Pages

پیر، 20 اپریل، 2015

ہونہار بروا-6

ایبٹ آباد، رات آٹھ بجے ہم بلوچ میس کے گیسٹ روم پہنچے۔غالباً  جولائی 1999کی 19 تاریخ تھی۔ میس میں نعیم نے کمرے کے سامنے گاڑی کھڑی کی۔ بچوں نے سامان اٹھا کر کمرے میں پہنچایا۔ چونکہ ہم نے میس میں کھانے کا نہیں بتایا تھا کھانے کا پروگرام باہر تھا۔ چنانچہ سامان رکھ کر ہم شہر کی طرف نکل گئے اور ہوٹل میں کھانا کھایا۔ رات واپس آئے تو ہمیں، اٹینڈنٹ نے بتایا کہ میجر منیر بٹ صاحب نے پیغام دیا ہے کہ کل دو بجے کے بعد ہم شنکیاری کے لئے روانہ ہوں گے۔ آپ لوگ دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیں گے اور ہم رات شنکیاری میں ہی ٹہریں گے۔ 
دوسرے دن،گیارہ بجے میجر منیر بٹ نے گاڑی بھیج دی کیوں کہ نعیم صبح صبح گالف کھیلنے نکل گئے تھے۔ ہم  میجر منیر بٹ  کے گھر پہنچے وہاں، ان کے بچے، اسد، عائشہ، احسن اور مومنہ ہمارے بچوں کے ہم عمر تھے۔ نعیم اور  میجر منیر بٹ  ساتھ آئے۔ کھانا کھایا اور تقریباً ساڑھے تین بجے اپنی اپنی گاڑیوں میں شنکیاری کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں مانسہرہ بائی پاس سے گذرتے ہوئے شہنشاہ اشوکا کے کھنڈرات کے پاس رکے، بچوں نے تصویریں بنائیں۔ پھر سب روانہ ہوئے۔ شنکیاری، مغرب سے پہلے پہنچے اور میس میں جا کر ٹہرے،
شنکیاری سے ہم دونوں فیملی کی پرانی یادیں وابستہ ہیں۔ غالباً اگست 1981میں نعیم  نے جہلم سے کمپنی کمانڈر کورس کرنے  شنکیاری ڈویژنل بیٹل سکول جانا تھا۔ چنانچہ انہوں نے چھٹی لے کرمجھے اور سائرہ کو میرپورخاص چھوڑا اور خود شنکیاری آگئے۔ یہاں  میجر منیر بٹ صاحب بھی گلگت سے کورس کرنے آئے انہوں نے نعیم کو قائل کیا کہ فیملی لے آئیں اور دونوں مل کر شہر میں گھر کرائے پر لے لیتے ہیں۔ چنانچہ نعیم نے مجھے خط لکھا، میں دس ستمبر کو اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اکیلی سفر پر نکلی اور وہ بھی حیدر آباد سے راولپنڈی تک، دس مہینے کی سائرہ کے ساتھ یہ میرا ایک دلچسپ سفر تھا۔ راولپنڈی میں نعیم آگئے۔پھر ان کے ساتھ شنکیاری پہنچی، مسز منیر بٹ بھی اپنے سات مہینے کے بیٹے اسد کے ساتھ آگئیں۔  
شنکیاری میں دبئی سے آنے والے ایک شخص نے ہوٹل بنایا تھا۔ جس کی پہلی منزل پر پانچ کمرے تھے۔ وہ تین سال سے خالی پڑا تھا صرف گراونڈ فلور کی دکانیں کرایہ پر لگی تھیں وہ۔ ان دونوں نے کرایہ پر لے لیا سرکاری فرنیچر میں صرف چار، ٹیوبلر چارپائیاں اور تین کرسیاں لے کر رہنے کے قابل بنایا، اور ہم دونوں فیملی 29اکتوبر 1981تک یہاں ٹہرے۔ ان دونوں کے جانے کے بعد ہم دونوں اور دونوں بچوں میں مصروف ہو جاتیں۔ دو بجے آنے کے بعد نعیم کھانا کھاتے سو جاتے اور رات کے کھانے کے بعد یہ دونوں دوسرے کمرے میں بیٹھ کر پڑھتے، ویک اینڈ پر ہم دونوں اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ گھومنے نکل جاتے۔
شنکیاری میں میجر منیر بٹ صاحب کی یونٹ آفیسر میجر اکبر، جو وہاں سیکنڈ اِن کمانڈنے اپنے گھررات کے کھانے کی دعوت دی تھی۔ فوجیوں کی دعوت میں ایک خوبی یہ ہوتی۔ کہ چکن تکہ، حلیم اور دیگر کھانوں کے ساتھ سوئیٹ ڈش لازمی ہو تی ہے۔ بیٹ مین (سرکاری خدمت گار)  ”سپیٹ ڈش“ کہتے ہیں۔ سب نے کھانا کھایا، پھر بچوں اپنے کھیل میں لگ گئے۔ چار بچے میرے، چار منیر بھائی کے،تین میجراکبر صاحب کے اور کوئی سات بچے دوسرے آفسروں کے آگئے، اب یہ  اٹھارہ بچے مل کر کھیلیں اور خوب اودھم منائیں، تھک ہار کر جب بچے ہمارے پاس آکر بیٹھ گئے۔رات کے نو بج گئے۔ تو میں نے بچوں میں، مختلف کہانی، نظمیں اور تلاوت  کا مقابلہ رکھ دیا۔ نعیم کی یہ عادت ہے کی وہ  اپنی گاڑی میں ٹافیوں کے پیکٹ ضرور رکھتے ہیں۔ یوں کہیں کہ جب بھی ہم لمبے سفر پر نکلتے تو یہ سائرہ اور عروضہ کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ راستے کے لئے، چپس، نمکو، چاکلیٹ، ٹافیاں اور چاول کی پٹی  ضرور رکھتیں۔  
چنانچہ اب بچوں نے مختلف آئٹم سنانے شروع کئے تو،  بچوں کے نغمے سن کر باقی تین فیملیز بھی آگئیں۔ ایک بلوچ رجمنٹ کے میجر صاحب مسز، ان کے تین بچے ،دوسری  ایف ایف رجمنٹ کے میجر صاحب کی ان کے چار بچے  اور تیسری کیپٹن ایجوٹنٹ صاحب کی ان کی شادی کو ایک مہینہ ہوا تھا پنجاب یونیورسٹی سے پڑھی ہوئی تھیں۔ایک خاتون مجھے جانی پہچانی لگیں۔  جب مجھ سے ہاتھ ملانے لگیں  تو ایک دم ”گل بھابی“ کہہ کر گلے لپٹ گئیں، اُف، ایک دم مجھے یاد آیا۔ دبلی پتلی سی، مسز ریاض، تین بچوں کے بعد پھیل کر واقعی ناقبل یقین حد تک موٹی ہوگئیں تھیں۔ جب ہم چمن میں تھے تو نعیم1987میں  ”گنری سٹاف“ کے لئے سلیکٹ ہو کر نوشہرہ جانے کی تیاری کر رہے۔ تو یہ غالبا جنوری میں، شادی کے بعد چمن آئیں تھیں۔ چمن میں کل پانچ سکاؤٹ کے اور تین آرمی کے آفیسرز کی فیملیز رہتی تھیں۔سب اپنے اپنے گھروں میں گھسے رہتے تھے، میں جب گھر ملنے پر چمن آئی، تو نعیم ایجوٹنٹ تھے۔ انہوں نے وہاں پہلی دفعہ ”کچن وارمنگ پارٹی دی“ اور سب آفیسرز کو فیملیز اور بچوں کے ساتھ بلایا، سب نے لطف اٹھایا اور اس کے بعد ہر بدھ کو کسی نہ کسی کے گھر ون ڈش پارٹی ہو نے لگی۔جس گھر کی جو مہارت تھی وہ، وہ ڈش بنا کر لاتا۔ میزبان صرف، بار بی کیو بناتا۔اور سب مل کر کھاتے۔ بچوں کے مختلف مقابلے بھی ہوتے۔اور ہر بچے کو انعام ملتا۔ نیز ایک اصول یہ بھی تھا کہ جو آفیسر چھٹی سے واپس آئے گا وہ بے چارے چھٹی نہ جانے والوں کی دلجوئی کے لئے، اپنے شہر کی میٹھی سوغات لائے گا۔ خواہ وہ  ”ریوڑیاں“ ہی کیوں نہ ہوں اور ڈبہ لازمی ہوگا (تاکہ شہر کا نام پڑھا جاسکے)  ڈبے کے بغیر ”سوغات“ لانے والے پر جرمانہ ہو گا۔ اور وہ سب فیملیز کو کھانا کھلائے گا۔شروع میں، اکثر آفیسزر واپسی کی جلدی میں مٹھائی لانا بھول جاتے۔یوں ایک پارٹی کا اور مزہ اڑایا جاتا۔ رمضان میں افطار پارٹیاں تو لازماً ہوتی ہیں۔
بچوں کا مقابلہ شروع ہونے لگا تو میں نے رائے دی بے چارے گھروں میں اکیلے بیٹھے ہوئے، اِن کے ”میاؤں“ کو بھی بلا لیں۔ چنانچہ دونوں میجر صاحبان اور کپتان صاحب بھی آگئے۔  میجر ریاض نے کہا،
”میجر نعیم سر آپ نے تو چمن والی محفل سجا دی ہے“۔
فوج میں جب کورس میٹ، یونٹ آفیسرز یا ایک سٹیشن پر ساتھ سروس کرنے والے آفیسرز جب ملتے ہیں تو پہلے تو ماضی کے قصے، پھر کون کہاں ہے اور پھر Who is Who? کے بعد یہ لوگ نارمل ہو جاتے ہیں اور پھر غیبت شروع ہو جاتی ہے۔
”یاد ہے اس (سینئیر آفیسرز) نے میرے ساتھ یہ کیا تو میں نے منہ توڑ جواب دیا“۔ وغیرہ وغیرہ،
عورتوں کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔لہذا وہ اس سٹیشن پر کی جانے والی شاپنگ کی باتیں کرتی ہیں۔ 
ہم بیگمات نے، اپنے اپنے شوہروں کو لنگر گپ لگانے کے لئے چھوڑ دیا اور خود بچوں کے مقابلے شروع کرا دئے۔کیپٹن ایجوٹنٹ صاحب کی مسز کو اتفاق رائے سے جج بنادیا۔ مجھے معلوم تھا کہ عروضہ نے کسی کو نکلنے نہیں دینا چنانچہ میں نے۔قانون بنایا کہ جو بچہ ایک دفعہ فرسٹ۔ سیکنڈ اور تھرڈ آیا اسے اگلے مقابلے میں انعام نہیں ملے گا۔ چنانچہ سارے بچے انعام لیتے رہے۔ والد صاحبان بھی باتیں ختم ہونے کے بعد بچوں کا مقابلہ دیکھنے لگے۔ جب ایک راونڈ ختم ہو گیا تو، ہم نے چلنے کا پروگرام بنایا۔وہاں کے بچوں نے شور مچا دیا نہیں اور کھیلیں گے۔ مائیں کہیں صبح سکول جانا ہے ساڑھے دس ہو گئے ہیں۔ تم لوگ نہیں اٹھو گے۔
شنکیاری چونکہ سرد علاقہ ہے وہاں سردیوں میں ڈھائی مہینے کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ گرمیوں کی پندرہ دن کی چھٹیاں ہو گئی تھیں اور آج پہلا دن تھا۔ چنانچہ بچوں نے کہا آج بہت کم بچے آئے تھے کل بھی کم آئیں گے۔لہذا ہم کل کی چھٹی کریں گے۔ بات معقول تھی کیوں کہ میجر منیر  کے بچے بھی آج ایبٹ آباد سکول نہیں گئے،چنانچہ مقابلے کا دوسرا راونڈ شروع، بچوں کی جھجک دور ہو گئی تھی لہذا اس دوسرے راونڈ میں سائرہ نے اور عروضہ نے حصہ نہیں لیا۔ باقی بچوں نے پہلی اور دوسری پوزیشن کے لئے سخت مقابلہ کیا چنانچہ دو دو بچے پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن لیتے رہے۔  پھر گھرانوں کی ٹیم بنی اور  ان کے درمیان مقابلہ شروع ہو جو نیلام گھر طرز کا تھا۔ بہت سارے کاغذ پر سوالات لکھ کر ایک ڈونگے میں ڈال دئے۔ جس کا جو سوال ہوتا وہ جواب دیتا۔ سوال بھی دلچسپ تھے۔ مثلاً،
اپنی دادی کے شوہر کا نام بتاؤ، یا
آپ کے ابو کی دلہن کا کیا نام ہے۔
نانا کی بیٹی کے بیٹے یا بیٹی کا کیا نام ہے۔
ایک منٹ میں جواب دینا ہوتا تھا۔
کل پانچ ٹیمیں تھیں۔ہر ٹیم سے تین سوال پوچھے گئے۔ اب چونکہ میرے بچے ان مقابلوں کے ماہر تھے لہذا، ان کی ٹیم فرسٹ آگئی۔ پندرہ  سوال کے بعد پہلی آنے والی ٹیم کو مقابلے میں حصہ لینے نہیں دیا جاتا، چنانچہ دوسرے مقابلے کے لئے نئے پندرہ سوال رکھے گئے۔ جو باقی رہ جانے والی دو ٹیموں سے پوچھے گئے۔ میجر اکبر کے بچے، ہر مقابلے میں کمزور رہے۔ بارہ بجے مقابلے ختم ہو ئے۔ اب چلنے کی تیاری کرنے کا پروگرام بنا رہے لیکن میجر اکبر نے زبردستی دوبار گرین چائے کی آفر دے دی۔ چائے کے دوران،
میجر  اکبر نے نعیم سے پوچھا کہ آپ کے بچے پڑھائی میں بھی ذہین ہیں اور باقی چیزوں میں بھی، جب کہ ہمارے بچے بھی آرمی پبلک سکول ہی میں پڑھ رہے ہیں۔ نعیم نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، "یہ ان کی وجہ سے ہے۔ آج جس قسم کے ہم نے مقابلے کروائے ہیں۔ ہر بچوں کی Gatheringمیں یہ مقابلے ہوتے ہیں۔ بچے سکول میں بھی کوئی مقابلہ نہیں چھوڑتے۔ لہذاان مقابلوں سے ایک توبچوں کی ذہنی آزمائش ہوتی ہے۔ان کی دیگر بچوں کے سامنے جھجک دور ہوتی ہو اور پھر ذخیرہء الفاظ کا اضافہ ہوتا ہے"۔
چنانچہ ان تینوں فیملیز نے میجر ریاض کے رائے دینے پر کہ ہر ہفتے ون ڈش پارٹی ہو گی۔ اور صرف اپنی ہی فیملی کے لئے کھانا بنا کر سب کسی نہ کسی کے گھر جمع ہو کر اکٹھے ہو کر کھائیں گے۔ 
مجھے اچھی طرح یاد ہے، کہ نعیم کی ریٹائر منٹ کے بعد جب  ہم اسلام آباد آئے تو غالبا 2003میں، طاہر محمود صاحب  اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر آئے۔ ان کے تین بچے تھے۔ نعیم نے  کھانے کے بعد  بچوں سے کہا کوئی نظم، یا کچھ سنائیں۔ بچے جھجک رہے تھے لیکن پھر اُن کی سب سے چھوٹی بیٹی ”طربہ“  نے ”شاہِ مدینہ“ سنائی۔ باقی بیٹا اور بیٹی نے کافی اصرار کے باوجود کچھ نہ سنایا۔ جس پر سائرہ نے کہا،
"انکل پپا کی یہ عادت ہے۔جو اب تک ہے جس سے ہم تنگ آتے ہیں"۔
نعیم ہنس پڑے اور کہا، ”جب وقت آئے گا تو پوچھوں گا“۔
وقت گزرتا گیا۔  طاہر بھائی کو نعیم کا آئیڈیا پسند آیا۔ ان کے بچے ماشاء اللہ سکول میں مختلف مقابلوں میں حصہ لینے لگے۔ ان کی ایک اور بیٹی ہوئی ”طالیہ“ جب وہ دوسال کی ہوئی اور جب بھی ہمارے گھر آتی تو نعیم اس کی توتلی زبان میں ”شاہ مدینہ، یثرب کے والی“  بس یہ لائین ضرور سنتے۔
سائرہ کی شادی ہوئی۔ جب اس کی بیٹی ”عالی“ نے پہلی بار ”ماما“ بولنا سیکھا تو وہ اُ س نے خوشی خوشی مجھے بتایا۔ ہم دونوں اس کے گھر گئے۔
وہ باربار بولے،”عالی۔ بولو ماما“۔
جواب میں عالی”ماما“کہے۔  ہم سب خوش ہوں۔ باربار، ماما کہلوانے عالی تنگ آگئی اور رونے لگی۔
نعیم بولے، ”ڈولی جب یہ بڑی ہوگی تو کہے گی کہ میں اپنی ماما کی اس عادت سے سخت تنگ ہوں۔ سب کے سامنے مجھے بولنے کا کہتی ہیں“۔
 سائرہ بولی ُ’پپا آپ کو یاد ہے“ ِ
نعیم ہنسے اور کہا، ”بچو جی مجھے تمھاری پیدائش سے لے کر اب تک کی تمھاری ساری باتیں یاد ہیں۔خیر تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے“۔
 اب ”عالی“ سے ہر مہمان کے سامنے اور گھر میں، بابا بلیک شیپ، ٹوئینکل ٹوئینکل، لکڑی کی کاٹھی، اے فار ایپل اور ہر چیز جو سائرۂ اسے سکھاتی وہ سنوائی جاتی ہے۔ حالانکہ وہ ابھی ڈھائی سال کی ہے اور ہم دونوں ”عالی“ میں سائرہ کا بچپن دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔
دوسرے دن ہم تینوں فیملیز، شنکیاری میں وہ ہوٹل دیکھنے گئے۔ جہاں ہم دونوں خاندان، دس ستمبر سے انتیس اکتوبر تک ٹہرے تھے۔ ہوٹل کے مالک اورنگ زیب صاحب، وہاں آئے ہوئے تھے۔ اوپر کاحصہ اب بھی بند تھا۔ ایک کمرے میں چوکیدار سوتا تھا اور باقی دو کمروں کو انہوں نے اپنے استعمال کے لئے گیسٹ روم بنایا ہوا تھا۔ جس کمرے میں میں ٹہری تھی۔ اسے دیکھ کر پرانی یادیں، ایک لمحے میں واپس لوٹ آئیں۔ وہاں سے پھر ہم اورنگزیب بھائی کے گھر گئے ان کی والدہ، بہنوں، بچوں سے ملے دوپہرکا کھانا کھایا۔انہوں نے بہت اصرار کیا کہ رات ٹہرجائیں۔بمشکل ہم اجازت لے کر واپس ہوئے شام پانچ بجے ایبٹ آباد پہنچے۔ رات کو نعیم کے دوست کرنل جاوید کے ہاں کھانا کھایا اور صبح ہم اٹک کے لئے نکلنے سے پہلے،
نعیم کے بچپن کے گھر کو دیکھنے گئے۔ جہاں انہوں نے بچوں کو اپنے دونوں گھر، گلزار خالہ کا گھر، جس نالی میں وہ اڑتے ہوئے گرے تھے وہ اور مختلف واقعات بھی بتائے۔ جو میں ”فوجی کی بیوی“ میں تفصیل سے درج کروں گی۔ 
ایبٹ آباد سے نکلتے ہوئے، بارہ بج گئے۔ شہر سے کوئی بانچ میں دور،  تربیلہ ڈیم کی تازہ مچھلی کا بورڈ دیکھ کر نعیم نے گاڑی روک دی۔ ہن چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ آدھے گھنٹے کے بعد، مچھلی اور نان نے وہ لطف دیا کہ بتا نہیں سکتی۔ اس کے بعد جب بھی ہم ایبٹ آباد جاتے واپسی پر مچھلی لازماً کھاتے۔ تین بجے ہم اٹک کے لئے روانہ ہوئے اور شام چھ بجے واہ گارڈن دیکھنے کے بعد، انیس دن کی تفریح کر کے ہم واپس اٹک آگئے، گھر پہنچے تو ہماری گاڑی کا مخصوص ہارن سنتے ہی، بلٹ اور شیرا نے بھونک بھونک کر گھر سر پر اٹھا یا، بطخوں نے ایک ساتھ مل کر قیں قیں شروع کر دی، شور  سن کر پڑوسی میجر نیازی باہر آئے کہ کیا معاملہ ہے؟ ہمیں دیکھ کر، نعیم کو ملنے کے بعد کہنے لگے،
”حیرت ہے انہیں کیسے معلوم ہوا کہ آپ آگئے ہیں؟“




٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہونہار بروا-5

ہم مری سے باڑیاں گئے ایک رات میس میں ٹہرے ۔وہاں نعیم کے چار پانچ کورس میٹ آئے ہوئے تھے۔میجر وقار ان کے PMAمیں روم میٹ تھے اور بہترین میوزک بجانا جانتے تھے، رات کو انہوں نے محفل گرم رکھی کافی غزلیں سنائیں، بچوں نے بھی چھوٹے موٹے گانے سنائے۔ عروضہ نے پیانو، سوہنی دھرتی اور جیوے جیوے پاکستان سنایا، وقار کافی حیران ہوا کہ اور بولا،”نعیم! تمھیں دو سال میں میرے ساتھ رہنے کے باوجود ایک سر بجانا نہیں آیا۔ بھئی حیرت ہے“۔ نعیم نے پیانو اپنی طرف کھسکا کر یہی دونوں نغمے سنا کر سب کو حیران کر دیا۔
مئی 1991کا ذکر ہے نعیم کی پوسٹنگ کوئیٹہ ہوگئی، ہم 8مئی کو میرپورخاص،سب سے ملنے حیدرآباد سے جارہے تھے۔ کار میں، نعیم، میں، چاروں بچے، میرے امی، ابا اور لقمان بھائی کا بیٹا جواد تھے۔ جو کراچی سے 5مئی کو نعیم کے ساتھ حیدرآباد آئے تھے۔  ڈیتھا سے گذرنے کے بعد نعیم نے گاڑی میں پیٹرول ڈلوایا۔ اور میں روڈ پر آگئے تھوڑی دور جانے کے بعد، سامنے سے ایک ٹرک آتادکھائی دیا، جو سڑک کے بیچوں بییچ آرہا تھا، نعیم کے مطابق انہوں نے اُسے لائیٹ دکھائی۔ جس کا مطلب تھا کہ اپنی سائیڈ پر ہو جاؤ۔ ٹرک ڈرائیور، ٹرک کو مزید ہماری طرف لے آیا نعیم نے کار کو بچایا مگر بچاتے بچاتے کا ر ٹرک کے پچھلے ٹائر کو لگی، پہلے تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا ہوا ہوش آیا تو، سارے لوگ کار کے گرد جمع تھے۔نعیم بری طرح پھنسے ہوئے تھے، اُن کا سر شیشے پر لگنے سے زخمی ہو گیا۔نعیم کو سیٹ پیچھے لٹا کر کھینچ کر نکالا۔ کار سیدھی طرف سے بری طرح تباہ ہو چکی تھی۔ میرے چہرے پر چوٹیں آئیں، بڑے بیٹا ارسلان جو نعیم کے پیچھے امی کو گود میں بیٹھا تھا اُس کی بائیں آنکھ میں شیشے اُڑ کر لگے اور الٹا پاؤں نعیم کی سیٹھ میں پھنس کر پیچھے سے کٹ گیا۔ ابو کی کالر بون ٹوٹ گئی   اتنے میں رینجر کے کرنل نور آگئے۔ یہ نعیم کی یونٹ میں رہے تھے انہوں نے ہم سب کو CMHحیدر آباد پہنچایا۔کار کو دوسرے ٹرک میں لاد کر یونٹ پہنچوایا اور جس ٹرک نے مارا تھا اُسے۔ گھسیٹ کر رینجر کے احاطے ٹنڈوآدم میں کھڑا کر دیا۔ 
ایمر جنسی وارڈ میں، معلوم ہو ا کہ نعیم سے سر میں شدید چوٹیں آئی ہیں ان کی یاداشت تھوڑی تھوڑی دیر بعد کھو جاتی ہے۔یہ تین دن تک اِسی حالت میں رہے۔ میرپورخاص سے سارے رشتہ دار، دوست اور جاننے والے ملنے آئے۔اِن کے ہمزاد دوست، سلیم آزاد آئے تو اِن کی یاداشت واپس آئی جو ڈاکٹروں سمیت ہمارے لئے بھی باعث حیرانگی تھی ایسا صرف فلموں ہی میں دیکھا تھا کہ کوئی پرانا گانا گایا جائے یا کوئی پرانی بات یاد دلائی جائے  تو انسان کی یاداشت لوٹ آتی ہے۔ ارسلان کے بائیں پاؤں کااور آنکھ کا آپریشن ہوا، اس کی بائیں پاؤں کی رگ جو چلنے میں مدد دیتی ہے۔ کٹ گئی اور اُس کے ٹھیک ہونے کے بعد چلنے میں نقص آگیا۔میرا بھی ڈیش بورڈ پر لگنے سے سر ہل گیا اور منہ پر نیل پڑگیا۔ نعیم ہسپتال میں مہینہ ایڈمٹ رہے۔ ہسپتال سے نکلنے کے بعد  نعیم کو مہینے کی چھٹی ملی۔
ایک دن یہ تلک چاڑی میں اپنے دوست عباس  سے ملنے اُس کی بیکری کیک لینڈ پر گئے۔ وہاں ایک پیانو پڑا تھا۔ عروضہ پانچ سال پانچ ماہ کی تھی اُس نے پیانو لینے کی ضد کر دی۔ عباس بھائی نے پیانو اُٹھا کر اُسے دے دیا۔نعیم نے کافی منع کیا لیکن وہ نہ مانی۔ خیر وہ پیانو لے کر گھر لے آئی جب تک اِس کے سیلوں کی جان نہ ختم ہوئی ہاری جان نہ چھوٹی۔ عروضہ نے بے ہنگم سر بجا کر اودم مچایا ہوا تھا اور باقی بچے بھی اُس کے ساتھ شامل ہو گئے۔  
فوجی یونٹوں میں ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ہلہ گلہ رہتا ہے اگر یہ نہ ہو تو، زندگی بہت بوجھل ہو کر گذرتی ہے، کھیلوں کے مقابلے، مینا بازار، سینما، میسوں میں تمبولا، میوزک شو وغیرہ۔ چنانچہ حیدر آبا میں بھی ہر مہینے کے پہلے اور تیسرے ویک اینڈ پر میس میں میوزک شو یا تمبولا ہوتا تھا۔ ہم سب گئے وہاں نعیم کی یونٹ کے ایک آفیسرمیجر اعجاز جو نئے آئے تھے، انہوں نے آرمی سکول آف میوزک سے کورس بھی کیا تھا۔انہوں نے بھی پروگرام پیش کیا۔عروضہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت اچھی آواز دی ہے، وہ قرء ت، نعتیں، ملی نغمے  اور اقبالیات نغمگی میں پڑھتی ہے، اُس وقت چو نکہ چھوٹی تھی تو، سوہنی دھرتی اور تیرا کونہ کونہ گھوموں اِس کو یاد کرایا تھا۔ جو اِس نے سٹیج پر پڑھا۔
دوسرے دن یونٹ میں میجر اعجاز نے نعیم کو کہا کہ، سر عروضہ کو، میوزک کے ساتھ پڑھنا سکھائیں۔ نعیم یونٹ میں سیکنڈ اِن کمانڈ تھے اُنہوں نے میجر اعجاز کو کہا کہ تم اُسے پیانو بجانا سکھا دو۔ میجر اعجاز نے وہی پرانی راگنی چھیڑی کی سر یہ بہت مشکل کام ہے۔ اِس کے سیکھنے میں عمر گذر جاتی ہے۔ انسان یہ آسانی سے نہی سیکھ سکتا۔ میں نے خود  یہ پندرہ سال میں سیکھا ہے،
نعیم نے کہا  مذاقاً کہا،‘’اعجاز اگر تم نالائق ہو تو سب کو اپنا جیسا مت سمجھو، میں اِسے پندرہ دن میں سکھا سکتا ہوں“۔
میجر اعجاز نے چیلنج کر دیا۔  نعیم، شام کو ہم سب کو ساتھ بٹھا کر کار میں حیدرآباد کی تما م دکانیں کھنگال ماریں۔ مگر انہیں میوزک کے سروں  بارے کوئی کتاب نہیں ملی۔ یہ واپسی پر لطیف آباد نمبر دو میں، وڈیو کی دکان پر رکے،ہنگاموں میں نعیم کی ڈیوٹی لطیف آبادمیں لگی تھی نعیم نے اتفاقا ً اِس کی دکان لٹنے سے بچائی تھی، تب سے اُ سے دوستی ہوئی وہ نعیم سے صرف یہ رعایت کرتا تھا کہ دو تین فلمیں دے دیتا  نعیم پیسے دے دیتے وہ کینٹ کی طرف آتا تو ہمارے ہاں آکر اپنی کیسٹ لے جاتا  نعیم نے کچھ کیسٹ لیں اور باتوں باتوں میں وڈیو والے سے پوچھا،
”کسی کے پاس سے میوزک سکھانے والی کتاب مل سکے گی“۔
اس نے پوچھا " کیوں سر جی خیریت تو ہے ؟ "
نعیم نے ماجرا بتایا۔ تو رکنے کا کہہ کر موٹر سائیکل پر غائب ہو گیا۔ پندرہ منٹ بعد واپس آیا، اور ایک کتاب نعیم کو دی  اور بولا،
”سر میں نے یہ کتاب کراچی سے خریدی تھی۔ میں تو اِس سے میوزک نہ سیکھ سکا آپ کو شش کر لیں، یہ میری طرف سے تحفہ ہے مرے پاس اور بھی کتابیں پڑی ہیں میں وہ بھی ڈھونڈ کر آپ کو دے دوں گا“
۔ نعیم  نے شکریہ کے ساتھ وہ کتاب لے لی۔ گھر آکر، پیانو نکالا، وہ تو بچوں کا پیانو تھا۔ نعیم وہ پیانو اور بچوں کو لے کر عباس کے پاس جا پہنچے۔عباس بس دکان بند کرنے والا تھا۔  نعیم نے کہا کہ اُس سے اچھا پیانو دکھاؤ۔اُس نے کہا کہ میرے پاس تو نہیں میرے بھائی کی دکان پر ہے جو آپ کے گھر کے پاس ہے وہیں چلتے ہیں اور اُس سے لیتے ہیں۔ عباس اپنی سکوٹر پر اور نعیم کار پر بھائی کی دکان پر پہنچے وہاں سے، بچوں کا ہی بڑا پیانو لیا، وہاں اتفاق سے ایک اور صاحب آئے تھے انہوں نے پیانو پر دو تین سر بجا کر اُسے، پاس کیا نعیم وہ لے کر بچوں کے ساتھ گھر آگئے۔
چاروں بچے اورنعیم پیانو پر کتاب کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق سیکھنے کی کوشش کریں، مگر وہ سرہی نہ پیدا ہوں۔ تین دن گذر گئے۔اچانک نعیم کو ترکیب سوجھی۔ نعیم نے، پیانو کی ”کی“ پر تین قسم کے رنگین سٹکرز  سے ساتوں ” سُر۔ سا۔ رے۔ گا۔ ما۔ پا۔ دھا۔ اور نی“لکھ دیئے اور کتاب میں دیئے ہوئے ”جیوے جیوے پاکستان“  کا مکمل نغمہ اپنی کاپی میں لکھا ور پیانو پر لکھے ہوئے سروں کے مطابق اسے آہستہ آہستہ  بجانے کو کوشش کی میں کچن میں کھاناپکار رہی تھی میرے کانوں میں جیوے جیوے پاکستان کے سر سنائی دئیے میں سمجھی ٹیپ پر چل رہے ہیں اور شائد ٹیپ کے سیل کمزور ہیں اس لئے تھوڑا سا بے ربط ہو جاتے ہیں۔
 اتنے میں نعیم نے زور سے آوازلگائی،”گل۔ے۔ے“
میں کمرے میں آئی تو کہنے لگے سنو اور پھر آہستہ آہستہ،”جیوے، جیوے، جیوے پاکستان، پاکستان، پاکستان، جیوے پاکستان“ ردھم میں سنا دیا۔ شام کو چاروں بچوں نے اِس لائن پر مہارت حاصل کر لی اور دوسرے دن رات تک پانچوں، ماہر ہو گئے، اُس کے بعد ”سوہنی دھرتی  اور یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اس کے“ پر پندرہ دنوں میں، چاروں بچوں نے مہارت حاصل کر لی۔
آفیسر میس میں ہفتے کی شام کو تمبولا ہوا، نعیم بھی تمبولا کھلاتے تھے بلکہ تما م جونئیر آفیسروں کو بھی موقع دیتے تا کہ اُن میں خوداعتمادی پیدا ہو ا اور بچوں کو بھی موقع دیتے۔ لوگ مختلف جوک بھی سناتے۔ لطیفے بھی چلتے۔غرض اچھا خاصا ہلا گلا رہتا۔دوہاؤس کے بعد نعیم نے اعلان کیا کہ میں آپ سب کو حیران کرنا کرنا چاہتا ہو ں اور میجر اعجاز سے کی ہوئی گفتگو دھرائی اور میجر اعجاز سے تصدیق کرائی۔ میجر اعجاز اپنی بات پر قائم رہے کہ میوزک سیکھنا، پھر وڈیو والے ریحان نے اپنی دکان میں ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا اور بتا یا کہ اُس نے تین کتابیں میجر نعیم کو تحفے میں اِ س لیے دیں کیوں کہ وہ خود میوزک سیکھنے میں ناکام ہو گیا۔اور وہ سمجھتا ہے کہ استاد کے بغیر کوئی بھی کام سیکھنا مشکل ہے۔
نعیم نے عروضہ کو بلایا۔  عروضہ نے پیانو پر سوہنی دھرتی سنایا۔سامعین نے بے تحاشا تالیاں بجائیں۔
پھر ارمغان کو بلایا وہ تھوڑا سا گڑبڑا گیا۔
ارسلان اور سائرہ نے بہت اچھے لگاتار ردھم کے ساتھ بجایا۔ آخر میں نعیم نے بتایا کہ دو سال پیانو بجانے والے کے ساتھ PMAمیں ایک کمرے میں رہنے کے باوجود مجھے نہیں معلوم تھا سُر کیا ہوتے ہیں اور اُنہیں کیسے ترتیب میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن میجر اعجاز کے چیلنج نے مجھے یہ بھی سکھا دیا۔ میجر اعجاز آپ شرط ہار چکے ہیں۔ یہ کہہ کر نعیم نے سوہنی دھرتی پیانو پر بجایا۔ سب نے تالیاں بجائیں۔ نعیم اور بچوں کو گفٹ دئے۔ اُس کے بعد نعیم نے تو کبھی پیانو نہیں بجایا البتہ بچوں نے خود کتاب سے مختلف نغموں اور گانوں کے سر سیکھے۔ اُ ن سب میں مہارت ارسلان نے حاصل کی۔ لیکن کیوں کہ یہ اُن کا شوق نہیں تھا لہذا  یہ شوق نہیں بنا،
اپریل میں،نے نعیم کے ایک پرانے بکس میں پڑی ہوئے وردیوں کو دھوپ لگانے کے لئے کھولا تو میری نواسی جو دو سال کی ہے نعیم کے میڈلز کی کھڑنگ کھڑنگ سے بہت خوش ہوئی وہ انہیں روپے سمجھ رہی تھی، نعیم کی میس کٹ کی جیکٹ اور ٹراوزر۔ جس کو پہنانے کے لئے نعیم کو آدھا چھیلنا پڑے۔اُسی بکس میں سے اٹک کے بعدشفٹنگ کے وقت ڈالا ہوا، پیانو بھی برآمد ہوا۔ جس کو اب ہماری نواسی جب ہمارے گھر آتی ہے تو شوق سے اُس کی ”کی“ پر انگلیاں مار کر  ”ٹاں ٹاں“کی آواز نکلنے پر خوش ہوتی ہے۔مجھے عروضہ کا بچپن یاد آجاتا ہے۔

دوسرے دن سب مل کر نتھیا گلی گئے وہاں خوب گھومے پھرے۔ باقی بسب باڑیاں کے لئے واپس ہوئے اور ہم۔ ایبٹ آباد  کے لئے روانہ ہوگئے رات آٹھ بجے ہم بلوچ میس کے گیسٹ روم پہنچے۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


اتوار، 19 اکتوبر، 2014

جادو کے صرف تین جملے!

ایک دفعہ کا ذکر ہے ، کہ ایک چھوٹے سے قصبے سے ایک کنبہ شہر میں آیا ، میاں بیوی کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا کہ دونوں آپس میں بے انتہا محبت کرتے ہیں اور میاں بیوی کی عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی، باہمی محبت اور خوشی اُتنی ہی بڑھ رہی تھی۔ اردگرد کی عورتوں کا خیال تھا :٭ -  شاید وہ ایک بہت ماہر اور اچھا کھانا پکانے والی ہے؟
٭ -  شاید  اُس کی خوب صورتی اُس کا راز ہے ، جو عمر کے ساتھ برقرار ہے ؟
٭ -  شاید اُس کی اولاد کی وجہ سے شوہر اُس کا گرویدہ ہے ؟
٭ -  شاید یا وہ اعلیٰ نسب کی خاندانی عورت ہے؟
٭ -  شاید وہ کوئی ، ایسا ٹوٹکا یا جادو جانتی ہے ۔ جس سے اُس کا شوہر اُس کے پلو سے بندھا ہے !

بالآخر عورتوں نے ، اُس کی دائمی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کا راز جاننے کے لئے پوچھا ۔ کہ ہماری آپ کے بارے میں اِن سوچوں میں سے کون سی سہی ہے ۔ یا ہمیں بھی وہ گُر بتائے کہ ہمارے شوہر بھی ہماری محبت کا دم بھرنے لگیں ۔

تو عورت نے مسکرا کر جواب دیا ،
٭ -  اچھے کھانے یقیناً، ہر شوہر کو قابو میں رکھنے کا گُر ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی کھانا پکانے میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے،اور بعض دفعہ کھانا بھی وجہ نزع بن جاتا ہے ۔
٭ -   جسمانی خوب صورتی  رفتہ رفتہ عمر کے ساتھ ڈھلتی جاتی ہے ، لیکن اُس کو عمر کے ساتھ برقرار رکھا جا سکتا ہے ۔ لیکن بیماریاں انسان کے تعاقب میں ہوتی ہیں ، معمولی غفلت جسمانی خوبصورت کو گھن کی طرح کھا جاتی ہے ۔
٭ -  اچھی سعادت مند اولاد ،شوہر کا فخر ہوتی ہے ۔ لیکن اولاد کی تمام غلطیاں ماں کے کھاتے میں جاتی ہیں اور اچھائیاں باپ کے ، اور ممکن ہی نہیں کہ بچوں سے غلطیاں سرزد نہ ہوں جو شوہر کی نظر میں نہ آئیں ؟
٭ -   بیوی کے اعلیٰ نسب یا خاندانی وجاہت سے گرویدہ شوہر بالآخر اُکتا جاتا ہے ۔
٭ -   ٹوٹکا یا جادو ایک اہم نکتہ ہے جس سے شوہر کو بیوی اپنے پلو میں باندھ سکتی ہے ۔عورتوں نے جب ٹوٹکے اور جادو کا سُنا تو بضد ہوگئیں کہ ہمیں بھی یہ سکھائیے ۔
" جب ایک لڑکی بیوی بن کر ، شوہر کے گھر جاتی ہے تو وہ ایک خاندان سے دوسرے خاندان کی طرف اپنی مستقبل کی خوشیوں بھری زندگی کی طرف منتقل ہوتی ہے ۔شادی سے پہلے اُس کا شوہر اُس کے لئے ایک محبوب ہوتا ہے اور عورت اُس کے لئے محبوبہ ، شادی کے بعد یہ رشتہ بظاہر ختم ہو جاتا ہے اور میاں بیوی کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے ۔ لیکن ایسا نہیں ہے محبوب اور محبوبہ کا رشتہ برقرار رہتا ہے لیکن آہستہ آہستہ بیوی خود اِس تعلق کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیتی ہے ۔"عورتیں توجہ سے بزرگ خاتون کی بات سن رہی تھیں ، وہ سانس لینے کو رکی ، عورتوں نے کہا
" یہ تو ہم جانتے ہیں آپ ہمیں ٹوٹکا بتائیے ۔  کہ شوہر کو کیسے قابو کیا جائے ؟"
بزرگ خاتون مسکرائی اور گویا ہوئی ۔

 " 
خوشیوں بھری زندگی کے اسباب  خود بیوی کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر بیوی چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت کی چھاؤں بنا سکتی ہے اوروہ اپنے گھر کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سےبھی بھر سکتی ہے!

ہمارے دور میں ایسی محبتوں کا رواج نہ تھا جیسی اب ہوتی ہیں ، منگنی ہوئی تو منگیتر نے محبوب کا درجہ اختیار کرنا شروع کر دیا ۔ اُس کی عادتوں پسند یا ناپسند کے بارے میں نندوں سے پوچھنا شروع کیا ، اُنہوں نے لازماً اپنے بھائی کی تعریف ہی کرنا تھی ، اپنے حلوے کو کون برا کہتا ہے !  
 کہنا کہ بھائی کو غلط بات پر غصہ آتا ہے ۔ ورنہ بھائی بہت محبت کرنے والے اور خوش مزاج ہیں ، بچوں میں تو اُن کی جان ہے ۔ وغیرہ وغیرہ

میں جب شادی ہو کر نئے گھر آئی تو ، حسبِ معمول میری ماں اور باپ نے مجھے بے شمار نصیحتیں کیں ، کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ اُن کی بیٹی ، دکھ بھری نہیں بلکہ سکھ اور خوشیوں سے بھرپور زندگی گذارنے جا رہی ہے ۔ اُس کے ساس اور سسر نے اُن کی بیٹی کو اپنے بیٹے کی مستقبل کی ساتھی کے طور پر کئی لڑکیوں کو دیکھنے کے بعد ، اپنی ، بہو ، بیٹے کی بیوی ، بیٹیوں اور بیٹوں  کی بھابی کے طور منتخب کیا ہے ، تاکہ وہ اُن کے خاندان کے اضافے کا باعث ہو ۔ میں نے اپنے والدین کی بات کو پلے سے باندھ لیا ، لہذا سب سے پہلا مرحلہ اپنی ساس ، سسر ، نندوں اور دیوروں پر  جادو کرنے کا تھا ۔
میرا شوہر یوں سمجھو اڑیل گھوڑے کی طرح تھا ، کہ زین ڈالو تو بُدک کر بھاگے، چارہ ڈالو تو مشکوک نظروں سے دیکھے ، اپنے والدین کے ہاں جاؤں تو ساتھ جائے اور واپسی پر ساتھ لے آئے ،  نہایت غصیلا تھا ، شوہر پر جادو کرنا بڑامشکل اور صبر آزما مر حلہ تھا ۔ لیکن جادو تو کرنا تھا تاکہ اُسے قابو میں کیا جاسکے عمر بھر کے لئے ، تو میں نے جادو کے صرف "تین جملے" استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔"عورتیں  یک دم بولیں، " وہ تین جملے کیا ہیں جلدی بتائیے ؟ "
ذرا صبر کرو  بتاتی ہوں ، بتاتی ہوں ۔
وہ تین جملے تھے ، جی اچھا ، بہت بہتر ، ابھی کرتی ہوں ۔
یہ تین جادو بھرے لفظوں نے سب گھر والوں ، بشمول شوہر کو رام کرنا شروع کیا ، اِس کے علاوہ " عمل " سے بھی کام لیا اُس کے بغیرتو جادو ناممکن ہے ۔ 
 "آپ نے عاملات کی مدد لی یا حاضرات کی ؟ " عورتوں نے پوچھا
" عاملات سے بھی مدد لی اور حاضرات سے بھی ، اِن کے بغیر تو شوہر پر قابو پانا ناممکن تھا "
خواتین ہمہ تن گوش ہو گئیں ۔
 " ہاں ، میں نے بتایا کہ میرا شوہر غصیلا ہے ۔ جب اُسے غصہ آتا تو میں خاموش ہو جاتی اور چپ کر کے اُس کی باتیں سنتی رہتی، کمرے سے اُٹھ کر نہ جاتی اور چہرے کو نہ مضحکہ خیز بناتی اور نہ مسکراتی ، بس پریشانی کے تاثر لاتی ،کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ اُنہوں نے مجھے سنانی ضرور ہیں ، کمرے سے باہر جانے پر، کمرے سے بلکہ گھر سے باہر والے سنتے ، جب وہ سناتے سناتے  دل کی بھڑاس نکال چکتے تو میں خاموشی سے باہر جاتی اور اُن کے لئے چائے یا شربت یا کوئی میٹھی چیز لاتی، اُن کے پاس رکھ کر ، کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر چلی جاتی، بچوں کو بتایا ہوا تھا کہ جب اُن کے ابو غصے میں ہوں تو کمر ے میں مت آئیں اور جب وہ اُن پر غصے ہوں تو کمرے سے نہ نکلیں ، 
کمرے سے نکل کر اپنے باقی کام کرتی ، اور دماغ میں اُن کے غصے کو وجوھات  اور حل تلاش کرتی ، تاکہ آئیندہ کے لئے سدباب کیا جاسکے اور مجھے حل مل جاتا ۔ آدھے گھنٹے بعد آکر دیکھتی کہ اُنہوں نے چائے یا شربت پی لیا ہے یا نہیں ، سوئے ہوئے ہیں یا جاگے ہوئے ۔ اگر وہ جاگے ہوئے ہیں اور چائے یا شربت پڑا ہوا ہے ، تو اِس کا مطلب یہ ہوتا کہ غصہ شدید ہے ابھی بھڑاس باقی ہے ۔مجھے اندازہ ہوتا کہ غصے کے باعث ، ضائع ہونے والی توانا ئی کو واپس لانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے، لہذاپھل کاٹ کر اُن کے پاس لاکر رکھ دیتی ، چائے یا شربت  اُٹھا کر لے جاتی۔
"تو کیا آپ اپنے شوہر کے بلاوجہ غصہ پر ناراض نہ ہوتیں اور بولنا نہیں چھوڑتیں" ؟ ایک نے پوچھا ۔
"آپ بتائیے کہ کتنے دن تک ناراض رہ کر شوہر سے بات کرنا چھوڑا جا سکتا ہے ؟ انہوں نے سوال کیا ۔
"جب تک شوہر نہ منائے " ؟ اُس نے جواب دیا ۔
"اور اگر شوہر ، تین دن یا ہفتے تک نہ منائے تو ! اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اُس کو خود سے دور رکھنے کا عادی بنا رہی ہیں ۔ یاد رکھیں اگر وہ اِس کا عادی ہوگیا تو آپ کی اپنے آپ سے دشمنی کا آغاز ہو گیا ۔
کبھی ایسا نہ کرنا ، کبھی نہیں ۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم سے بات چیت چھوڑنے کا مطلب ، اُسے گھر سے باہر نکلنے کا راستہ دکھانا ہے ۔ ایسا ہر گز نہ کرنا ۔بیوی کو شوہر کی نباض ہونا چاہئیے ، جراح نہیں ۔ جراحی کا کام وقت پر چھوڑ دو ۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے سکون کے لئے ساتھ رہتے ہیں ، عورت کو اپنے لئے محفوظ قلعہ چاہئیے اور مردکو عورت سے اپنا سکون۔  میں شوہر کو کبھی نہیں جتاتی کہ وہ غلط ہے اور میں صحیح ، میں اپنے شوہر کو احساس ہی نہیں ہونے دیتی کہ میں اُس سے ناراض ہوں ، اُس کے بار بار پوچھنے پر بھی ، میں کہتی ، آئیندہ غلطی نہیں ہو گی ، جب میں دوسروں کی غلطیوں کو بھی اپنا لیتی تو اُس کا رویہ مجھ سے نرم ہوجاتا اور محبت بڑھ جاتی ۔ وہ مجھے آئیندہ غصہ نہ کرنے کا یقین دلاتا اور پیار بھری باتیں کرتا تاکہ میرے ذہن سے وہ اپنے روئیے کو مٹا سکے ۔ 
" تو کیا آپ اُس کی پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟"  عورتوں نے پوچھا 
بالکل، کیا غصے میں کہی ہوئی باتوں کا یقین کرلیں اور پُر سکون حالت میں  پیار میں کہی ہوئی باتوں پر یقین نہ کریں ؟ یہ تو بیویوں کی حماقت ہے ۔ " وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا ایک عورت کی عزتِ نفس مجروح نہیں ہوتی آخر کو وہ بھی ایک انسان ہے ؟"  عورتوں نے پوچھا
" عزت نفس تو انسان خود اپنے ہاتھوں مجروح کرتا ہے ۔ یقیناً عورت انسان ہے ، بلا وجہ کوئی انسان دوسرے انسان پر غصہ نہیں ہوتا ، اور وجہ کاسبب بننے والا ، غصے کو برداشت کرنے کی ہمت بھی پیدا کرے ۔ تاکہ اُس وجہ کا سدباب ہو جو اُس کی عزت نسب مجروح کرنے کا سبب بنی ہے " 
" لیکن ہر وقت عورت ہی کیوں ؟"  عورتوں نے پوچھا
" عورت نہیں ، بلکہ ماں یا بیوی ! یوں سمجھو کہ جو ذمہ دار ہوگا وہ برداشت کرے گا ، بیوی گھر کی مالکہ ہوتی ہےاور مرد مکان کا ، اگر بچے مکان سے باہر کوئی خرابی پیدا کر کے آئیں ، تو لوگوں کا غصہ مالک مکان کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور بچے گھر میں خرابی کریں کو ، گھر کی مالکہ کو ، میں چونکہ اپنے شوہر کے گھر میں مالکہ بن کر آئی تھی ۔ لہذا برداشت مجھے ہی کرنا تھا ، میری پوری کوشش رہتی تھی کہ میرا شوہر  اپناغصہ کسی اور  کے سامنے نکالنے کے بجائے مجھ پر ہی نکالے اور گھر سے خوش و خرم نکلے اور مجھے رونے کے لئے میرے شوہر کا ہی کندھا ملے ۔ میری زندگی کو خوشگوار اور محبت سے بھرپور بنانے والے ، وہی تین جملے ہیں جو میں نے آپ کو بتائے ۔ 
جی اچھا ، بہت بہتر ، ابھی کرتی ہوں ۔

بیوی کے منہ سے نکلنے والے الفاظ ،  خوشگوار اور محبت بھری زندگی  کا جادو ہیں ۔
 

جمعہ، 17 اکتوبر، 2014

فوجی کی بیوی -5



وقت جلدی سے گذرنے لگا اور 1980آگیا، تین جنوری کو یہ ایک مہینے کی چھٹی پر اچانک آگئے۔ حالانکہ چند دن پہلے ان کا خط ملا انہوں نے اس میں ذکر تک نہیں کیا۔ سب اس اچانک سرپرائز پر خوش ہو گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیاآپ کو خط لکھنے کا وقت نہیں ملتا جو آپ ایک صفحے کا مشکل سے سادہ خط لکھتے ہیں۔ تب معلوم ہوا کہ جس علاقے میں یہ ہیں وہاں سے خط آرمی پوسٹ آفس کے ذریعے جاتے ہیں اور وہ ہر خط کو نہیں بلکہ کچھ خطوں کو کھول کر سنسر کرتے ہیں۔ لہذا سادہ خط لکھنا ان کی مجبوری ہے۔  میرپورخاص میں دو تین دن رہنے کے بعد  انہوں نے پروگرام بنایا کہ، کراچی جاکر میرے اور ان کے رشتہ داروں سے ملنا ہے۔ گویا یہ ایک قسم کا ہنی مون ٹرپ تھا۔
پانچ جنوری کو دوپہر ڈھائی بجے، میرپورخاص سے حیدرآباد جانے والی ٹرین پر ہمارا پروگرام تھا۔ اب چونکہ ایک دن پہلے ہی تیاری شروع کی امی کے گھر سے جاکر میں اپنے کپڑے لائی تو امی نے کہا کہ ہمارے گھر سے کھانا کھا کر جانا، لہذا دس بجے آجانا۔ جب  چلنے لگے تو میں نے اپنا سوٹ کیس نکالا انہوں نے پوچھا اس میں کیا  ہے میں نے بتایا میرے کپڑے ہیں۔ یہ ایک بڑا سا سوٹ کیس تھا۔ کوئٹہ کی ہوا ابھی نہیں چلی تھی لہذا کم سردی تھی اور امید تھی کہ ہمارے کراچی ہوتے چل پڑے گی تو میں گرم کپڑے بھی رکھے۔ انہوں نے کہا سوٹ کیس کھولو۔ میں نے سوٹ کیس کھولا۔ انہوں نے میرا ایک سوئیٹر نکالا اور تین جوڑے اور کہا یہ کافی ہیں۔ میں پریشان کہ شادی کے بعد پہلی دفعہ کراچی جارہی ہوں اور صرف تین جوڑے؟
میں نے پوچھا،”بس، صرف یہی؟“
کہنے لگے، "ہم ہفتے بعد واپس آجائیں گے لہذا  اتنا سامان کون  اٹھائے گا۔ ؟ "
اب کیا کرتی، تین سوٹ ایک سوئیٹر ان کے بیگ میں ٹھونسا، جس میں ان کی ایک سوئیٹر اور دو کرتے اور پاجامے ایک پینٹ پر پہنے والی قمیض اور بس۔
 
ان کے امی، ابو، دونوں بہنوں سے مل کر نکلے دونوں چھوٹے بھائی بھی ساتھ تھے ایک نے بیگ اٹھایا اور امی کے گھر پہنچے۔ دونوں بھابیاں ان کے پیچھے کہ یہ کیا سامان ہے کراچی میں ڈھیر سارے رشتہ دار ہیں سب کے گھر نئی دلہن ایک ہی جوڑاپہن کر جائے گی۔ امی کے گھر بھی میرے کپڑے پڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ سوٹ کیس اٹھا سکتی ہے تو بے شک دو سوٹ کیس دے دیں میں تو نہیں اٹھاؤں گا۔  چھوٹی بھابی پریشان، امی نے سمجھایا۔ کہ نعیم ٹھیک تو کہہ رہے ہیں کہ کیا ضرورت ہے ہفتے کے لئے مہینے بھر کے کپڑے لے جانے کی؟ کھانا کھایا۔ گھر سے ریلوے سٹیشن تک کا سفر بیس منٹ کا تھا  اور اگر والکرٹ کی طرف سے جائیں تو  دس بارہ منٹ لگتے۔ ان کا پروگرام تھا  دوبجے نکل کر آرام سے پہنچ جائیں گے۔ ساڑھے بارہ بجے کھانے سے فارغ  ہوئے کہ دورازے پر گھنٹی بجی۔ معلوم ہوا کہ اباجان نے تانگے والے کوکہا تھا وہ آگیا یہ حیران کہ اتنی جلدی جاکرکیا کریں گے۔ خیر بڑی مشکل سے یہ تیار ہوئے۔ابا جان بضد کہ ہمیں سٹیشن پر چھوڑ کر آئیں گے، یہ کہیں کہ خالو، کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔ بڑی مشکل سے اباجان راضی ہوئے ِ ان کے دونوں بھائی کہیں کہ وہ بھی ساتھ جائیں گے اور ہمیں سٹیشن پر چھوڑ کر واپس آجائیں گے۔ انہوں نے منع کر دیا،بلکہ ان کا سب سے چھوٹا بھائی، میرے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ بھائی سے کہہ کر مجھے بھی کراچی ساتھ لے چلو۔ بہرحال ہم تانگے میں بیٹھے۔ ہمارے گھر سے آدھا میل دور پانی کی ٹینک کے پاس سے ِ میرواہ، ڈگری اور جیمس آباد جانے والی سڑک گذرتی۔ تانگہ جب وہاں پہنچاتو ایک خوبصورت سے بس اقبال کمپنی کی آکر رکی اور آوازآئی حیدر آباد کراچی،  حیدر آباد کراچی،  انہوں نے تانگے والے کو کہا روکو۔ہم بس سے جائیں گے۔ تانگے والے نے پوچھا آپ سٹیشن نہیں جائیں گے۔ انہوں کہا نہیں آپ واپس جائیں تو وہ کہنے لگا کہ باقی پیسے میں آپ کو دوں یا شیخ صاحب کو؟ انہوں نے کہا ان کو دے دینا۔  ہم دونوں بس میں سوار ہو گئے۔  بس آدھی بھری ہوئی تھی۔
انہوں نے مجھے عورتوں والی سیٹ پر بٹھایا اور خود مجھ سے دو سیٹ پیچھے کسی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ مجھے سخت غصہ آیا کہ  پیچھے دو افراد کی سیٹ خالی تھی ہم دونوں وہاں بیٹھ جاتے۔ اب سارے راستے میں چپ بیٹھ کرڈھائی گھنٹے کا سفر کروں۔ ٹنڈو الہ یار میں آدھی بس خالی ہو گئی یہ جہاں بیٹھے تھے انہوں نے مجھے وہاں بلا لیا۔ معلوم ہوا کہ ان کے دو جاننے والے بس میں بیٹھے تھے ایک تو ان کے کلاس فیلو تھے اور دوسرے ان کے ابا کے دوست۔ لہذا شرم کی وجہ سے یہ میرے ساتھ نہیں بیٹھے۔ ٹنڈو الہ یار میں بسیں تقریباً بیس منٹ رکتی ہیں۔ جو پرانے سفر کرنے والے ہیں وہ  حیدرآباد جانے کے لئے ٹنڈو الہ یار تک کا ٹکٹ لیتے اور سٹاپ پر اتر کر سب سے اگلی بس میں بیٹھ جاتے اس طرح آدھے گھنٹے کی بچت ہو جاتی۔ ہماری بس سب سے آگے آئی۔ تو عورتوں کی سیٹ پر عورتیں آکر بیٹھ گئیں۔ جو نہی بس چلنے کے لئے آگے بڑھی  تو ان کے استاد  الطاف صاحب اور ان کی بیگم بس میں سوار ہوئیں۔ انہوں نے میرے ساتھ، ان کی بیگم کو بٹھا دیا اور خود کھڑے ہوگئے۔ ان کے استاد کو ایک سیٹ مل گئی۔  مجھے پریشانی، بس کا بونٹ جو اندر ہوتا ہے وہ خالی مگر یہ اس پر نہ بیٹھے۔ ٹنڈو الہ یارسے ٹنڈو جام موڑ تک انہوں نے کھڑے ہو کر سفر کیا۔ حیدرآبادشہر میں داخل ہوئے تو ان کو سیٹ مل گئی۔ بس ریلوے سٹیشن کے پاس رکی۔ہم دونوں اترے اور وہاں سے رکشامیں بیٹھ کر ، حیدرآباد کینٹ میں ان کے ابو کے فیملی فرینڈ کے بیٹے مظہر حسین جو ایم۔ ای۔ ایس میں ایس۔ڈی۔ او،  تھے وہاں پہنچے۔ مظہربھائی آفس گئے تھے ان کی بیگم پروین باجی گھر پر تھیں بہت خوش ہوئیں۔ یہ توکھانا کھا کر سو گئے تو پروین باجی مجھے لے محلے میں اپنی تین سہیلیوں کے گھر لے کر گئیں۔ مظہر بھائی اور پروین باجی آپس میں کزن تھے اور راولپنڈی میں ٹنچ بھاٹہ میں جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے، ہماری شادی پر، پروین باجی، ان کے چھوٹے دیور اور جیٹھ  اپنی بیٹی کے ساتھ آئے تھے۔پانچ بجے،مظہر بھائی بھی آگئے۔

باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ آج آفیسر میں تمبولا ہے۔ انہوں نے فوراً پروگرام بنا لیا۔مظہر بھائی نے معذرت کر لی۔ مغرب کے بعد ہم دونوں گھر  آفیسر میس پہنچے۔ تھوڑے لوگ آئے تھے۔ انہوں نے آفیسرز میس دکھایا۔ میس میں داخل ہونے کے بعد  الٹے ہاتھ پر قائد اعظم کی تصویر تھی اس کے نیچے ایک میز پر ایک بڑا سا رجسٹر پڑا تھا جس کے غالباً پہلے صفحے پر وزیر اعظم محترم ذوالفقار علی بھٹو کے ہری سیاہی سے دستخط تھے۔ کیوں کہ انہوں نے اس میس کا افتتاح کیا تھا اور ہری رنگ کی ایک لکیر نیچے تک کھینچی ہوئی تھی۔تاکہ وزیر اعظم کے بعد کوئی اور دستخط نہ کرے اور دوسرے صفحے پرسیکنڈ لیفٹنٹ فاروق احمد کے دستخط تھے جس نے وزیر اعظم کی تقلید میں اپنے دستخط کر کے نیچے ایک نیلی لکیر کھینچ دی۔ اس کے ساتھ کیا ہوا ِ مؤرخ یہ بتانے سے قاصر ہے لیکن سنا ہے کہ بریگیڈ کمانڈر نے سیکنڈ لیفٹننٹ کو بلوایا اور خوب جھاڑا۔

میس گھوم کر باہر نکلے اور لان میں جاکر بیٹھ گئے۔ نعیم دو کارڈ لے آئے لیڈیز اوربچوں کے لئے کارڈ مفت تھا  اور مردوں   کے لئے کارڈ کی قیمت ایک روپیہ۔ مجھے سمجھانے لگے کہ تمبولا کیسے کھیلا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد کھیل شروع ہوا میں کنفیوز ہو گئی اور نعیم سے پوچھا کہ یہ کیا سیدھی طرح نمبر نہیں بول سکتے۔ نعیم، مجھے نمبر بتاتے میرا کوئی نمبر نہیں کٹ رہا تھا۔ آفیسرز اور ان کے بچے نعرے لگا رہے تھے کہ یہ نمبر نکالو۔ کھلانے والے نے اعلان کیا کہ جس کا کوئی نمبر نہیں کٹا ہو وہ کھڑا ہوجائے۔ میں شرمندگی سے کھڑی نہ ہوں کہ باقی لوگ کیا کہیں گے۔ اس نے دوبارہ اعلان کیا کہ بدقسمت لوگ کھڑے ہوجائیں۔ تو مجھ سمیت کوئی بارہ  افراد کھڑے ہو گئے جن میں تین عورتیں بھی تھیں۔ مجھے حوصلہ ہوا۔ اگلا نمبر بولا گیا۔ پانچ افراد بیٹھ گئے۔ پھر نمبر بولا تو دو افراد بیٹھ گئے۔اب دو عورتیں اور تین افراد کھڑے تھے۔پھر نمبر بولا گیا۔ ایک خاتون بیٹھ گئیں۔ کسی نے نعرہ لگایا ”نعیم میری ہمدردی تمھارے ساتھ ہیں“، یہ نعیم کے کورس میٹ  کیپٹن جاوید تھے۔ اگلے دو نمبر کے  بعد صرف میں کھڑی تھی۔ میجر ابرار جو تمبولا کھلا رہے تھے۔
انہوں نے کہا،”لیڈیز اینڈ جنٹلمین، آج کے پہلے ہاؤس کی پہلی بدقسمت خاتون“۔
کیپٹن جاوید نے دوبارہ نعرہ لگایا، ”نیولی ویڈ“۔
جس پر میجر ابرار نے کہا، ”کہ اپنے شوہر نامدار کے ساتھ تشریف لائیں“ ہم دونوں ساتھ گئے، انہوں نے، تمبولے کا تحفہ اور ”آج کے مہمان“ کا ایک تحفہ دیا۔

 سب نے تالیاں بجائیں۔  اپنی نشست پر آکر تحفہ کھولا۔ ایک بڑا مگ تھا اور دوسرا خوبصورت سا گلدان۔
تمبولا، ایک کھیل ہے جو انگریزوں نے مہینے میں ایک دفعہ اپنے گھروں سے دور فوج کی ملازمت میں رہنے والوں اور سول سروسز کے آفیسروں کے لئے ایک اچھی شام گذارنے کے لئے ایجاد کیا۔ سب اپنے اپنے کارڈ خریدتے ہر کارڈ پر خانوں کی تین لائین ہوتیں ہیں۔ اور ہر لائین میں پانچ نمبر لکھے ہوتے۔ پہلی لائین، دوسری لائین، تیسری لائین۔ کل پندرہ نمبر۔ کھلانے والے کے تھیلے میں پیتل کی ڈسک پر لکھے ہوئے کل 90نمبر ہوتے۔ کھیل میں دلچپسی کے لئے مختلف انعام رکھے جاتی ہیں ہیں۔
جن میں ”خوش قسمت“  جس کے پہلے کوئی سے پانچ نمبر کٹ جائیں۔
 ”بد قسمت“ جس کا کوئی نمبر نہ کٹے۔
  ”ٹاپ لائین“ جس کی پہلی لائین کے تمام پانچ نمبر کٹ جائیں۔
اسی طرح ”سنٹر  اور باٹم لائن“
پھر ”اہرام“  پہلی لائین کا ایک نمبر، دوسری لائن کے دو نمبر اور تیسری لائین کے تین نمبر۔ اسی طرح ”الٹا اہرام“۔
  پھر ”چار کونے اور بُل“  یعنی پہلی لائین اور تیسری  لائین کے کونے کے  نمبر اور درمیانی لائین کا بیچ کا نمبر۔
  پھر فل ہاؤس  یعنی جس کے سب سے پہلے تمام پندرہ نمبر کٹ جائیں۔
پھر  ”سنو بال“  اس میں پہلے تیس نمبر میں جس کے کارڈ کے تمام نمبر کٹ جائیں یہ اس شام کا آخری کھیل ہوتا ہے ۔
 ہاں اس گیم میں ہر ہاؤس  میں  خریدے گئے ٹکٹوں کی آدھی رقم مختلف انعاموں کے لئے اور آدھی رقم ”سنو بال“ کے لئے رکھ لی جاتی۔ نمبر پکارا جاتا اور کھیلنے والے اپنے کارڈ سے نمبر کاٹتے رہتے۔ کھلانے والا  اپنے سامنے رکھے ہوئے بورڈ پر نکلا ہوا نمبر اس کے اپنے خانے میں رکھتا جاتا  اور ہر نمبر کے ساتھ کوئی نہ کوئی واقع، جگہ یا مشہو ر فوجی یونٹ کانام یا اعزاز منسوب ہوتا۔ مثلا۔ نمبر 21نکلتا تو  ”رائل سلیوٹ“  ٹو اینڈ ون،  ٹوئینٹی ون کہا جاتا ہے۔ 88 کو ”ٹو فیٹ لیڈیز“ ایٹ اینڈ ایٹ، ایٹی ایٹ کہا جاتا۔ کھیلنے والوں  کے نمبر کٹتے جاتے۔ شور مچاتا جاتا۔ جو کھیلتے وہ تو نعرے لگاتے اور نہ کھیلنے والے بھی، فوج کے خشک ماحول کی ماہانہ گھٹن نکالنے کے لئے ان کا ساتھ دیتے۔ جس کے نمبرپہلے کٹ جاتے
جس کا  انعام نکلتا تو ایک ساتھ بیٹھاہوا گروپ  آفیسر میس یا کلب کا لان سر پر اٹھا لیتا۔
تمبولا، فوجی آفیسروں کا مقبول کھیل تھا۔  جہاں دس آفیسرز میس میں جمع ہوئے۔ وہاں تمبولا،لازمی ہوتا، جس طرح ہر کھیل، جواریوں کے ہاتھ تباہ ہوتا ہے اسی طرح تمبولا کے ساتھ بھی ہوا۔ کراچی فلیٹ کلب میں پاکستان کا سب سے بڑا تمبولا کھیلا جاتا۔ ہزاروں لوگ کھیلتے۔”سنو بال ہاؤس“ بیس ہزار تک کا شاید کھیلا جاتا۔ 1977کے بعد، تمبولے کو جواء قرار دے کر اسے ”قابل دست اندازیء پولیس“ قرار دے دیا۔  جنانچہ فوج میں بھی کچھ عرصہ تمبولا بند رہا ۔ پھر خیال آیا کہ اس طرح تو گذارا نہیں ہوگا۔ فوج کا ماحول اور گھٹن زدہ ہو گیا۔ اب صرف آفیسرز، کسی کی پوسٹنگ پر دیئے گئے کھانوں پر اپنی بیگمات کے ساتھ جمع ہوتے۔ بچوں کا آپس میں میل جول، سکول یا پڑوس میں رہ گیا۔ چنانچہ،”بنگو“ کے نام سے  اسلامی کھیل متعارف کرایا گیا۔ سارا جسم وہی تھا صرف نام کا برقع پہنا کر رقم کے بجائے گفٹ انعام میں ملنے لگے۔
جن میں، ”چھوٹے  انعام“  مگ، گلدان، فریم شدہ سینری  یا پینٹنگ  اور بڑا نعام، ہاؤس میں جمع رقم کے مطابق، کٹلری سیٹ، کافی سیٹ یا ٹی سیٹ پر مشتمل ہوتا، ہاں شور مچانے اور نعرے مارنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن  1977 سے 1980تک
زمانہ کافی آگے آچکا تھا۔ 
پہلے ہاؤس کے بعد ہمارا گروپ بھی بن گیا۔ دو نعیم کے کورس میٹ، کیپٹن  بٹ،  کپٹن جاوید، جو  اپنی بیوی اور خوبصورت سے گول مٹول ایک سالہ بیٹے  جہانزیب کے ساتھ۔ ایک کیپٹن سعید جو سی ایم ایچ میں کوارٹرماسٹر تھے اور ان سے ڈیڑھ سال سینئر تھے یعنی 51لانگ کورس کے اور پی ایم اے میں اورنگ زیب کمپنی کے تھے۔جس میں نعیم ”پہلی ٹرم“ میں تھے۔ بعد میں کیپٹن سعید فارن سروسزز  کے لئے سلیکٹ ہو گئے وہ اپنی بیوی اور بہن کے ساتھ آئے تھے۔ ہماری ٹیبل پر آگئے۔ کیوں کہ سب سے جونئیر ہم لوگ تھے۔باقی سینئر آفیسرز تھے۔ ان کے یونٹ کے میجر ”طارق“ جو کشمیر میں ان کے ساتھ تھے اور حیدرآباد کے رہنے والے تھے اپنی بیوی اور تین۔ چھوٹی بیٹیوں۔ ماریہ۔(دس سال)۔ کنزہ (آٹھ سال) اور جویریہ (پانچ سال) یہ  پہلے ہاؤس  کے بعد آئے تھے۔

 پہلا ہاؤس کھیلنے کے بعد میں نے انکار کر دیا۔ کیوں کہ مجھے نمبر سمجھ نہیں آتے تھے۔ میرا کارڈ نعیم ہی کاٹتے رہے۔ تینوں بچیوں کے آنے سے میں ان کے ساتھ مصروف ہو گئی۔ ماریہ اور کنزہ بہت تیز تھیں اورذہین بھی۔ کوئی نمبر پکارا جاتا، تو میں انہیں تنگ کرنے کے لئے کوئی دوسرا نمبر بتاتی لیکن مجال ہے کہ ان کی توجہ میں کوئی فرق آیا ہو۔ ہاؤس مکمل ہونے کے بعد سب، کارڈ مجھے دے دیتے۔ میں سب کو میز پر بچھا کر جویریہ کے ساتھ، جو نمبر پکارا جاتا میں کاٹتی رہتی۔ کوئی نہ کوئی کارڈ پورا کٹ جا تا۔ جویریہ کی خوشی قابل دید ہوتی۔
  جویریہ زور سے پکارتی ”یس“۔
جس کا مطلب ہوتا کہ ہمارا کارڈ کٹ گیا ہے۔ جس پر لوگ ہماری طرف متوجہ ہو جاتے۔ تھوڑی دیر تک جب ہماری ٹیبل سے کوئی نہ کھڑا ہوتا تو، ”بوگی، بوگی“ کا شور  مچتا لیکن جویریہ اپنی ”ماما“کو کارڈ دکھاتی ”مسز طارق“ اپنے بیگ سے دو ٹافیاں نکالتیں اور جویریہ کو دیتیں۔ جویریہ ایک مجھے دیتی اور ایک خود کھاتی۔ تیسرے ہاؤس کے بعد  کیپٹن جاوید کی مسز کپٹن سعید کی مسز اور ان کی بہن بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئیں۔ انہیں بھی نمبر سمجھ نہیں آتے جس کی وجہ سے وہ بور ہونے لگیں۔ اب وہ میرے ساتھ گپیں لگانا چاہیں اور جویریہ شور مچائے۔ کہ میں اس کے ساتھ ”بنگو“ کھیلوں۔ سب مردوں نے ”ویٹرز“ کو آرڈر دے کر ”چپس، پکوڑے، تکے اور کولڈ ڈرنکس منگوائیں۔ نعیم کو میجر طارق نے منع کر دیا۔ جوتھے ہاؤس کے دوران ویٹر کھانے کا سامان لے آیا ِ ہم تینوں کے علاوہ، باقی چھ افراد انہماک  سے ”بنگو“ کھیلنے اور کھانے میں 
مصروف تھے اور میں دیگر خواتین کے ساتھ باتیں کرنے کے علاوہ،جویریہ کے ساتھ، اس کے کارڈ کٹوا رہی تھی۔

پانچواں ہاؤس ”سنو بال“ تھا۔ اسے کے لئے کوئی کارڈ فری نہیں تھا۔ قیمت وہی ایک روپیہ۔ اس وقت تک کھیل اپنے جوبن پر پہنچ چکا تھا۔ مجھے اور باقی تینوں خواتین نے بھی کھیلنے کا پروگرام بنایا کیوں کہ انعام میں چھ افراد کاکٹلری سیٹ تھا۔ ایک شیٹ  پر چھ کوپن ہوتے ہیں جس میں پورے 90نمبر ہوتے ہیں۔ سب نے ایک ایک شیٹ خریدی،اورتو اور دونوں بچیوں نے دو دو کوپن کی ضد کی۔ نعیم تو دو کارڈ لائے،
کیپٹن  جاوید نے چوٹ کی، ”یار کنجوسی مت دکھاخود نہیں تو بھابھی کے لئے ایک شیٹ  لے لے“۔
”نعیم نے کہا کہ یہ آج کاا نعام لے چکی ہیں اور میرا انعام آج تک نہیں نکلا تو خواہ مخواہ پیسے ضائع کرنے کی کیا -ضرورت؟۔ خوشی کے لئے کھیلو جوئے کیلئے نہیں“۔
میجر طارق فوراً چمک کر بولے، ”فتویٰ مت دے۔ امیر المؤمنین نے جائز کر دیا ہے“۔

باقی اب پھر خواتین اپنے اپنے مردوں کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ جویریہ کو بھی معلوم تھا کہ اس ہاؤس میں تنگ نہیں کرنا اس کی امی نے اسے اپنے پاس بلایا، لیکن وہ میرے ساتھ چپکی رہی۔

سنو بال شروع ہوا اور25 نمبروں  کے بعد میرا صرف ایک نمبر 54رہ گیا تھا۔جو نعیم کا پی ایم اے کا کورس تھا۔ سب کی توجہ ہم پرہوگئی۔ جویریہ دعائیں مانگنے لگی۔ میری بھی عجیب حالت۔ ہر نمبر نکلنے سے پہلے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔
 آخری نمبر سے پہلے میجر ابرار نے پوچھاAny body sweating ?,
    پورے گروپ نے نعرہ لگایا ”یس“۔  
میجر ابرار نے نمبر نکالا اور بولے، " Guess which Number"
شور مچا، 54۔
 لیکن نمبر تھا 11۔
مجھے نہیں معلوم کہ آپ  پڑھتے ہوئے کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن یہ لکھتے ہوئے۔ میں اس وقت، حیدرآبا د آفیسرز میس کے لان میں بیٹھی ہوئی ہوں ، یک دم خاموشی چھا گئی ہے ۔ ٹھنڈی سڑک سے گذرنے والے رکشے کی ٹرٹراہٹ ، خاموشی میں جل تھل پیدا کرتی ہے اور پھر خاموشی اور ان سب پر حاوی میری  ”سانس“ ہے  جو اس وقت نکلی تھی۔ سب نے ہمدردی کی، لیکن میں سوچ رہی تھی کہ کیا میں واقعی، ”بد قسمت“ ہوں۔ میں نے نعیم سے،رندھی ہوئی آواز میں پوچھا۔ وہ بولے، ”بے وقوف، یہ ایک کھیل ہے انعام نکل گیا تو بہتر ورنہ کھیل کو تو انجوئے کیا۔ اچھا چلو کھڑی ہوجاؤ“۔ کیوں میں نے پوچھا۔  میجر ابرار نے اعلان کیا ہے کہ جن کا آخری نمبر رہ گیا ہے وہ کھڑے ہو جائیں۔

مجھ سمیت تین افراد کھڑے ہو گئے۔  صرف میرا 54 نمبر تھا ان دونوں کے 44،  میجر ابرار نے پھر کہا کہ جن کے دو نمبر رہتے ہوں وہ کھڑے ہوں۔ پانچ افراد  اور کھڑے ہو گئے۔  54اور  26 کے تین،  44 اور 26 کے دو ۔ گویا تین نمبر میجر ابرار نے پوچھا کیا 93نمبر تک”سنو بال“ بڑھا دیں۔  سب نے  ہاں، ہاں کا شور مچایا۔ میجر ابرار نے تھیلے کو ہلا کر نمبر نکالا اور ہمارے صبر کا امتحان لیتے رہے کسی کا بھی نمبر نہیں نکلا۔  اب انعام تو دینا تھا۔ کٹلری سیٹ کے بجائے۔ ٹی سیٹ کا اعلان ہوا۔ اب ہاؤس باقی سات نمبروں میں نکلنا تھا۔  چھٹا نمبر پکارا گیا۔ 54 ۔ہمارے گروپ  نے بلند آواز میں نعرہ مارا ”گریٹ“ اور یوں  ٹی سیٹ کی حقدار میں ٹہری۔  اس کے بعد،  ٹوکن کے پیچھے نام لکھ کر  ”لکی ڈرا“ کے لئے ڈالنے تھے۔ مردوں اور عورتوں کے الگ الگ بکس تھے۔ ہمارے گروپ نے تمام کوپن کے پیچھے  جویریہ کا نام لکھ کر جویریہ سے بکس میں ڈلوادیا۔  لیڈیز کا انعام،  جویریہ کا نکلا۔  اور اس طرح میری زندگی کہ پہلی شام میرے لئے یادگار بن گئی۔ 





٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

فوجی کی بیوی -6 - زیرِطباعت

ہونہار بِروا - 1

بدھ، 19 مارچ، 2014

ماں کی نصیحت ، بیٹی کی نام

 میری پیاری بیٹی ،میری آنکھو ں کی ٹھنڈک ،شوہر کے گھر جا کر قناعت والی زندگی گزارنے کا اہتمام کرنا۔ جو دال روٹی ملے اس پر راضی رہنا ، جو روکھی سو کھی شو ہر کی خوشی کے ساتھ مل جائے وہ اس مر غ پلاؤ سے بہتر ہے جو تمہارے ۔اصرار کرنے پر اس نے نا راضگی سے دیا ہو ۔
میری پیاری بیٹی ، اس بات کا خیال رکھنا کہ اپنے شوہر کی با ت کو ہمیشہ توجہ سے سننا اور اسکو اہمیت دینا اور ہر حال میں ان کی بات پر عمل کرنے کی کو شش کرنا اس طر ح تم ان کے دل میں جگہ بنا لو گی کیو نکہ آدمی نہیں، بلکہ آدمی کا کام پیارا ہو تا ہے ۔

میری پیاری بیٹی ، اپنی زینت و جمال کا ایسا خیال رکھنا کہ جب وہ تجھے نگاہ بھر کے دیکھے تو اپنے انتخاب پر خو ش ہو اور سادگی کے ساتھ جتنی بھی استطاعت ہو خوشبو کا اہتمام ضرور کرنا اور یاد رکھنا کہ تیرے جسم ولباس کی کوئی بو یا کوئی بری ہیت اسے نفر ت و کرا ہت نہ دلائے ۔

میری پیاری بیٹی ، اپنے شو ہر کی نگاہ میں بھلی معلوم ہو نے کے لیے اپنی آنکھوں کو سرمے اور کاجل سے حسن دینا کیونکہ پر کشش آنکھیں پورے وجود کو دیکھنے والے کی نگا ہوں میں جچا دیتی ہیں ۔ غسل اور وضو کا اہتمام کرنا کہ یہ سب سے اچھی خوشبو ہے اور لطافت کا بہترین ذریعہ ہے ۔

میری پیاری بیٹی ، ان کا کھانا وقت سے پہلے ہی اہتمام سے تیار رکھنا کیونکہ دیر تک برداشت کی جانی والی بھوک بھڑکتے ہوئے شعلے کی مانند ہو جاتی ہے اور ان کے آرام کرنے اور نیند پوری کرنے کے اوقات میں سکون کا ماحول بنانا کیونکہ نیند ادھوری رہ جائے تو طبیعت میں غصہ اور چڑچڑاپن پیدا ہو جا تا ہے ۔
میری پیاری بیٹی ، ان کے گھر اور انکے مال کی نگرانی یعنی ان کے بغیر اجازت کوئی گھر میں نہ آئے اور ان کا مال لغویات ، نمائش و فیشن میں بر باد نہ کرنا کیونکہ مال کی بہتر نگہداشت حسن انتظام سے ہوتی ہے اور اہل عیال کی بہتر حفاظت حسن تدبر سے ۔میری پیاری بیٹی ،  یاد رکھنا ، تمھارے شوہر کی اجازت کے بٖغیر ، تمھارے شوہرکا مال ، تمھارے شوہر کی بغیر اجازت ، بہن بھائیوں کو دئیے گئے تحفے ، ہمارے لئے ناجائز ہیں ۔ شوہر کی کمائی سے یہاں تک کہ تمھیں دئیے ہوئے اس کے مال سے بھی اس کی اجازت اور تحفہ اسے دکھائے بغیر کسی کو نہ دینا ۔
میری پیاری بیٹی ،کرے گی اور تم اگر اس کا راز دوسروں سے چھپا کر نہ رکھ سکیں تو اسکا اعتماد تم پر سے ہٹ جا ئیگا اور پھر تم بھی اس کے دو رخے پن سے محفوظ نہیں رہ سکو گی ۔
میری پیاری بیٹی ، جب وہ کسی با ت پر غمگین ہو ، تو اپنی کسی خوشی کا اظہار ان کے سامنے نہ کرنا یعنی ان کے غم میں برابر کی شریک رہنا۔ شوہر کی کسی خوشی کے وقت غم کے اثرات چہرے پر نہ لا نا اورنہ ہی شوہر سے ان کے کسی رویے کی شکایت کر نا ۔ ان کی خوشی میں خوش رہنا۔ورنہ تم ان کے قلب کے مکدر کرنے والی شمار ہو گی۔

میری پیاری بیٹی ، اگر تم ان کی نگا ہوں میں قابل تکریم بننا چاہتی ہو تو اس کی عزت اور احترام کا خوب خیال رکھنا اور اسکی مرضی کے مطابق چلنا تو اس کو بھی ہمیشہ ہمیشہ اپنی زندگی کے ہر ہر مرحلے میں اپنا بہترین رفیق پاؤ  گی۔
میری پیاری بیٹی ، میری اس نصیحت کو پلو سے باندھ لو اور اس پر گرہ لگا لو کہ جب تک تم ان کی خوشی اور مرضی کی خاطر کئی بار اپنا دل نہیں مارو گی اور اس کی بات اوپر رکھنے کے لیے خواہ تمہیں پسند ہو یا ناپسند، زندگی کے کئی مرحلوں میں اپنے دل میں اٹھنے والی خواہشو ں کو دفن نہیں کرو گی اس وقت تک تمہاری زندگی میں بھی خوشیو ں کے پھول نہیں کھلیں گے ۔

اے میری پیا ری اور لا ڈلی بیٹی ان نصیحتو ں کے ساتھ میں تمہیں اللہ کے حوالہ کرتی ہوں اللہ تعالیٰ زندگی کے تمام مرحلوں میں تمہارے لیے خیر مقدر فرمائے اور ہر برائی سے تم کو بچائے۔ 

پیر، 3 مارچ، 2014

ہونہار بِروا - 4


          منگلا سے ہم مری روانہ ہوئے، جہاں ہم ہفتہ  کلڈنہ  ٹہرے نعیم کے  یونٹ آفیسر وہاں
 انسٹرکٹر تھے۔ کمروں  کی ایک لمبی سی لائن کے آخر میں ایک کمرہ ہمیں ملا ہو تھا جس کے بعد چیڑ کے درخت تھے جن پر بندر اپنی فیملی کے ساتھ آجاتے اور انسانوں کو دیکھتے  رہتے کہ کوئی کھانے کی چیز کب پھینکتے ہیں۔ان میں ایک بندریا اپنے پندرہ دن یا مہینے کے لاغر بچے کو کمر پر بٹھائے یا سینے سے چمٹائے کھانے کی چیزیں لینے آتی۔ تیسری صبح بھی بندر اپنی فیملی کے ساتھ آئے۔ بچے ناشتہ کرنے کمرے میں آگئے۔ عروضہ باہر کرسی پر بیٹھ گئی اور بندروں  کی درختوں پر اچھل کود دیکھنے کے لئے رک گئی میں نے اس کا ناشتہ باہر دے دیا وہ  وقفے وقفے کے بعد پاپ کارن پھینک دیتی جو بندر اچک کر لے جاتے۔ ہم کمرے میں ناشتہ کر رہے تھے۔

عروضہ کمرے میں آئی اور اپنا پراٹھا لے کر باہر چلی گئی۔پھر آئی اور پراٹھا مانگا میں حیران تھی کہ اس نے بغیر منت سماجت کئے ناشتہ کیسے کر لیا۔ میں نے پراٹھا دے دیا۔ نعیم نے سائرہ کو کہا دیکھو کہیں یہ بندروں کو ناشتہ تو نہیں کرا رہی۔ سائرہ باہر گئی اور بتایا کہ ایک بندریا اپنے بچے کے ساتھ کرسی پر بیٹھی ہے اور عروضہ برامدے میں بیٹھ کر بندریا کو پراٹھے کے ٹکڑے پھینک رہی ہے۔ اور وہ اچک اچک کر خود بھی کھا ر ہی ہے اور منہ سے چبا کر بچے کو بھی دے رہی ہے۔باقی بندر درختوں پر بیٹھے خو خو کر رہے ہیں۔ ہم لوگوں کے باہر نکلنے سے بندریا اپنے بچے کو پیٹھ پر بٹھائے چھلانگ مار کر درخت پر چڑھ گئی۔باقی بندر دور ہٹ گئے۔ اب روزانہ صبح، عروضہ کا یہی مشغلہ ہو گیا۔ وہ اپنا اور بندریا اور اُس کے بچے کا پراٹھا لے کر باہر جا بیٹھتی اور بندریا کو ناشتہ کراتی، بندریا اُس سے ہل گئی اور درخت سے اتر کر اس کے قریب آکر بیٹھ جاتی لیکن چوکس انداز میں اگر عروضہ کوئی چیز لانے کے لئے اُٹھتی تو وہ چھلانگ مار کر درخت پر چڑھ جاتی۔
            اس سارے  عرصے میں سانپ اور کچھوا بھی ہمارے ساتھ تھا۔ بلکہ مری  سے چارگھونگھے Snailبھی پکڑ لئے تھے ۔عروضہ کی بڑی خواہش تھی کہ بندریا بچے کو چھوڑے تو وہ بچہ پکڑ لے اور پھر اپنے ساتھ اٹک لے جائے۔ تب نعیم نے اسے ڈرایا، کہ دیکھو وہ جو بچے کا باپ ہے تمھیں غور سے دیکھ رہا ہے اور بندریا کو  کہہ رہا ہے کہ یہ لڑکی کتنی اچھی ہے۔ ہمیں پراٹھا دے رہی ہے  او رتمھیں پراٹھا بنانا نہیں آتا۔ کیوں نہ ہم اس لڑکی کو لے جائیں یہ ہمیں پراٹھے بنا کر دے گی۔ہم اس کا درخت پر خوبصورت سا پنجرہ بنا دیں گے۔ عروضہ یہ سن کر خوف زدہ ہوگئی کہ میں اپنے ماما اور پپا کے بغیر کیسے رہ سکتی ہوں۔ تب نعیم نے سمجھایا کہ وہ دیکھو چھوٹے بچے کا بھائی ہے وہ بہن ہے وہ خالہ چچا اور دوسرے  رشتہ دار ہیں سب ایک ساتھ رہتے ہیں اگر ان سے بچہ چھین لیا جائے تو یہ پاگل ہوجائیں گے اور انسانوں کو دشمن سمجھ کر کاٹیں گے۔ عروضہ کے بات سمجھ آگئی

لیکن ایک اور پریشانی پید ہو گئی۔ اس نے نعیم سے پوچھا کہ کیا سارے، پرندوں، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے ماں، باپ اور بہن بھائی ہوتے ہیں؟ نعیم نے بتایا کہ ہاں سب کے ہوتے ہیں۔ تو پھر جو سانپ اور کچھوا ہم لے کر جارہے ہیں، پھر ان کے بھی ماں، باپ اور بہن بھائی ہوں گے نعیم نے کہا ہاں، Snail
 کی تو پوری فیملی ہمارے ساتھ تھی لہذا اس کی عروضہ کو فکر نہ ہوئی لیکن سانپ اور کچھوے کے لئے عروضہ پیچھے پڑ گئی۔کہ ان دونوں کو واپس اسی جگہ چھوڑکر آئیں۔کچھوے کے بارے میں وہ مان گئی، کیوں کہ کوئٹہ میں ہمارے پاس جو کچھوا تھا وہ اکیلا تھا لیکن اُس نے بتایا کہ گوجرانوالہ میس میں جو ویٹر چاچا تھا اُس نے بتایا تھا کہ سانپ کی مادہ ہوتی ہے وہ  اکیلی رہ گئی ہو گی اور اب آپ لوگ جہاں بھی جائیں آپ کے پیچھے آجائے گی۔  نعیم نے کہا کوئی بات نہیں، مادہ گجرانوالہ سے چل پڑی ہوگی۔سانپ ایک دن میں تین میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ ابھی تو وزیر آباد بھی نہیں پہنچی ہوگی اٹک پہنچنے میں مہینہ لگے گا۔ ہم اس کو بھی اپنے پاس رکھ لیں گے۔ تاکہ بے چاروں کو کھانے کی پریشانی نہ رہے۔

مری خوبصورت اور قدرتی نظاروں سے بھر پور ہے۔ فوج کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جہاں ہوتی ہے بنجر زمین کو نخلستان بنا دیتی ہے۔ صفائی کے لحاظ سے کنٹونمنٹ ایریا کی مثال دی جا سکتی ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شادی کے بعد، میں نعیم کے ساتھ پہلی بچی کی پیدائش سے پہلے خوب گھومی۔ لاہور سے پارا چنار کے اس وقت کے کینٹ اور آج، ڈویلپمنٹ کے لحاظ سے زمین
آسمان کا فرق ہے۔ کینٹ کی آبادی بڑھنے کے باوجود کینٹ کی صفائی میں کوئی فرق نہیں آیا۔

      مری میں سب سے خوبصورت بھوربن کا کھلا علاقہ ہے۔ نعیم اور دوسرے آفیسر نے اتوار کو گالف کھیلنے کا پروگرام اور ہم تمام فیملیز نے پکنک کا پروگرام بنایا، یہ تو آٹھ بجے اپنے اپنے بیگ کے ساتھ نکل گئے، ارمغان اور سائرہ بھی ساتھ گئے۔ میں عروضہ اور ارسلان، خواتین
اورپکنک کے سامان ساتھ دس بجے بھوربن پہنچے۔عروضہ نے سانپ کا بکس بھی ساتھ لے لیا تھا۔

گالف کلب کے ایک حصے میں، بیٹھنے کا انتظام کیا۔ بچے اپنے اپنے کھیل کھیلنے لگے، ہم خواتین کا
 ایک ہی موضوع ہوتا ہے اور وہ صرف شاپنگ اور شاپنگ ہی ہے کہ کون سی اچھی اور سستی مارکیٹ ہے جہاں دھوکہ نہیں دیا جاتا۔ ہم بات کر رہے تھے کہ سائرہ اور ارمغان، ایک راونڈ گالف کھیل کر واپس آئے۔ سائرہ نے سانپ کا بکس کھولا اور چینخی۔ ماما اس میں سانپ نہیں ہے۔ تمام خواتین اور بچے بشمول میں چینختے ہوئے دور بھاگے۔ ہمیں بھاگتا دیکھ کر سائرہ نے قہقہ لگایا۔ ہم سمجھ گئیں کہ اس نے مذاق کیا ہے۔ خواتین اور بچے نزدیک آئے تو سائرہ نے سانپ کو اٹھا کر نکال لیا تمام خواتین اور بچے، اسے نصیحتیں کریں کہ اسے واپس ڈال دو ورنہ یہ کاٹ لے گا۔

بہرحال بعد میں تمام بہادر خواتین اور بچوں نے سانپ کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھا اور تصویریں بنائیں۔ ساڑھے گیارہ بجے چاروں مرد حضرات گالف کھیل کر واپس آئے، بچوں نے اپنے اپنے ابو کو سانپ کا بتا یا وہ بھی حیران ہوئے کہ اُن کے بچوں نے سانپ پکڑنے کی بہادری کیسے  دکھائی۔ سانپ سے کھیلنا پکنک کا سب سے اچھا ایونٹ رہا،  میں سب کو بطور کنسلٹنٹ  ہدایات دیتی،کہ سانپ کو کس طرح پکڑنا ہے کہ وہ ہاتھ کے دباؤ سے خوفزدہ نہ ہوجائے۔ تمام بھابیاں بھی مجھ سے مرعوب تھیں۔ کہ سائرہ نے بھانڈا پھوڑا، ہو ایوں کہ میں آرام سے بیٹھی گپ لگا رہی تھی کہ اُس نے سانپ کی دم میری آنکھوں کے سامنے میرے پیچھے کھڑے ہو کر لہرائی۔
میری چینخ بلا مبالغہ مری مال روڈ تک سنائی دی ہو گی۔ تب راز کھلا کہ سب سے زیادہ سانپ سے میں ڈرتی ہوں، ایک بھابی نے پوچھا۔ اس کے تو دانت نکال دیئے ہیں۔اب تو تین مہینے کے بعد آئیں گئے۔ پھر آپ کیوں ڈر رہی ہیں۔میں نے کہا واہ بھابی آپ تین مہینے کا انتظار کر رہی ہیں اور اگر سانپ کے دانت ابھی اُگ آئے تو کیا ہوگا؟ 



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعرات، 20 فروری، 2014

فوجی کی بیوی - 4




                سسرال پہنچی، تو باراتی ہم سے پہلے پہنچ گئے تھے استقبال ہوا۔محلہ کی ساری عورتیں ان کے گھر جمع تھیں ِ بچے بھی نعیم بھائی و انکل کی دلہن دیکھنے امنڈے  پڑ رہے تھے۔  کوئی منہ دکھائی میں ٹافیاں ڈال رہا ہے تو کوئی بسکٹ دے رہا ہے، ساڑھے دس بجے ان کو ڈھونڈا جا رہا تھا مگر یہ غائب تھے۔ چھوٹے بھائیوں کو دوستوں کے پاس دوڑایا یہ ندارد۔ رات کو گیارہ بجے مہمان جانے شروع ہوئے بستر بچھانے کے لئے، سیڑھیوں کے نیچے والے حصے کا دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ دولہا میاں تین فٹ ضرب چار فٹ کے بستر رکھنے والےمچان میں رضائیوں کے اوپر سوٹ سمیت سو رہے تھے۔  بھائی مل گئے کا نعرہ ان کی چھوٹی بہن نے لگایا یہ آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھے منھ دھویا، کمرے میں داخل کیسے ہوں دروازے پر لڑکیوں نے قبضہ جمایا ہوا تھا،پیسے دے کر جان چھڑائی، کمرے میں داخل ہوئے مسہری پر ان کا دس سالہ بھائی وسیم اور میرا چھ سالہ بھتیجا گڈو سوئے ہوئے تھے۔  ان دونوں کو اٹھایا تو دونوں نے کمرے سے نکلنے سے انکار کر دیا۔ گڈو میکے میں میرے ساتھ سوتا تھا، بہر حال دونوں کو دوبارہ سونے دیا آدھے گھنٹے بعد ان کے چھوٹے بھائی چپکے سے اٹھا کر دونوں کو دوسرے کمروں میں لے گئے۔ 

                دوسرے دن جمعرات تھی ولیمہ ہوا گھر کے سامنے سڑک پر شامیانے لگائے گئے۔ دوپہر ایک بجے کھانا شروع ہوا اور دو بجے تک ختم ہو گیا، شامیانے سمیٹ لئے گئے۔ اس کے بعد آنے والے مہمانوں کو بیٹھک میں کھانا کھلایا ِ۔ تین بجے چھوٹے بھائی جان آکر مجھے لے گئے۔  اگلے دن جمعہ رات کے کھانے کے بعد میں ان کے ساتھ دوبارہ  اپنے سسرال آگئی۔ ان کی چھوٹی بہن سعیدہ نے مجھ سے پوچھا کہ بھابی آپ بھائی کو کیسے بلائیں گی؟ اب مجھے سمجھ نہ آئے، ہماری بھابیاں بھائیوں کو، اجی، سنیئے، گڈو کے ابا وغیرہ کہہ کر بلاتی تھیں میں کیا کہہ کر بلاؤں؟ کیوں کہ ان دنوں یہی چلتا تھا۔  میں نے کہا اپنے بھائی سے پوچھو انہیں کیا اچھا لگے گا؟ ان سے پوچھا انہوں نے کہا، ”نعیم“  مجھے بڑا عجیب لگا کہ، مجھ سے بڑے بھی ہیں اور شوہر بھی اور نام سے بلاؤں، چنانچہ کافی عرصہ سنیئے ہی سے کام چلایا۔

                 انہوں نے گیارہ تاریخ کو واپس اپنی یونٹ چلا جانا تھا۔لہذا دس تاریخ کورسم کے مطابق میں نے شام کو کھیر پکائی، محلے اورعزیزوں دوستوں کے گھر تقسیم کی گئی۔ مغرب کے بعد انہوں نے مجھے، اپنے چھوٹے  بھائی کی بیوی، بانو(ان کی شادی سال پہلے ہو گئی تھی)  اور دونوں بہنوں کو بٹھا لیا اور جوائینٹ فیملی سسٹم کا سب سے بڑی وجہ نزع کو انہوں نے ایک ہفتہ وار پروگرام کاغذ پر بنا کر حل کر لیا اور وہ  چاروں کی گھر کے کام کاج میں ڈیوٹیوں کی تقسیم تھی ُ کہ گھر کا کھانا کس کس نے کب کب پکانا ھے۔ صبح اور دوپہر کے برتن تو کام والی دھوتی تھی لیکن رات کے کھانے کے بعد برتن کون کون دھوئے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ٹائم ٹیبل بنا کر کچن میں ٹانگ دیا۔ اور ہاں میرا میکہ تو دو گلی چھوڑ کر تھا اور  بانو کانواب شاہ، چنانچہ اس بات کا بھی خیال رکھا، یہ اور بات کہ ہم دونو ں دیورانی اور جٹھانی نے بقائے باہمی کے اصولوں پر اپنے اپنے کام بعد میں ایڈجسٹ کر لئے، چونکہ کھانا میں اچھا بناتی تھی لہذا کھانے کی تما م ذمہ داری  مجھ پر آگئی۔  بانو کو چونکہ اسی مہینے خوشخبری ملنے والی تھی لہذا، اس کے آرام کو بھی مد نظر رکھنا پڑا۔

 اگلے دن یہ روانہ ہو ئے تومیرے آنسو نکل آئے ان کے سب گھر والوں نے میرا مذاق اڑانا شروع کر دیا،ہمارے بھائی چھٹی کے بعد واپس جاتے تو میں نے بھابیوں کو روتا ہی دیکھا اور یہ لوگ رونے سے منع کر رہے۔ ان کی امی نے کہا بہو جانے والے کو ہنسی خوشی رخصت کرتے ہیں۔تاکہ اسے پردیس میں ہنستے چہرے یاد رہیں۔ یہ بات دل کو لگی میں نے آنسو پونچھ ڈالے۔ 

                ان کے جانے کے دوسرے دن میں میکے چلی گئی۔ وہاں تین دن رہ کر سسرال واپس چھوٹی بہن کے ساتھ آئی تودس بجے  ان کا خط آیا ہوا تھا۔ سعیدہ نے خط مٹھائی کھائے بغیر دینے سے انکار کر دیا۔ بہرحال گلاب جامن منگوائے تب ان کا خط ملا۔ اب خط کیسے پڑھوں؟یہ سب لوگ اس امید پر کہ میں خط کھولوں تو یہ بھی سنیں اور میری خط کھولنے کی ہمت نہ پڑے۔یہ میرے نام کسی لڑکے کا پہلا خط تھا۔ میں نے خط الماری میں رکھ کر تالا لگادیا۔  اب یہ تینوں میرے پیچھے کہ بھائی کا خط سناؤ، اب میں پریشان،ان کی امی نے آکر سب کو دوڑا دیا۔ لیکن دوپہر کو پھر یہ سب میرے کمرے میں آگھسیں، بھائی کا خط پڑھا  میں نے کہا نہیں۔نہیں پڑھ لیا ہمیں بھی سناؤ ، سعیدہ مجھ سے تین مہینے چھوٹی تھی۔ وہ ناراض ہو گئی میں نے منایا اور کہا پہلے میں پڑھوں گی اور خود سناؤں گی۔ پڑھنے کو نہیں دوں گی۔ تینوں راضی ہوگئیں۔ میں نے دھڑکتے دل سے الماری کھولی۔ تمام دعائیں جو یاد تھیں پڑھ لیں کہ انہوں نے کوئی ایسی بات نہ لکھی ہو کہ مجھے شرمندگی ہو۔ ان کو دور بٹھا کر خط کھولا۔ پڑھا  ایک بے ضرر سا خط تھا اللہ کا شکر ادا کیا اور خط سعیدہ کو دے دیا، اس نے پڑھا اور بانو کو دے دیا،  بانو نے پڑھ کر حمیدہ کو دیا اور حمیدہ  اور فردوس دونوں نے پڑھا۔ بانو نے شرارت کی بھابی، لفافے میں دیکھیں کوئی اور رقعہ تو نہیں، لفافے کو اچھی طرح جھاڑا کچھ نہیں۔ شام کو چھوٹے بھائی آکر چھوٹی بہن فردوس کو لے گئے۔  گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر ہم سب چھت پر آبیٹھے او ر گپیں شروع ہوگئی ان کی بڑی بہن آپا کوئیٹہ سے شادی میں شرکت کے لئے اپنی  دو چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ آئی تھیں۔ انہوں نے اپنے بچپن کے قصے سنانے شروع کر دئے جو زیادہ  تر آپا اور ان کے تھے سب ہنسیں اور مجھے ہنسی بھی آئے اور غصہ بھی، کہ یہ سب میرے شوہر کا مذاق اڑا رہے ہیں ِ ان کی امی نے غالباً میر چہرہ پڑھ لیا بولیں، ”گل، میرا نمو بہت سیدھا تھا اور یہ نجمی اس کو بہت تنگ کرتی اور پھر اپنے ابا مار کھاتی“۔ آپا شادی کے بعد دو ہفتے رہیں اور دونوں  ہفتے وہ اپنی بچپن کی شرارتوں کے قصے ایسے مزے سے سناتیں کہ ہنستے ہنستے ہم سب کے پیٹ میں بل پڑھ جاتے۔ 

                غالباً یہ  1959کا ذکر ہے۔ ان کے ابو کی پوسٹنگ ایبٹ آباد میں تھی۔یہ  پانچ سال کے تھے،  آپا سات سال کی، امین  چار سال اور سعیدہ ایک سال،یہ ”پکی“ جماعت میں تھے اور آپا دوسری جماعت میں تھیں۔ سکول کا نام "گورنمنٹ برکی پرائمری سکول" تھا۔ جو ان کے گھر سے سو گز کے فاصلے پر تھا۔ آپا بچپن سے بہت ذھین اور پڑھائی میں تیز تھیں۔ تین چار دن بعد، ان کی امی نے مرغی پکائی،غالباً مہمان آئے تھی، مرغی کے پروں کو مکئی کے خالی بھٹے میں لگا کر آپا نے کھلونا بنایا جسے اوپر پھینکیں تو آرام سے گھومتا ہوا نیچے آتا تھا۔ کھیل کھیلتے ہوئے ان کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر میں یہ پر باندھ لوں تو کیا میں بھی پری کی طرح اڑ  سکوں گا۔ انہوں نے آپا سے پوچھا آپا نے کہاہاں بالکل اڑ سکتے ہو۔ آپا نے ان کے دونوں کندھوں پر، مرغی کے چھ چھ پرلگا دئے۔ اب کہاں سے اُڑا جائے؟  گھر کے نزیک بہنے والے پختہ برساتی نالی جو دو فٹ چوڑی  اور  اتنی ہی گہری تھی (جو میں نے بعد میں جون 1999) میں نعیم نے ہمیں دکھائی)  یہ چھلانگ لگا کر اسے پار کر جاتے تھے۔چنانچہ اس کے اوپر سے چھلانگ لگا کر اڑنے کا فیصلہ کیا گیا طے یہ پایا کہ پہلے یہ اڑیں گے اور پھر آپا۔دونوں بہن بھائی نے  نالی کے ایک طرف اینٹوں سے ایک فٹ اونچا  تھڑا بنایا۔ یہ پیچھے سے دوڑتے آئے، تھڑے پر پاؤں رکھا فضا میں بلند ہونے کی کوشش کی اور تھڑے کی ایک اینٹ پھسل جانے سے یہ نالی میں جاگرے اور بے ہوش ہو گئے۔ آپا نے زور زور سے رونا شروع کیا ان کی امی اور پڑوسن گلزار خالہ دوڑتی ہوئی آئیں اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔گلزار خالہ کو جب معلوم ہوا کہ یہ نجمی کی شرارت تھی تو انہوں ان کی خوب دھنائی کی۔ اس دن کے بعد محلے والے بچے انہیں ”نعیم پری“ کے نام سے چھیڑتے۔  اور ان پر ایک گانا بھی بنا لیا تھا۔
” نعیم پری آنا۔ پر لگا کر اُڑجانا۔ نالے میں گرجانا۔شور نہ مچانا۔ نعیم پری آنا “  

                گلزار خالہ، ان کی زندگی کی ایک اہم شخصیت ہیں، ان کے شوہر کا نام اقبال صاحب تھا اور یہ چواء سیدن شاہ  چکوال میں سخی سیدن شاہ کے شمال میں واقع  محلے کے رہنے والے تھے۔ ان کی شادی کو چھ سال ہو گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا تھا،  جب نعیم کی پیدائش ہوئی تو یہ دونوں گھرانے لاہور میں تھے۔ نعیم کی پیدائش پر ان کی امی بہت بیمار ہوگئیں، ان کا سسرال میرپورخاص میں تھا۔ دادی آ نہیں سکتیں تھیں چنانچہ گلزار خالہ نے انہیں پالا،  ان کے والد کی پوسٹنگ ایبٹ آباد ہو گئی، ان دو نوں وہ میڈیکل کورمیں نائب صوبیدار تھے یہ لوگ  یہاں آگئے تو یہ گلزار خالہ کی جدائی میں بہت بیمارہوگئے پھر نائب صوبیدار اقبال صاحب کی پوسٹنگ بھی چھ مہینے بعد ایبٹ آباد ہو گئی اور اتفاق سے پڑوس میں گھر مل گیا تو یہ پھر زیادہ تر گلزار خالہ کے ہاں ہی رہتے اور وہ اپنے بیٹے کی طرح اس کا خیال رکھتیں۔ بلکہ یہ انہیں اپنے ساتھ اپنے گاؤں دو مہینے کی چھٹیوں پر بھی لے کر گئیں تھیں۔ جہاں سے نعیم خالص پنجابی لہجہ لے کر آئے تھے اور گلزار خالہ کے ساتھ اپنی توتلی زبان میں پنجابی بولتے تھے۔اب تو جب میں بھی کراچی جاتی ہوں یا کراچی والے رشتہ دار آتے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ گل بھی پنجابی ہو گئی ہے اور ہمیں ان کے لہجے عجیب لگتے ہیں۔

                دوسرے دن میں ان کو خط لکھنے بیٹھی اب سمجھ نہ آئے کہ کہاں سے شروع کروں اور کیا لکھوں۔پھر خیال آیا کہ ان کے جانے کے بعد واقعات لکھنا شروع کروں۔ خط بھی لکھا جائے گا اور انہیں بھی معلومات رہے گی۔ اب ان کے ابو کہیں جلدی خط لکھ کر دو پوسٹ بھی کرنا ہے کیوں کہ لفافے میں انہوں نے بھی رقعہ ڈالنا تھا اور میر خط ختم ہی نہ ہو، اپنے سکول اور کالج میں تقریریں اور امتحان میں مضامین لکھنے کی جو مہارت تھی وہ  خط میں سموئی نہیں جارہی تھی۔بہرحال تین صفحے پر مشتمل ڈائری نامہ لکھ کر اپنے سسرکے حوالے کیا، انہوں نے میری ساس کو دکھایا۔ خط پوسٹ ہونے کے بعد ساس نے سمجھایا کہ بہو خط میں روزانہ کی کہانی نہیں لکھی جاتی۔ 

                16نومبر کو جمعہ تھا اور اس دن صبح دس بجے سے بارہ بجے تک ان کے ہاں قرآن کا درس ہوتا جو ان کی امی دیتیں تھیں، پچھلے جمعے میں اپنے میکے تھی لہذا اب ساری ذمہ داری مجھ پر سونپی گئی کیونکہ بانو کو چند دنوں میں خوشخبری ملنے والی تھی۔ لہذا وہ بستر پر لیٹ گئی۔ کوئی پچیس ،تیس کے قریب عورتیں اور بچیاں آئیں، درس قرآن کے بعد، مجھ سے نعت کی فرمائش کی گئی۔ میں نے حمد اور دو نعتیں سنائیں۔ سب نے ان کی امی کو مبارکباد دی کہ بہت اچھی بہو ملی ھے۔ میں بھی خوش  اب میری ڈیوٹی بچوں کو ترنم سے نعت سنانے کی لگ گئی۔ 


                22 نومبر کو بانوکے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ فائزہ صدف نام رکھا، ان کے خاندان میں بیٹوں سے یہ پہلی بچی تھی، خوشی منائی گئی محلے میں جانے والوں کے مٹھائی بھجوائی گئی۔ میں چونکہ اپنے بھتیجے اور بھتیجیوں کو سنبھال چکی تھی لہذا مجھے بھی بچی کو سنبھالنے میں دشواری نہیں ہوئی۔ غالباً دسمبر کا پہلا ہفتہ تھا۔ فردوس آئی اور اس نے خوشخبری سنائی کہ اس اتوار کو نورجہاں فلم لگ رہی ھے ہم سب دو پہر کا شو دیکھنے جا رہے ہیں۔ چھوٹے بھائی نے ایڈوانس بکنگ کروا لی ہے۔بھابی نے کہا ہے کہ آپ بھی آجائیں۔ میں نے انکار کر دیا، میری بہن بہت حیران ہوئی۔ ان کی امی سے اجازت لی انہوں نے کہا، گل کی مرضی۔ہفتے کو میں امی کے گھر گئی سب نے بہت زور لگایا مگر میں نے انکار کردیا۔ میں نے واپس شام تک اپنے سسرال جانا تھا۔ لیکن میں دس بجے واپس آگئی۔ ان کی امی نے کہا کے تم فلم دیکھنے نہیں جارہی۔میں نے کہا نہیں۔ ان کی امی بھی حیران ہوئیں کہ میں نے کیسے انکار کر دیا۔ حالانکہ مہینے میں کم از کم ایک دفعہ ہم سب فلم دیکھنے سینما ضرور جاتے تھے اور یہ بات میری ساس کو معلوم تھی۔ دراصل، نعیم نے مجھے منع کر دیا تھا۔ نعیم غالبا 1978 فروری میں رنگین ٹی وی، پشاور سے خرید کر لائے تھے۔ تاکہ ان کے چھوٹے دونوں بھائی باہر جا کر ٹی وی نہ دیکھیں۔  اس کے لئے انہوں نے بڑی مشکل سے اپنے ابو کو منایا تھا۔ پھر ان کی والدہ اور بہنیں جب ہمارے ہاں میری منگنی کے بعد آتیں تو ڈرامہ لازمی دیکھ کر جاتیں۔ لیکن یہ سینما فلم دیکھنے کبھی نہیں گئیں۔  

                وقت جلدی سے گذرنے لگا اور 1980آگیا، تین جنوری کو یہ ایک مہینے کی چھٹی پر اچانک آگئے۔ حالانکہ چند دن پہلے ان کا خط ملا انہوں نے اس میں ذکر تک نہیں کیا۔ سب اس اچانک سرپرائز پر خوش ہو گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیاآپ کو خط لکھنے کا وقت نہیں ملتا جو آپ ایک صفحے کا مشکل سے سادہ خط لکھتے ھیں۔ تب معلوم ہوا کہ جس علاقے میں یہ ہیں وہاں سے خط آرمی پوسٹ آفس کے ذریعے جاتے ہیں اور وہ ہر خط کو نہیں بلکہ کچھ خطوں کو کھول کر سنسر کرتے ہیں۔ لہذا سادہ خط لکھنا ان کی مجبوری ہے۔  میرپورخاص میں دو تین دن رہنے کے بعد  انہوں نے پروگرام بنایا کہ، کراچی جاکر میرے اور ان کے رشتہ داروں سے ملنا ہے۔ گویا یہ ایک قسم کا ہنی مون ٹرپ تھا۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

فوجی کی بیوی -6 - زیرِطباعت

ہونہار بِروا - 1