یہ 22 نومبر 2009 کا ذکر ہے ، اُس کی خوشی کا عالم دیکھا نہ جاتا تھا، کار سے اتر
کر سب سے گلے ملی اور تیز قدموں سے چلتی ہوئ بس میں جا بیٹھی۔ کھڑکی میں بیٹھ کر
اس کی خوشی کا عالم دیدنی تھا۔وہ ہماری طرف دیکھتی اور ہاتھ ہلاتی میں آنسووں کو
روکے مصنوعی ہنسی ہنس رہی تھی۔ بس نے رینگنا شروع کیا اور میری آنکھوں کے سامنے
دھند چھا گئی اور اُس دھند میں بس غائب ہو گئی پھر دھندا کے پیچھے سے،ڈولی
(سائرہ)کمرے میں اپنے پاپا کا ہاتھ کھینچی ہوئی داخل ہوئی۔ ماما، ماما،پپا کو گڑیا
دکھائیں۔ میں نے اپنے پہلو میں لیٹی روئی کے گالے کی مانند بچی کے اوپر سے چادر
ہٹائی نعیم نے بچی کو جھک کر پیار کیا۔ ثانی (ارسلان)میرا بڑا بیٹا اور
مانی(ارمغان) چھوٹا بیٹا دونوں باپ کے دائیں بائیں سے گھس کر بچی کو دیکھنے کی
کوشش کر رہے تھے کہ ڈولی چلائی،” ابھی اسے ہاتھ نہ لگاؤ یہ سو رہی ہے۔تمھارے ہاتھ
گندے ہیں“ دونوں بھائی ڈر کر پیچھے ہٹ گئے۔ میری امی نے نعیم کے سر پر ہاتھ رکھ کر
دوسری بیٹی کی مبارکباد دی۔بچی کسمائی۔”ثانی مانی تم نے شور کر کے اسے اٹھا دیا۔اب
یہ روئے گی“۔ جواب میں بچی نے باریک سی آواز میں چلا کر ڈولی کی بات سچ کر دی۔
نعیم نے بچی کو گود میں اُٹھایا اوراُس کے کان میں آذان دی۔ مانی نے آذان کے بعد
بچی کو اپنی گود میں لینے کے لئے شور مچایا۔ نعیم نے مانی کو اپنی گود میں بٹھایا
اور بچی کو اُس کی گود میں رکھ دیا۔مانی بولا۔”پپا یہ پنک،پنک ہے“ اس گڑیا کا نام
”پنکی“ پڑ گیا۔
اُن دنوں نعیم چمن(کوئیٹہ کے نزدیک ایک سرحدی شہر) میں پوسٹ تھے۔
تین دن بعد ہم چمن کے لئے روانہ ہوئے نعیم کے دو یونٹ آفیسر، کیپٹن صفدر اور کیپٹن
خالد بھی ساتھ تھے۔ سارے راستے برف باری ہو رہی تھی۔کوئی پندرہ سال بعد چمن میں
بھی برف پڑی۔ ”پنکی“ ساری آفیسرز کالونی میں بچوں کی آنکھوں کا تارہ
بن گئی سب اُس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کرتے۔ڈولی نے خود بخود بڑی بہن کے فرائض
سنبھال لئے۔مانی البتہ ”پنکی“ سے تھوڑا حسد محسوس کرنے لگا کیونکہ ”پنکی“ نے
اُسے میرے پلنگ سے نعیم کے پلنگ پر ہجرت کروا دی۔غالباً چوتھا یا پانچوں دن ہو گا
کہ اُس کی ہمت جواب دے گئی اور اُس نے ضد پکڑ لی کہ اب ”پنکی“ کو واپس
ہسپتال چھوڑ آؤاور رو، رو کر مجھے خوب پریشان کیا میری امی نے اُسے سمجھانے کی
کوشش کی مگر اُس نے کوئی بات سننے سے انکار کر دیا، آخر روتے روتے سو گیا۔ نعیم
آفس سے واپس آئے میں نے بتا یا کہ مانی اِسے گھر میں رکھنے کے لئے تیار نہیں۔ اور
ابھی روتے ہوئے سویا ہے۔ نعیم کے کھانا کھانے کے بعد مانی اٹھ گیا اور پھر رونا شروع
کر دیا کہ اسے ابھی ہسپتال واپس کر کے آؤ نعیم نے بڑا سمجھایا ا کہ اب
ہسپتال والے اسے واپس نہیں لیں گے کیونکہ اسے ہمارے پاس کافی دن ہو گئے ہیں اور
پھر وہاں بستر پر دوسری گڑیا آگئی ہو گی۔ ”تو پھر اسے واپس کر کے ایسی گڑیا لاؤ
جیسی ڈولی کی ہے۔ہم سب خوب ہنسے۔ کیونکہ ڈولی کی گڑیا نے اس کی جگہ نہیں لی
تھی۔بہرحال میرے ایک طرف ”پنکی“دوسری طرف مانی سوتا رہا، وقت گزرتا گیا۔امی
دو مہینے بعد واپس میرپورخاص چلی گئیں۔
نعیم نوشہرہ میں ہونے والے ایک سال کے کورس کے لئے کامیاب ہوئے ہم
مارچ میں بذریعہ کار چمن سے کوئٹہ، کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، نوابشاہ، مورو،
سکھر، رحیم یار خان،بہاولپور، اوکاڑہ،لاہوراور پنڈی رشتہ داروں سے ملتے ہوئے
نوشہرہ پہنچے۔ نعیم کی مصروفیت پڑھائی کی وجہ سے بے انتہا بڑھ گئی اور مجھ پر گھر
کے علاوہ چار بچوں کا بوجھ بڑھ گیا اور اس پر ستم یہ کہ میس کے کھانے سے اکتایا
ہوا کوئی نہ کوئی بیچلر آفیسر ہر شام پڑھائی کے بہانے آجاتا، نعیم صرف ایک جملہ
کہتے،”گل ہم ساتھ کھانا بھی کھائیں گے“۔ یوں میرے کام میں صرف ایک فرد کے کھانے کا
اضافہ نہیں بلکہ، سوئیٹ ڈش، گرین ٹی اورپھر کھاناڈائیننگ پر لگانا سب سے بڑا معرکہ
ہوتا تھا۔مجھ سے بچے تو سنبھالے جاتے تھے نعیم کے مہمان نہیں۔تنگ آکر اپنی امی کو
فون کیا کہ آپ نوشہرہ آجائیں ۔اُن کے آنے کے بعد نعیم نے یہ جملہ کہنا چھوڑ دیا
اور میرے لئے پکی SOPبن گئی۔ چنانچہ جونہی بیٹ مین صفدر بتاتا
کہ صاحب کے کمرے میں کوئی صاحب آئے ہیں میں کھانے کی تیاری میں لگ جاتی۔فوج میں
بیٹ مین، ایک نعمت ہے اور اگر اُسے کھانا بناناآتا ہو تو وہ اللہ کی رحمت سمجھا
جاتا تھا۔ صفدر نعیم کی پیرنٹ یونٹ سے تھا، اُسے صرف جوتے پالش کرنا آتا تھا۔امی
کے آنے کے بعد مجھے بے حد آسانی ہوگئی بچوں کا چارج انہوں نے لے لیا اور میں نے
کچن کا۔
”پنکی“ ڈیڑھ سال کی ہوچکی تھی اور اوں آں اور ماما پپا کے
سواء کچھ نہیں بولتی۔امی کے احساس دلانے پر یاد آیا کہ باقی سب بچوں نے سال کی عمر
سے پہلے بولنا شروع کر دیا تھا۔خیر انہوں نے ایک دیسی ٹوٹکا آزمایا۔ ایک چڑیا پکڑ
کر اس کی چونچ ”پنکی“ کے منہ میں ڈالی۔جب تک چڑیا نے تنگ آکر چوں چوں
نہ بولی اُس کی جان بخشی نہ ہوئی۔اُس کے بعد جو اس کو زبان لگی۔تو اُس سے نہ
صرف اسے ملنے جلنے والوں بلکہ جب سکول جانے لگی تو اُستانیوں نے اُس کے سوالات سے
پناہ مانگنی شروع کردی۔کہانی سننا اُس کا دلچپ مشغلہ تھا۔اللہ جھوٹ نہ بلوائے، جو
کہانیاں نعیم نے اپنی طرف سے گھڑ گھڑ کر اُسے سنائیں اگر وہ انہیں لکھ لیتے
تو میر امن کی ”الف لیلہ ہزار داستان“کا ریکارڈ ٹوٹ جاتا۔ہاں یہ تو میں
لکھنا بھول گئی کہ ”پنکی“ کا نام ہم نے عروضہ نعیم رکھا۔لوگوں کے پوچھنے پر
وہ اپنا نام ”عوا“ بتاتی یو ں وہ پورے خا ندان میں ”عوا“ کے نام سے مشہور ہو
گئی۔ حیدر آباد میں ”عوا“ نے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز کیا اور اُس نے اپنے تینوں
بڑے بہن بھائیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ سکول میں ہر گریڈڈ امتحان میں پوزیشن حاصل
کرنے پرنعیم جو انعام دیتے وہ الگ، اس کے علاوہ پرسنٹیج کی بنیاد پر چاروں بہن
بھائیوں کی پوزیشن میں وہ ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرتی رہی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے
کہ کوئیٹہ میں اُس نے پہلی بار کلاس ون سے کلاس ففتھ تک کے بچوں کے درمیان ہونے
والے اردو اور انگلش تقریری مقابلوں حصہ لیا۔اُ س کے مقابلے پر نہ صرف اُس
کے دونوں بھائی بلکہ سکول کے بہترین بچے تھے۔ پہلا مقابلہ اردو میں تقریر کا
تھا۔ثانی (ارسلان فورتھ کلاس) اس کا مقابل اور مانی(ارمغان تھرڈ کلاس) اُس
کے موافق میں تھا دونوں بھائیوں نے پچھلے سال ہونے والے مقابلوں میں (موافق
اور مقابل) پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔اور سائرہ نے سینئر سیکشن میں اپنی دھاک
بٹھائی ہوئی تھی۔ اور گذشتہ سالوں سے دونوں بھائی یہ پوزیشن لیتے آرہے۔
ہمارا خیال تھا کہ ”عوا“ کاپہلا مقابلہ ہے کم ازکم
حوصلہ افزائی کا انعام مل جائے گا۔تقریری مقابلوں کی ہمارے گھر میں خوب زور و شور
کی تیاری ہوتی۔ مکمل سٹیج بنتا۔سامعین میں رشتہ داروں یا محلے والوں کے بچے
ہوتے۔تینوں بچے خوب زور شور سے تیاری کرتے۔ تقریر لکھنا نعیم کا کام ہوتا
اور تیاری کرانا میرا۔ موافقت اور مخالفت،کی پہلی اور دوسری پوزیشن، ایک
دفعہ بھی ہمارے گھر سے باہر نہیں گئی تھی۔اُس دفعہ مضمون بڑا جاندار تھا
”عورت بحیثیت ٹیچر، مردوں پر فوقیت رکھتی ہے“۔ ارسلان نے مخالفت میں تقریر
کرنے کا پروگرام بنایا۔ارمغان نے موافقت میں،عروضہ کو بھی موافقت ہی میں تقریر کی
تیاری کرائی گئی۔ ” عوا “ نے پہلی دفعہ حصہ لیا نعیم بھی تقریرسننے کے لئے
بچوں کے سکول آئے۔ میری ڈیوٹی والدین کو خوش آمدید کہنے اور بٹھانے پر لگی۔ ہاں
میں یہ بتاتا تو بھول گئی کہ ایک دن ہمارے گھر نعیم کے دوست میجر منیر بٹ آئے۔ اُن
کی مسز عروضہ کی کلاس ٹیچر تھی اور اُن کی بیٹی مومنہ عروضہ کی کلاس فیلو۔ میں اور
مسز منیر لان میں بیٹھے تھے، نعیم اور بٹ بھائی ڈرائینگ روم میں، اچانک عروضہ نے
مسز منیر سے پوچھا”آنٹی آپ نے کتنی کلاسیں پڑھی ہیں“۔ انہوں نے جواب دیا،”ایف اے“۔
”نہیں آنٹی ون ٹو تھری کی طرح گن کر بتائیں“ عروضہ نے کہا۔ مسز بٹ نے جواب
دیا،" Twelve" عروضہ نے مجھ سے پوچھا،”ماما، آپ نے کتنی کلاس پڑھی ہیں“۔
میں نے جواب دیا،" Sixteen"عروضہ حیرت سے
بولی،”ماما Sixteen ماما آپ کیوں نہیں
ٹیچر بن جاتیں“ مسز بٹ بولیں،”ہاں بھابی آپ کیوں نہیں سکول جوائین کر لیتیں
ویسے بھی کل سکول میں ٹیچر ز کے لئے انٹرویوز ہو رہے ہیں آپ آجائیں“۔ عروضہ میر ے
پیچھے پڑھ گئی میں نے جان چھڑانے کے لئے کہا،”جاؤ پپا سے پوچھ لو اگر وہ
اجازت دیں تو میں سکول جوائین کر لوں گی“ مجھے معلوم تھا کہ نعیم کو بیوی کا جاب
کرنا پسند نہیں تھا۔لہذا میں نے اُن پر ڈال دیا عروضہ اور مومنہ ڈرائینگ روم کی
طرف دوڑیں تھوڑی دیر بعد وہ چلاتی ہوئی باہر آئی،”ماما، پپا نے اجازت دے
دی“۔ میں حیران رہ گئی
مہمانوں کے جانے کے بعد میں نے نعیم سے پوچھا کہ کیا آپ نے
واقعی اجازت دے دی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اور بٹ بات کر رہے تھے انہوں نے ٹالنے کے
لئے کہا کہ ٹھیک ہے۔ ماما کو کہو سکول جوائین کر لیں۔ دوسرے دن عروضہ صبح صبح اٹھ
کر میرے پیچھے پڑگئی۔ میرے کپڑے منتخب کئے کہ یہ پہن کر انٹرویو دینے آئیں میں نے
نعیم سے بات کی انہوں نے کہا ٹھیک ہے چلی جاؤ۔ میں گھبرا گئی بولی،”میں نے آج تک
انٹرویو نہیں دیا میں وہاں کیا بولوں گی“۔ ”کیا تم نے سلیکٹ ہو جانا ہے“ نعیم نے
پوچھا۔ ”نہیں“۔ تو پھرڈر کس بات کا، جو سوال کریں اُن کا اپنی مرضی سے جواب دینا
تمہیں کیا غم اگر وہ سلیکٹ نہ کریں اور پھر عروضہ کا دل خوش ہو جائے گا“۔
نعیم نے سمجھایا۔ ”ٹھیک ہے۔آپ نو بجے آجانا“ میں نے جواب دیا۔ بچے سکول اور نعیم
ساڑھے سات بجے آفس چلے گئے۔ ساڑھے آٹھ بجے نعیم آئے میں اُنکے ساتھ سکول کی طرف
روانہ ہوگئی۔ دل میں خوف تھا سکول کے پاس پہنچ کر میں نے نعیم کو کہا کہ مجھے خوف
لگ رہا ہے میں نہیں جاتی۔ نعیم نے حوصلہ دلایا کہ انٹرویو دینے چلی جاؤ،ہم اُس کو
یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ماما نے انٹرویو کی تیاری نہیں کی تھی اگر عروضہ کو
یہ معلوم ہو کہ اُس کی ماما ڈر کر انٹرویوہی دینے نہیں گئی تو وہ اِس بات کو دل پر
لے گی۔
خیر میں اللہ کا نام لے کر دعائیں پڑھتی سکول میں داخل ہوئی۔گیٹ پر
چوکیدار نے پوچھا میں نے اُسے وجہ بتا تی تو اس نے مجھے پرنسپل کے کمرے کے پاس
موجود سٹاف روم کی طرف رہنمائی کی۔سٹاف روم کی طرف بڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا
کہ1984 میں یہ سکول بریگیڈیر برکی کی مسز نے قائم کیا تھا اُس کا نام کہکشاں
پبلک سکول رکھا تھا۔اُس کے افتتاح پر میں تینوں بڑے بچوں کے ساتھ آئی تھی اور
کنڈرگارٹن میں ڈولی کو ڈالا تھا۔ اُس سکول کو بنانے میں نعیم بھی سرگرم تھے کیوں
کہ یہ بریگیڈیر برکی کی انڈرکمانڈ یونٹ میں کیپٹن کوارٹرماسٹر تھے۔ماضی ایک فلم کی
طرح دماغ میں ریوائینڈ ہو رہاتھا۔”ماما“ اچانک عروضہ کی آواز نے ماضی کے در بند کر
دئیے۔ سامنے سے وہ دوڑ آرہی تھی۔ میرے پاس آکر اُس نے پھولے سانسوں سے
کہا،”ماما امتحان میں پاس ہونا۔ تاکہ میں سٹاف روم میں آپ کے ساتھ ٹی بریک کروں“
یہ کہتے ہوئے وہ کینٹین کی طرف دوڑ گئی اور مجھے بڑے امتحان میں ڈال گئی۔
خیر سٹاف روم میں داخل ہوئی وہاں کافی امیدوار بیٹھی تھیں۔
میں نے رجسٹریشن ڈیسک پر بیٹھی ہوئی ٹیچر کو اپنے کاغذات دئیے۔
اُس نے پوچھا ”آپ اِن کی فوٹو سٹیٹ نہیں لائیں“ میں نے بتایا
کہ مجھے رات ہی معلوم ہوا تھا اس لئے اوریجنل کاغذات لائی ہوں۔
”ٹھیک ہے آپ بعدمیں مجھ سے یہ لے لینا تاگہ گم نہ ہوجائیں۔
آپ سائرہ (ڈولی)کی امی ہیں“۔ اس نے پوچھا۔
”جی“ میں نے جواب دیا۔
”آپ کے تین اور بچے بھی اس سکول میں پڑھتے ہیں“ اس نے اپنی معلومات
کا اظہار کیا۔
”ہاں“ میں نے جواب دیا اور ایک کرسی پر جا بیٹھی۔
امیدوار کو وہ اپنی اپنی باری پر اندر بھیجتی رہی۔ سب سے آخر میں
میری باری آئی۔ میں کمرے میں داخل ہوئی۔ انٹرویو لینے کے لئے جو چہرے نظر آئے وہ
سب شناسا لگے، میرا اعتماد ایک دم بحال ہو گیا۔پرنسپل، وائس پرنسپل، کرنل کوآرڈ
اور بریگیڈیر، غلام محمد (چیف آف سٹاف) میں نے سلام کیا۔ مجھے کرسی پر بیٹھنے کا
کہا، بریگیڈیر صاحب نے کاغذات دیکھے اور پرنسپل بریگیڈیر (ر) چنگیزی کی طرف بڑھا
دیئے۔
”آپ نے کس سبجیکٹ ماسٹر کیا ہے؟“ ۔ پرنسپل صاحب نے پوچھا۔
”اسلامک سٹڈیز میں“۔
”کیا آپ نے پہلے پڑھایا ہے؟“ بریگیڈیر صاحب نے سوال داغا جو
انٹرویو کا مشکل ترین سوال تھا۔
”جی ہاں“ میں نے جواب دیا۔
”کہاں“ سوال ہوا۔
”سر میں جن بچوں کو پڑھاتی ہوں۔ وہ 95% سے زیادہ مارکس ہر امتحان
میں لیتے ہیں“ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنے بیگ سے چاروں بچوں کے کارڈ نکالے اور
پرنسپل صاحب کو دئے،
انہوں نے یہ کارڈ بریگیڈیر کو دئے انہوں نے دیکھ کر
کہا ”ویری گڈ“۔
لیکن پرنسپل صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا،”یہ ہمارے سکول کے بچے
ہیں اِن کو ہم نے پڑھایا ہے“۔
”یہ بچے چار مختلف کلاسز میں پڑھتے ہیں اگر اِن کے یہ مارکس
آپ کی وجہ سے ہیں تو اِن چاروں کلاس کے باقی بچوں نے بھی 95%سے اوپر مارکس لیے ہوں
گے؟ تب میں کہوں گی کہ آپ کی ٹیچر ،آوٹ سٹینڈنگ ٹیچر ہوں
گی“۔ میں نے جواب دیا۔
بریگیڈیرصاحب نے کہا ”ویری گڈ۔ بہت بہت شکریہ۔ آپ جا سکتی
ہیں‘‘۔
”کیا“ میں نے حیرت سے پوچھا ”آپ مزید سوال نہیں کریں گے؟“۔
”نو تھینکس“ بریگیڈیرصاحب نے جواب دیا ۔
میں سوال کر کے باہر آگئی۔ سٹاف روم میں بیٹھی۔ تھوڑی دیرمیں وائس
پرنسپل داخل ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے کاغذات چھوڑ دوں فوٹو کاپی کرواکر کل
آپ کو واپس کر دیں گے ہاں اور اپنا ٹیلیفون نمبر دے دیں۔میں نے نعیم کا نمبر دے
دیا۔ گیارہ بجے نعیم آگئے ہم گھر کو روانہ ہوئے۔ انہوں نے انٹرویو کے بارے میں
پوچھا جب میں نے بتایا تو انہوں نے کہا بہت اچھا جواب دیا۔ اگر میں ہوتا تو تمھارے
جواب پر تمھیں سلیکٹ کر لیتا ۔ عروضہ سکول سے آئی اُس نے آتے ہی پوچھا ماما رزلٹ
کب نکلے گا میں نے بتایا کل۔ اُس نے کپڑے تبدیل کئے اور وضو کر کے جانماز بچھا کر
میرے پاس ہونے کی دعا مانگی۔
دوسرے دن نعیم نے بتایا کہ میں بحیثیت ٹیچر آرمی پبلک سکول میں
سلیکٹ کر لی گئی ہوں۔ بچوں کا خوشی کے مارے برا حال تھا اور عروضہ کی خوشی سب سے
زیادہ تھی اور اُس نے اعلان کر دیا کہ سٹاف روم میں صرف ایک بچے کی اجازت ہے اور
صرف وہ سٹاف روم میں جایا کرے گی۔تیسرے دن مجھے عارضی اپائینٹمنٹ لیٹر مل گیا میں
نے سکول جوائن کر لیا۔ مجھے پانچویں سے لے کر آٹھویں کلاس تک کا ڈرائنگ ٹیچر
بنادیا گیا۔ وجہ پوچھی تو پرنسپل نے بتایا کہ بریگیڈیرصاحب (چیف آف سٹاف)
نے آپ کو ڈرائینگ ٹیچر رکھنے کا کہا ہے۔
آہ نعیم نے مجھے مروا دیا۔نعیم بہت اچھی واٹر کلرکلر اور آئیل پینٹ
سے پورٹریٹ بناتے تھے۔ وہ اسی وقت پنسل سے سکیچ بنا کر دے دیتے تھے۔اور پینسل کا
استعمال مجھے صرف لکھنے یا کاغذ پر سکیل کے ساتھ لائنیں لگانے کے لئے آتا
تھا۔جو میں بچوں کی کاپیوں پر لگایا کرتی تھی۔ اپنے کورس میں وہ نعیم پینٹر کے نام
سے مشہور ہیں۔ فوج کے بہت آفیسروں کو انہوں نے پورٹریٹ بنا کر دئے ہیں۔ جس یونٹ
میں رہے اس کے فیلڈ میس کو سینری یا گن فا ئرنگ کی پینٹنگ ضرور بنا کر دی، یا ایک
پانچ سرپٹ بھاگتے گھوڑوں کی پینٹنگ بھی بہت افسروں نے بنوائی۔
یہ جہلم کا واقع ہے۔ بریگیڈیر نیاز ایم حنفی کمانڈر تھے۔ جہلم میں
آرٹلری آفیسر کے لئے میس بنا، کمانڈر نے معائنہ کیا ڈی کیو کو کہا کہ اچھی سی
پینٹنگ ہونی چاہیئں اور یوں یہ کام ”فوجی کام بن کر“ نعیم کو مل گیا۔آئل کلر، کینوس،
برش اور دیگر لوازمات ڈی کیو نے پنڈی سے منگوا کر دئیے، ہمارے گھر کا سٹڈی روم،
آرٹ روم میں تبدیل ہو گیا، ہر وقت پورے گھر میں تارپین، السی، وارنش، مٹی کا تیل
اور رنگوں کی بو پھیلی رہتی۔ نعیم کا جس وقت موڈ ہوتا۔ آفس سے آنے کے بعد دن کے
کسی بھی حصے میں جو کپڑے پہنے ہوتے (سوائے وردی کے) تصویربنانی شروع کر
دیتے۔ کینوس کے ساتھ رنگ کپڑوں پر بھی لگ جاتا۔ اُن کے کورس میٹ طارق نور بھائی،
اُن سے ملنے آئے اور چھوٹی سے خوبصورت گھوڑوں کی پینٹگ کسی اطالوی آرٹسٹ کی دی اور
حکم دیا کہ یہ ڈھائی فٹ اور چارفٹ سائز میں بنا کر دینی ہے۔ نعیم نے
بنا کر دے دی۔ وہ اتنی مقبول ہوئی کہ جہلم کینٹ کے ہر جاننے والے نے فرمائش کی یوں
ہمارا گھر کسی سینما کے پینٹر کے گھر میں تبدیل ہو گیا۔ جو تصویر بنواتا وہ بورڈ،
آئل پینٹ، برش اور تیل منوا گر دیتا، ان دنوں غالباً سوروپے سے زیاد ہ خرچہ نہ آتااور
ایک بہترین پینٹنگ سو روپے میں ان کے ڈرائینگ روم کی زینت بن جاتی، کئی
قریبی دوستوں کو نعیم بچے ہوئے رنگوں سے تصویر بنا کر مشکور ہونے کا موقع دیتے۔
نعیم نے اپنی آسانی کے پانچوں گھوڑوں کے سٹینسل کاٹ لئے،
مجھے کینوس کی بیس بنانا سکھا دی، یوں تھوڑا بہت پینٹنگ کی وادی میں ہم نے بھی قدم
رکھ دیا۔ ہاں ایک دن مزیدار واقع ہوا، ایک چور نعیم کی موٹر سائیکل رات کوگھر سے
لے گیا۔اُس کی تفصیل بعد میں بیان کروں گی۔ نعیم کے کئی بے تکلف دوست ہمارے گھر
میں لگی ہوئی پینٹنگ جاتے ہوئے دیوار سے اتار کر لے جاتے اور نہایت قیمتی مشورہ
دیتے،”اپنے لئے خود بنا لینا“۔ ہم اُن لاہور میں تھے بہت سخت بارش ہو رہی
تھی۔دروازے کی گھنٹی بجی۔بیٹ مین باہر گیا اُس نے مہمانوں کو ڈرائینگ روم میں
بٹھایا اور نعیم کو بتایا کہ میجر نسیم اپنی فیملی کے ساتھ آئے ہیں، ہم دونوں نیچے
اترے، فرسٹ ٹرم میں نعیم کے ساتھ پی ایم اے داخل ہونے والے ای ایم ای کے ٹیکنیکل
گریجوئیٹ میجر نسیم (اب بریگیڈیر ڈاکٹر) گرم جوشی سے نعیم سے ملے۔
”بیگم وہ تصویر
اِس نے بنائی تھی“ نسیم نے انکشاف کیا۔
”بھائی بہت اچھا پینسل سکیچ آپ نے
بنایا تھا“۔میجر نسیم کی بیگم نے تعریف کی
”لیکن میں نے آپ کو تو کوئی سکیچ
نہیں دیا“۔ نعیم نے کہا۔
میجر نسیم نے بتایا کہ جس پنسل سکیچ پر تمھیں پہلا انعام
ملا تھا۔ وہ نمائش کے بعد میں لے گیا تھا۔ ٹھیک چودہ سال بعد میجر نسیم نے تصویر
کی گمشدگی کا راز کھولا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں