Pages

اولاد نامہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اولاد نامہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 20 اپریل، 2015

ہونہار بروا-6

ایبٹ آباد، رات آٹھ بجے ہم بلوچ میس کے گیسٹ روم پہنچے۔غالباً  جولائی 1999کی 19 تاریخ تھی۔ میس میں نعیم نے کمرے کے سامنے گاڑی کھڑی کی۔ بچوں نے سامان اٹھا کر کمرے میں پہنچایا۔ چونکہ ہم نے میس میں کھانے کا نہیں بتایا تھا کھانے کا پروگرام باہر تھا۔ چنانچہ سامان رکھ کر ہم شہر کی طرف نکل گئے اور ہوٹل میں کھانا کھایا۔ رات واپس آئے تو ہمیں، اٹینڈنٹ نے بتایا کہ میجر منیر بٹ صاحب نے پیغام دیا ہے کہ کل دو بجے کے بعد ہم شنکیاری کے لئے روانہ ہوں گے۔ آپ لوگ دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھائیں گے اور ہم رات شنکیاری میں ہی ٹہریں گے۔ 
دوسرے دن،گیارہ بجے میجر منیر بٹ نے گاڑی بھیج دی کیوں کہ نعیم صبح صبح گالف کھیلنے نکل گئے تھے۔ ہم  میجر منیر بٹ  کے گھر پہنچے وہاں، ان کے بچے، اسد، عائشہ، احسن اور مومنہ ہمارے بچوں کے ہم عمر تھے۔ نعیم اور  میجر منیر بٹ  ساتھ آئے۔ کھانا کھایا اور تقریباً ساڑھے تین بجے اپنی اپنی گاڑیوں میں شنکیاری کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں مانسہرہ بائی پاس سے گذرتے ہوئے شہنشاہ اشوکا کے کھنڈرات کے پاس رکے، بچوں نے تصویریں بنائیں۔ پھر سب روانہ ہوئے۔ شنکیاری، مغرب سے پہلے پہنچے اور میس میں جا کر ٹہرے،
شنکیاری سے ہم دونوں فیملی کی پرانی یادیں وابستہ ہیں۔ غالباً اگست 1981میں نعیم  نے جہلم سے کمپنی کمانڈر کورس کرنے  شنکیاری ڈویژنل بیٹل سکول جانا تھا۔ چنانچہ انہوں نے چھٹی لے کرمجھے اور سائرہ کو میرپورخاص چھوڑا اور خود شنکیاری آگئے۔ یہاں  میجر منیر بٹ صاحب بھی گلگت سے کورس کرنے آئے انہوں نے نعیم کو قائل کیا کہ فیملی لے آئیں اور دونوں مل کر شہر میں گھر کرائے پر لے لیتے ہیں۔ چنانچہ نعیم نے مجھے خط لکھا، میں دس ستمبر کو اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اکیلی سفر پر نکلی اور وہ بھی حیدر آباد سے راولپنڈی تک، دس مہینے کی سائرہ کے ساتھ یہ میرا ایک دلچسپ سفر تھا۔ راولپنڈی میں نعیم آگئے۔پھر ان کے ساتھ شنکیاری پہنچی، مسز منیر بٹ بھی اپنے سات مہینے کے بیٹے اسد کے ساتھ آگئیں۔  
شنکیاری میں دبئی سے آنے والے ایک شخص نے ہوٹل بنایا تھا۔ جس کی پہلی منزل پر پانچ کمرے تھے۔ وہ تین سال سے خالی پڑا تھا صرف گراونڈ فلور کی دکانیں کرایہ پر لگی تھیں وہ۔ ان دونوں نے کرایہ پر لے لیا سرکاری فرنیچر میں صرف چار، ٹیوبلر چارپائیاں اور تین کرسیاں لے کر رہنے کے قابل بنایا، اور ہم دونوں فیملی 29اکتوبر 1981تک یہاں ٹہرے۔ ان دونوں کے جانے کے بعد ہم دونوں اور دونوں بچوں میں مصروف ہو جاتیں۔ دو بجے آنے کے بعد نعیم کھانا کھاتے سو جاتے اور رات کے کھانے کے بعد یہ دونوں دوسرے کمرے میں بیٹھ کر پڑھتے، ویک اینڈ پر ہم دونوں اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ گھومنے نکل جاتے۔
شنکیاری میں میجر منیر بٹ صاحب کی یونٹ آفیسر میجر اکبر، جو وہاں سیکنڈ اِن کمانڈنے اپنے گھررات کے کھانے کی دعوت دی تھی۔ فوجیوں کی دعوت میں ایک خوبی یہ ہوتی۔ کہ چکن تکہ، حلیم اور دیگر کھانوں کے ساتھ سوئیٹ ڈش لازمی ہو تی ہے۔ بیٹ مین (سرکاری خدمت گار)  ”سپیٹ ڈش“ کہتے ہیں۔ سب نے کھانا کھایا، پھر بچوں اپنے کھیل میں لگ گئے۔ چار بچے میرے، چار منیر بھائی کے،تین میجراکبر صاحب کے اور کوئی سات بچے دوسرے آفسروں کے آگئے، اب یہ  اٹھارہ بچے مل کر کھیلیں اور خوب اودھم منائیں، تھک ہار کر جب بچے ہمارے پاس آکر بیٹھ گئے۔رات کے نو بج گئے۔ تو میں نے بچوں میں، مختلف کہانی، نظمیں اور تلاوت  کا مقابلہ رکھ دیا۔ نعیم کی یہ عادت ہے کی وہ  اپنی گاڑی میں ٹافیوں کے پیکٹ ضرور رکھتے ہیں۔ یوں کہیں کہ جب بھی ہم لمبے سفر پر نکلتے تو یہ سائرہ اور عروضہ کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ راستے کے لئے، چپس، نمکو، چاکلیٹ، ٹافیاں اور چاول کی پٹی  ضرور رکھتیں۔  
چنانچہ اب بچوں نے مختلف آئٹم سنانے شروع کئے تو،  بچوں کے نغمے سن کر باقی تین فیملیز بھی آگئیں۔ ایک بلوچ رجمنٹ کے میجر صاحب مسز، ان کے تین بچے ،دوسری  ایف ایف رجمنٹ کے میجر صاحب کی ان کے چار بچے  اور تیسری کیپٹن ایجوٹنٹ صاحب کی ان کی شادی کو ایک مہینہ ہوا تھا پنجاب یونیورسٹی سے پڑھی ہوئی تھیں۔ایک خاتون مجھے جانی پہچانی لگیں۔  جب مجھ سے ہاتھ ملانے لگیں  تو ایک دم ”گل بھابی“ کہہ کر گلے لپٹ گئیں، اُف، ایک دم مجھے یاد آیا۔ دبلی پتلی سی، مسز ریاض، تین بچوں کے بعد پھیل کر واقعی ناقبل یقین حد تک موٹی ہوگئیں تھیں۔ جب ہم چمن میں تھے تو نعیم1987میں  ”گنری سٹاف“ کے لئے سلیکٹ ہو کر نوشہرہ جانے کی تیاری کر رہے۔ تو یہ غالبا جنوری میں، شادی کے بعد چمن آئیں تھیں۔ چمن میں کل پانچ سکاؤٹ کے اور تین آرمی کے آفیسرز کی فیملیز رہتی تھیں۔سب اپنے اپنے گھروں میں گھسے رہتے تھے، میں جب گھر ملنے پر چمن آئی، تو نعیم ایجوٹنٹ تھے۔ انہوں نے وہاں پہلی دفعہ ”کچن وارمنگ پارٹی دی“ اور سب آفیسرز کو فیملیز اور بچوں کے ساتھ بلایا، سب نے لطف اٹھایا اور اس کے بعد ہر بدھ کو کسی نہ کسی کے گھر ون ڈش پارٹی ہو نے لگی۔جس گھر کی جو مہارت تھی وہ، وہ ڈش بنا کر لاتا۔ میزبان صرف، بار بی کیو بناتا۔اور سب مل کر کھاتے۔ بچوں کے مختلف مقابلے بھی ہوتے۔اور ہر بچے کو انعام ملتا۔ نیز ایک اصول یہ بھی تھا کہ جو آفیسر چھٹی سے واپس آئے گا وہ بے چارے چھٹی نہ جانے والوں کی دلجوئی کے لئے، اپنے شہر کی میٹھی سوغات لائے گا۔ خواہ وہ  ”ریوڑیاں“ ہی کیوں نہ ہوں اور ڈبہ لازمی ہوگا (تاکہ شہر کا نام پڑھا جاسکے)  ڈبے کے بغیر ”سوغات“ لانے والے پر جرمانہ ہو گا۔ اور وہ سب فیملیز کو کھانا کھلائے گا۔شروع میں، اکثر آفیسزر واپسی کی جلدی میں مٹھائی لانا بھول جاتے۔یوں ایک پارٹی کا اور مزہ اڑایا جاتا۔ رمضان میں افطار پارٹیاں تو لازماً ہوتی ہیں۔
بچوں کا مقابلہ شروع ہونے لگا تو میں نے رائے دی بے چارے گھروں میں اکیلے بیٹھے ہوئے، اِن کے ”میاؤں“ کو بھی بلا لیں۔ چنانچہ دونوں میجر صاحبان اور کپتان صاحب بھی آگئے۔  میجر ریاض نے کہا،
”میجر نعیم سر آپ نے تو چمن والی محفل سجا دی ہے“۔
فوج میں جب کورس میٹ، یونٹ آفیسرز یا ایک سٹیشن پر ساتھ سروس کرنے والے آفیسرز جب ملتے ہیں تو پہلے تو ماضی کے قصے، پھر کون کہاں ہے اور پھر Who is Who? کے بعد یہ لوگ نارمل ہو جاتے ہیں اور پھر غیبت شروع ہو جاتی ہے۔
”یاد ہے اس (سینئیر آفیسرز) نے میرے ساتھ یہ کیا تو میں نے منہ توڑ جواب دیا“۔ وغیرہ وغیرہ،
عورتوں کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔لہذا وہ اس سٹیشن پر کی جانے والی شاپنگ کی باتیں کرتی ہیں۔ 
ہم بیگمات نے، اپنے اپنے شوہروں کو لنگر گپ لگانے کے لئے چھوڑ دیا اور خود بچوں کے مقابلے شروع کرا دئے۔کیپٹن ایجوٹنٹ صاحب کی مسز کو اتفاق رائے سے جج بنادیا۔ مجھے معلوم تھا کہ عروضہ نے کسی کو نکلنے نہیں دینا چنانچہ میں نے۔قانون بنایا کہ جو بچہ ایک دفعہ فرسٹ۔ سیکنڈ اور تھرڈ آیا اسے اگلے مقابلے میں انعام نہیں ملے گا۔ چنانچہ سارے بچے انعام لیتے رہے۔ والد صاحبان بھی باتیں ختم ہونے کے بعد بچوں کا مقابلہ دیکھنے لگے۔ جب ایک راونڈ ختم ہو گیا تو، ہم نے چلنے کا پروگرام بنایا۔وہاں کے بچوں نے شور مچا دیا نہیں اور کھیلیں گے۔ مائیں کہیں صبح سکول جانا ہے ساڑھے دس ہو گئے ہیں۔ تم لوگ نہیں اٹھو گے۔
شنکیاری چونکہ سرد علاقہ ہے وہاں سردیوں میں ڈھائی مہینے کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ گرمیوں کی پندرہ دن کی چھٹیاں ہو گئی تھیں اور آج پہلا دن تھا۔ چنانچہ بچوں نے کہا آج بہت کم بچے آئے تھے کل بھی کم آئیں گے۔لہذا ہم کل کی چھٹی کریں گے۔ بات معقول تھی کیوں کہ میجر منیر  کے بچے بھی آج ایبٹ آباد سکول نہیں گئے،چنانچہ مقابلے کا دوسرا راونڈ شروع، بچوں کی جھجک دور ہو گئی تھی لہذا اس دوسرے راونڈ میں سائرہ نے اور عروضہ نے حصہ نہیں لیا۔ باقی بچوں نے پہلی اور دوسری پوزیشن کے لئے سخت مقابلہ کیا چنانچہ دو دو بچے پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن لیتے رہے۔  پھر گھرانوں کی ٹیم بنی اور  ان کے درمیان مقابلہ شروع ہو جو نیلام گھر طرز کا تھا۔ بہت سارے کاغذ پر سوالات لکھ کر ایک ڈونگے میں ڈال دئے۔ جس کا جو سوال ہوتا وہ جواب دیتا۔ سوال بھی دلچسپ تھے۔ مثلاً،
اپنی دادی کے شوہر کا نام بتاؤ، یا
آپ کے ابو کی دلہن کا کیا نام ہے۔
نانا کی بیٹی کے بیٹے یا بیٹی کا کیا نام ہے۔
ایک منٹ میں جواب دینا ہوتا تھا۔
کل پانچ ٹیمیں تھیں۔ہر ٹیم سے تین سوال پوچھے گئے۔ اب چونکہ میرے بچے ان مقابلوں کے ماہر تھے لہذا، ان کی ٹیم فرسٹ آگئی۔ پندرہ  سوال کے بعد پہلی آنے والی ٹیم کو مقابلے میں حصہ لینے نہیں دیا جاتا، چنانچہ دوسرے مقابلے کے لئے نئے پندرہ سوال رکھے گئے۔ جو باقی رہ جانے والی دو ٹیموں سے پوچھے گئے۔ میجر اکبر کے بچے، ہر مقابلے میں کمزور رہے۔ بارہ بجے مقابلے ختم ہو ئے۔ اب چلنے کی تیاری کرنے کا پروگرام بنا رہے لیکن میجر اکبر نے زبردستی دوبار گرین چائے کی آفر دے دی۔ چائے کے دوران،
میجر  اکبر نے نعیم سے پوچھا کہ آپ کے بچے پڑھائی میں بھی ذہین ہیں اور باقی چیزوں میں بھی، جب کہ ہمارے بچے بھی آرمی پبلک سکول ہی میں پڑھ رہے ہیں۔ نعیم نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، "یہ ان کی وجہ سے ہے۔ آج جس قسم کے ہم نے مقابلے کروائے ہیں۔ ہر بچوں کی Gatheringمیں یہ مقابلے ہوتے ہیں۔ بچے سکول میں بھی کوئی مقابلہ نہیں چھوڑتے۔ لہذاان مقابلوں سے ایک توبچوں کی ذہنی آزمائش ہوتی ہے۔ان کی دیگر بچوں کے سامنے جھجک دور ہوتی ہو اور پھر ذخیرہء الفاظ کا اضافہ ہوتا ہے"۔
چنانچہ ان تینوں فیملیز نے میجر ریاض کے رائے دینے پر کہ ہر ہفتے ون ڈش پارٹی ہو گی۔ اور صرف اپنی ہی فیملی کے لئے کھانا بنا کر سب کسی نہ کسی کے گھر جمع ہو کر اکٹھے ہو کر کھائیں گے۔ 
مجھے اچھی طرح یاد ہے، کہ نعیم کی ریٹائر منٹ کے بعد جب  ہم اسلام آباد آئے تو غالبا 2003میں، طاہر محمود صاحب  اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر آئے۔ ان کے تین بچے تھے۔ نعیم نے  کھانے کے بعد  بچوں سے کہا کوئی نظم، یا کچھ سنائیں۔ بچے جھجک رہے تھے لیکن پھر اُن کی سب سے چھوٹی بیٹی ”طربہ“  نے ”شاہِ مدینہ“ سنائی۔ باقی بیٹا اور بیٹی نے کافی اصرار کے باوجود کچھ نہ سنایا۔ جس پر سائرہ نے کہا،
"انکل پپا کی یہ عادت ہے۔جو اب تک ہے جس سے ہم تنگ آتے ہیں"۔
نعیم ہنس پڑے اور کہا، ”جب وقت آئے گا تو پوچھوں گا“۔
وقت گزرتا گیا۔  طاہر بھائی کو نعیم کا آئیڈیا پسند آیا۔ ان کے بچے ماشاء اللہ سکول میں مختلف مقابلوں میں حصہ لینے لگے۔ ان کی ایک اور بیٹی ہوئی ”طالیہ“ جب وہ دوسال کی ہوئی اور جب بھی ہمارے گھر آتی تو نعیم اس کی توتلی زبان میں ”شاہ مدینہ، یثرب کے والی“  بس یہ لائین ضرور سنتے۔
سائرہ کی شادی ہوئی۔ جب اس کی بیٹی ”عالی“ نے پہلی بار ”ماما“ بولنا سیکھا تو وہ اُ س نے خوشی خوشی مجھے بتایا۔ ہم دونوں اس کے گھر گئے۔
وہ باربار بولے،”عالی۔ بولو ماما“۔
جواب میں عالی”ماما“کہے۔  ہم سب خوش ہوں۔ باربار، ماما کہلوانے عالی تنگ آگئی اور رونے لگی۔
نعیم بولے، ”ڈولی جب یہ بڑی ہوگی تو کہے گی کہ میں اپنی ماما کی اس عادت سے سخت تنگ ہوں۔ سب کے سامنے مجھے بولنے کا کہتی ہیں“۔
 سائرہ بولی ُ’پپا آپ کو یاد ہے“ ِ
نعیم ہنسے اور کہا، ”بچو جی مجھے تمھاری پیدائش سے لے کر اب تک کی تمھاری ساری باتیں یاد ہیں۔خیر تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے“۔
 اب ”عالی“ سے ہر مہمان کے سامنے اور گھر میں، بابا بلیک شیپ، ٹوئینکل ٹوئینکل، لکڑی کی کاٹھی، اے فار ایپل اور ہر چیز جو سائرۂ اسے سکھاتی وہ سنوائی جاتی ہے۔ حالانکہ وہ ابھی ڈھائی سال کی ہے اور ہم دونوں ”عالی“ میں سائرہ کا بچپن دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔
دوسرے دن ہم تینوں فیملیز، شنکیاری میں وہ ہوٹل دیکھنے گئے۔ جہاں ہم دونوں خاندان، دس ستمبر سے انتیس اکتوبر تک ٹہرے تھے۔ ہوٹل کے مالک اورنگ زیب صاحب، وہاں آئے ہوئے تھے۔ اوپر کاحصہ اب بھی بند تھا۔ ایک کمرے میں چوکیدار سوتا تھا اور باقی دو کمروں کو انہوں نے اپنے استعمال کے لئے گیسٹ روم بنایا ہوا تھا۔ جس کمرے میں میں ٹہری تھی۔ اسے دیکھ کر پرانی یادیں، ایک لمحے میں واپس لوٹ آئیں۔ وہاں سے پھر ہم اورنگزیب بھائی کے گھر گئے ان کی والدہ، بہنوں، بچوں سے ملے دوپہرکا کھانا کھایا۔انہوں نے بہت اصرار کیا کہ رات ٹہرجائیں۔بمشکل ہم اجازت لے کر واپس ہوئے شام پانچ بجے ایبٹ آباد پہنچے۔ رات کو نعیم کے دوست کرنل جاوید کے ہاں کھانا کھایا اور صبح ہم اٹک کے لئے نکلنے سے پہلے،
نعیم کے بچپن کے گھر کو دیکھنے گئے۔ جہاں انہوں نے بچوں کو اپنے دونوں گھر، گلزار خالہ کا گھر، جس نالی میں وہ اڑتے ہوئے گرے تھے وہ اور مختلف واقعات بھی بتائے۔ جو میں ”فوجی کی بیوی“ میں تفصیل سے درج کروں گی۔ 
ایبٹ آباد سے نکلتے ہوئے، بارہ بج گئے۔ شہر سے کوئی بانچ میں دور،  تربیلہ ڈیم کی تازہ مچھلی کا بورڈ دیکھ کر نعیم نے گاڑی روک دی۔ ہن چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ آدھے گھنٹے کے بعد، مچھلی اور نان نے وہ لطف دیا کہ بتا نہیں سکتی۔ اس کے بعد جب بھی ہم ایبٹ آباد جاتے واپسی پر مچھلی لازماً کھاتے۔ تین بجے ہم اٹک کے لئے روانہ ہوئے اور شام چھ بجے واہ گارڈن دیکھنے کے بعد، انیس دن کی تفریح کر کے ہم واپس اٹک آگئے، گھر پہنچے تو ہماری گاڑی کا مخصوص ہارن سنتے ہی، بلٹ اور شیرا نے بھونک بھونک کر گھر سر پر اٹھا یا، بطخوں نے ایک ساتھ مل کر قیں قیں شروع کر دی، شور  سن کر پڑوسی میجر نیازی باہر آئے کہ کیا معاملہ ہے؟ ہمیں دیکھ کر، نعیم کو ملنے کے بعد کہنے لگے،
”حیرت ہے انہیں کیسے معلوم ہوا کہ آپ آگئے ہیں؟“




٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہونہار بروا-5

ہم مری سے باڑیاں گئے ایک رات میس میں ٹہرے ۔وہاں نعیم کے چار پانچ کورس میٹ آئے ہوئے تھے۔میجر وقار ان کے PMAمیں روم میٹ تھے اور بہترین میوزک بجانا جانتے تھے، رات کو انہوں نے محفل گرم رکھی کافی غزلیں سنائیں، بچوں نے بھی چھوٹے موٹے گانے سنائے۔ عروضہ نے پیانو، سوہنی دھرتی اور جیوے جیوے پاکستان سنایا، وقار کافی حیران ہوا کہ اور بولا،”نعیم! تمھیں دو سال میں میرے ساتھ رہنے کے باوجود ایک سر بجانا نہیں آیا۔ بھئی حیرت ہے“۔ نعیم نے پیانو اپنی طرف کھسکا کر یہی دونوں نغمے سنا کر سب کو حیران کر دیا۔
مئی 1991کا ذکر ہے نعیم کی پوسٹنگ کوئیٹہ ہوگئی، ہم 8مئی کو میرپورخاص،سب سے ملنے حیدرآباد سے جارہے تھے۔ کار میں، نعیم، میں، چاروں بچے، میرے امی، ابا اور لقمان بھائی کا بیٹا جواد تھے۔ جو کراچی سے 5مئی کو نعیم کے ساتھ حیدرآباد آئے تھے۔  ڈیتھا سے گذرنے کے بعد نعیم نے گاڑی میں پیٹرول ڈلوایا۔ اور میں روڈ پر آگئے تھوڑی دور جانے کے بعد، سامنے سے ایک ٹرک آتادکھائی دیا، جو سڑک کے بیچوں بییچ آرہا تھا، نعیم کے مطابق انہوں نے اُسے لائیٹ دکھائی۔ جس کا مطلب تھا کہ اپنی سائیڈ پر ہو جاؤ۔ ٹرک ڈرائیور، ٹرک کو مزید ہماری طرف لے آیا نعیم نے کار کو بچایا مگر بچاتے بچاتے کا ر ٹرک کے پچھلے ٹائر کو لگی، پہلے تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا ہوا ہوش آیا تو، سارے لوگ کار کے گرد جمع تھے۔نعیم بری طرح پھنسے ہوئے تھے، اُن کا سر شیشے پر لگنے سے زخمی ہو گیا۔نعیم کو سیٹ پیچھے لٹا کر کھینچ کر نکالا۔ کار سیدھی طرف سے بری طرح تباہ ہو چکی تھی۔ میرے چہرے پر چوٹیں آئیں، بڑے بیٹا ارسلان جو نعیم کے پیچھے امی کو گود میں بیٹھا تھا اُس کی بائیں آنکھ میں شیشے اُڑ کر لگے اور الٹا پاؤں نعیم کی سیٹھ میں پھنس کر پیچھے سے کٹ گیا۔ ابو کی کالر بون ٹوٹ گئی   اتنے میں رینجر کے کرنل نور آگئے۔ یہ نعیم کی یونٹ میں رہے تھے انہوں نے ہم سب کو CMHحیدر آباد پہنچایا۔کار کو دوسرے ٹرک میں لاد کر یونٹ پہنچوایا اور جس ٹرک نے مارا تھا اُسے۔ گھسیٹ کر رینجر کے احاطے ٹنڈوآدم میں کھڑا کر دیا۔ 
ایمر جنسی وارڈ میں، معلوم ہو ا کہ نعیم سے سر میں شدید چوٹیں آئی ہیں ان کی یاداشت تھوڑی تھوڑی دیر بعد کھو جاتی ہے۔یہ تین دن تک اِسی حالت میں رہے۔ میرپورخاص سے سارے رشتہ دار، دوست اور جاننے والے ملنے آئے۔اِن کے ہمزاد دوست، سلیم آزاد آئے تو اِن کی یاداشت واپس آئی جو ڈاکٹروں سمیت ہمارے لئے بھی باعث حیرانگی تھی ایسا صرف فلموں ہی میں دیکھا تھا کہ کوئی پرانا گانا گایا جائے یا کوئی پرانی بات یاد دلائی جائے  تو انسان کی یاداشت لوٹ آتی ہے۔ ارسلان کے بائیں پاؤں کااور آنکھ کا آپریشن ہوا، اس کی بائیں پاؤں کی رگ جو چلنے میں مدد دیتی ہے۔ کٹ گئی اور اُس کے ٹھیک ہونے کے بعد چلنے میں نقص آگیا۔میرا بھی ڈیش بورڈ پر لگنے سے سر ہل گیا اور منہ پر نیل پڑگیا۔ نعیم ہسپتال میں مہینہ ایڈمٹ رہے۔ ہسپتال سے نکلنے کے بعد  نعیم کو مہینے کی چھٹی ملی۔
ایک دن یہ تلک چاڑی میں اپنے دوست عباس  سے ملنے اُس کی بیکری کیک لینڈ پر گئے۔ وہاں ایک پیانو پڑا تھا۔ عروضہ پانچ سال پانچ ماہ کی تھی اُس نے پیانو لینے کی ضد کر دی۔ عباس بھائی نے پیانو اُٹھا کر اُسے دے دیا۔نعیم نے کافی منع کیا لیکن وہ نہ مانی۔ خیر وہ پیانو لے کر گھر لے آئی جب تک اِس کے سیلوں کی جان نہ ختم ہوئی ہاری جان نہ چھوٹی۔ عروضہ نے بے ہنگم سر بجا کر اودم مچایا ہوا تھا اور باقی بچے بھی اُس کے ساتھ شامل ہو گئے۔  
فوجی یونٹوں میں ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ہلہ گلہ رہتا ہے اگر یہ نہ ہو تو، زندگی بہت بوجھل ہو کر گذرتی ہے، کھیلوں کے مقابلے، مینا بازار، سینما، میسوں میں تمبولا، میوزک شو وغیرہ۔ چنانچہ حیدر آبا میں بھی ہر مہینے کے پہلے اور تیسرے ویک اینڈ پر میس میں میوزک شو یا تمبولا ہوتا تھا۔ ہم سب گئے وہاں نعیم کی یونٹ کے ایک آفیسرمیجر اعجاز جو نئے آئے تھے، انہوں نے آرمی سکول آف میوزک سے کورس بھی کیا تھا۔انہوں نے بھی پروگرام پیش کیا۔عروضہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت اچھی آواز دی ہے، وہ قرء ت، نعتیں، ملی نغمے  اور اقبالیات نغمگی میں پڑھتی ہے، اُس وقت چو نکہ چھوٹی تھی تو، سوہنی دھرتی اور تیرا کونہ کونہ گھوموں اِس کو یاد کرایا تھا۔ جو اِس نے سٹیج پر پڑھا۔
دوسرے دن یونٹ میں میجر اعجاز نے نعیم کو کہا کہ، سر عروضہ کو، میوزک کے ساتھ پڑھنا سکھائیں۔ نعیم یونٹ میں سیکنڈ اِن کمانڈ تھے اُنہوں نے میجر اعجاز کو کہا کہ تم اُسے پیانو بجانا سکھا دو۔ میجر اعجاز نے وہی پرانی راگنی چھیڑی کی سر یہ بہت مشکل کام ہے۔ اِس کے سیکھنے میں عمر گذر جاتی ہے۔ انسان یہ آسانی سے نہی سیکھ سکتا۔ میں نے خود  یہ پندرہ سال میں سیکھا ہے،
نعیم نے کہا  مذاقاً کہا،‘’اعجاز اگر تم نالائق ہو تو سب کو اپنا جیسا مت سمجھو، میں اِسے پندرہ دن میں سکھا سکتا ہوں“۔
میجر اعجاز نے چیلنج کر دیا۔  نعیم، شام کو ہم سب کو ساتھ بٹھا کر کار میں حیدرآباد کی تما م دکانیں کھنگال ماریں۔ مگر انہیں میوزک کے سروں  بارے کوئی کتاب نہیں ملی۔ یہ واپسی پر لطیف آباد نمبر دو میں، وڈیو کی دکان پر رکے،ہنگاموں میں نعیم کی ڈیوٹی لطیف آبادمیں لگی تھی نعیم نے اتفاقا ً اِس کی دکان لٹنے سے بچائی تھی، تب سے اُ سے دوستی ہوئی وہ نعیم سے صرف یہ رعایت کرتا تھا کہ دو تین فلمیں دے دیتا  نعیم پیسے دے دیتے وہ کینٹ کی طرف آتا تو ہمارے ہاں آکر اپنی کیسٹ لے جاتا  نعیم نے کچھ کیسٹ لیں اور باتوں باتوں میں وڈیو والے سے پوچھا،
”کسی کے پاس سے میوزک سکھانے والی کتاب مل سکے گی“۔
اس نے پوچھا " کیوں سر جی خیریت تو ہے ؟ "
نعیم نے ماجرا بتایا۔ تو رکنے کا کہہ کر موٹر سائیکل پر غائب ہو گیا۔ پندرہ منٹ بعد واپس آیا، اور ایک کتاب نعیم کو دی  اور بولا،
”سر میں نے یہ کتاب کراچی سے خریدی تھی۔ میں تو اِس سے میوزک نہ سیکھ سکا آپ کو شش کر لیں، یہ میری طرف سے تحفہ ہے مرے پاس اور بھی کتابیں پڑی ہیں میں وہ بھی ڈھونڈ کر آپ کو دے دوں گا“
۔ نعیم  نے شکریہ کے ساتھ وہ کتاب لے لی۔ گھر آکر، پیانو نکالا، وہ تو بچوں کا پیانو تھا۔ نعیم وہ پیانو اور بچوں کو لے کر عباس کے پاس جا پہنچے۔عباس بس دکان بند کرنے والا تھا۔  نعیم نے کہا کہ اُس سے اچھا پیانو دکھاؤ۔اُس نے کہا کہ میرے پاس تو نہیں میرے بھائی کی دکان پر ہے جو آپ کے گھر کے پاس ہے وہیں چلتے ہیں اور اُس سے لیتے ہیں۔ عباس اپنی سکوٹر پر اور نعیم کار پر بھائی کی دکان پر پہنچے وہاں سے، بچوں کا ہی بڑا پیانو لیا، وہاں اتفاق سے ایک اور صاحب آئے تھے انہوں نے پیانو پر دو تین سر بجا کر اُسے، پاس کیا نعیم وہ لے کر بچوں کے ساتھ گھر آگئے۔
چاروں بچے اورنعیم پیانو پر کتاب کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق سیکھنے کی کوشش کریں، مگر وہ سرہی نہ پیدا ہوں۔ تین دن گذر گئے۔اچانک نعیم کو ترکیب سوجھی۔ نعیم نے، پیانو کی ”کی“ پر تین قسم کے رنگین سٹکرز  سے ساتوں ” سُر۔ سا۔ رے۔ گا۔ ما۔ پا۔ دھا۔ اور نی“لکھ دیئے اور کتاب میں دیئے ہوئے ”جیوے جیوے پاکستان“  کا مکمل نغمہ اپنی کاپی میں لکھا ور پیانو پر لکھے ہوئے سروں کے مطابق اسے آہستہ آہستہ  بجانے کو کوشش کی میں کچن میں کھاناپکار رہی تھی میرے کانوں میں جیوے جیوے پاکستان کے سر سنائی دئیے میں سمجھی ٹیپ پر چل رہے ہیں اور شائد ٹیپ کے سیل کمزور ہیں اس لئے تھوڑا سا بے ربط ہو جاتے ہیں۔
 اتنے میں نعیم نے زور سے آوازلگائی،”گل۔ے۔ے“
میں کمرے میں آئی تو کہنے لگے سنو اور پھر آہستہ آہستہ،”جیوے، جیوے، جیوے پاکستان، پاکستان، پاکستان، جیوے پاکستان“ ردھم میں سنا دیا۔ شام کو چاروں بچوں نے اِس لائن پر مہارت حاصل کر لی اور دوسرے دن رات تک پانچوں، ماہر ہو گئے، اُس کے بعد ”سوہنی دھرتی  اور یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اس کے“ پر پندرہ دنوں میں، چاروں بچوں نے مہارت حاصل کر لی۔
آفیسر میس میں ہفتے کی شام کو تمبولا ہوا، نعیم بھی تمبولا کھلاتے تھے بلکہ تما م جونئیر آفیسروں کو بھی موقع دیتے تا کہ اُن میں خوداعتمادی پیدا ہو ا اور بچوں کو بھی موقع دیتے۔ لوگ مختلف جوک بھی سناتے۔ لطیفے بھی چلتے۔غرض اچھا خاصا ہلا گلا رہتا۔دوہاؤس کے بعد نعیم نے اعلان کیا کہ میں آپ سب کو حیران کرنا کرنا چاہتا ہو ں اور میجر اعجاز سے کی ہوئی گفتگو دھرائی اور میجر اعجاز سے تصدیق کرائی۔ میجر اعجاز اپنی بات پر قائم رہے کہ میوزک سیکھنا، پھر وڈیو والے ریحان نے اپنی دکان میں ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا اور بتا یا کہ اُس نے تین کتابیں میجر نعیم کو تحفے میں اِ س لیے دیں کیوں کہ وہ خود میوزک سیکھنے میں ناکام ہو گیا۔اور وہ سمجھتا ہے کہ استاد کے بغیر کوئی بھی کام سیکھنا مشکل ہے۔
نعیم نے عروضہ کو بلایا۔  عروضہ نے پیانو پر سوہنی دھرتی سنایا۔سامعین نے بے تحاشا تالیاں بجائیں۔
پھر ارمغان کو بلایا وہ تھوڑا سا گڑبڑا گیا۔
ارسلان اور سائرہ نے بہت اچھے لگاتار ردھم کے ساتھ بجایا۔ آخر میں نعیم نے بتایا کہ دو سال پیانو بجانے والے کے ساتھ PMAمیں ایک کمرے میں رہنے کے باوجود مجھے نہیں معلوم تھا سُر کیا ہوتے ہیں اور اُنہیں کیسے ترتیب میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن میجر اعجاز کے چیلنج نے مجھے یہ بھی سکھا دیا۔ میجر اعجاز آپ شرط ہار چکے ہیں۔ یہ کہہ کر نعیم نے سوہنی دھرتی پیانو پر بجایا۔ سب نے تالیاں بجائیں۔ نعیم اور بچوں کو گفٹ دئے۔ اُس کے بعد نعیم نے تو کبھی پیانو نہیں بجایا البتہ بچوں نے خود کتاب سے مختلف نغموں اور گانوں کے سر سیکھے۔ اُ ن سب میں مہارت ارسلان نے حاصل کی۔ لیکن کیوں کہ یہ اُن کا شوق نہیں تھا لہذا  یہ شوق نہیں بنا،
اپریل میں،نے نعیم کے ایک پرانے بکس میں پڑی ہوئے وردیوں کو دھوپ لگانے کے لئے کھولا تو میری نواسی جو دو سال کی ہے نعیم کے میڈلز کی کھڑنگ کھڑنگ سے بہت خوش ہوئی وہ انہیں روپے سمجھ رہی تھی، نعیم کی میس کٹ کی جیکٹ اور ٹراوزر۔ جس کو پہنانے کے لئے نعیم کو آدھا چھیلنا پڑے۔اُسی بکس میں سے اٹک کے بعدشفٹنگ کے وقت ڈالا ہوا، پیانو بھی برآمد ہوا۔ جس کو اب ہماری نواسی جب ہمارے گھر آتی ہے تو شوق سے اُس کی ”کی“ پر انگلیاں مار کر  ”ٹاں ٹاں“کی آواز نکلنے پر خوش ہوتی ہے۔مجھے عروضہ کا بچپن یاد آجاتا ہے۔

دوسرے دن سب مل کر نتھیا گلی گئے وہاں خوب گھومے پھرے۔ باقی بسب باڑیاں کے لئے واپس ہوئے اور ہم۔ ایبٹ آباد  کے لئے روانہ ہوگئے رات آٹھ بجے ہم بلوچ میس کے گیسٹ روم پہنچے۔



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


پیر، 3 مارچ، 2014

ہونہار بِروا - 4


          منگلا سے ہم مری روانہ ہوئے، جہاں ہم ہفتہ  کلڈنہ  ٹہرے نعیم کے  یونٹ آفیسر وہاں
 انسٹرکٹر تھے۔ کمروں  کی ایک لمبی سی لائن کے آخر میں ایک کمرہ ہمیں ملا ہو تھا جس کے بعد چیڑ کے درخت تھے جن پر بندر اپنی فیملی کے ساتھ آجاتے اور انسانوں کو دیکھتے  رہتے کہ کوئی کھانے کی چیز کب پھینکتے ہیں۔ان میں ایک بندریا اپنے پندرہ دن یا مہینے کے لاغر بچے کو کمر پر بٹھائے یا سینے سے چمٹائے کھانے کی چیزیں لینے آتی۔ تیسری صبح بھی بندر اپنی فیملی کے ساتھ آئے۔ بچے ناشتہ کرنے کمرے میں آگئے۔ عروضہ باہر کرسی پر بیٹھ گئی اور بندروں  کی درختوں پر اچھل کود دیکھنے کے لئے رک گئی میں نے اس کا ناشتہ باہر دے دیا وہ  وقفے وقفے کے بعد پاپ کارن پھینک دیتی جو بندر اچک کر لے جاتے۔ ہم کمرے میں ناشتہ کر رہے تھے۔

عروضہ کمرے میں آئی اور اپنا پراٹھا لے کر باہر چلی گئی۔پھر آئی اور پراٹھا مانگا میں حیران تھی کہ اس نے بغیر منت سماجت کئے ناشتہ کیسے کر لیا۔ میں نے پراٹھا دے دیا۔ نعیم نے سائرہ کو کہا دیکھو کہیں یہ بندروں کو ناشتہ تو نہیں کرا رہی۔ سائرہ باہر گئی اور بتایا کہ ایک بندریا اپنے بچے کے ساتھ کرسی پر بیٹھی ہے اور عروضہ برامدے میں بیٹھ کر بندریا کو پراٹھے کے ٹکڑے پھینک رہی ہے۔ اور وہ اچک اچک کر خود بھی کھا ر ہی ہے اور منہ سے چبا کر بچے کو بھی دے رہی ہے۔باقی بندر درختوں پر بیٹھے خو خو کر رہے ہیں۔ ہم لوگوں کے باہر نکلنے سے بندریا اپنے بچے کو پیٹھ پر بٹھائے چھلانگ مار کر درخت پر چڑھ گئی۔باقی بندر دور ہٹ گئے۔ اب روزانہ صبح، عروضہ کا یہی مشغلہ ہو گیا۔ وہ اپنا اور بندریا اور اُس کے بچے کا پراٹھا لے کر باہر جا بیٹھتی اور بندریا کو ناشتہ کراتی، بندریا اُس سے ہل گئی اور درخت سے اتر کر اس کے قریب آکر بیٹھ جاتی لیکن چوکس انداز میں اگر عروضہ کوئی چیز لانے کے لئے اُٹھتی تو وہ چھلانگ مار کر درخت پر چڑھ جاتی۔
            اس سارے  عرصے میں سانپ اور کچھوا بھی ہمارے ساتھ تھا۔ بلکہ مری  سے چارگھونگھے Snailبھی پکڑ لئے تھے ۔عروضہ کی بڑی خواہش تھی کہ بندریا بچے کو چھوڑے تو وہ بچہ پکڑ لے اور پھر اپنے ساتھ اٹک لے جائے۔ تب نعیم نے اسے ڈرایا، کہ دیکھو وہ جو بچے کا باپ ہے تمھیں غور سے دیکھ رہا ہے اور بندریا کو  کہہ رہا ہے کہ یہ لڑکی کتنی اچھی ہے۔ ہمیں پراٹھا دے رہی ہے  او رتمھیں پراٹھا بنانا نہیں آتا۔ کیوں نہ ہم اس لڑکی کو لے جائیں یہ ہمیں پراٹھے بنا کر دے گی۔ہم اس کا درخت پر خوبصورت سا پنجرہ بنا دیں گے۔ عروضہ یہ سن کر خوف زدہ ہوگئی کہ میں اپنے ماما اور پپا کے بغیر کیسے رہ سکتی ہوں۔ تب نعیم نے سمجھایا کہ وہ دیکھو چھوٹے بچے کا بھائی ہے وہ بہن ہے وہ خالہ چچا اور دوسرے  رشتہ دار ہیں سب ایک ساتھ رہتے ہیں اگر ان سے بچہ چھین لیا جائے تو یہ پاگل ہوجائیں گے اور انسانوں کو دشمن سمجھ کر کاٹیں گے۔ عروضہ کے بات سمجھ آگئی

لیکن ایک اور پریشانی پید ہو گئی۔ اس نے نعیم سے پوچھا کہ کیا سارے، پرندوں، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے ماں، باپ اور بہن بھائی ہوتے ہیں؟ نعیم نے بتایا کہ ہاں سب کے ہوتے ہیں۔ تو پھر جو سانپ اور کچھوا ہم لے کر جارہے ہیں، پھر ان کے بھی ماں، باپ اور بہن بھائی ہوں گے نعیم نے کہا ہاں، Snail
 کی تو پوری فیملی ہمارے ساتھ تھی لہذا اس کی عروضہ کو فکر نہ ہوئی لیکن سانپ اور کچھوے کے لئے عروضہ پیچھے پڑ گئی۔کہ ان دونوں کو واپس اسی جگہ چھوڑکر آئیں۔کچھوے کے بارے میں وہ مان گئی، کیوں کہ کوئٹہ میں ہمارے پاس جو کچھوا تھا وہ اکیلا تھا لیکن اُس نے بتایا کہ گوجرانوالہ میس میں جو ویٹر چاچا تھا اُس نے بتایا تھا کہ سانپ کی مادہ ہوتی ہے وہ  اکیلی رہ گئی ہو گی اور اب آپ لوگ جہاں بھی جائیں آپ کے پیچھے آجائے گی۔  نعیم نے کہا کوئی بات نہیں، مادہ گجرانوالہ سے چل پڑی ہوگی۔سانپ ایک دن میں تین میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ ابھی تو وزیر آباد بھی نہیں پہنچی ہوگی اٹک پہنچنے میں مہینہ لگے گا۔ ہم اس کو بھی اپنے پاس رکھ لیں گے۔ تاکہ بے چاروں کو کھانے کی پریشانی نہ رہے۔

مری خوبصورت اور قدرتی نظاروں سے بھر پور ہے۔ فوج کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جہاں ہوتی ہے بنجر زمین کو نخلستان بنا دیتی ہے۔ صفائی کے لحاظ سے کنٹونمنٹ ایریا کی مثال دی جا سکتی ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شادی کے بعد، میں نعیم کے ساتھ پہلی بچی کی پیدائش سے پہلے خوب گھومی۔ لاہور سے پارا چنار کے اس وقت کے کینٹ اور آج، ڈویلپمنٹ کے لحاظ سے زمین
آسمان کا فرق ہے۔ کینٹ کی آبادی بڑھنے کے باوجود کینٹ کی صفائی میں کوئی فرق نہیں آیا۔

      مری میں سب سے خوبصورت بھوربن کا کھلا علاقہ ہے۔ نعیم اور دوسرے آفیسر نے اتوار کو گالف کھیلنے کا پروگرام اور ہم تمام فیملیز نے پکنک کا پروگرام بنایا، یہ تو آٹھ بجے اپنے اپنے بیگ کے ساتھ نکل گئے، ارمغان اور سائرہ بھی ساتھ گئے۔ میں عروضہ اور ارسلان، خواتین
اورپکنک کے سامان ساتھ دس بجے بھوربن پہنچے۔عروضہ نے سانپ کا بکس بھی ساتھ لے لیا تھا۔

گالف کلب کے ایک حصے میں، بیٹھنے کا انتظام کیا۔ بچے اپنے اپنے کھیل کھیلنے لگے، ہم خواتین کا
 ایک ہی موضوع ہوتا ہے اور وہ صرف شاپنگ اور شاپنگ ہی ہے کہ کون سی اچھی اور سستی مارکیٹ ہے جہاں دھوکہ نہیں دیا جاتا۔ ہم بات کر رہے تھے کہ سائرہ اور ارمغان، ایک راونڈ گالف کھیل کر واپس آئے۔ سائرہ نے سانپ کا بکس کھولا اور چینخی۔ ماما اس میں سانپ نہیں ہے۔ تمام خواتین اور بچے بشمول میں چینختے ہوئے دور بھاگے۔ ہمیں بھاگتا دیکھ کر سائرہ نے قہقہ لگایا۔ ہم سمجھ گئیں کہ اس نے مذاق کیا ہے۔ خواتین اور بچے نزدیک آئے تو سائرہ نے سانپ کو اٹھا کر نکال لیا تمام خواتین اور بچے، اسے نصیحتیں کریں کہ اسے واپس ڈال دو ورنہ یہ کاٹ لے گا۔

بہرحال بعد میں تمام بہادر خواتین اور بچوں نے سانپ کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھا اور تصویریں بنائیں۔ ساڑھے گیارہ بجے چاروں مرد حضرات گالف کھیل کر واپس آئے، بچوں نے اپنے اپنے ابو کو سانپ کا بتا یا وہ بھی حیران ہوئے کہ اُن کے بچوں نے سانپ پکڑنے کی بہادری کیسے  دکھائی۔ سانپ سے کھیلنا پکنک کا سب سے اچھا ایونٹ رہا،  میں سب کو بطور کنسلٹنٹ  ہدایات دیتی،کہ سانپ کو کس طرح پکڑنا ہے کہ وہ ہاتھ کے دباؤ سے خوفزدہ نہ ہوجائے۔ تمام بھابیاں بھی مجھ سے مرعوب تھیں۔ کہ سائرہ نے بھانڈا پھوڑا، ہو ایوں کہ میں آرام سے بیٹھی گپ لگا رہی تھی کہ اُس نے سانپ کی دم میری آنکھوں کے سامنے میرے پیچھے کھڑے ہو کر لہرائی۔
میری چینخ بلا مبالغہ مری مال روڈ تک سنائی دی ہو گی۔ تب راز کھلا کہ سب سے زیادہ سانپ سے میں ڈرتی ہوں، ایک بھابی نے پوچھا۔ اس کے تو دانت نکال دیئے ہیں۔اب تو تین مہینے کے بعد آئیں گئے۔ پھر آپ کیوں ڈر رہی ہیں۔میں نے کہا واہ بھابی آپ تین مہینے کا انتظار کر رہی ہیں اور اگر سانپ کے دانت ابھی اُگ آئے تو کیا ہوگا؟ 



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بدھ، 19 فروری، 2014

ہونہار بِروا - 3

    
      غالباً، جون 1999کا ذکر ہے۔ ہمارے سکول میں  چھٹیوں میں کرنے کے لئے بچوں کو مختلف کام ملے۔ جونئیر سیکشن  میں، میں نے ہر بچے کو اپنے اپنے علاقے میں چھٹیوں کے دوران، دستکاریوں، تاریخی عمارتوں، یادگاروں، پرانی تہذیبوں، کاشتکاری، ڈیم، دریا، تفریح گاہوں، جانوروں، پرندوں، حشرات الارض اوردیگر اشیاء کے بارے میں معلومات، تصویریں اور نمونے وغیرہ لانے اور ان کے بارے میں کلاس میں دو منٹ کا معلوماتی لیکچر دینے کا چھٹیوں کے بعد رکھا۔  چونکہ یہ کام بچوں کو پہلی دفعہ ملا تھا لہذا ان کا شوق دیدنی تھا۔ اب چونکہ بہت سے بچے فوٹو گرافی افورڈ نہیں کر سکتے تھے لہذا انہیں پرانی کتابوں سے یا خود ڈرائینگ کر کے تصویر لگانے کی اجازت دے دی۔  عروضہ آٹھویں میں تھی، اسے دس حشرات الارض جمع کرنے کا کام ملا۔
          بچوں کی سکول کی چھٹیوں میں ہر سال کوئٹہ سے کراچی، حیدر آباد، میرپورخاص، نواب شاہ، مورو، سکھر اور واپس کوئٹہ اپنی گاڑی پر تمام رشتہ داروں سے ملتے، مہینے کی چھٹیاں، جنوری میں گذار کر واپس کوئٹہ آجاتے، میرپورخاص میرا اور نعیم کا آبائی شہر ہے میں نے ابن رشد گرلز کالج سے 1978میں گریجویشن کی، 1977میں میری منگنی نعیم سے ہوئی یہ میرے بھائی کے دوست تھے، ہم بہنوں نے ان کا نام لمبے کانوں والا فوجی رکھا تھا۔ یہ بڑی مزیدار داستان ہے۔ موقع ملا تو آپ کو ”فوجی کی بیوی“ میں ضرور سناؤں گی۔  ”ہونہار بروا“ دراصل میرے چاروں بچوں کی داستان ہے۔ ابتداء میں نے آخری بیٹی عروضہ سے کی ہے۔کیوں کہ ان تینوں میں سب سے ذہین اور محنتی عروضہ، سائر ہ ذہین ہے، ارسلان صرف محنتی ہے اور ارمغان کی صرف یاداشت  بہت تیز ہے  ایک رات پہلے پڑھا ہوا سبق وہ فل سٹاپ اور کامے تک لکھ سکتا ہے۔ 
          نعیم کی پوسٹنگ حیدرآباد سے کوئٹہ ستمبر 1991میں ہوئی، درمیان میں نعیم ڈیڑھ سال کے لئے سیاچین پوسٹ ہوئے۔ لیکن ہم لوگ  کوئٹہ ہی میں رہے۔ سیاچین کے بعد نعیم نے اپنی پوسٹنگ واپس کوئٹہ کروا لی۔ کوئٹہ ایسی جگہ ہے جہاں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے افسر یا جوان کے علاوہ کوئی پوسٹ ہونا نہیں چاہتا اور فوج کی پالیسی کے مطابق، کوئٹہ کے رہنے والے کو ئٹہ صرف دو سال کے لئے یا پھر  Compassionate Groundپر ہی پوسٹ کیا جاسکتا ہے۔ نعیم کا تعلق کوئٹہ سے اس طرح تھا کی ان کے والد فوج میں تھے۔ یہ غالباً پانچویں جماعت سے نویں تک کوئٹہ میں رہے۔ دسویں کا امتحان انہوں نے میرپورخاص سے دیا۔  لہذا کوئٹہ ان کے لئے دوسرا گھر سمجھیں۔  کوئٹہ سے ہم لوگ اٹک آئے تو گرمیوں کی چھٹیوں میں میرپوخاص جانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔چنانچہ ہم، مری نتھیا گلی، ایبٹ آباد گھومنے پھرنے جاتے۔
          لہذا جولائی میں ہم اپنے ٹور پر نکلے، موٹر وے ان دنوں نئی نئی بنی تھی ہم نے غلطی سے گاڑی موٹر وے پر موڑ دی۔ پنڈی سے لاہور تک کا سفر ایک تھکا دینے والا سفر تھا جو بالکل کراچی سے کوئٹہ  کے سفر سے ملتا جلتا تھا۔پوری سڑک پر صرف ہم نہ کوئی آدم نہ آدم زاد، کہیں کہیں راستے میں سڑک پر کام کرنے والے لوگ یا اوور ٹیک کرتی ہوئی اکا دکا گاڑیاں نظر آتیں، اس سے کہیں بدرجہا بہتر، جی ٹی روڈ کا سفر تھا۔ بہرحال کلر کہار کے پاس ہمیں ایک کھچوا سڑک پار کرتا نظر آیا۔ عروضہ  نے دیکھا تو شور مچا دیا کی ایک Living Thing مل گئی نعیم نے گاڑی روک کر کچھوا پکڑا، عروضہ کی ضد کہ کچھوا پسنجر سیٹ کی پیروں کی جگہ میں رکھا جائے جہاں میں بیٹھی، مجھے کچھوے سے ڈر بھی لگتا  اور گھن بھی آتی۔ بہرحال طے پایا کہ کچھوا ہم واپس چھوڑ دیں یا ڈکی میں رکھیں اور واپسی پر پھر کوئی نہ کوئی کچھوا مل جائے گا ہم لے لیں گے۔ عروضہ رسک لینے پر تیار نہ تھی، چنانچہ وہ کچھوا ڈکی میں رکھنے پر تیار ہو گئی۔ ڈکی میں موجود سامان کو ایک طرف کھسکایا۔  کچھوے کو پانی اور بلحاظ حجم کچھوا دو دن کے راشن کے ساتھ رکھ دیا۔ اور ہم چل پڑے۔کچھوا ڈکی میں کیا رکھا کہ ہماری مصیبت آگئی ہر پچاس کلو میٹر کے بعد کچھوے کو دیکھا جاتا کہ وہ زندہ ہے کھانا کھا رہا ہے، پانی پی لیا ہے۔ جہاں راستے میں ہم ریسٹ کرتے کچھوے کو زمین پر چھوڑا جاتا تاکہ وہ ہماری طرح  ٹہل کر اپنی ٹانگیں سیدھی کر لے۔ خدا خدا کر کے ہم نعیم کے چچا کے گھرلاہور پہنچے وہاں کچھوے کو صحن میں چھوڑا۔ تو مرغوں نے کچھوے کو دشمن سمجھ کر اس پر حملہ کر دیا اور ٹھونگیں مارنی شروع کر دیں۔ اب عروضہ کو سمجھ نہ آئے وہ کیا کرے آخرکار کچھوے کو ٹوکرے میں ڈھک کر اس پراینٹ رکھ دی۔ تو مرغیوں نے ٹوکرے کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔وہ حیران ہو کر ٹوکرے کو ٹھونگیں مارتیں کہ اُن کے میٹرنٹی ہوم میں یہ کون مردوا گھسا ہوا ہے۔
          لاہور میں ہم  1988میں سال رہے پھر دسمبر میں نعیم کی والدہ  کی وفات پر نعیم نے اپنی پوسٹنگ گھر کے نزدیک حیدرآباد کروا لی۔ لاہور میں گھومنے کی بے شمار جگہیں ہیں۔ طے یہ پایا کے رشتہ داروں اور پرانے دوستوں کو ملنے کے علاوہ  چڑیا گھر  اور واپسی میں جی ٹی روڈ سے واپس جاتے ہوئے۔ بادشاہی مسجد اور یادگار پاکستان دیکھیں گے۔چڑیا گھر میں عروضہ کا واحد  بچپن پسندیدہ جانور ”ہاتھی“ ہے۔ کوئیٹہ پوسٹنگ کے وقت ہم کراچی سے بذریعہ کارگئے تھے تو کراچی چڑیا گھر میں۔ ایک ہاتھی کے چھوٹے بچے نے عروضہ سے لے کر پاپ کارن کھائے۔ تب سے ہاتھی عروضہ کا  پسندیدہ جانور ہو گیا۔ کوئٹہ پہنچ کر عروضہ نے ضد شروع کردی کہ اسے ہاتھی کا بچہ ”ٹم ٹم“ چاہیئے۔  
          ”ٹم ٹم“ عروضہ کا بچپن سے دوست ہے۔ جب وہ ڈیڑھ سال کی تھی تو نعیم نے اسے باقی بچوں کی طرح کہانیا ں سنانی شروع کر دیں۔ جس کا اہم کردار،  ہاتھی ’کا بچہ ’ٹم ٹم“  تھا جس پر بیٹھ کر عروضہ جنگل کے دوسرے سرے پر اپنی دوست سے ملنے جاتی، کہانی کہانی میں نعیم، نظمیں، گنتی اور حساب  سکھاتے،اس طرح بچوں کی تربیت بھی ہوتی اور وہ تعلیم بھی حاصل کرتے۔ آج کل نعیم اپنی نواسی کو اسی کہانی کا ری پلے ماڈرن انگلش نرسری رہائم، میتھ وغیرہ کے ساتھ سنا رہے ہیں۔ بہرحال  کراچی کے ”ٹم ٹم“  نے عروضہ کو باقی جانوروں کے ساتھ، ”ٹم ٹم“  رکھنے کی خواہش بیدار کر دی۔ دونوں باپ بیٹی نے  1991ستمبر میں فیصلہ کیا کہ عروضہ جتنے پیسے جمع کرے گی اُتنے اُس میں نعیم اور میں ملائیں گے اور پھر ہاتھی کا بچہ خریدیں گے جو نیا نیا پیدا ہوا  افریقہ سے چھ ہزار کا ملے گا یا نعیم کے کلاس فیلو اشرف انکل جو افریقہ میں ہیں جنگل سے پکڑ لیں گے۔ لائسنس کی فیس، گورنمنٹ کی اجازت اور بحری جہازکا افریقہ سے کراچی تک کا کرایہ۔کراچی سے کوئٹہ تک کا ٹرک کا کرایہ، ہاتھی کی رہائش کا کمرہ  وغیرہ کے اخراجات اُس وقت حساب لگائیں گے۔ 

چنانچہ عروضہ نے بازار سے سب سے بڑی گلک خریدی اور بچت شروع  ہو گئی۔ جتنے پیسے وہ ملاتی اتنے نعیم اور مجھے بھی ملانے پڑتے۔ عید ی۔ امتحان پاس ہونے پر نقدی۔ آنے والے مہمانوں کی طرف سے دئیے جانی والی رقوم سب اُس گلک کی نذر ہونے لگیں۔  روزانہ حساب بنایا جانے لگا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان اپنی والدہ کی یاد میں کینسر ہسپتال بنانے کوئٹہ آیا  آرمی پبلک سکول سٹاف کالج  بھی آنا تھا مگر وقت کی کمی کے باعث غالباً نہیں آیا  تمام بچوں نے اپنی بچت ہسپتال کو دی عروضہ نے بھی اپنی پوری گلک  ہسپتال کی نذر کر دی۔ گلگ توڑنے لگے تو عروضہ نے کہا ایسے ہی بھجوا دیں توڑیں نہیں اور ایک کاغذپر لکھے مکمل حساب کے ساتھ کہ کس کس نے اس میں ہاتھی کا بچہ ”ٹم ٹم“  خریدنے کے لئے   گلک میں رقم ڈالی ہے جو غالباً ڈیڑھ سال میں 2,753/-روپے بن چکی تھی۔ عمران خان نے اپنی ماں کی یادگار بنانے کے لئے اپنی تمام جمع پونجی زمین خریدنے اور عمارت کا سٹرکچر بنوانے میں لگا دی۔ صدقہ، فطرات، نذر و نیاز مسلمانوں نے دئیے اور ڈونیشن غیر مسلم سے ہسپتال تعمیر ہوا۔ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ عمران خان نے پہاڑی پر ہزاروں کنال کا بنی گالہ میں محل بنانے کے لئے رقم کہاں سے لی؟ 
          لاہور میں گھومنے کے بعد بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ اوریادگار پاکستان گھومنے کے بعد ہم دو بجے گجرانوالہ پہنچے جہاں نعیم کی ایک یونٹ تھی جس میں انہوں نے سروس کی تھی۔ یونٹ آفیسر نے میس میں ہمارے رہنے کا انتظام کیا۔ نعیم اور ان کے دوست گالف کھیلنے چلے گئے ہم سب ان کے دوست کے ہاں پانچ بجے چائے پر گئے۔ مغرب کے وقت واپس آئے تو ہمارے گیسٹ روم کے باہر  لوگوں کا رش پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک خوفناک سانپ ہمارے کمرے میں گھس گیا ہے۔ روم اٹینڈنٹ نے درواز بند کر دیا ہے اور کسی کو اندر نہیں جانے دے رہا، سانپ مارنے والی پارٹی بھی کھڑی ہے۔ سانپ کا سن کر عروضہ ہائپر ہو گئی کہ میں پکڑتی ہوں۔ پارٹی انچارج  اسے خوفزدہ کرے کہ بیٹی بہت خوفناک سانپ ہے۔ اندر مت جائیں۔ تھوڑی دیر بعد نعیم آگئے۔ انہوں نے سانپ پکڑنے والی پارٹی کودیکھا اور پو چھا ”چاند پر جانے کا ارادہ ہے“  نائب صوبیدار انچارج نے جواب دیا،”نہیں سر، یہ سنیک کلنگ پارٹی ہے“۔  نعیم  نے انچارج کے ہاتھ سے چار فٹ کی چھڑی لی اور عروضہ کے ساتھ، گیسٹ روم میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد عروضہ سانپ ہاتھ میں پکڑ کر نکلی، 

 پارٹی انچارج اور باقی لوگ حیران رہ گئے۔ پارٹی انچارج بار بار کہے سانپ کو نیچے ڈال دیں اسے مارنا ہے۔ نعیم نے سمجھایا کہ اس کے دانت نکال دئے ہیں اب یہ تین مہینے تک کے لئے صرف کھیلنے والا سانپ ہے۔ یہ ایک پانچ فٹ لمبا کوبرا سانپ تھا۔ عروضہ کی خوشی کے مارے برا حال کہ ایک اور
Living Thingمل گئی جو سب سے اہم ہے۔  نعیم نے وہاں سانپ پکڑنے والی پارٹی کو بغیر مارے سانپ پکڑنا سکھایا  انہوں نے کہاں سے سیکھا یہ الگ داستان میں سنئے گا۔  دوسرے دن یونٹ سے ایک چھوٹا سا بکس بن کر آگیا جس کے اوپر ہوا کے سوراخ تھے۔ یہ  ”وائیکنگ“ کوبرا کا گھر تھا،  اس نے ہمارے ساتھ اٹک جانا تھا۔ 
          گجرانوالہ سے ہم  جہلم آئے جہاں نعیم کی لوکیٹنگ بیٹری تھی جس کو نعیم نے سیاچین کے بعد کوئٹہ میں کمانڈ کیا تھا۔ یہاں ہم دو دن رہے۔ کیونکہ نعیم جہلم میں 1980سے 1983تک رہے۔ یہاں ان کے کافی سویلین دوست بھی تھے اور گالف گراونڈ بھی۔ یہاں ہم اپنے پرانے گھر بھی گئے۔جہاں نعیم کی موٹر سائیکل چوری ہوئی تھی۔ سائرہ کو وہ واقعہ فوراً یاد آگیا۔ گھر میں انفنٹری کے ایک میجر صاحب رہ رہے تھے انہوں نے ہمیں چائے پلائی۔ سائرہ نے موٹر سایکل چوری ہونے کی پوری روئیداد ان کو سنائی۔ سائرہ ان دنوں ڈھائی سال کی تھی۔ ہم اُس کی یاداشت پر حیران رہ گئے۔ میجر صاحب کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے ایک بیٹی سات سال اور بیٹا چار سال دونوں نے بڑے مزے سے یہ واقعہ سنا جب سائرہ واقع سنا چکی تو بیٹا کہنے لگا باجی اور کہانی سنائیں۔ ہم سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
جہلم سے ہم لوگ منگلا کینٹ گئے۔ یہاں نعیم کی وہ یونٹ تھی جس میں وہ حیدر آباد میں سیکنڈ ان کمانڈ رہے۔ یہاں ہم نے منگلا ڈیم اور دیگر تفریحی مقامات دیکھے۔ بچوں کا سب سے پسندیدہ مقام سوئمنگ پول تھا۔ لیکن ایک بات وہ یہ کہ بچے اپنی چھٹیوں کا کام ساتھ ساتھ کرنے کے علاوہ  مضمون ”میں نے چھٹیا ں کیسے گذاریں“ وہ بھی روزانہ کے حساب سے لکھ رہے تھے۔ نعیم کی ہدایات تھیں کہ جب بھی ہم گھومنے کے لئے اپنے شہر سے باہر جائیں گے بچے اس پر مضمون لازماً لکھیں گے، جس پر دو اچھے مضمونوں، کم غلطیاں،اہم واقعات اور خوبصورت جملوں پر الگ الگ انعام ملتا یہ اور بات کہ چاروں بچے کوئی نہ کوئی انعام حاصل کر لیتے۔  کھیل کھیل میں تعلیم اور  بچوں کی نفسیات نعیم کا پسندیدہ موضوع ہے لیکن وہ مغربی نفسیات سے زیادہ متاثر نہیں۔ اُن کے خیال میں دس بہترین باتوں سے سمجھانے کے بجائے ، ایک جوتا یا تھپڑ  بچے کو زیادہ سمجھ دلاتا ہے۔ ”کھلاؤ سونے کا نوالہ اور نقصان دہ شرارت پر دیکھو شیر کی نظر سے“  جس سے میں متفق کبھی نہیں رہی لیکن کیا کروں میری واحد مجبوری، بیوی ہونا ہے۔

اب نعیم کی نواسی نے ، نعیم کو لوہے کے چنے چبوائے ہوئے ہیں اور میں سوچتی ہوں کہ باپ اور نانا میں کتنا فرق ہوتا ہے ۔ 


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منگل، 7 جنوری، 2014

ہونہار بِروا - 2


پانچویں کلاس کے بچوں سے تقریری مقابلہ شروع ہوا۔موافق میں پہلی تقریر ارمغان نے کی اور مخالفت بل میں ارسلان۔باقی بچے بھی ترتیب سے آتے رہے۔ اب تک ارمغان اور ارسلان پہلی پوزیشن پر جارہے تھے۔ آخرکار کلاس ون کی عروضہ نعیم کا نام پکارا گیا۔ عروضہ پردے کے پیچھے سے سٹیج پر آئی۔ڈائس کے سامنے آکر جھک کر سب کو سلام کیا۔نعیم پرنظر پڑی تو سکھائے ہوئے سبق کوبھول کر ہنس کر نعیم کو ہاتھ ہلا کے خوشی کا اظہار کیا اور ڈائس کے پیچھے رکھی ہوئی کرسی پرکھڑی ہو کراپنے مخصوص سٹائل سے تقریر شروع کی۔ مجھے  نہ صرف اس کی تقریر زبانی یاد تھی بلکہ اُس کا ایک ایک ایکشن بھی۔ تقریر کے خاتمے پر اُس نے شعر پڑھا  اورتالیوں کی گونج نے بتایا کی عروضہ نے معرکہ مار لیا ہے، یو ں وہ اپنے بھائی  ارمغان کو شکست دے کر پہلی پوزیشن حاصل کر چکی تھی۔کلاس ون سے لے کر کلاس تھری تک اُس نے اردو اور انگلش تقریری مقابلوں لگاتار پہلی پوزیشن لے کر ہیٹ ٹرک مکمل کی اوراس پر کلاس ففتھ تک اردو اور انگلش تقریری مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی لگ گئی۔کلاس فورتھ میں اُس نے۔ حمد اور نعت کے مقابلے میں حصہ لیا۔وہاں ہمیں معلوم ہوا کہ چڑیا کی طرح چہکنے والی، کوئل کی طرح کوک بھی سکتی ہے۔حمد، نعت اور غزل کے مقابلوں میں بھی وہ پہلی اور دوسری پوزیشن پر رہی۔

                کوئٹہ میں سردیوں میں غضب کی سردی پڑتی ہے اور بچوں کو سردی سے بچاؤ کے لئے بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے لیکن جب برف باری ہوتی ہے تو بچے ساری احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اُس وقت تک برف میں کھیلتے رہتے ہیں جب تک وہ گیلے نہ ہوجائیں، نتیجتاً، کھانسی اور بخار۔ چنانچہ 1991دسمبر کی برف باری میں عروضہ بھی بیمار ہوگئی ڈاکٹر نے  سینے کا ایکسرے تجویز کیا۔ میں نے اُسے بتایا کہ کل آپ کا ایکسرے ہوگا اُس نے پوچھا کہایکسرے کیا ہوتا ہے میں نے اُسے بتایا کہ ایکسرے میں سینے میں جو کچھ ہوتا ہے اُس کی تصویر آتی ہے اُس سے ڈاکٹر کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ بچہ کیوں بیمار ہوا ہے۔عروضہ،”لیکن ماما اُس میں تو آپ کی تصویر آئے گی“ میں نے پوچھا،”کیوں میری تصویر کیوں آئے گی“۔ ”ماما اِس لئے کہ میرے دل میں آپ رہتی ہیں“ عروضہ کے معصومانہ جواب پر مجھے اُس پر بے انتہا پیار آیا۔

            سب سے یادگار سال 1993تھا نعیم سال کے لئے اپنی یونٹ کے سیکنڈ اِن کمانڈ بن کر سیاچین چلے گئے عروضہ کلاس تھری میں تھی تقریر کا اعلان ہو چکا تھا اب تقریر لکھ کر دینے والا کوئی نہیں تھا۔ سیاچین بات کرنا بہت مشکل تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھاکہ اچانک تقریر سے ہفتہ پہلے نعیم سے با ت ہو گئی میں نے انہیں تقریر کاعنوان ”دولت انسانی اقدار کی قاتل ہے“ یہ عروضہ اور ارمغان کے لئے  اور " عورتیں بہترین ٹیچر ہوتی ہیں "  ارسلان اور سائرہ کے لئے ، لکھوا دیا۔ نعیم نے فوراً دو موافقت میں اور دومخالفت میں تقریر یں لکھیں۔اور اسی دن چھٹی جانے والوں کے ہاتھ اسے لفافے میں ڈال کر سکردو بھجوایا۔ جہاں ایک ہفتے سے ان کی یونٹ کے آفیسر میجر پرویزچھٹی پر کوئٹہ آنے کے لئے موسم صاف ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔جنھیں لفافہ صبح صبح صوبیدار محمداقبال او سی رئیر نے دیا۔ میجر پرویز روزانہ کی طرح تیار ہو کر ائرپورٹ پر پہنچے۔ فضا میں جہاز کی گونج سنائی دی۔

            اچانک شمال کی جانب سے بادلوں میں ذرا سا رخنا پڑا اور وہاں سے ایک بوئینگ داخل ہو کر سکردو ایر پورٹ اترا  جس پر ہفتے سے انتظار کرتے ہوئے خوش قسمت مسافر سوار ہوئے اور ساڑھے آٹھ بجے وہی جہاز سکردو سے اڑ کر اسلام آباد ایرپورٹ پر اترا اور نو بجے اسلام آباد کوئیٹہ کی فلائیٹ پر میجر پرویز نے بورڈنگ کارڈ لیا۔تین بجے میجر پرویز اپنی مسز اورتین سالہ بیٹی کے ساتھ ہمارے ہاں آئے تقریر  دینے آئے اور لفافہ دیتے  ہوئے انہوں نے بچوں کو کہا کہ اگر آپ لوگوں نے پہلا انعام نہیں لیا تو میری ساری محنت بے کار جائے گی تقریر کے دن وہ اپنی مسز کے ساتھ سکول آئے۔عروضہ کے لئے نعیم نے خاص طور پر تقریر لکھی کیونکہ، اُس تقریر کے جیتے ہی اُس کی لگاتار پہلی پوزیشن حاصل کرنے سے ہیٹ ٹرک مکمل ہو جاتی۔ تقریر کے خاتمے پر ا’س نے شعر پڑھا۔”باپ بڑا نہ بھیّا،سب سے بڑا روپیّہ“  تالیوں کے شور نے  اُس کے جیتنے کا اعلان کر دیا۔ چاروں بچوں نے پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کیں،اُن کے جیتنے کی سب سے زیادہ خوشی میجر پرویز کو ہوئی۔ میجر پرویز کی مسز کا تعلق ہزارہ قوم سے تھا، بہت نفیس خاتون اور کوئٹہ کی وکیل تھیں،  یحییٰ بختیار کی رشتہ دار تھیں یوں سمجھیں کہ زیبا بختیار کی کاپی تھیں ،پرنسپل  بریگیڈئر (ر)  چنگیزی، اُن کے انکل تھے چائے پر میجر پرویز نے انہیں تقریر کے سفر کی کہانی سنائی کہ یہ تقریریں سیاچین سے آئی ہیں۔ پرنسپل نے عروضہ کو اپنی جیب سے سو روپے انعام دیا اور کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ صرف ماں ہی بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دے تو بچے قابل نکلتے ہیں یہاں تو باپ بھی بچوں کی تربیت کے لئے اُتنی ہی محنت کر رہا ہے۔

                 عروضہ کو ہر قسم کے جانوروں سے بڑی محبت تھی۔اس کی غالباًبنیادی وجہ وہ کہانیاں تھیں جو  نعیم اسے بچپن میں سناتے تھے۔اُس کی خواہش کے مطابق کوئٹہ میں ہمارا گھر ایک چڑیا گھر تھا۔جس میں صرف ہاتھی کے بچے ڈبّو کی کمی تھی ورنہ مرغیاں، بطخیں، تیتریاں، بلیاں، کتے،کچھوے اور مچھلیاں سب موجود تھے اور یہ سب ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے بلی کی کیا مجال کہ وہ اس کے سامنے دندناتے چوزوں کی طرف برُی آنکھ سے دیکھے۔چوزے مکھیوں کے پیچھے بھاگتے اور سوئی ہوئی بلی کے اوپر سے چھلانگیں مارتے اور بلی ایک آنکھ کھول کر اپنے خواب ِ استراحت میں خلل ڈالنے والے شر پسندوں کو دیکھتی اور پھر آنکھیں بند کر لیتی البتہ مکھیوں کے اضافے سے چوزوں کے طوفانِ بدتمیزی میں اضافہ ہوجاتا تو وہ انگڑائیاں لیتی ہوئی اٹھتی اور پلنگ کے نیچے جا گھستی۔

ایک مخلوط النسل لیبریڈور کتے ّ”ایرک“اور بازار سے خریدے جانے والے چوزوں کی نسل میں سے بچنے والے آخری چشم و چراغ” سیبر“کی دوستی فقید المثال تھی۔ ایرک کو سائرہ کی کلاس فیلو  سونیا مشوانی، کرنل ڈاکٹرمشوانی کی بیٹی نے  ایک ماہ کا بچہ دیا تھا۔ سیبر سوئے ہوئے ایرک کے سر پر سوتا اور بلی ایرک کے ڈربے میں اُس کے ساتھ سوتی، عروضہ نے ہر جانور اور پرندے کا نام رکھا ہو اتھا۔ ”ایرک“، چوزے کو چاٹ چاٹ کر اپنی لذتِ کام ودہن کی تسکین کرتا اور” سیبر“ اس کے بدلے اُس کے کندھوں پر سوتا اور سارے گھر کی سیر کرتا۔ایک دن عروضہ میرے ساتھ بازار گئی میں نے بچوں کو گاڑی ہی میں بیٹھے رہنے کا کہہ کر اتر گئی واپس آئی تو دیکھاآوارہ بلی کا ایک بچہ اُس نے گود میں اُٹھایا ہوا ہے۔یہ بچہ زخمی تھا کیونکہ اسے بازار میں گلی کے بچوں نے عروضہ کے سامنے پتھر مارے تھے۔اور بچہ گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا۔عروضہ نے چاچا ڈرا ئیور سے کہہ کر بچوں کو بھگوایا اور بلی کے بچے کو اُٹھا کر گاڑی میں رکھ لیا۔عروضہ کلاس ون میں تھی اُس نے اُس بچے کی اتنی تیمارداری کی کہ وہ ٹھیک ہو گیا۔جنگلی بلی کا وہ بچہ ”کٹو“ گھر کے گیٹ پر عروضہ کا انتطار کرتا اور جب وہ سکول سے آتی تو اس کے پاؤں میں لپٹتا۔ ” کٹو “ واحد جانور تھا جو ہمارے بیڈ روم میں اپنی ٹوکری میں سوتا۔

                نعیم گالف کھیل کر واپس آتے،  تو ہم دونوں میاں بیوی واک پر نکلتے  ”ایرک“  بھی ساتھ ہوتا۔ایک دن عروضہ بھی ہمارے ساتھ واک پر نکلی۔تھوڑی دور جا کر ہمیں میاؤں میاؤں کی آواز آئی۔مڑ کر دیکھا تو ’’کٹو“ تھی جو سڑک  پر دوڑتی آرہی تھی۔ہم اپنے گھر سے تقریباً  پچاس گز دور  جاچکے تھے۔ ’’کٹو“  ہمارے پاس پہنچی عروضہ نے اُسے گود میں اُٹھا لیا۔ میں نے عروضہ کو کہا کہ وہ اسے نیچے اتار دے اور اسے ہمارے پیچھے آنے دے۔عروضہ نے اسے نیچے اتار دیا اور ”ایرک“  کو حکم دیا کہ وہ ’’ کٹو “ کا خیال رکھے۔ہم دور نکلتے تو  ”ایرک“  ہمارے سامنے آ کر بھونک کر ہمیں رکنے کا کہتا۔جب ’’کٹو“  ہمارے پاس پہنچ جاتی تو ہم آگے چلتے۔گھر کے نزدیک ’’ کٹو “ کافی پیچھے رہ گئی۔ تو  ”ایرک“  نے ہمیں روکا۔عروضہ نے ”ایرک“  کو کہا کہ جاؤ اسے لے آؤ۔ ”ایرک“  لپک کر گیا اور ’’ کٹو “ کو اپنے منہ میں اسکی گردن سے پکڑ کر اٹھا کر لے آیا۔

تب مجھے معلوم ہوا کہ گھر کے تمام جانور اس کا کہنا مانتے ہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عروضہ ہر شام اور اتوار کو خصوصی طور پر تمام جانوروں اورپرندوں کو کہانی سناتی ور اُن سے باتیں کرتی۔ہمارے گھریلو چڑیا گھر میں  پانچ کتے بھی تھے جن میں دو جرمن شیپرڈ (بُلِّٹ  اور شیرا)، دو چھوٹے سفید روسی پوڈلز(کوڈو اور ٹینا) اور ایک السیشن کتیا (شہپر) تھی۔ 

”ایرک“  ایک دن گھر سے باہر گیا تو اسے کسی نے زہر دے دیا۔ نعیم  اُن دنوں فوجی  مشقوں پر سبّی گئے ہوئے تھے۔ ہمار ا گھر کینٹ میں ہزارہ کالونی کے بالکل کونے پر تھا۔ وہاں چوکیدارانہ نظام کے باوجود چوریاں بہت ہوتی تھیں۔چنانچہ نعیم نے اپنے ایک دوست خان کو فون پر کہا اُس نے عاریتاً شہپردے دی۔ صبح  ایرک کی موت ہوئی اور شام کو شہپر آگئی اور نو بجے رات کوشہپر کے بھونکنے، کسی کے تیزی سے دوڑنے اور دیوارکی اینٹیں گرنے پر معلوم ہو ا کہ ایرک کی موت اور چوری کے لئے صحن میں آنے والا اتفاقی واقعہ نہیں تھا۔دوسرے دن شہپر ٹوٹی ہوئی دیوار سے باہر نکل گئی۔ کچلاک میں رہنے والے نعیم کے کلاس فیلو نے دو سفید روسی پوڈلز پپی بھجوا دئیے اور نعیم کے بہنوئی عبدالخالق نے دو جرمن شیپرڈپپی بھجوا دئیے اور خان نے چار دن بعد زخمی شہپر بھجوا دی۔شہپر کا عروضہ نے علاج کیا وہ ہمارے گھر کی ہو گئی۔نعیم مشقوں سے واپس آئے۔عروضہ کو بڑا سمجھایا کہ دو جرمن شیپرڈ چھوڑ کر باقی تمام کتے واپس کر دیتے ہیں۔ عروضہ نے نعیم کی ہر منطق کو ماننے سے انکار کر دیا اور یوں شہپر کی سربراہی میں باقی چار کتوں کے بچے دیگر پرندوں کے ساتھ پلنے لگے۔ جرمن شیپرڈدیکھتے ہی دیکھتے شہپر سے اونچے ہو گئے۔

                ایک دن صبح عروضہ کے رونے کی آواز آئی۔ معلوم ہوا کہ پانچوں کتوں میں سے کسی نے  ایک کچھوا کھا لیا۔ہمارے گھر میں جب کوئی نیا جانور آتا عروضہ اس کا سب کتوں سے تعارف کراتی۔ وہ اسے گھوم کر اور سونگھ کر دیکھتے، پھر دور بیٹھ کر لالچی انداز میں دیکھتے رہتے ۔عروضہ اُسے سب کے پاس باری باری لے جاتی اور ہاتھ اٹھا کر مارنے کے انداز میں ڈانٹ کر بتاتی کہ اب یہ یہاں رہے گا اسے نہ تنگ کرنا اور نہ ہی کھانا۔یہ کچھوا،رات کو ہی عروضہ، ڈولی کی سہیلی سونیا کے گھر سے لائی تھی اور اس کا تعارف کرانا بھول گئی۔ اور اسے دوسر ے کچھووں کے ساتھ رکھ دیا۔ اب انکوائری  شروع ہوئی ہمارا شک بُلِّٹ پر تھا۔کچھو ے لان میں تھے اور باقی جانور گھر کے پچھلے حصے میں باڑے میں رہتے تھے۔سب سے پہلے بلٹ کو لایا۔ اُسے کھچوا سنگھایا گیا اور پوچھا یہ کس نے کھایا ہے؟  بُلِّٹ نے  ایک شانِ بے نیازی سے ہماری طرف دیکھا اور ایک طرف کھڑا ہو کر دم ہلانے لگا۔ شیرا نے بھی کوئی توجہ نہ دی البتہ شہپر نے کھچوے کو سونگھنے سے انکار کر دیا اور آنکھیں نیچی کر کے ایک کونے میں جا بیٹھی۔ یوں مجرم پکڑا گیا۔ اس حادثے کو ٹینا (پوڈل)نے محسوس کیا وہ کچھوے کو سونگھتی عروضہ کے پاؤں میں لوٹتی اور بھونکتی  اور شہپر کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی یوں ہمیں معلوم کہ ٹینا اِس وقوعے کی چشم دید گوا ہ ہے مگر مجرم کے خوف سے بیان نہیں دے رہی۔ایک دن صبح میں کھڑکی کے پاس کھڑی  اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی، موسم اچھا تھا میں نے گنگنانا شروع کیا۔ اچانک شیرا کھڑکی کے پاس آکی مجھ پر بھونکنا شروع کر دیا۔ میں شیرا کے اِس رویئے پر حیران رہ گئی کہ اِس کم بخت کو کیا ہوا؟ بعد میں سمجھ آئی کہ نامعقول مجھے مانگنے والی سمجھ کر بھونک رہی تھی۔

                جب عروضہ کلاس ففتھ میں آئی تو نعیم کی ٹرانسفر اٹک ہو گئی۔تمام جانور اور پرندے تقسیم ہو گئے۔صرف جرمن شیپرڈ (بُلِّٹ اور شیرا) لے کر ہم اٹک آگئے   اٹک آنے سے پہلے ہم تین دنوں کے لئے گھر کے سامنے آفیسر ز میس میں منتقل ہو گئے۔ ’’کٹو“  کیونکہ جنگلی بلی تھی چنانچہ وہ اسی گھر میں رہی۔ شام کو ہم واک کر رہے تھے۔ہم گھر کے پاس سے گزرے کہ  ’’کٹو “ بھی ہماری خوشبو سونگھ کرساتھ ہو لی اور ہمارے ساتھ میس  کے کمرے میں آگئی۔ اور تھوڑی دیر بعد بھاگ گئی۔رات کو کمرے  کے دروازے کے باہر میاؤں کی آواز آئی دیکھا تو  ’’کٹو“  بیٹھی تھی۔عروضہ سو رہی تھی اُٹھ گئی ہم باہر نکلے تو ’’کٹو“  ہمار ے آگے چلنے لگی اور ہماری رہنمائی کرتے ہو ئے گھر کے بند گیٹ کے سامنے آکر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔صاف محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ہمیں ہماری غلطی کا احساس دلا رہی تھی کہ ہم بھول کر غلط جگہ چلے گئے ہیں ہمارا گھر یہ ہے۔ہم نے سنا تھا کہ بلی مکان سے اور کتا مکین سے مانوس ہوتا ہے۔جو ’’ کٹو “ اور بعد میں دوسری بلیوں نے غلط ثابت کیا۔

                اٹک میں میرے سارے بچے سینئیر سیکشن میں تھے اور میں جونئیر سیکشن میں ٹیچر تھی بعد میں وائس پرنسپل بنی۔چاروں بچوں کو اِس بات کا احساس تھا کہ اُنہوں نے کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی جس سے اُن کی ماں کو شرمندگی ہو۔ اٹک میں عروضہ نے نہ صرف اپنی غیر نصابی سرگرمیوں کی دھاک بٹھائی بلکہ سکول میں پہلی پوزیشن اُس نے اپنے اعصاب پر سوار کر لی۔اٹک کے گالف کلب میں بڑی بطخیں تھیں۔جو وہاں چھوٹے تالاب میں تیرتی رہتی تھیں۔یہ بڑی خونخوار تھیں خصوصی طور پر بچوں کی دشمن تھیں انہیں دیکھتے ہی گردن نیچے کر کے کسی ٹینک کی مانند حملہ کرتیں۔اب عروضہ نے ضد پکڑ لی کہ اِن میں سے ایک میں نے لینی ہے۔آخر کار نعیم بازار سے  ایک جوڑا خرید کر گھر لے آئے۔عروضہ نے باقی بہن بھائیوں سے مشورے کے بعد اُن کا نام ڈونلڈ اور ڈیزی رکھا۔  ڈونلڈ اور ڈیزی نے آتے ہی گھر میں دہشت پھیلا دی۔ یہاں تک کہ ان کے ٹینک نما حملوں نے بلٹ اور شیراکو بھی پسپائی پر مجبور کر دیا۔عروضہ نے انہیں مانوس کرنے کی بڑی کوشش کی اور اُن کے حملے میں زخمی بھی ہوئی۔لیکن آخر کار وہ عروضہ سے مانوس ہو گئے۔

ایک اتوار کی صبح  میں نے بیڈروم کی کھڑکی سے دیکھا عروضہ اپنی چھوٹی کر سی پربیٹھی تھی ڈیزی اس طرح  لیٹی تھی کہ اس کی گردن پوری زمین کے ساتھ لگی تھی اور وہ اپنی چونچ کے ساتھ عروضہ کے جوتے کو کھانے کی کوشش کر رہی تھی اور ڈونلڈ کسی کلاس میں بیٹھے ہوئے شریف بچے کی طرح عروضہ کی کہانی سُن رہا تھا جو وہ بچوں کے رسالے سے پڑھ کر اُسے سنا رہی تھی۔بلٹ اور شیرا، ڈونلڈ کی پہنچ سے دور بیٹھے تھے۔ بلٹ عروضہ کے پاس آنے کی کوشش کرتا تو ڈونلڈ اُس کی طرف دیکھتا۔ بلڈ واپس مڑ کر شریف بچے کی طرح اپنی جگہ پر واپس بیٹھ جاتا۔

                بلٹ اور شیرا کے خاندان میں دو السیشن پپی کا اضافہ ہوا۔ جو نعیم نے اپنے دوست کو دے کر اُ س سے کالے لیبریڈور کے پپی کا جوڑا لیا۔ جن کے نام عروضہ نے لیلیٰ اور لٹو رکھا کیوں کہ۔لٹو کا کام اپنی دم کو پکڑنے کی کوشش میں لٹو کی طرح چکر کھاتے رہنا تھا۔ لیلیٰ کھانا کھانے کے بعد بچا ہوا کھانا زمین میں دبا کر بند کر دیتی تھی۔ جو بلٹ نکال کر کھا لیتا اُس کے بعد جب لیلیٰ کو بھوک لگتی تو وہ کھانے کی تلاش میں نالی کی شکل میں لان کھود ڈالتی۔دوسال کے اند رڈونلڈ اور ڈیزی  بیس بچوں کے کنبے کے سربراہ بن گئے۔اِن بڑی بطخوں کی ایک مکمل جوائینٹ فیملی تھی جن کا سربراہ ڈونلڈ تھا۔جو نہ صرف اُن سیاسی بلکہ ملٹری لیڈر بھی تھا۔ہمارے گھر کے قریب سے گذرنے والے  افراد،شیر نما بلٹ سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا وہ ڈونلڈ اور اس کے سپاہیوں سے خوفزدہ ہوتے تھے۔ڈونلڈ اپنی پوری پلٹن کے ساتھ پوری کالونی کا چکر لگاتا۔

عروضہ کی چند سہیلیوں نے اِس سے ملنے کا پروگرام بنایا، چنانچہ انہوں نے عروضہ سے گھر کا ایڈریس پوچھا اُس نے انہیں بتا یا کہ سکول سے باہر نکلیں، پارک کے بعد سیدھے ہاتھ پر مڑیں اور سیدھے چلیں۔آگے بہت ساری بڑی بطخیں نظر آئیں گی اُن کے سامنے ہمارا گھر ہے۔وہ لڑکیاں ہمارے گھر کے لئے آئیں انہیں گھر نہیں ملا، انہوں نے ایک بچے سے پوچھا کہ بڑی بطخیں کہاں ہیں۔اِس وقت بطخیں ٹہلنے کے موڈ میں تھیں اوربچے نے انہیں تیسری گلی میں دیکھا تھا اس نے انہیں بتا دیا۔بچیاں بطخوں کے پاس پہنچیں اور پریشان ہو گئیں۔ کیوں کہ آدھی بطخوں کامنہ ایک طرف اور آدھی کا دوسری طرف تھا۔ایک بچی نے مشورہ دیا کہ ان کو بھگاتے ہیں یہ جس گھر میں جائیں گی وہ عروضہ کا گھر ہوگا۔ انہوں نے غلط فیصلہ کیا تھا۔

جو نہی انہوں نے بطخوں کو بھگانے کی کوشش کی، بطخوں کے بطخے، صف بنا کر بچیوں پر حملہ آور ہوئے وہ چینخیں مارتے ہوئے بھاگیں۔بطخوں کی آوازوں اور لڑکیوں کے شور نے عروضہ کو بتا دیا کہ کوئی اُس کی فوجوں کے قابو چڑھ چکا ہے۔عروضہ گھر سے باہر آئی تو بھاگتا ہوا لشکر دشمن نہیں بلکہ اُس کی سہیلیاں تھیں اُس نے حملہ آور بطخوں کو ڈانٹ کر روکا اور سہیلیوں کو پکارا، کمانڈر  ڈونلڈ،عروضہ کی آواز سنتے ہے سر جھکا کر شرمندگی سے اپنے  سنچورئین بریگیڈکے ساتھ ایک طرف کھڑا ہو گیا عروضہ سہیلیوں کو گھر لائی اُن کی خاطرتواضح کی، اتنے میں ساری  بطخیں اپنے ڈربے کی طرف آچکی تھیں عروضہ نے سہیلیوں کا بطخوں سے تعارف کروایا۔ سہیلیاں ڈرتے ڈرتے بطخوں کے پاس گئیں۔ بطخوں نے خاموش بیٹھ کر اُن کا استقبال کیا اور دوستی کر لی۔

                1999کی بہار میں ڈونلڈ فیملی کی بطخوں نے 70انڈے دیئے۔یوں ان کے ڈربے میں ایک پورا میٹرنٹی وارڈ قائم ہو گیا۔جس میں  شروع شروع میں سوائے ڈونلڈ کے تمام بطخے اپنی اپنی ماداؤں کی چہل قدمی کے وقت انڈوں پر بیٹھتے۔اور بعد میں ماداؤں سے انڈوں پر بیٹھنے کی ذمہ داری مکمل طور بطخوں نے  زبردستی لے لی۔کیونکہ وہ یہ بھول گئے کہ کون سی اُن کی مادہ کے انڈے ہیں اور کون سی دوسری مادہ  کے ہیں ۔چنانچہ ہم نے بطخوں کو زبردستی زنانہ میٹرنٹی وارڈ سے نکال کر اسے بند کر دیا اور ماداؤں نے اپنی اپنی جگہ سنبھالی۔ہم خوفزدہ تھے کہ اگر ان 70انڈوں سے چوزے نکلے تو کیا ہو گا؟ بہرحال عروضہ کو بہت سمجھانے کے بعد اُس نے اِن چوزوں کے پر نکلنے کے بعد تقسیم کا فیصلہ کیا۔اُس نے سب سے پہلے اُن سہلیوں کا انتخاب کیا جو جھگڑالو نہیں تھیں۔اُن کے گھر جا کر اِن چوزوں کے رہنے کی جگہ دیکھی۔اور ایک ہدایت نامہ برائے دیکھ بھال خود لکھا اور اس کی ایک ایک فوٹو کاپی اپنی اُن سہیلیوں کو دی۔جنہوں نے بطخ کے بچوں کا سرپرست بننا تھا یہ اور بات کہ صرف چار چوزے نکلے اور وہ بھی پر نکلنے سے پہلے اپنے بزرگوں کے ملکیتی جھگڑوں کے وقت پاؤں تلے آکر مارے گئے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭