Pages

بدھ، 19 مارچ، 2014

ماں کی نصیحت ، بیٹی کی نام

 میری پیاری بیٹی ،میری آنکھو ں کی ٹھنڈک ،شوہر کے گھر جا کر قناعت والی زندگی گزارنے کا اہتمام کرنا۔ جو دال روٹی ملے اس پر راضی رہنا ، جو روکھی سو کھی شو ہر کی خوشی کے ساتھ مل جائے وہ اس مر غ پلاؤ سے بہتر ہے جو تمہارے ۔اصرار کرنے پر اس نے نا راضگی سے دیا ہو ۔
میری پیاری بیٹی ، اس بات کا خیال رکھنا کہ اپنے شوہر کی با ت کو ہمیشہ توجہ سے سننا اور اسکو اہمیت دینا اور ہر حال میں ان کی بات پر عمل کرنے کی کو شش کرنا اس طر ح تم ان کے دل میں جگہ بنا لو گی کیو نکہ آدمی نہیں، بلکہ آدمی کا کام پیارا ہو تا ہے ۔

میری پیاری بیٹی ، اپنی زینت و جمال کا ایسا خیال رکھنا کہ جب وہ تجھے نگاہ بھر کے دیکھے تو اپنے انتخاب پر خو ش ہو اور سادگی کے ساتھ جتنی بھی استطاعت ہو خوشبو کا اہتمام ضرور کرنا اور یاد رکھنا کہ تیرے جسم ولباس کی کوئی بو یا کوئی بری ہیت اسے نفر ت و کرا ہت نہ دلائے ۔

میری پیاری بیٹی ، اپنے شو ہر کی نگاہ میں بھلی معلوم ہو نے کے لیے اپنی آنکھوں کو سرمے اور کاجل سے حسن دینا کیونکہ پر کشش آنکھیں پورے وجود کو دیکھنے والے کی نگا ہوں میں جچا دیتی ہیں ۔ غسل اور وضو کا اہتمام کرنا کہ یہ سب سے اچھی خوشبو ہے اور لطافت کا بہترین ذریعہ ہے ۔

میری پیاری بیٹی ، ان کا کھانا وقت سے پہلے ہی اہتمام سے تیار رکھنا کیونکہ دیر تک برداشت کی جانی والی بھوک بھڑکتے ہوئے شعلے کی مانند ہو جاتی ہے اور ان کے آرام کرنے اور نیند پوری کرنے کے اوقات میں سکون کا ماحول بنانا کیونکہ نیند ادھوری رہ جائے تو طبیعت میں غصہ اور چڑچڑاپن پیدا ہو جا تا ہے ۔
میری پیاری بیٹی ، ان کے گھر اور انکے مال کی نگرانی یعنی ان کے بغیر اجازت کوئی گھر میں نہ آئے اور ان کا مال لغویات ، نمائش و فیشن میں بر باد نہ کرنا کیونکہ مال کی بہتر نگہداشت حسن انتظام سے ہوتی ہے اور اہل عیال کی بہتر حفاظت حسن تدبر سے ۔میری پیاری بیٹی ،  یاد رکھنا ، تمھارے شوہر کی اجازت کے بٖغیر ، تمھارے شوہرکا مال ، تمھارے شوہر کی بغیر اجازت ، بہن بھائیوں کو دئیے گئے تحفے ، ہمارے لئے ناجائز ہیں ۔ شوہر کی کمائی سے یہاں تک کہ تمھیں دئیے ہوئے اس کے مال سے بھی اس کی اجازت اور تحفہ اسے دکھائے بغیر کسی کو نہ دینا ۔
میری پیاری بیٹی ،کرے گی اور تم اگر اس کا راز دوسروں سے چھپا کر نہ رکھ سکیں تو اسکا اعتماد تم پر سے ہٹ جا ئیگا اور پھر تم بھی اس کے دو رخے پن سے محفوظ نہیں رہ سکو گی ۔
میری پیاری بیٹی ، جب وہ کسی با ت پر غمگین ہو ، تو اپنی کسی خوشی کا اظہار ان کے سامنے نہ کرنا یعنی ان کے غم میں برابر کی شریک رہنا۔ شوہر کی کسی خوشی کے وقت غم کے اثرات چہرے پر نہ لا نا اورنہ ہی شوہر سے ان کے کسی رویے کی شکایت کر نا ۔ ان کی خوشی میں خوش رہنا۔ورنہ تم ان کے قلب کے مکدر کرنے والی شمار ہو گی۔

میری پیاری بیٹی ، اگر تم ان کی نگا ہوں میں قابل تکریم بننا چاہتی ہو تو اس کی عزت اور احترام کا خوب خیال رکھنا اور اسکی مرضی کے مطابق چلنا تو اس کو بھی ہمیشہ ہمیشہ اپنی زندگی کے ہر ہر مرحلے میں اپنا بہترین رفیق پاؤ  گی۔
میری پیاری بیٹی ، میری اس نصیحت کو پلو سے باندھ لو اور اس پر گرہ لگا لو کہ جب تک تم ان کی خوشی اور مرضی کی خاطر کئی بار اپنا دل نہیں مارو گی اور اس کی بات اوپر رکھنے کے لیے خواہ تمہیں پسند ہو یا ناپسند، زندگی کے کئی مرحلوں میں اپنے دل میں اٹھنے والی خواہشو ں کو دفن نہیں کرو گی اس وقت تک تمہاری زندگی میں بھی خوشیو ں کے پھول نہیں کھلیں گے ۔

اے میری پیا ری اور لا ڈلی بیٹی ان نصیحتو ں کے ساتھ میں تمہیں اللہ کے حوالہ کرتی ہوں اللہ تعالیٰ زندگی کے تمام مرحلوں میں تمہارے لیے خیر مقدر فرمائے اور ہر برائی سے تم کو بچائے۔ 

پیر، 3 مارچ، 2014

ہونہار بِروا - 4


          منگلا سے ہم مری روانہ ہوئے، جہاں ہم ہفتہ  کلڈنہ  ٹہرے نعیم کے  یونٹ آفیسر وہاں
 انسٹرکٹر تھے۔ کمروں  کی ایک لمبی سی لائن کے آخر میں ایک کمرہ ہمیں ملا ہو تھا جس کے بعد چیڑ کے درخت تھے جن پر بندر اپنی فیملی کے ساتھ آجاتے اور انسانوں کو دیکھتے  رہتے کہ کوئی کھانے کی چیز کب پھینکتے ہیں۔ان میں ایک بندریا اپنے پندرہ دن یا مہینے کے لاغر بچے کو کمر پر بٹھائے یا سینے سے چمٹائے کھانے کی چیزیں لینے آتی۔ تیسری صبح بھی بندر اپنی فیملی کے ساتھ آئے۔ بچے ناشتہ کرنے کمرے میں آگئے۔ عروضہ باہر کرسی پر بیٹھ گئی اور بندروں  کی درختوں پر اچھل کود دیکھنے کے لئے رک گئی میں نے اس کا ناشتہ باہر دے دیا وہ  وقفے وقفے کے بعد پاپ کارن پھینک دیتی جو بندر اچک کر لے جاتے۔ ہم کمرے میں ناشتہ کر رہے تھے۔

عروضہ کمرے میں آئی اور اپنا پراٹھا لے کر باہر چلی گئی۔پھر آئی اور پراٹھا مانگا میں حیران تھی کہ اس نے بغیر منت سماجت کئے ناشتہ کیسے کر لیا۔ میں نے پراٹھا دے دیا۔ نعیم نے سائرہ کو کہا دیکھو کہیں یہ بندروں کو ناشتہ تو نہیں کرا رہی۔ سائرہ باہر گئی اور بتایا کہ ایک بندریا اپنے بچے کے ساتھ کرسی پر بیٹھی ہے اور عروضہ برامدے میں بیٹھ کر بندریا کو پراٹھے کے ٹکڑے پھینک رہی ہے۔ اور وہ اچک اچک کر خود بھی کھا ر ہی ہے اور منہ سے چبا کر بچے کو بھی دے رہی ہے۔باقی بندر درختوں پر بیٹھے خو خو کر رہے ہیں۔ ہم لوگوں کے باہر نکلنے سے بندریا اپنے بچے کو پیٹھ پر بٹھائے چھلانگ مار کر درخت پر چڑھ گئی۔باقی بندر دور ہٹ گئے۔ اب روزانہ صبح، عروضہ کا یہی مشغلہ ہو گیا۔ وہ اپنا اور بندریا اور اُس کے بچے کا پراٹھا لے کر باہر جا بیٹھتی اور بندریا کو ناشتہ کراتی، بندریا اُس سے ہل گئی اور درخت سے اتر کر اس کے قریب آکر بیٹھ جاتی لیکن چوکس انداز میں اگر عروضہ کوئی چیز لانے کے لئے اُٹھتی تو وہ چھلانگ مار کر درخت پر چڑھ جاتی۔
            اس سارے  عرصے میں سانپ اور کچھوا بھی ہمارے ساتھ تھا۔ بلکہ مری  سے چارگھونگھے Snailبھی پکڑ لئے تھے ۔عروضہ کی بڑی خواہش تھی کہ بندریا بچے کو چھوڑے تو وہ بچہ پکڑ لے اور پھر اپنے ساتھ اٹک لے جائے۔ تب نعیم نے اسے ڈرایا، کہ دیکھو وہ جو بچے کا باپ ہے تمھیں غور سے دیکھ رہا ہے اور بندریا کو  کہہ رہا ہے کہ یہ لڑکی کتنی اچھی ہے۔ ہمیں پراٹھا دے رہی ہے  او رتمھیں پراٹھا بنانا نہیں آتا۔ کیوں نہ ہم اس لڑکی کو لے جائیں یہ ہمیں پراٹھے بنا کر دے گی۔ہم اس کا درخت پر خوبصورت سا پنجرہ بنا دیں گے۔ عروضہ یہ سن کر خوف زدہ ہوگئی کہ میں اپنے ماما اور پپا کے بغیر کیسے رہ سکتی ہوں۔ تب نعیم نے سمجھایا کہ وہ دیکھو چھوٹے بچے کا بھائی ہے وہ بہن ہے وہ خالہ چچا اور دوسرے  رشتہ دار ہیں سب ایک ساتھ رہتے ہیں اگر ان سے بچہ چھین لیا جائے تو یہ پاگل ہوجائیں گے اور انسانوں کو دشمن سمجھ کر کاٹیں گے۔ عروضہ کے بات سمجھ آگئی

لیکن ایک اور پریشانی پید ہو گئی۔ اس نے نعیم سے پوچھا کہ کیا سارے، پرندوں، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے ماں، باپ اور بہن بھائی ہوتے ہیں؟ نعیم نے بتایا کہ ہاں سب کے ہوتے ہیں۔ تو پھر جو سانپ اور کچھوا ہم لے کر جارہے ہیں، پھر ان کے بھی ماں، باپ اور بہن بھائی ہوں گے نعیم نے کہا ہاں، Snail
 کی تو پوری فیملی ہمارے ساتھ تھی لہذا اس کی عروضہ کو فکر نہ ہوئی لیکن سانپ اور کچھوے کے لئے عروضہ پیچھے پڑ گئی۔کہ ان دونوں کو واپس اسی جگہ چھوڑکر آئیں۔کچھوے کے بارے میں وہ مان گئی، کیوں کہ کوئٹہ میں ہمارے پاس جو کچھوا تھا وہ اکیلا تھا لیکن اُس نے بتایا کہ گوجرانوالہ میس میں جو ویٹر چاچا تھا اُس نے بتایا تھا کہ سانپ کی مادہ ہوتی ہے وہ  اکیلی رہ گئی ہو گی اور اب آپ لوگ جہاں بھی جائیں آپ کے پیچھے آجائے گی۔  نعیم نے کہا کوئی بات نہیں، مادہ گجرانوالہ سے چل پڑی ہوگی۔سانپ ایک دن میں تین میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ ابھی تو وزیر آباد بھی نہیں پہنچی ہوگی اٹک پہنچنے میں مہینہ لگے گا۔ ہم اس کو بھی اپنے پاس رکھ لیں گے۔ تاکہ بے چاروں کو کھانے کی پریشانی نہ رہے۔

مری خوبصورت اور قدرتی نظاروں سے بھر پور ہے۔ فوج کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جہاں ہوتی ہے بنجر زمین کو نخلستان بنا دیتی ہے۔ صفائی کے لحاظ سے کنٹونمنٹ ایریا کی مثال دی جا سکتی ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شادی کے بعد، میں نعیم کے ساتھ پہلی بچی کی پیدائش سے پہلے خوب گھومی۔ لاہور سے پارا چنار کے اس وقت کے کینٹ اور آج، ڈویلپمنٹ کے لحاظ سے زمین
آسمان کا فرق ہے۔ کینٹ کی آبادی بڑھنے کے باوجود کینٹ کی صفائی میں کوئی فرق نہیں آیا۔

      مری میں سب سے خوبصورت بھوربن کا کھلا علاقہ ہے۔ نعیم اور دوسرے آفیسر نے اتوار کو گالف کھیلنے کا پروگرام اور ہم تمام فیملیز نے پکنک کا پروگرام بنایا، یہ تو آٹھ بجے اپنے اپنے بیگ کے ساتھ نکل گئے، ارمغان اور سائرہ بھی ساتھ گئے۔ میں عروضہ اور ارسلان، خواتین
اورپکنک کے سامان ساتھ دس بجے بھوربن پہنچے۔عروضہ نے سانپ کا بکس بھی ساتھ لے لیا تھا۔

گالف کلب کے ایک حصے میں، بیٹھنے کا انتظام کیا۔ بچے اپنے اپنے کھیل کھیلنے لگے، ہم خواتین کا
 ایک ہی موضوع ہوتا ہے اور وہ صرف شاپنگ اور شاپنگ ہی ہے کہ کون سی اچھی اور سستی مارکیٹ ہے جہاں دھوکہ نہیں دیا جاتا۔ ہم بات کر رہے تھے کہ سائرہ اور ارمغان، ایک راونڈ گالف کھیل کر واپس آئے۔ سائرہ نے سانپ کا بکس کھولا اور چینخی۔ ماما اس میں سانپ نہیں ہے۔ تمام خواتین اور بچے بشمول میں چینختے ہوئے دور بھاگے۔ ہمیں بھاگتا دیکھ کر سائرہ نے قہقہ لگایا۔ ہم سمجھ گئیں کہ اس نے مذاق کیا ہے۔ خواتین اور بچے نزدیک آئے تو سائرہ نے سانپ کو اٹھا کر نکال لیا تمام خواتین اور بچے، اسے نصیحتیں کریں کہ اسے واپس ڈال دو ورنہ یہ کاٹ لے گا۔

بہرحال بعد میں تمام بہادر خواتین اور بچوں نے سانپ کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھا اور تصویریں بنائیں۔ ساڑھے گیارہ بجے چاروں مرد حضرات گالف کھیل کر واپس آئے، بچوں نے اپنے اپنے ابو کو سانپ کا بتا یا وہ بھی حیران ہوئے کہ اُن کے بچوں نے سانپ پکڑنے کی بہادری کیسے  دکھائی۔ سانپ سے کھیلنا پکنک کا سب سے اچھا ایونٹ رہا،  میں سب کو بطور کنسلٹنٹ  ہدایات دیتی،کہ سانپ کو کس طرح پکڑنا ہے کہ وہ ہاتھ کے دباؤ سے خوفزدہ نہ ہوجائے۔ تمام بھابیاں بھی مجھ سے مرعوب تھیں۔ کہ سائرہ نے بھانڈا پھوڑا، ہو ایوں کہ میں آرام سے بیٹھی گپ لگا رہی تھی کہ اُس نے سانپ کی دم میری آنکھوں کے سامنے میرے پیچھے کھڑے ہو کر لہرائی۔
میری چینخ بلا مبالغہ مری مال روڈ تک سنائی دی ہو گی۔ تب راز کھلا کہ سب سے زیادہ سانپ سے میں ڈرتی ہوں، ایک بھابی نے پوچھا۔ اس کے تو دانت نکال دیئے ہیں۔اب تو تین مہینے کے بعد آئیں گئے۔ پھر آپ کیوں ڈر رہی ہیں۔میں نے کہا واہ بھابی آپ تین مہینے کا انتظار کر رہی ہیں اور اگر سانپ کے دانت ابھی اُگ آئے تو کیا ہوگا؟ 



٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہونہار برِوا -7 - زیرِطباعت
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭