعیم نے بنا کر دے دی۔ وہ اتنی مقبول ہوئی کہ جہلم کینٹ کے ہر جاننے والے نے فرمائش کی یوں ہمارا گھر کسی سینما کے پینٹر کے گھر میں تبدیل ہو گیا۔ جو تصویر بنواتا وہ بورڈ، آئل پینٹ، برش اور تیل منوا گر دیتا، ان دنوں غالباً سوروپے سے زیاد ہ خرچہ نہ آتااور ایک بہترین پینٹنگ سو روپے میں  ان کے ڈرائینگ روم کی زینت بن جاتی، کئی قریبی دوستوں کو نعیم بچے ہوئے رنگوں سے تصویر بنا کر مشکور ہونے کا موقع دیتے۔

 نعیم نے اپنی آسانی کے پانچوں گھوڑوں کے سٹینسل کاٹ لئے، مجھے کینوس کی بیس بنانا سکھا دی، یوں تھوڑا بہت پینٹنگ کی وادی میں ہم نے بھی قدم رکھ دیا۔ ہاں ایک دن مزیدار واقع ہوا، ایک چور نعیم کی موٹر سائیکل رات کوگھر سے لے گیا۔اُس کی تفصیل بعد میں بیان کروں گی۔ نعیم کے کئی بے تکلف دوست ہمارے گھر میں لگی ہوئی پینٹنگ جاتے ہوئے دیوار سے اتار کر لے جاتے اور نہایت قیمتی مشورہ دیتے،”اپنے لئے خود بنا لینا“۔ ہم اُن لاہور میں تھے بہت سخت بارش ہو رہی تھی۔دروازے کی گھنٹی بجی۔بیٹ مین باہر گیا اُس نے مہمانوں کو ڈرائینگ روم میں بٹھایا اور نعیم کو بتایا کہ میجر نسیم اپنی فیملی کے ساتھ آئے ہیں، ہم دونوں نیچے اترے، فرسٹ ٹرم میں نعیم کے ساتھ پی ایم اے داخل ہونے والے ای ایم ای کے ٹیکنیکل گریجوئیٹ میجر نسیم (اب بریگیڈیر ڈاکٹر) گرم جوشی سے نعیم سے ملے۔
”بیگم وہ تصویر اِس نے بنائی تھی“ نسیم نے انکشاف کیا۔  
”بھائی بہت اچھا پینسل سکیچ آپ نے بنایا تھا“۔میجر نسیم کی بیگم نے تعریف کی
 ”لیکن میں نے آپ کو تو کوئی سکیچ نہیں دیا“۔ نعیم نے کہا۔
 میجر نسیم نے بتایا کہ جس پنسل سکیچ پر تمھیں پہلا انعام ملا تھا۔ وہ نمائش کے بعد میں لے گیا تھا۔ ٹھیک چودہ سال بعد میجر نسیم نے تصویر کی گمشدگی کا راز کھولا۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭